ملفوظا تِ وستا نوی

طلبہ تعطیلات میں کیا کریں:حضرت نے تعطیلات کے موقع پر طلبہ سے فرمایا :  جو طلبہ تعطیلات میں اپنے وطن جارہے ہیں وہ اپنے اعزا واقربا سے ضرور ملیں اورملاقات کریں ، وہاں جاکر بھی نمازوں کا اہتمام کریں، قرآن شریف کی تلاوت کا معمول بنائیں اورلوگوں کو تعلیم دیں ۔امت کاایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو قرآن شریف نہیں پڑھ سکتا، جب تک آپ وہاں رہیں لوگوں کو قرآن کی طرف بلائیں۔حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

 ’’ خَیْرُکُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہُ ‘‘ تم میں وہ شخص سب سے بہتر ہے جو قرآن کریم کو سیکھے اورسکھائے ۔

            لہٰذا آپ چھوٹوں، بڑوں ،اپنوں اورغیروں کو بھی قرآنِ کریم سکھائیں، گویا کہ آپ کے ذہن میں قرآن کریم کی تعلیم کا ایک دُھن سوار ہونا چاہیے ۔

            ایک بہت ہی زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے بہت سے مولوی حضرات کو بھی قرآن پڑھنا نہیں آتا؛ کیوں کہ تلاوت کا معمول چھوٹ گیا ۔ اورقرآن کریم کا نظام ہے جب اس کی تلاوت چھوڑ دی جائے تووہ نکل کر بھاگ جائے گا؛ جیسا کہ جنگل میں اونٹ ، اس کی رسی پکڑ کر چلوگے تو وہ ساتھ چلے گا اور اگراس کی رسی چھوڑ دو گے وہ نکل کر بھاگ جائے گا؛یہی مثال قرآن کریم کی ہے ۔ لہٰذا ہر طالب علم کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو قرآن کریم کی تلاوت کا عادی بنائے اور قرآن کریم سے تعلق پیدا کرے ۔

            میرا بچپنا نانیہال’’ ہتھورن ‘‘گاؤں میں گزرا۔ اس محلہ کا ماحول تھا کہ ہر گھر کے سامنے دروازے پر لوگ بیٹھ کر قرآن پاک پڑھتے تھے ۔ مگر افسوس کہ وہاں بھی آج وہ ماحول نہیں رہا، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’خَیْرُالْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ‘‘

            میرے والد صاحب نے بچپنے سے موت تک قرآن کو نہیں چھوڑا ۔ اور جب ہم گھر جاتے تھے تو مجال نہیں تھی کہ بغیر قرآن پڑھے چائے پینے جائیں،والد صاحب فرماتے تھے پہلے قرآن پڑھو پھر چائے پیو۔

            قرآن کریم کا وعدہ ہے : {اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ}۔

            ’’وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ ‘‘کی تفسیر میں علما نے لکھا ہے کہ جو قرآن کے ساتھ وابستہ رہے گا اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی حفاظت کرے گا اور اس کو ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال کرے گا ۔