انوار قرآنی پانچویں قسط:
مولانا حذیفہ مولانا غلام محمدوستانویؔ
اس سے قبل تعوذ و تسمیہ کی تفسیر اوراس کے بعد طلبہ وعلما کے لیے علمی انداز میں تفسیر کا مطالعہ کرنے کے لیے قدیم و جدید قرآنیات کے مصادر ومراجع کی نشاندہی کی گئی؛ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے چند مفید کام جو انوکھے ہوئے ہیں اس کا ذکر کرنا مناسب تصور کرتا ہوں ۔
ضمائر القرآن:
یہ ڈاکٹر ابو النصر محمد خالدی صاحب کا ایک نرالہ کارنامہ ہے ، جس میں آپ نے قرآنِ کریم کے ضمائر کے مراجع کے بارے میں جو اختلافات مفسرین کے درمیان پائے جاتے ہیں، اس کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔ شاید عربی زبان میں بھی ایسا کوئی کام نہیںہوا،بڑا وقیع اور علمی کام ہوا ہے جسے شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نے شائع کیا ہے ۔ ترجمہ و تفسیر پڑھنے اور پڑھانے والے طلبہ و اساتذہ کے پاس یہ کتاب لازمی طور پر ہونی چاہیے۔
ایک جامع عربی تفسیر :
قرآنیات ایک انتہائی وسیع باب ہے ، جس کا احاطہ ناممکن ہے ۔ اب آخری ایک کتاب کی نشاندہی کرکے سورۂ فاتحہ کی تفسیر کا آغاز کرنا مناسب سمجھتاہوں ۔
’’الحاوی فی التفسیر ‘‘یہ عصر حاضر کے ایک مصری عالم کی بے مثال کاوش ہے ۔ کتاب کا نام ’’جنۃ المشتاق فی تفسیر کلام الملک الخلاق ‘‘ ہے ، جو نیٹ پر ’’ الحاوی فی التفسیر القرآن الکریم ‘‘ کے نام سے دستیاب اور ایک ہزار اجزا پر مشتمل ہے ۔ جس کے صفحات۷۰۵،۷۴،۴ ؍(چار لاکھ چوہتر ہزار سات سو پانچ )ہیں۔
مؤلف اور جامع ’’عبد الرحمن القماش ‘‘ ہیں۔ یہ تفسیر آپ www.almeshkat.net/book سے ڈاؤن لوڈ کرکے پڑھ سکتے ہیں۔
تفسیر سورہ ٔفاتحہ
{اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ }
سورہ ٔفاتحہ مکی ہے:
سورہ ٔفاتحہ جمہور علما کے نزدیک مکی ہے، بعض علما اس کے مدنی ہونے کی طرف گئے ہیں، مگر یہ قول شاذ ہے۔ ابتدائے بعثت میں سب سے پہلے’’ اقرا باسم ربک‘‘ چند آیتیں نازل ہوئیں؛ جیسا کہ صحیحین میں ہے اور چند روز کے بعد پوری سورۂ فاتحہ مع بسم اللہ کے نازل ہوئی؛ جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ ،ابو نعیم اور بیہقی کی دلائل النبوت میں عمرو بن شرحبیلؓ سے مرسلاً مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خدیجہؓ سے یہ فرمایا کہ جب میں تنہا ہوتا ہوں تو غیب سے کچھ آوازیں سنتا ہوں، خدا کی قسم مجھ کو اپنی جان کا اندیشہ ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ نے فرمایا: معاذ اللہ! خدا تعالیٰ کبھی آپ کے ساتھ ایسا نہ کرے گا۔ خدا کی قسم آپ امانتیں ادا کرتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں، ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ اتفاق سے اسی وقت ابوبکر آگئے، حضرت خدیجہ نے کہا :اے ابوبکر! تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ لے کر ورقہ کے پاس جاؤ اور یہ واقعہ بیان کرو؛ چناںچہ ابوبکرؓ حضور (ﷺ) کا ہاتھ پکڑ کر ورقہ کے پاس لے گئے۔ ورقہ نے آپ سے حال دریافت کیا اس پر آپ نے یہ فرمایا: اذا خلوت وحدی سمعت نداء خلفی یا محمد! یا محمد! فانطلق ھاربا فی الارض فقال لا تفعل اذا اتاک فاثبت حتی تسمع ما یقول ثم ائتنی فاخبرنی فلما خلا ناداہ یا محمد! قل بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد اللہ رب العالمین حتی بلغ و لا الضالین قال قل لا الہ الا اللہ فاتی ورقۃ فذکر ذلک لہ فقال لہ ابشرثم ابشر فانی اشہدانک الذی بشر بہ ابن مریم و انک علی مثل ناموس موسیٰ وانک نبی مرسل الحدیث (تفسیر در منثور ص 2 ج 1 و تفسیر قرطبی ص 115 ج 1)
کہ جب میں تنہا ہوتا ہوں تو پیچھے سے غیبی آواز یا محمد یا محمد سنتا ہوں، جس کی دہشت سے بھاگنے لگتا ہوں۔ ورقہ نے کہا :ایسا مت کرو ٹھہر کر اس کی بات سنو اور پھر جو کہے، اس کی آکر مجھ کو خبر دو۔ چناںچہ اس کے بعد آپ ایک جگہ تنہا تھے کہ آواز آئی۔ اے محمد! یہ پڑھیے! بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العالمین الی آخر السورۃ اس کے بعد کہا :لا الہ الا اللہ کہو! آپ یہ سب سن کر ورقہ کے پاس آئے اور سارا واقعہ ذکر کیا۔ ورقہ نے کہا اے محمد تم کو بشارت ہو اور پھر بشارت ہو، تحقیق میں گواہی دیتا ہوں کہ تم بلا شبہ وہی نبی ہو کہ جن کی مسیح بن مریم نے بشارت دی ہے اور تمہاری شریعت موسیٰ کی شریعت کے طرز کی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تم یقیناً نبی مرسل ہو۔ اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ یہ سورت ابتدائے بعثت کے چند روز بعد اتری ہے کہ جب خدیجۃ الکبری اور ابوبکر صدیق مشرف باسلام ہوچکے تھے اور ورقہ بن نوفل ابھی بقید حیات تھے۔ ابتدائے بعثت میں نزول وحی کی شدت اور اس کی عجیب و غریب کیفیت کی وجہ سے، جو اس سے پہلے نہ کبھی دیکھی اور نہ سنی تھی آپ پر ایک خاص خشیت اور وحشت طاری ہوجاتی تھی۔ اور ظاہر ہے کہ جب آدمی پر کوئی خاص کیفیت اور شدت طاری ہوتی ہے، تو دل کی تسلی اور تشفی کے لیے اپنے محرم خاص اور محب بااختصاص سے ذکر کرتا ہے ؛تاکہ دل کو سکون اور اطمینان ہو۔ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حضرت خدیجہ سے ذکر کرنا اور ورقہ کے پاس جانا محض اس لیے تھا کہ یہ محرم راز اور ہمدم وہم ساز ہیں،حبیب اور لبیب ہیں، ہوشمند اور دانشمند ذی علم اور ذی فہم ہیں ان سے مل کر تسلی ہوگی۔ معاذ اللہ! آپ کو اپنی نبوت و رسالت میں کوئی شبہ اور تردد نہ تھا اور نہ ورقہ سے کوئی تعلیم وتلقین مقصود تھی،ورقہ تو صرف توریت اور انجیل کے ایک عالم تھے۔ اور آپ ﷺ تو اوتیت علم الاولین والاخرین کے مصداق تھے،حضور ورقہ سے کیا علم اور فیض حاصل کرنے جاتے۔ اصل بات یہ تھی کہ ورقہ اگرچہ عالم تھے، مگر صاحب ِحال اور صاحبِ کیفیت نہ تھے، آپ کے قلب ِمبارک پر جو وحی کی کیفیت گزر رہی تھی، اس کی حقیقت اور اس کی لذت کی کیفیت تو آپ ہی کو معلوم تھی۔ ورقہ ذوقی طور پر نہیں جانتے تھے بل کہ محض علمی طور پر اتنا جانتے تھے کہ حضرات ِانبیا پر نزول وحی کے وقت یہ کیفیات گزرتی ہیں۔ اس لیے وہ آپ کی تسلی کرتے تھے اور ایسے وقت میں تسلی اور تشفی وہی کرسکتا ہے کہ جس پر یہ حالت اور یہ کیفیت نہ گزر رہی ہو اور کچھ اجمالی طور پر اس قسم کی چیزوں سے واقف اور باخبر ہو۔ جیسے تیمار دار بیمار کی تسلی کرتا ہے؛ ورنہ جس پر یہ کیفیت گزرے گی اور جس پر یہ حالت طاری ہوگی وہ خود ہی خوف زدہ اور دہشت زدہ ہوجائے گا، اسے اپنی ہی خبر نہ رہے گی۔ دوسرے کی کیا تسلی اور کیا تشفی کرے گا اور عقلاً یہ ضروری نہیں کہ تسلی دینے والا صاحب حال سے افضل اور اکمل یا اعلم اور افہم ہو۔
ورقہ بن نوفل کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ انجیل متی کے باب سوم میں یوحنا حواری کا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی دینا مذکور ہے، اس نکتہ کو خوب سمجھ لیا جائے؛ چوں کہ سب سے پہلے’’ اقرا باسم ربک‘‘ کا نزول ہوا ،جس میں یہ حکم تھا کہ اللہ کے نام سے پڑھو ا،س لیے اس کے چند روز بعد بسم اللہ الرحمن الحمد للہ کا نزول ہوا یعنی ہم اسی حکم سابق کے مطابق اللہ ہی کے نام سے پڑھتے ہیں۔
بعض علما اس طرف گئے ہیں کہ سب سے پہلے سورۂ فاتحہ نازل ہوئی، مگر صحاح ستہ کی تمام روایتوں میں سورۂ اقراء کی ابتدائی آیتوں کا سب سے پہلے نازل ہونا مذکور ہے اور یہی جمہور کا قول ہے۔ عجب نہیں کہ ان بعض علما کی مراد یہ ہو کہ سب سے پہلے پوری سورت جو نازل ہوئی وہ سورۂ فاتحہ ہے اور سورۂ اقرا ابتداء ً پوری نازل نہیں ہوئی ؛بل کہ اس کی چند آیتیں اتریں اور بقیہ سورت بعد میں نازل ہوئی اور سورۂ فاتحہ پہلی ہی مرتبہ میں پوری نازل ہوئی؛ جیسا کہ روایت ِمذکور سے ظاہر ہے۔ (معارف القران ادریسی)
’’سورہ ‘‘کی وجہ تسمیہ :
سورہ کے لفظی معنی بلندی یا منزل کے ہیں۔ السورۃ الرفعۃ (لسان) السورۃ المنزلۃ الرفیعۃ (راغب) جس طرح دنیا کی دوسری کتابیں مختلف بابوں میں تقسیم ہوتی ہیں، قرآن کے ہر باب کو سورۃ کہتے ہیں، گویا ہر سورۃ ایک بلند منزل کا نام ہے۔ وبھا سمیت السورۃ من القران ای رافعتہ (لسان) بہ سمیت سورۃ القرآن لا جلال ورفعتہ (تاج)
سورۃ کے دوسرے معنی شہر پناہ کی دیوار کے بھی ہیں سورالمدینۃ حائطھا (راغب) سورہ ٔقرآنی کو سورہ اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ گویا وہ فصیل شہر کی طرح اپنے مضامین کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
قرآنِ کریم میں بھی آٹھ جگہ سورت کا لفظ آیا ہے، اس سے بھی قرآن کریم کا ایسا حصہ ہی مراد ہے، جس میں پورا مطلب اور منشاء بیان کیا گیا ہے ؛بل کہ اسی نسبت سے قرآن کریم میں اس پر سورت کا اطلاق ہوا ہے۔ پس اس کی پیروی میں ان مجموعہ آیات پر جو درحقیقت معین و محدود اور اپنے ماقبل و ما بعد سے علیحدہ ہیں۔ سورت کا اطلاق کرنا نہایت درست و صحیح ہے۔ (تفسیرعروۃ الوثقی)
قران کی تقسیم باعتبار سورتوں کے:
قرآن مجید کو مختلف سورتوں میں تقسیم وترتیب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود فرماگئے تھے۔ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے ارشاد کے مطابق ایک سورۃ شروع کی جاتی تھی اور دوسری ختم۔ کل قرآنی سورتوں کی تعداد 114 ہے۔
فاتحۃ کا معنی:
فاتحہ کے لفظی معنی ہیں ابتدا کرنے والی کے۔ قرآن مجید کی اس ابتدائی سورت کو بھی، اسی لیے الفاتحہ کہتے ہیں،یہ گویا دیباچہ قرآن ہے۔
اس سورۂ مبارکہ کو اُمّ القرآن بھی کہا گیا ہے اور اساس القرآن بھی۔ یعنی یہ پورے قرآن کے لیے جڑ‘ بنیاد اور اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ الفاتحہ کس اعتبار سے ہے؟ فَتَحَ یَفْتَحُ کے معنی ہیں کھولنا۔ چوں کہ قرآن حکیم شروع اس سورت سے ہوتا ہے؛ لہٰذا یہ ’’سورۃ الفاتحہ‘‘ (The Opening Surah of the Qur’an) ہے۔
سورتوں کے نام کس نے رکھے:
سورتوں کے نام بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے رکھے ہوئے ہیں۔ اکثر ایک ایک سورت کے کئی کئی نام روایت ہوئے ہیں۔
سورہ ٔفاتحہ کے دوسرے نام:
اس فاتحۃ الکتاب کے بھی متعدد نام احادیث میں آئے ہیں۔ سورۃ الشفاء، سورۃ وافیہ، ام القرآن وغیرہ قرطبی نے 12 نام گنائے ہیں۔ مشہور ترین نام یہی الفاتحہ ہے۔
سبع مثانی:
سبع مثانی یہ نام قرآن مجید کی سورۃ الحجر کی آیت نمبر 87 سے لیا گیا ہے؛ چناںچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ (۱۵: ۸۷) ’’اور ہم نے آپ کو سات دہرائی جانے والی آیات عطا کیں‘‘۔ صحیح حدیث میں ہے کہ: ’’سات دہرائی جانے والی آیات‘‘ سے مراد سورہ ٔفاتحہ ہے ،کہا گیا ہے کہ اس کو مثانی اس لیے کہتے ہیں کہ:
الف: نماز کی ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہے۔ نماز فرض ہو، نفل یا سنت، نماز عید ہو، نماز تسبیح ہو یا استغفار۔
ب: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: فاتحہ وہ سورت ہے جو سابقہ تمام کتابوں سے مستثنیٰ ہے ،خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس سورت کی مثل نہ تورات و انجیل میں ہے اور نہ زبور و قرآن میں اور یہ سورت فاتحہ ہے ،جس کا مثل قرآن مجید میں بھی موجود نہیں۔
ج: اس کی سات آیات ہیں جو بار بار دہرائی بھی جاتی ہیں اور جو شخص اس سورۃ مبارکہ کی تلاوت کرتا ہے، وہ پورے قرآن مجید کا ثواب حاصل کرلیتا ہے ۔
د: اس کا نزول دو بار ہوا، پہلی بار مکہ مکرمہ میں اور دوسری بار مدینہ طیبہ میں۔
ہ: اس کو نمازوں میں دو بار بھی پڑھا جاتا ہے ایک بار فرض سمجھتے ہوئے اور دوسری بار قرآن مجید کی ایک سورت ہونے کے واسطہ سے۔ (امام رازی، تفسیر کبیر )
و: اس میں اللہ تعالیٰ کی ثناء و مدح بیان کی گئی ہے۔ (تفسیرعروۃ الوثقی بتغیر یسیر)