اداریــہ: پہلی قسط:
مولانا حذیفہ ابن مولانا غلام محمد صاحب وستانوی ؔ
اللہ رب العزت نے دنیا کو حضرتِ انسان کے لیے آزمائش گاہ بنایا ، مختلف اعتبار سے ہر زمانہ میں انسان آزمایا جاتا رہا ہے ، جس کا سلسلہ’’ ولاتقربا ہذہ الشجرۃ‘‘ سے شروع ہوا اور ہنوز جاری وساری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا ۔ اس لیے کہ رب ذو الجلال نے اس کائنات کو انسان کے لیے اور انسان کو اپنے لیے بنایا ہے ،مگر اللہ کے لیے ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جو چاہے کرے اور وہ جیسا چاہے ہوجائے ، بل کہ اسے اپنے خالق و مالک کو پانے کے لیے سخت سے سخت آزمائشوں سے گزر نا پڑتا ہے۔
ایک طرف اللہ نے یہ کہا کہ {خلق لکم مافی السموٰت ومافی الارض } کہیںکہا {سخر لکم مافی السموٰت وما فی الارض } اور دوسری جانب کہا {وما تشاؤن الا ان یشا ء اللہ } یعنی اللہ نے انسان کو یہ پیغام دیا کہ اگر چہ ہم نے اتنی عظیم کائنات تمہارے نفع کے لیے بنائی اور اسے تمہارے لیے مسخر بھی کردیا ، مگر مشیئت تمہاری نہیں ہماری ہوگی؛کیوں کہ {وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون }ہم نے تو تمہیں اپنی عبادت ہی کے لیے بنایا ہے ؛لہٰذا تسخیر کے باوجود دوچیزیں تمہارے پیش نظر رہنی چاہیے ۔
۱- تم اس دنیا میں عیش و عشرت اور دھمال مچانے کے لیے نہیں پیدا کیے گئے ؛بل کہ اللہ کی عبادت اور اس کی رضا مندی کے حصول کے لیے پیدا کیے گئے ہو ۔
۲- اگر چہ کائنات تمہارے لیے مسخر ہے ، مگر پھر بھی کائنات میں تصرف کا کامل حق تو صرف اور صرف مجھے یعنی اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے ؛ہاں! اسباب اختیار کرکے کسی کام کو انجام دینے کی کوشش تمہارے ہاتھ میں ہے ، مگر اس کے نتائج ہمارے قبضۂ قدرت میں رہیںگے ۔{وما تشاء و ن الا ان یشاء اللہ }کہیں {واللہ غالب علی امرہ}کہیں {ان اللہ علی کل شیء قدیر}اورکہیں {فعال لما یرید} کہہ کر اپنے کامل کنٹرول کو اللہ نے بیان کردیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہر کام اللہ کی رضا مندی کے خاطر انجام دینے کی کوشش کرے اور نتیجہ کو اللہ پر چھوڑ دے ۔ یہی امتحان اور آزمائش ہے جیسے طالب علم پر چے پر سوالات کے جوابات لکھ دیتا ہے اور نتیجہ ممتحن پر چھوڑ دیا جاتا ہے، چاہے وہ کامیاب کرے چاہے ناکام ، مگر بہرحال اچھے جوابات دیے ہوں تو کامیاب کرے گا ہی۔ بس بالکل اسی طرح انسان کو اپنی دنیوی زندگی کو تصور کرنا چاہیے ،جس کو قرآن نے کہا{لیبلوکم ایکم احسن عملا } تاکہ وہ دیکھے کہ تم میں کون اچھے اعمال کرتا ہے۔
اور مزید غور کریں تو جیسے بعض سوالات آسان اور بعض مشکل ہوتے ہیں ، مگرآسان ہونے کے باوجود کسی کے لیے سب مشکل ہوجاتے ہیں اور کسی کے لیے سب آسان ہوجاتے ہیں ۔ جو امتحان سے قبل محنت کرتا ہے اس کے لیے سب آسان اور جو سستی کرتا ہے اس کے لیے سب مشکل ۔ تو دنیوی زندگی بھی اسی طرح سے گزرتی ہے یعنی مشکل مسائل پیش آتے ہیں مثلاً تقدیر کو سمجھنا کسی پریشانی میں مبتلا ہونا ،نماز کے لیے فجر میں بیدار ہونا اور کچھ آسان جیسے مغرب کی نماز ، عشا کی نماز ۔مال دار کے لیے ڈھائی فیصد زکوٰۃ وغیرہ؛ اسی لیے قیامت کے دن کی منظر کشی کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے {واما من اوتی کتابہ بیمینہ فیقول ہاؤم اقرئوا کتابیہ – واما امن اوتی کتابہ بشمالہ فیقول یا لیتنی لم اوت کتابیہ} یعنی کامیاب اپنے نتائج کو سب کو بتاتا پھرے گا اورناکام افسوس کرے گا ؛جیسا کہ امتحان کے نتائج کے وقت ہوتا ہے ۔
اگر دنیا کے دارالامتحان کی بات سمجھ میں آگئی تو آئیے اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور وہ یہ کہ اس دارالامتحان میں علما کا رول اورذمے داری کیا ہے ؟
دنیا میں علما کا رول کیا ہے ؟
جیسا کہ کتاب اللہ سے ثابت کیاگیا کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے تو ظاہر سی بات ہے جیسے دارالامتحان میں نگراں ہوتے ہیں جن کے ذمے دوکام ہوتا ہے ، ایک تو جو سوالات سمجھ میں نہیں آئے ہوں اسے سمجھاتے ہیں اور دوسرے نظر رکھتے ہیں کہ کوئی امتحان ہال کے اصول توڑ تو نہیں رہا ؛ بالکل یہی درجہ علما کا ہوتا ہے کہ وہ عوام کو دین سمجھائیں اور ان کی نگرانی کریں کہ و ہ اللہ کے بیان کردہ طریقے کے خلاف کوئی کام انجام نہ دیں ۔ اب اگر علما اپنی ذمہ داری کو نبھانے لگیں تو جیسے امتحان کا نظام کامیاب ہوتا ہے اسی طرح علما اگر امت کی رہبری اورنگرانی کا فریضہ انجام دینے لگے تو اس دنیا کا نظام بھی درست ہوجاتا ہے ۔ اگر اس کے بعد بھی کوئی اصول شریعت کو توڑے تو پھر اللہ پورے نظام کائنات کا خالق اورمنتظم ہے چاہے تو اسے دنیا میں سزا دے اورچاہے تو اسے ڈھیل دے اور آخرت میں سزا دے ۔ شاید اس واضح ترین مثال سے بات سمجھ میںآگئی ہوگی کہ فتنوں کے اس سخت دورمیں علما کو اپنی ذمہ داری کا احساس جگانے کی کتنی زیادہ ضرورت ہے ؟!!
غرض یہ کہ علما کی بڑی ذمے داری ہے کہ وہ فتنوں کے اس گھٹا ٹوپ دورمیں اپنی ذمہ داری اوراپنے مقام کو سمجھیں اور اپنی ذمہ داری کو پور ا کرکے اپنی اور امت دونوں کی دنیا و آخرت سوار نے کی بھر پور کوشش کریں۔
توآئیے! ذمہ داری کا احساس دلانے کے لیے علما کے مقام اور اس حساسیت پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ ان شاء اللہ اس کے بعد آئندہ قسط میںہم طبقۂ علما میں عصر حاضر کے اعتبار سے کیا کمی ہے اور ہم اس کمی کو کیسے دور کریں اورامت کو کس طرح صحیح راہ پرلانے کے لیے کوشاں ہوں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی ۔ اللہ صحیح لکھنے کی اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین!
اہل علم کی فضیلت:
سید وجاہت اپنی ایک تحریر میں رقمطراز ہیںکہ: انسان کو زمین پر خلافت کی ذمہ داری سونپنا، اس کو مختلف مخلوقات پر فضیلت دینا درحقیقت یہ علم کا ثمرہ ہے، علم خدا تعالیٰ کی صفت اعلیٰ ہے، اسی لیے زمین پر خلافت و نیابت کی ذمہ داری بھی انہیں سونپی گئی، جو اس صفت علم میں دیگر مخلوقات سے ممتاز حیثیت پر فائز ہیں ۔
اہل علم کی فضیلت ان کے مقام و مرتبے کے بیان میں قرآن کی متعدد آیات اور بے شمار احادیث وارد ہوئی ہیں، کبھی ان کے سونے کو جہلا کی عبادت پر فضیلت دی گئی تو کبھی انہیں انبیا کا وارث بتلایا گیا، کبھی برملا اعلان کردیا گیا کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے۔
جس قدر اہل علم کا مقام بلند ہے اسی مرتبہ کے لحاظ سے ان پر ذمہ داریوں کا بھی عظیم بوجھ ہے، اگر یوں کہہ دیا جائے کہ امت کی کشتی کے ناخدا یہی حضرات علمائے کرام ہیں تو بے جا نہیں ہوگا۔
اس وقت امت مسلمہ کو بڑے کٹھن حالات کا سامناہے، ایک طرف تمام کفار ممالک مجتمع ہوکر عالم اسلام پر حملہ آور ہونے اور مسلمان ممالک پر وحشیانہ مظالم کی خون آلود داستان ہے۔ تو دوسری طرف فکری ارتداد اور تشکیک جیسے مہلک امراض ہیں جو امت مسلمہ کے وجود میں سرطان کی طرح پھیلائے جارہے ہیں۔ امت کے نوجوان اس وقت الحاد اور تشکیک جیسے مسائل کا شکار ہیں، اس نازک وقت میں علمائے امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان اہم مسائل کی طرف توجہ دیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ علماخاص کر نوجوان علما غور و فکر کریں اور سوچیں کہ وہ کس طرح اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر امت کے لیے نفع مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ ایک عالم کی خوبصورتی اس کے لباس، پوشاک اور سواری میں نہیں بلکہ ایک عالم کا حسن وجمال اس کی سادگی، تقوی اور اخلاص میں ہے،یہ وہ ہتھیار ہیں جس کے بغیر وہ کوئی معرکہ سر نہیں کرسکتا۔حالات اور ماحول سے بے خبری ٹھیک نہیں۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے:
شریعتِ اسلامی میں روز قیامت تک آنے والے تمام مسائل و مشکلات کا حل موجود ہے۔
یاد رکھیے! اسلامی نظام اس کی تعلیمات کوئی ناقص و محدود نہیں کہ جس پر عمل پیرا ہونے کے لیے معاشرے سے کٹنا پڑے اور رہبانیت کی طرف جانا پڑے، ہمارے اسلاف نے سلطنتیں بنائیں، قاضی القضاۃ بنے، عہدے حاصل کیے اور ساتھ ساتھ اپنے فرائض و واجبات بل کہ مستحبات کی رعایت بھی رکھی، وہ بیک وقت گورنری کے فرائض بھی انجام دیتے اور خلق خدا کے اخلاق و اعمال کی بھی ایک داعی کی حیثیت سے اصلاح کرتے۔ عصر حاضر میں علما کا معاشرے سے کٹنا اور مساجد اور خانقاہوں تک محدود ہوجانا امت کے لیے ،خصوصاً نوجوان نسل کے لیے انتہائی مضر ہے۔
ایک ماہر طبیب وہی ہے جو مرض کی تشخیص کی صلاحیت رکھتا ہو، علما اس امت کے روحانی طبیب ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نسل ِنو اس وقت کن روحانی امراض کا شکار ہے، وہ تشکیک، الحاد، بے دینی اور مغربی تہذیب سے متاثر ہیں، جب تک علما اور عوام میں فاصلے کم نہیں ہوتے اس وقت تک معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں۔(مقالہ: عصرحاضر اور علماء کی ذمہ داریاں)
وراثت انبیا کا مطلب:
جماعتِ علماجلیل القدر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہیں، جنہوں نے اللہ کے حُکم اور رضا کے مطابق بطریقِ احسن،خوش اسلوبی،شائستگی اور حکمت کے تحت ارشاداتِ ربانی کی روشنی میں ’’اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دو اور انکے ساتھ بہترین طریقے کے ساتھ بحث کرو‘‘(النحل:125) لوگوں کو دین کی دعوت دیتے تھے۔
رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لوگوں کے بارے میں روادرانہ جذبات کی ترجمانی ان الفاظ میں کی اے نبی! شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے‘‘(الشعراء:۳)
خوش اسلوبی ،محبت،نرمی،خیر خواہی اور ہمدردی کے جذبے سے سر شار ہو کر دعوتِ دین پیش کرنا اسلام کا امتیازی اور نمایاں ترین وصف ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میں تُم کو تمہاری کمروں سے پکڑ پکڑ کر آگ سے دُور کرتا ہوں اور تُم اس میں گرتے جاتے ہو۔(البخاری:6453)
رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کی خیر خواہی اور محبت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اُمت کو مُستقبل میں آنے والے فتنوں اور فسادات سے اپنی حیاتِ مُبارکہ میںہی آگاہی فراہم کردی اور خبردار کیا اور ان سے دور رہنے کی نصیحت بھی فرمائی۔(مقالہ:موجودہ دور کے فتنے اور ہماری ذمہداریاں)
مولانا خالد سیف اللہ صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا:
علما انبیاکے وارث ہیں، اس لیے انبیا سے جتنی ذمہ داریاں متعلق تھیں، سلسلہ نبوت کے تمام ہونے کے بعد یہ ساری ذمہ داریاں علمائے اُمت کے کاندھوں پر آگئی ہیں۔
علما کامقام:
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا ہے اور سب سے آخر میں خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا اور آپ کے بعد نبوت کا سلسلہ بند فرمادیا‘ آپ کے وصال کے بعد نبوت کی ذمہ داریاں بطورِ وراثت اس امت کے علمائے کرام پر ڈالی گئیں‘ چناں چہ آنحضرت ﷺنے فرمایا: ’’العلما ورثۃ الأنبیاء‘‘ یعنی علمائے کرام انبیائے کرام کے وارث ہیں‘ قرآن وحدیث کے ارشادات کے مطابق اس امت کے علما کا بہت بڑا مقام ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں علما کے حق میں فرمایا کہ اللہ کے بندوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے علما ہیں۔
احادیث میں ہے۱:- اللہ تعالیٰ جس شخص سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔۲:- فرشتے طالب علم کی خوشنودی کے لیے اس کے قدموں کے نیچے پر بچھاتے ہیں۔۳:- عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جس طرح چاند کی فضیلت ستاروں پر ہے۔۴:- عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنیٰ شخص پر ہے۔۵:- ایک فقیہ عالم شیطان پر ایک ہزارعابدوں سے زیادہ بھاری ہوتا ہے۔جب قرآن وحدیث میں علما کا اتنا بڑا مقام ہے، تو ان کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہوں گی‘ نیز علمائے کرام دین وعلم کی برکت سے کھاتے پیتے ہیں‘ عوام کے ہاں علم کی وجہ سے ان کی قدر ومنزلت ہے‘ گویا علمائے کرام دین اسلام کے سپاہی ہیں‘ لہذا ان کو اپنے فرائض ایک دیانت دار سپاہی کی طرح ادا کرنے چاہئیں؛ بہرحال فتن جدیدہ کی بے شمار شکلیں ہیں جو علمائے کرام کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہیں‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ علمائے کرام ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہوتے ہیں یا نہیں؟(مقالہ:عصر حاضر کے چیلنج اور علمائے کرام کی ذمہ داریاں)
سچا اور مخلص عالم کون؟
سچا اور مخلص عالم وہی کہلائے گا جو دین کا علم بھی رکھتا ہو اورساتھ ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو انجام دینے کے لیے سرگر م بھی ہو۔ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے وقت کا تقاضہ ہے کہ علمائے کرام ایک طرف دین کا مکمل علم حاصل کریں؛ وہیں دیگر باطل عقیدہ ہائے علم سے بھی با خوبی واقف ہوں۔ناواقفیت کے نتیجہ میں باطل حق اور حق باطل بن جاتا ہے،اس لیے ضروری ہے کہ دین میں ایک جانب تفقہ پیدا کیا جائے وہیں دور جدید کی صورتحال سے با خوبی واقفیت حاصل کی جائے۔ تفقہ ایسا ہو جو دین کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہو۔ تفقہ چند کلامی،فقہی مسائل اور تفسیری موشگافیوں پر اکتفاکانام نہیں ہے۔ اس سے مراد دین کی وہ گہرائی ہے جو ایک عالم کو عصرِ حاضر کے چیلنجز کے لیے تیار کرتی ہے۔
یونانی فلسفہ کا دور ہو یا مغربی سائنس کا زمانہ، نوآبادیاتی نظام کا وقت ہو یا مابعد نوآبادیاتی نظام، سرمایہ دارانہ نظام ہو یا جاگیردارانہ نظام، سوشلزم ہو یا کمیونزم، مغربی فلسفہ الحادہو یا لادینیت، جدیدیت ہو یا مابعد جدیدیت الغرض کوئی بھی گمراہی و ضلالت کی شکل ہو وہ اپنے زمانے کے چیلنجز کا شعور بھی رکھتا ہے اور تفقہ فی الدین کی قوت سے ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ سورۃ النحل میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دعوت کے تین اصول بیان کیے ہیں:۱۔ حکمت۲۔ موعظت حسنہ ۳۔ مجادلہ حسنہ۔حکمت کے بے شمار معنی مراد لیے جا سکتے ہیں لیکن دعوت دین کے معاملے میں حکمت سے مراد دلیل و برھان ہے جو عقل و فطرت کے تقاضے کے مطابق ہو جسے سمجھنے میں عقل و فطرت کو اجنبیت نہ ہو۔لہذا ضروری ہے کہ جب علمائے کرام عوام الناس کو دین کی طرف بلائیں تو حکمت کے تمام پہلوؤں کو ہمیشہ مدنظر رکھیں۔ (مضمون:علماء کرام کا ایک کامن پلیٹ فارم!)
اس وقت مسلم معاشرے کی شکست وریخت، تنزلی وانحطاط، بے راہ روی اور شتر بے مہاری کے جہاں دیگر اسباب ہیں وہاں مرکزی سبب اہل علم اور عوام الناس کے مابین وہ خلیج اور فاصلہ ہے جسے پاٹنے کے لیے دونوں طبقوں کی جانب سے کوئی خاطر خواہ توجہ واہمیت نہیں دی گئی۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روحانی امراض میں اضافہ ہوتا چلاگیا، جہالت بڑھتی چلی گئی۔ اہل علم کی زبانوں پر شکوہ سننے کو ملتا ہے کہ عوام علما کی قدر داں نہیں! اور عوام کہتے ہے اہل علم کو ہمارے مسائل سے سروکار نہیں۔
علمااور عوام کے دور کا تاریخی پس منظر :
بڑا طویل عرصہ ہوا ہے اس کشمکش کو شروع ہوئے، دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں،علما اور عوام کے مابین قائم تعلق میں بد ظنی، بے یقینی کی فضا چھاچکی ہے ۔ اس اختلاف کا نقطہ آغاز جاننے کے لیے ہمیں آج سے تقریباً چار صدیاں پیچھے جانا ہوگا۔ اس وقت مسلمان جس تہذیب کے پرستادہ اور دلدادہ ہیں وہ تہذیب ان کی نہیں غیروں کی ہے اس کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ آج سے چار صدیاں قبل یورپ میں بادشاہ، جاگیر دار اور پوپ کے ظالمانہ اقتدار کے خلاف شدید ترین رد عمل کا زمانہ تھا، جس کے نتیجے میں بادشاہت اور جاگیر داری نظام کا مکمل خاتمہ ہوا۔
پوپ جو مذہبی نمائندہ تھا اس کے کردار کو گرجے کی چار دیواری تک محدود کردیا گیا۔پوپ کو گرجے تک محدود کرنے کے بعد اجتماعی معاملات سے مذہب کے کردار کو ختم کرکے گرجے تک محدود کردیا مذہب اور اس کے احکامات پر عمل کرنا شخص کا ذاتی اور پرائیوٹ مسئلہ قرار دیا گیا اور طے یہ کردیا گیا کہ سوسائٹی اپنے اجتماعی معاملات خود ہی طے کرے گی، اسے کسی بیرونی رہنمائی کی ضرورت نہیں۔ اس صورتِ حال کے نتیجے میں ’’سیکولرزم‘‘ کے نام سے ایک نیا طبقہ وجود میں آیا جوکہ رد عمل تھا پوپ اور جاگیرداری وبادشاہی نظام کے ظلم واستبداد کا۔ اس سیکولر فکر کو اس وقت مزید تقویت ملی جب مغرب میں صنعتی اور اقتصادی انقلاب آیا اور اس کے ذریعے سے مغرب دنیا پر حکمرانی کے لیے نکل کھڑا ہوا۔
مغرب نے مسلمانوں کے قدیم نظام حکومت اور نظام تعلیم کو ختم کیا اور اپنا معاشی، معاشرتی اور سیاسی نظام مسلط کیا:
مسلمان مملکتوں کو محکوم بنانے کے بعد مغرب نے بنیادی طور پر دو کام کیے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کے قدیم نظام حکومت اور نظام تعلیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور دوسرا ان پر معاشی، معاشرتی اور سیاسی وہ نظام مسلط کیے جو انہوں نے اپنے کند ذہن اور کچے تجربات کی روشنی میں تشکیل دئے تھے۔ نظام حکومت اور نظام تعلیم کی تبدیلی اور معاشرتی وسائنسی علوم کے طوفان کے ذریعے مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ سوچ بٹھا دی گئی کہ اگر آگے بڑھنا ہے تو ان علوم کو پڑھنا ہی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔اگر یہ حاصل نہ کئے گئے تو مسلمان دنیا میں سب سے پیچھے رہ جائیں گے۔
الغرض پھر حادثۂ فاجعہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے اپنے تہذیب، تمدن، روایات ورسومات سب کو ان علوم پر قربان کردیا۔ اپنی زبانیں بدل لیں، ثقافت کو دیس نکالا دے دیا، مذہب کو مسجد ومدرسہ تک محدود کردیا۔ اب اس کے بعد مسلمان دو طبقات میں بٹ گئے ،ایک وہ طبقہ جنہیں جدید تہذیب کی چکا چوند ترقی آنکھوں کو خیرہ کیے ہوئی تھی، انہوں نے اپنا معاشرتی کردار بلند کرنے کے لیے انہیں مغربی افکار کا سہارا لیا جبکہ دوسرا طبقہ وہ تھا جس نے اپنے مذہب، اپنی قدیم روایات، وثقافت اور عقائد کی حفاظت کو اپنا ہدف بنایا۔یہ دو راستے تھے اگرچہ دونوں کا مقصد ایک ہی تھا کہ مسلم معاشرے اور ثقافت کو ترقی دینا مضبوط کرنا ،مگر راہیں جدا ہونے سے ترجیحات بدل گئیں، جتنے آگے بڑھتے گئے اپنے معاشرے وتہذیب سے کٹتے چلے گئے۔ زبانیں تک بد لیں، لباس، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال، بناؤ سینگار سب کچھ امپورٹ کیا۔ جب اس جداگانہ سفر کا آغاز ہوا تھا تو کافی عرصے تک اس طبقے میں رمق وجوش اور مذہبی وثقافتی باقیات زندہ رہیں ،لیکن جیسے جیسے نئی نسلیں آئیں پرانی عہد پارینہ کا حصہ بنیں ،تو یہ خلیج بڑھتی چلی گئی۔ نئی نسلیں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کوجو قدیم روایات اور مذہب سے جڑے ہوئے تھے انہیں اجنبی سمجھنے لگیں۔
جدید نظام نہ صرف ان کے دلوں میں گھر کر گیا بل کہ لوگوں کو اس کی دعوت بھی دینے لگیں، پرچار بھی کرنے لگے۔ چلتے چلتے بات یہاں تک آن پہنچی کہ مذھب کو ’’ملاّ اِزم‘‘ کہنا شروع کردیا کوئی بھی شرعی بات آتی ہے تو کہہ کر جان چھڑ ا لیتے ہیں کہ یہ مولویوں کی داستانیں ہیں۔ مذھب کو پرائیویٹ زندگی تک محدود کردیا گیا؛ پانچ وقت کی نماز اور سال میں ایک بار زکوٰۃ دے لینا ہی سب کچھ سمجھ لیا گیا۔ پہلے معاشرے، معیشت، بازاروں سے دین نکلا، پھر گھروں سے بھی نکل گیا اور اب ذات اور پرائیویٹ زندگی سے بھی نکل چکا ہے، آج دین جاکر مساجد ومدارس میں محصور ہے اور یہاں بھی دنیا کی سیاست ڈیرے جمائے ہوئے ہے۔ ادھر دوسری طرف کے لوگ جنہوں نے مذھبی اور قدیم اسلامی روایات کی حفاظت کا بیڑہ اٹھایا تھا، انہوں نے کنارہ کشی اختیار کرلی؛ معاشرہ سے انہیں زیادہ سروکار نہ رہا، بس کہیں نکاح، یا جنازہ پڑھانے کی ضرورت پڑی تو حاضری دے دی، اگر کسی نے دکان کھول لی تو وہاں قرآن کو چند گھنٹوں میں ختم کرنے پہنچ گئے کسی نے مسئلہ پوچھ لیا تو ٹھیک ہے ورنہ مسجد ہے مدرسہ ہے ۔اللہ خیر سے اللہ۔
حاصل کلام یہ کہ جس طرح قوم نوح میں بت پرستی کا آغاز ہوا تھا اسی انداز سے مغربی افکار اور مغربی علوم نے علما اور عوام، دینی ودنیاوی طبقات میں تفریق پیدا کردی۔
جیساکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ قوم نوح میں بت پرستی کے آغاز سے متعلق فرماتے ہیں:
’’قوم نوح کے نیک افراد جب مرگئے تو شیطان نے ان کے عقیدت مندوں کو کہا کہ ان کی تصویریں بنا کر تم اپنے گھروں اور دکانوں میں رکھ لو؛ تاکہ ان کی یاد تازہ رہے اور ان کے تصور سے تم بھی ان کی طرح نیکیاں کرتے رہو۔ جب یہ تصویریں بنا کر رکھنے والے فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی نسلوں کو یہ کہہ کر شرک میں ملوث کردیا کہ تمہارے آباء تو ان کی عبادت کرتے تھے جن کی تصویریں تمہارے گھروں میں لٹک رہی ہیں، چنانچہ انہوں نے ان کی پوجا شروع کردی۔‘‘(صحیح البخاری، حدیث: 4920)
بالکل اسی طرح جدید مغربی تہذیب نے ایسا وار کیا کہ مسلمانوں کے جس طبقے نے مغربی نظام میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا تھا؛ تاکہ اس کے ذریعے اسلام کی خدمت کی جائے اسلامی معاشرے کو دنیا کے مقابلے میں لایا جائے ۔یہ سوچ اس وقت تک رہی جب تک اس سوچ کے افراد زندہ تھے جب وہ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی اولادوں کے ذہنوں میں بات ڈال دی کہ مذھب اور مولوی ازم سے تمہارا کیا سروکار تمہارے آباء و اجداد کی ترقی کا راز تو مغربی تہذیب ومغربی افکار میں پنہاں ہے۔ یہی تمہارے اباء واجداد کی ترقی کا باعث تھا لہذا تم جتنا اس راستے پرآگے چلتے جاؤ گے ترقی کی منزلیں طے کرتے جاؤ گے۔
دوسری طرف کا جو طبقہ تھا اس کے اخلاف یہ سمجھنے لگ گئے کہ ہمارا کام تو بس مسجد میں امامت، مدرسے میں تدریس تک محدود ہے۔ اسی سے انقلاب آئے گا یہیں سے دنیا بدلے گی؛الغرض اس طبقہ کی قربانیوں کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور یقینی طور پر جو راہ انہوں نے اختیار کی بڑی اعلیٰ وارفع راہ تھی، جس نے برصغیر پاک وہند میں اور دیگر استعمار سے متاثرہ ریاستوں میں علم کو، اسلام کو زندہ رکھا، مغربی تہذیب وثقافت کے تند وتیز حملوں اور طلاطم خیز موجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اور ہم یہ بات بڑے ہی عزم اور یقین سے کہتے ہیں کہ برصغیر میں اگر مدرسے نہ ہوتے تو یہاں مسلمان ہندو اور مغربی ثقافت میں دب جاتا۔ یقینا اس طبقہ کی بڑی جلیل القدر خدمات ہیں اور تمام امت اس کی معترف ہے۔
ہم کیسے تیراک ہیں جاکر پوچھو ساحل والوں سے
خود تو ڈوب گئے لیکن رخ موڑ دیا طوفانوں کا
لیکن ان کامرانیوں، کاوشوں اور ان کے بیش بہا نتائج کے باوجود یہ کہنا پڑتا ہے کہ عوام اور علما، دین اور دنیا میں پیدا ہونے والی خلیج میں یہ طبقہ بھی دانستہ یا نادانستہ حصہ دار ضرور ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس طبقہ کی معاشرہ سے جزوی یا کلی کنارہ کشی کے نتائج یہ نکلے کہ مغربی فکر نے تمام معاشرہ کو زہر آلود کردیا، زمانے کی زبان بدل گئی، اصطلاحات بدل گئیں، رہن سہن کے طور طریقے بدل گئے۔
اب صورت حال یہ ہوچلی ہے جس کا نقشہ ’’ماہنامہ الشریعہ‘‘ کے مضمون نگار نے بہت ہی عمدہ پیرائے میں کھینچا ہے علما اور مذھبی طبقہ سے متعلق کہتے ہیں:’’یہ حضرات اپنے دامن میں حق بھی رکھتے تھے اور حق کی حفاظت کے سب دلائل بھی ان کے پاس تھے، مگر زبان وماحول کی اجنبیت، لب ولہجہ کا فرق اور مروجہ اصطلاحات سے ناواقفیت کی بنا پر سیکولرزم کے علمبرداروں سے تو دور تھے ہی، معاشرے کے عام سمجھ دار افراد کی فکر اور سوچ کو بھی زیادہ متاثر نہ کرسکے اور عوام کا جتنا کچھ تعلق ان کے ساتھ رہ گیا تھا، وہ بھی محض عقیدہ کی بنیاد پر تھا۔‘‘(ماہنامہ الشریعہ، جلد ۹۱ شمارہ ۶ جون ۸۰۰۲)
لہٰذا سیکولر لوگوں کا وہی مطالبہ تھا جو مغرب میں پوپ سے کیا گیا تھا کہ اپنا دائرۂ عمل مسجد ومدرسہ تک محدود رکھو او ر مذہب کو سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے علیحدہ رہنے دو۔
الغرض یہ داستاں بہت طویل ہے اسباب دونوں طرف موجود ہیں اب ضروت اس امر کی ہے کہ اگر اہل علم اور عوام دونوں چاہتے ہیں کہ اسلام پھیلے پھلے، معاشرہ دوبارہ قرون اولیٰ کے خطوط پر استوار ہوجائے تو دونوں طبقوں کو ا ن اسباب کا تدارک کرن اہوگا جو فریقین کے مابین دوری کا باعث بنے ہیں ان کے ازالے سے ہی اور عوام اور علماء کے ادب واحترام کے رشتے کی مضبوطی سے ہی دین ترقی کرسکتا ہے ورنہ ہم سب عند اللہ پکڑے جائیں گے۔۔کیونکہ امت دراصل دو طرح کے لوگوں کی اقتداء کرتی ہے۔
علما اور امرا:
دین کے معاملے میں لوگ علما کی پیروی کرتے ہیں کیوںکہ علماء اسلام کی قولی یاعملی جیسی بھی تصویر پیش کرتے ہیں عوا م اسی کی تابع ہے اور دنیاوی امورمثلا سواری، گھر، جائداد، طعام وغیرہ میں ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا معیار امرا ء کا معیار ہو۔ اس لئے استعماری سازشوں نے اہل علم کو بدنام کیا اور امرا کو عیاشیوں اور شاہ خرچیوں پر لگادیا۔اب یہاں اہل علم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جہاں مسائل ہیں انہیں دور کرنے کی کوشش کی جائے عوام الناس کے سامنے خالص عملی اور علمی کردار پیش کیا جائے، تاکہ یہ خلیج کم سے کم ہو اور عوام ایک مرتبہ پھر سے علما کے حضور دو زانوں ہوکر بیٹھ جائیں۔
شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے فرمایا کہ: انگریز نے ہمارا تخت چھینا‘ ہمارا تاج چھینا‘ ہمارا دین چھینا‘ اور ہمیں دین پر معترض بنا کر چھوڑا۔
بابا شیخ سعدیؒ نے اپنے دور میں صحیح اور غلط علم کے فرق کو اس طرح بیان کیا ہے:سعدی بشوئے لوح دل از یاد غیر حق علمے کہ رہ دوست نہ نماید بطالت است ۔یعنی اے سعدی اپنے دل کو ذکر الٰہی کے علاوہ ہرچیز سے دھو ڈالو‘ کیوںکہ جو علم اللہ اور اس کے رسول کا راستہ نہیں دکھا تا وہ باطل اور فضول ہے۔(مقالہ:عوام اور علماء کرام میں خلیج!)
ثقافت غربیہ کا چیلنج اور علما کی ذمہ داری:
ثقافت کا لفظ تو بہت عام ہے مگر میں یہاں ثقافت غربیہ سے مغربی اقوام کی تقلید اور ان کی طرز زندگی مراد لیتا ہوں‘ چنانچہ ثقافت غربیہ بھی عصر حاضر کے بڑے چیلنجوں میںسے ایک خطرناک چیلنج ہے‘ مسلمانوں نے بالعموم اور عورتوں اور نوجوانوں نے بالخصوص اس فتنہ کو اس طرح قبول کیا ہے کہ ہر چھوٹے بڑے کے دل ودماغ پر اس کا بھوت سوار ہوگیا ہے‘ مغربی ممالک میں ایک دن اگر لباس کا کوئی نیا فیشن آتا ہے، تو دوسرے دن مسلم مرد وخواتین اس کو قبول کرتے ہیں اور پھر اس پر فخر بھی کرتے ہیں‘ خواہ اس فیشن کا تعلق رقص وسرور سے ہو یا لباس اور ہیرسٹائل سے ہو‘ خواہ اس کا تعلق کھانے‘ پینے سے ہو یا چلنے پھرنے اور اٹھنے بیٹھنے سے ہو‘ خواہ اس کا تعلق میل ملاقات سے ہو یا القابات وخطابات سے ہو‘ اس طرح مسلم معاشرہ اپنے تاریخی ورثہ سے دور چلا گیا اور وہ مغرب ویورپ کے معاشرہ میں کھپ کر گم ہوگیا، جس کے ساتھ ساتھ اس کے اقدار واطوار بھی تباہ ہوگئے اور اس کی عزتیں اور عظمتیں بھی پامال ہوگئیں‘ اب حالت یہ ہے کہ آج کے نوجوان اپنی گذشتہ عظمتوں پر فخر کرنے کے بجائے شرم محسوس کرتے ہیں۔
اس طرح کے فتنوں کے سامنے علمائے کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی ثقافت اور اسلامی معاشرت کو زیادہ اجاگر کرائیں اور واضح الفاظ کے ساتھ اپنی تحریر وتقریر میں جاہلیت اولیٰ اور جاہلیت ثانیہ جدیدہ کے فرق کو عوام کے سامنے پیش کریں اور اپنے اسلاف کے زرین اصولوں کو خود بھی اپنائیں اور دیگر مسلمانوں کو بھی بتائیں۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق سے جب حضرت ابوعبیدہ بن الجراح نے شام کے پادریوں سے ملاقات کے وقت لباس تبدیل کرنے کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا: ’’الحمد للّٰہ الذي اعزنا بالاسلام‘‘ یعنی تمام تعریفیں اس پروردگار کے لئے ہے، جس نے ہمیں اسلام کے ذریعہ سے عزت عطافرمائی ہے۔ اسی طرح عراق کے گورنر حضرت حذیفہ بن یمان سے جب عراق کے چوہدریوں کے سامنے کھانے کے انداز تبدیل کرنے کی درخواست کی گئی، تو آپ نے بلند آواز سے کہا ’’أأدع سنۃ خلیلی لہؤلاء الحمقاء‘‘کیا میں ان احمقوں کی وجہ سے اپنے محبوب ا کی سنت کو چھوڑدوں؟
ایک طرف تو ہمارے اسلاف کی خود اعتمادی کا یہ نقشہ ہے اور اسلامی ثقافت کا یہ مظاہرہ ہے اور دوسری طرف یورپ ومغرب کی ثقافت کے دلدادہ ہمارے وہ نام نہاد مسلمان ہیں جو مغرب کی ثقافت اپنانے کی قسم کھاتے ہیں ؛الغرض اس طرح آوارہ لوگوں کو راہِ راست پرلانے کے لیے علما پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ٹھوس بنیادوں پر معاشرہ کی تشکیل کریں اور اس کی صحیح رہنمائی کریں اور آداب شریعت اور اسلامی ثقافت کی نشاندہی کریں؟(مقالہ:عصر حاضر کے چیلنج اور علماء کرام کی ذمہ داریاں)