علم دین حاصل کرنے میں امام غزالی جیسی نیت ہونا چاہیے :
ایک روز بادشاہ اس مدرسہ نظامیہ کے دیکھنے کے لیے تشریف لائے اور مخفی طور پر طلبہ کے خیالات کی آزمائش کی کہ دیکھیں علم دین پڑھنے سے ان کی کیا غرضیں ہیں ، چناںچہ ایک طالب علم سے پوچھا کہ آپ کس لیے پڑھتے ہیں ؟ اس نے کہا میں اس لیے پڑھتا ہوں کہ میرا باپ قاضی ہے میں اگر عالم بن جاؤںگا تو میں بھی قاضی ہوجاؤں گا ۔ اس کے بعد دوسرے سے پوچھا اس نے کہا میرا باپ مفتی ہے میں مفتی بننے کے ـلیے پڑھتا ہوں ،غرض جس سے پوچھا گیا اس نے کوئی غرض دنیا ہی کی بتلائی ۔ بادشاہ کو بہت غصہ آیا کہ افسوس ہے کہ علم دین دنیا کے لیے پڑھایا جارہا ہے اور ہزاروں روپیہ مفت میں برباد ہورہا ہے ۔
ایک گوشہ میں امام غزالی ؒ بھی خستگی کی حالت میں بیٹھے کتاب دیکھ رہے تھے ، اس وقت یہ طالب علم تھے نہ کوئی جانتا تھا نہ شہرت تھی ان سے دریافت کیا کہ تم کیوں پڑھتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ میںنے دلائل عقلیہ ونقلیہ سے معلوم کیا ہے کہ ہمارا ایک مالک ِحقیقی ہے، جو آسمان وزمین کا مالک ہے اور مالک کی اطاعت ضروری ہوتی ہے کہ اس کی مر ضیات کی اطلاع حاصل ہو ۔ بادشاہ سن کر خوش ہوئے اور ظاہر کیا کہ میں بادشاہ ہوں اور کہا کہ میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ اس مدرسہ کو توڑ دوں گا، مگر تمہاری وجہ سے یہ مدرسہ رہ گیا ۔
پس تحصیلِ علم اس غرض سے ہونی چاہیے جو امام غزالی ؒ نے ظاہر کی۔ اور جس کی غرض تحصیل دنیا اور باعث حب دنیا ہوگا اس کے علم سے کچھ نفع نہ ہوگا ۔
علم بے عمل کی مثال :
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ جس شخص کو بہت سے علوم حاصل ہوں اور عمل نہ کرے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سپاہی ، اس کے پاس بہت سے ہتھیارہوں ، اس کو راہ میں دشمن ملے اورمقابلہ ہوا ، لیکن وہ ان اسلحہ کا استعمال نہیں کرتا تو کیا دشمن پر غالب ہوگا ؟
یہ علوم بمنزلہ ہتھیار کے ہیں شیطان کے دفع کرنے کے لیے مگر صرف ہتھیار وں کے لگانے سے خوش نہ ہونا چاہیے ،جب ان پر عمل ہی نہیں کیا تو کیا فائدہ ؟
ایسے ہی لوگوں کے لیے ارشاد ہے : {فرحوا بما عندہم من العلم} ’’ وہ لوگ اس علم ہی کی وجہ سے خوش ہیں جو ان کے پاس ہے ۔ ‘‘ اگر کوئی خارش والا خارش کے بہت سے نسخے یاد کرلے تو اس سے کیا نفع ، جب تک کہ ان کو کوٹ کر پیس کر کام میں نہ لایا جائے ۔ (ترک مالا یعنی ملحقہ حقیقت تصوف : ص ۵۵۵)
تیسری قسط:۵ ذی الحجہ ۱۴۴۰=۶/اگست ۲۰۱۹تیسری قسط:(حکیم الا مت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تفسیر)