معارفِ با ند ویؒ

اپنے بڑوں اور بزرگوں سے رابط رکھنے کی اہمیت:

             فرمایا: آدمی اپنے بڑوں سے تعلق نہیں رکھتا اور خود کو ان سے بڑا سمجھتا ہے۔ ہر کام اپنی مرضی سے کرتا ہے، نہ بڑوں سے رہنمائی حاصل کرتا ہے نہ کسی سے مشورہ لیتا ہے نہ بزرگوں اور اللہ والوں سے ملاقات کرتا ہے، اسی لیے آج کل ہمارے کاموں میں برکت نہیں ہے اور جو فیض ہونا چاہیے وہ فیض نہیں ہورہا۔ مشورہ میں اللہ تعالی نے خیر و برکت رکھی ہے، جو کام بھی مشورہ کے بعد کیا جاتا ہے اس میں خیر و برکت ہوتی ہے۔اس لیے جو کام کرنا ہو پہلے اپنے بڑوں سے ضرور پوچھ لیا کرے،ان سے مشورہ لے لیا کرے۔خودرائی سے کبھی نہ کام کرے، پھر ان شاء اللہ خیر و برکت ہوگی ۔آج کل لوگ مدرسہ چلاتے ہیں خودہی مدرسہ کھول لیا اور بن گئے مہتمم اور ناظم ،سب کچھ اپنے اختیار میںہے، اب نہ کسی سے پوچھنا ہے نہ مشورہ کرنا ہے، جس کو چاہا رکھا جس کو چاہا نکال دیا۔ اسی لیے آج کل مدارس میں خیرنہیں اور نہ ہی اصلاحی کام ہو پاتا ہے۔ اور نہ ہی وہ فیض ہوتا ہے جو ہونا چاہئے۔

بزرگوں سے رابط رکھنے کا طریقہ :

            فرمایا: حضرت عبدالرحمن ابن قاسم ؒ حضرت امام مالک کی خدمت میں بیس سال رہے ہیں ۔اٹھارہ سال تک تو علم ادب و اخلاق (اصلاح نفس) سیکھا، اور دو سال تعلیم حاصل کی۔ اور آج کل ہمارے یہاں علم وادب واخلاق اور اصلاح نفس کا کوئی خانہ ہی نہیں، آج یہاں ہیں تو کل وہاں۔ ایک سال اس مدرسہ میں ایک سال دوسرے مدرسہ میں، اسی طرح ناچاکرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ نہ تو علمی صلاحیت اور پختہ استعداد پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی باطن کی اصلاح ہوتی ہے؛ کیوںکہ اصلاحِ نفس اور باطنی فیوض جو بزرگوں سے حاصل ہوتے ہیں وہ تو محبت اور عقیدت کے بعد ہوتے ہیں اور محبت وعقیدت فور اً نہیں پیدا ہو جاتی؛ بل کہ رفتہ رفتہ ہوتی ہے۔ جب محبت ہو جاتی ہے تو آہستہ آہستہ اس کے اخلاق کا اس پر اثر پڑتا ہے۔اب اگر ایک سال کسی بزرگ کے پاس رہے اور تھوڑی بہت مناسبت پیدا ہوئی پھر وہاںسے چھوڑ کر دوسری جگہ چلے گئے، پھر ایک سال بعد وہاں سے بھی چلے گئے۔ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے، کسی سے بھی مناسبت نہیں پیدا ہوئی، اور کسی مربی کا رنگ نہیں چڑھا، اس لیے اگر کہیں رہے تو مستقل رہے، تعلق قائم رکھے تو مستقل ،جبھی رفتہ رفتہ فائدہ ہوتا ہے۔ ایک دم سے پیش نہیں ہوتا ،بل کہ جس طرح مناسبت بڑھتی جاتی ہے اسی طرح فیض میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔اور آج کل ہماری اصلاح نہ ہونے کا سبب یہی ہے کہ کسی سے مناسبت نہیں ہوتی اس لیے ہم کسی سے پورے طور پر فائدہ نہیں اٹھاپاتے۔