اجتماعی تشدد اور اسلامی حکمت عملی

مفتی عبد القیوم مالیگانوی /استاذ جامعہ اکل کوا

امتیازی مذہب :

            دنیا میں اسلام ہی ایک ایسا ممتاز مذہب ہے کہ جس نے ہرموقع پر ظاہری اسباب اور وسائل کے علاوہ حالات کے پیش نظر حکمت عملی پر بھی کافی توجہ دی ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ایک طریقہ اور ایک انداز عمل ہروقت اور ہر موقع پر موثر اور کارگر ثابت نہیں ہوتا ہے۔ اور جہاں طریقۂ کار اور اسلوب وانداز تبدیل ہوتا ہے توپھر غیر معمولی اور متوقع نتائج ظاہر ہوتے ہیں ۔ اسی کو اسلام میں حکمت عملی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جسے ان موجودہ حالات میں ہم کو اختیار کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔

اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں :

            ہم جب تاریخ اسلامی کے مختلف ادوار اور مراحل پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا ابتدائی دور ایسی مظلومانہ اوربے بسی کا دور گزرا ۔ جس میں ۱۳؍ سال تک انتہائی کس مپرسی اور ظلم و ستم کا تختۂ مشق بن کر زندگی گزاری ، پھر حکم الٰہی پر ہجرت مدینہ مقدر کا حصہ بنی ۔ اب اندرون اوربیرون کے جن درندوں اوربدخواہوں نے ستانے کی کوشش کی تو انہیں کیفر کردارتک پہنچانے اور انہیں ان کی اوقات وحقیقت بتلانے اور سمجھانے کے لیے کبھی اقدامی تو کبھی دفاعی انداز اپنا یا گیا، بل کہ حق وباطل کا پہلا معرکہ غزوۂ بدر پر غائرانہ نظر ڈالیں تو اسلام کا طریقہ اقدامی نظر آتا ہے کہ مقصود تو قافلۂ تجارت پر حملہ آور ہوکر اسے لوٹنا اور قریش کی کمر معیشت کو خستہ اور شکستہ کرنا تھا ، لیکن منشائے خداوندی کے مطابق چارو ناچار میدان بدر میں ابو جہل ایک ہزار سے متجاوز لشکر لے کر آدھمکا اور پھر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے جذبہ ایمانی اور زور جسمانی کے وہ کرتب اور ہنر دکھلائے کہ گویا فریق مخالف کی ریڑھ کی ہڈی کے کچھ منکے ہی نکال دیے، جس کی بنا پر آخری دم تک پورے طریقے سے کھڑے نہ رہ سکے، بل کہ اس کے بعد جب بھی میدان میں آئے تو لڑ کھڑائے اور قدم اکھڑتے رہے۔ یہ اقدامی حکمت عملی تھی۔

             اس کے بعد احد اور غزوۂ احزاب میں بھی دفاعی انداز اپنایا گیا، بل کہ غزوۂ احزاب میں اور ریاست مدینہ کی حفاظت کے لیے ایک بالکل نیا غیر عربی طریقہ جو حضرت سلمان فارسی ؓ نے بتلایا تھا،چناں چہ اس طریقۂ ایران کو اپنا یا گیا اور مدینہ کی جس سمت سے دشمن حملہ آور ہوسکتا تھا اس طرح گہری اور لمبی خندق کھودی گئی تاکہ دشمن اندر نہ آسکے۔ اور سنہ ۶ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقع پر دب کر صلح کرنے اور مخالفین کی تمام ناپسندیدہ شرائط کو حکمت عملی ہی کے پیش نظر قبول کرلیا گیا، جس کے بہت ہی مفید ثمرات پونے دوسال کی قلیل مدت سنہ ۸؍ہجری میں فتح مکہ کی شکل میں رونما ہوا اور مسلمانوں کی افرادی قوت دس ہزار سے تجاوز کرکے ۱۲؍ ہزار تک پہنچ گئی ۔

            اس عظیم الشان کامیابی کے ٹھیک دو ہفتوں کے بعد ہی حنین کا معرکہ درپیش ہوا ،جس میں آپ نے قدیم و جدید ساتھیوں کی بڑی تعداد کیسا تھ پیش قدمی فرمائی ، جس میں اپنی افرادی قوت اور تعداد پر توجہ اور اطمینان نے ابتداء ً صحابہ کے قدموں کو متزلزل کردیا ، لیکن پھر نصرت خداوندی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دیگر رفقا کی ثابت قدمی سے فتح ونصرت ملی ۔

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور محبین رسول کی یہ مسلسل کامیابی نیز صحابہ کرام کی الو العزمی وثابت قدمی کی خبروں نے قیصر روم کی نیند یں اڑادیں اور اس نے اپنے آپ کو اور سلطنت کو خطرات میں گھرا ہوا محسوس کیا اور خود ہی دو لاکھ کی فوج تیار کرکے حملہ کی تیاری شروع کردیا ۔

            جوں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس تیاری کی اطلاع ملی آپ نے صحابہ کرام کو جمع فرمایا اور تبوک کی شدید اور پر مشقت مہم کے لیے تیاری اور جان ومال کی تشکیل فرمائی اورتبوک کی جانب پیش قدمی کی، جس سے دشمن اسلام اور اس کی افواج پر زبر دست رعب طاری ہوگیا اور وہ موقع پر حاضر نہ ہوسکے ۔ یہ بھی ایک اقدامی شکل ہی تھی۔

بدلتے حالات کے تناظر میں حکمت عملی کی اہمیت:

            معلوم یہ ہو ا کہ اسلام کے پاس ظاہری اسباب اور افرادی ومالی قوتوں کے علاوہ بدلتے حالات میں حکمت عملی کی بڑی اہمیت اور ضرورت ہے ۔ آج جب کہ ہمارے ملک میں بالخصوص اہل سیاست اور مذہبی شدت پسندوں نے نفرت کی آگ پورے ملک میں جلا رکھی ہے اور ایک مخصوص طبقہ کو اپنی ہوس اور درندگی کا نشانہ بنا رہے ہیں اوربزدلوں کی طرح پاگلوں کی ایک ٹولی انسانیت سے گر کر جانوروں سے زیادہ بدتر اور بے رحم ہوکر کسی بھی معصوم بے گناہ کی جان بڑی بے دردی سے لے رہے ہیں ۔اس کے سد باب کے لیے ہم نے دستور ہند کی پاسداری کرتے ہوئے احتجاج کیا ، ریلیاں نکالیں ، ایوان اسمبلی وپارلیمنٹ تک اپنی آواز پہنچائی ، ملک میں دیگر ہمدردوں نے ایوارڈ واپس کرکے اپنی ناراضگی حکومت کے سامنے رقم کی ، لیکن سب بے سود ثابت ہوئیں اور ان ساری کوششوں کے نتائج ہمیں کچھ نہ مل سکے ، بل کہ اب تو ارباب اقتدار کی پشت پناہی میں اس قسم کی وار دات ہونے لگی ہیں ، توکیا ہمیں اپنے ماضی کے حالات سے اسوہ ونمونہ اور سبق لینا چاہیے ؟ اور کوئی ایسی تدبیر اور حکمت عملی ؛جو ظالم کو ظلم سے روکے بل کہ اس کے اندر خوف وہراس پیدا کردے اپنانے کی ضرورت نہیں ہے ؟ کیوں نہیں؟ اس لیے کہ مظلوم کی صرف زبانی داد رسی اورمالی امداد ظالم کے لیے کافی نہیں، بل کہ جبر و تشدد اور ظلم و استبداد کے اس خونی پنجوں کو مروڑ کر فی الفور ختم کردینے کی ضرورت ہے ۔

 اٹھو اے نوجوانو! یہ صدائیں آرہی ہیں آبشاروں سے

چٹانیں چور ہوجائیں جو ہو عزم ویقیں پیدا

            کیوں کہ مظلوم کی خاموشی اور اپنے دفاع کے لیے کچھ نہ کرنا بھی ظالم کے حوصلوں کو بڑھاتا اورآئندہ مزید کسی کو اپنی درندگی کا شکار بنانے کی قوت دیتا ہے ۔

اپنی مدافعت کی تیاری ضروری ہے :

اس لیے اگر سماج میں ظلم کرنے کے لیے آگے بڑھنے والے ہاتھ ہوں، لیکن ان کو قلم کرنے والی تلواریںنہ ہوں!

            لباس حیا کو تارتار کردینے والی آنکھیں ہوں ، لیکن انہیں پھوڑنے والی انگلیاں نہ ہوں !

 بربریت کا راستہ اختیار کرنے والے قدم ہوں اور ان بڑھتے ہوئے قدموں کو قید میں لانے والی زنجیریں نہ ہوں! …تو وہ سماج، ظلم و بربریت کی آماجگاہ بن جائے گا اور عدل و انصاف کو وہاں سے ہمیشہ کے لیے رخت سفر باندھنا ہوگا ، اس لیے یہ بات ضروری ہے کہ سماج کے اچھے لوگ ایسے انسانیت دشمن عناصر کی سرکوبی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور جو لوگ مشق ستم بنائے جاتے ہوں وہ طاقت بھر اپنی مدافعت کے لیے ہر وقت تیار رہیں ، اس سے صرف ان کی شخصی حفاظت ہی متعلق نہیں ، بل کہ انسانیت اورانصاف کا تحفظ بھی متعلق ہے ۔ اوراسلامی نقطۂ نظر سے یہ کوئی اختیاری عمل نہیں ، بل کہ ایسا کرنا اس پر شرعاً واجب ہے ۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان ، مال ، دین وایمان اہل و عیال اور عزت وآبرو کی حفاظت میں مارے جانے والوں کو شہید قرار دیا ہے ۔

            حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : ’’ من قتل دون مالہ فہوشہید ومن قتل دون دمہ فہوشہید ومن قتل دون دینہ فہو شہید ومن قتل دونہ اہلہ فہو شہید ‘‘ (ترمذی : ۱۲)

            خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص اپنی جان ، مال ، اہل و عیال ، عزت آبرو اور دین وایمان کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے ۔ شہادت جہاں مقصود مومن ہے وہیں تمنائے شہادت ہمیشہ دل میں رکھنا تقاضائے ایمان، بل کہ قوت ایمان کی دلیل ہے چناں چہ جو شخص بغیر تمنا ئے شہادت کے مرجائے اور اس کو کبھی بھی شہادت کی آرزو اور تمنا پیدا نہ ہوئی ہو تو مطابق حدیث وہ’’ مات میتۃ جاہلیۃ ‘‘ جاہلیت کی موت مرا ۔ اس کے باوجود اگر کوئی ان اضطراری اور جان کے خطرات کی فضا میں دشمنوں کے اکراہ واجبار پر کلمۂ کفر اور شرکیہ نعرہ کہہ دے تو صریح آیت پاک اس کی اجازت دیتی ہے ۔{اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ } کہ جسے مجبور کیا گیا ترکِ ایمان پر اور اس کا دل توحید اور نورِایمان سے معمور ہے تو ایسے شخص پر کوئی گناہ نہیں اور نہ ہی وہ کافر ہوگا ۔

شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن

نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

یہ بہت پرانا حربہ ہے :

            اور کسی قوم کو زیر کرنے کے لیے اس پر خوف مسلط کرنے کا یہ حربہ نیا نہیں ہے۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ حقیقت ہم پر عیاں ہے کہ فرعون نے لڑکوں کے قتل کے ذریعہ خوف و ہراس کا ماحول قائم کیا تھا اور بنی اسرائیل کو غلام بنانے میں اس حربہ کو کامیابی کے ساتھ استعمال کیا تھا ۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تاتاری مسلمانوں کی کھوپڑی میں شراب پیتے اور اس کو کھلونا بناکر اپنے بچوں کو دیتے ۔اس منظر کو دیکھ کر مسلمانوں میں اس قدر گھبراہٹ طاری ہوگئی کہ ان میں مقابلہ کی ہمت ہی باقی نہ رہی ۔ خوف کی اس نفسیات کو ہٹلر نے بھی خوب استعمال کیا اور جرمنی کا ڈکٹیٹر بن گیا ۔ آج اسرائیل اور امریکہ اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ اپنی قوت کو بڑھا چڑھا کر دنیا کے سامنے اس طرح پیش کریں کہ وہ گویا لازوال اور ناقابل تسخیر ہیں ۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں یہ کام بہت آسان ہوگیا ہے ۔ ملک عزیز میں اقلیتوںاور دلتوں کے ساتھ ہونیوالے واقعات کو وائرل کرنا ان سماج دشمن عناصر کے ایجنڈے کا ایک حصہ اور اس نفسیاتی جنگ کی ہی ایک کڑی ہے ۔

            آج ماب لنچنگ اور ہجومی تشدد کے واقعات دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہمارے نوجوان اوردیگر لوگوں کے اندر خوف وہراس بھی پروان چڑھ رہا ہے ، جو در حقیقت دشمن کا منشا ہے جو ماضی کے اس سے کئی گنا سنگین حادثات وواقعات سے پورا نہ ہوسکا تھا ، جو ماب لنچنگ کے ذریعہ پورا ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری طرف ہمارا ایک طبقہ ان پر تشدد اورپر خطر حالات میں بھی غیر معمولی اطمینان اور کاہلی و سستی کا شکار ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ایسا ہوتا ہے اور آئندہ حالات خود بدل جائیںگے ،حالاں کہ یہ سوچ قرآنی شہادت کے مطابق بالکل غلط ہے۔ ارشاد ربانی ہے : {اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَابِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ } یعنی علامہ اقبال کی زبان میں   ؎

خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا

             لیکن یہ طبقہ بھی کوئی لائحہ عمل اورپروگرام اپنے پاس نہیں رکھتا ہے۔ توگویا یہ   ؎

منزل ہے کوئی اپنی نہ کوئی ٹھکانا ہے

            لہٰذا یاد رکھیں کہ ان تشویشناک اور صبر آزما حالات میں صرف بیان بازی ، نیوز چینل پر تاثرات اور اپنے غصہ و گرمی کا اظہار نہ صرف کافی ہے ، بل کہ اپنی حماقت ونادانی اور مزید اپنی بے بسی کو پیش کرنا بھی ہے ، کیوں کہ یہ کام ہم بہت پہلے سے کرتے آئے ہیں ۔اس لیے ایسے وقت میں چند باتیں از حد ضروری ہیں :

            ۱-  پہلی بات :  سنت و شریعت کی مکمل پاسداری اور دل و جان سے اس کو ماننا اور زندگی کے تمام شعبۂ جات میں اسی کو اپنا امیر اور ضامن حفاظت سمجھنا ، اس لیے کہ دین و شریعت ہی ہماری زندگی اورحیات ہے ، اس کے بغیر ہم مردہ اوربے جان ہیں ۔

            اور مردہ نہ اقدام کرسکتا ہے نہ دفاع چہ چائے کہ کروڑ وں ایک جگہ جمع ہوجائیں ۔ آج سنت وشریعت کو ٹھکرانے سے ہماری روح نکل چکی ہے اور ہم ایک زندہ نعش اور بے جان جسم بن چکے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس کو مارنا پیٹنا اور ختم کردینا دشمن کے لیے آسان ہی ہوگا ۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : {یٰآیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ }(انفال:۲۴)کہ اللہ اور رسول تمہیں حیات بخش چیزوں کی طرف بلائیں تو تم بات مانو ۔ اور لِمَا یُحْیِیْکُمْ  سے مراد دین وشریعت ہے ۔

            ۲-  دوسری بات :   اپنے اندر خوف و ہراس اور ڈر کو نکال کر غیر معمولی ناامیدی کو ختم کرنا ہوگا ، کیوں کہ ہم پر یہ حالات کچھ پہلی بار نہیں آئے ہیں ، بل کہ ہماری تاریخ زمانوں کے ستم سے ٹکرانا ہمیشہ سے فولادی قوتوں کے پنجوں کو مروڑنا اوربہتے ہوئے مخالف دھاروں کو پلٹ دینا رہی ہے اس لیے یہ کہہ کر آگے بڑھوں

اے وقت ہمیں کھوکھلی دیوار مت سمجھ

صدیوں سے زلزلوں کے مقابل رہے ہیں ہم

اے نہر دجلہ تو بھی پہچانتی ہے ہم کو

تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا

            ۳-تیسری بات:    ناامیدی کے ازالہ کے ساتھ بہت زیادہ پر امید رہنا اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے حالات کے از خود بدلنے اورپر امن ہونے کی آرزو میں خواب غفلت میں مست رہنا نادانی اور حماقت ہوگی،جو صدیوں رلائے گی اورآنسو پوچھنے والا کوئی نہ ملے گا ۔ چناں چہ ذرا ماضی کی تاریخ پر نظر ڈال لیں تو بات جلدی سمجھ میں آجائے گی ۔جب پیکر ظلم و ستم ہمایوں نے بخارا و سمرقند پر حملہ کیا ،جس نے روایات اسلامی اور مسلمانوں کی بنیادوں کو متزلزل کردیا ، اس وقت کے علما ومشائخین وقت سے مخاطب ہوکر کہا تھاکہ اے علما اور مشائخین !جب تم کو میرے حملہ آور ہونے کی خبر تھی پھر کیوں فروعی اور جزوی مسائل کے اختلافات کی بحثوں میں الجھے رہے ، کیوں نہ اپنی حفاظت کے لیے فصیلوں کو قائم کیا ، حفاظت کی تیاری اور تدابیر کیوں نہیں اپنائی ۔اور کہتا ہے مجھے دشمن سے لڑنا تو تھا لیکن تم جیسے بزدل دشمن سے نہیں ۔ کچھ اس طرح کی بات نیپولین نے بھی مصر کو فتح کرتے وقت وہاں کے علما وعوام سے کہی تھی ۔ ان تاریخی حقائق اورفقروں سے ہمیں ہوش کے ناخن لے کر تمام مسلکی اور نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر محض ملک و ملت کے عظیم تر مفادات کے لیے اجتماعیت اور اتحاد کے دامن کو تھامنا اور ایک دوسرے کی پگڑیوں کو اچھالنے کی بجائے احترام باہمی اور بے مثال ایثار کا مظاہرہ کرنا ہے ، جو ہمارے پیش رو بزرگوں اور اکابرین کی حیات کا جزء لا ینفک رہا ہے ۔

            آخری بات:   اس موقع پر ہم اپنی قیادت عظمیٰ سربراہان ملک و ملت سے اتحاد واتفاق کی تمنا و آرزو کیساتھ سر جوڑ کر بیٹھنے کی ادباً درخواست کرتے ہیں کہ ایسے نا گفتہ بہ حالات میں امت کے نوجوانوں اوردیگر سماجی لوگوں کے لیے زمینی سطح پر کیا لائحہ عمل ہوسکتا ہے اور اس ملک میں ہمیں اب کس طرح سے آگے بڑھنا اور جان و مال ، عزت و آبرو اور اہل و عیال کی حفاظت؛ نیز ایمان وعقیدہ کی سلامتی کو کیسے محفوظ کرنا ہے ۔

نتیجہ اللہ کے سپرد کردیں:

            ان تمام ضروری اقدامات وتدابیر کے ساتھ ہماری بنیاد تعلق مع اللہ اور تضرع وانابت ہے ، جو ہماری جیت اور فتح کا نشان ہے ، اسے ہر گز فراموش نہیں کرنا ہے ، بل کہ روٹھے مولیٰ کو آنسوؤں کی گرمی ،مناجات کی لذت ، الحاح وزاری کی کیفیت سے منانا ، راضی کرنا اور فضائے بدر پیدا کرنا ہے ۔ اَلسَّعْیُ مِنَّا وَالْاِ ْتمَامُ مِنَ اللّٰہِ کو سامنے رکھیں پھر نتیجہ اللہ کے حوالہ ہے ،جو آج بھی قادر مطلق اورکریم بے مثال ہے ، جس کی قدرت وکرم کی کوئی انتہا نہیں ۔

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

            اللہ توفیق عمل عطا فرمائے ۔ آمین!