مفتی عبد القیوم صاحب مالیگانوی
بے رونقی اور اجڑے پن کا مرثیہ:
اس پوری کائنات کے نظام میں کچھ بنیادیں بہت اٹوٹ اور مستحکم ہیں، جن پر مکمل نظام ہستی گردش کررہا ہے ۔جن میں سورج سے گرمی اور چاند سے خنکی موجود ہے، تو اسی طرح ہوا اور پانی ان سے کہیں زیادہ ضروری ہے ۔ پھر ان دونوں میں بھی پانی تو ہر شئ جاندار وبے جان کی جان ہے ، جس کے بغیر جاندار مخلوقات کی زندگی ناممکن اور بے جان مخلوقات کی تازگی متاثر …اسی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمان {وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَائِ کُلَّ شَئٍْ حَیٍّ}میں ارشاد فرمایا۔…بل کہ شجر و حجر کی رعنائی، چمک دمک اورہریالی اسی کی مرہون منت ہے ۔ پانی نہ ہوتو سارے باغات اپنی بے رونقی اور اجڑے پن کا مرثیہ گائے ، جس کے بغیر پھول اور پھلواریاں مرجھائے، جس کے دم سے پرندوں کی چہچہاہٹ ، کسانوں کی مسکراہٹ ، مزدوروں کی راحت اور اہل تجارت، یعنی بیوپاریوں کی جگمگاہٹ ، بازاروں کی رونق اور سوداگروں کے اسفار جڑے ہوئے ہیں ۔ اسی نافعیت اور ضرورت کے پیش نظر اللہ مالک و مختارنے اسے خوب آسان، ممکن الحصول ، قابل استعمال اور ہر جگہ مہیا فرمایا ۔ اور اپنی کائنات میں پانی کے نظام کو ایسا محیر العقول بنایا کہ ساری دنیا کے اہل عقل وخرد اور فلاسفر مل کر سر جوڑ کر اس کے جمع اورحفاظت کا انتظام کرنا چاہیں تو بالکل نہیں کرسکتے تھے اور پھر مخلوقات کی زندگی اجیرن اور دوبھر ہوجاتی ۔
یہ سب اسراف و ناقدری کی وجہ سے ہورہا ہے :
چناں چہ اللہ نے پانی کو آسمانوں سے برسایا ۔پہاڑوں ، آبشاروں ، جھیلوں اورتالابوں کے ذریعہ اسے نہ صرف محفوظ کیا ،بل کہ ساتھ ہی اسے صاف اور قدرتی ہواؤں سے فلٹر بھی کیا تاکہ مخلوقات کسی طرح کی وبا اور تعفن وآلودگی کا شکار نہ ہونے پائیں ، اسی کے ساتھ زمین کے پیٹ کو پانی کا غیر معمولی خزانہ اور اسٹاک روم بنادیا ۔ اور انسانوں کو دماغ دے کر زمین کی گہرائیوں سے اس کا نکالنا آسان فرمادیا۔ لیکن آج اس کی یہی فراوانی وکثرت اس کی ناقدری کا سبب بن گئی ،جب کہ کسی چیز کی کثرت وارزانی اس کی ناقدری کا سبب نہیں ہونا چاہیے ، کیوں کہ ناقدری محرومی کا دروازہ کھولتی ہے ۔ اس وقت اس نعمت حیات بخش کے استعمال میں انتہائی اسراف کا معاملہ ہے ، اسی اسراف و ناقدری کی نحوست کی وجہ سے بہت سارے علاقے پانی کی زبردست قلت اور فقدان کا شکار ہوگئے اور بوند بوند کو تر سنے لگے اور ضروریات کے لیے دوسرے علاقوں سے اس کی خریداری پر مجبور ہوگئے ۔پانی کی قدر ان سے معلوم کیجیے جن کو پینے کے لیے کئی کئی کیلو میٹر سے سروں پر اٹھا کر لانا پڑتا ہے ۔
انسان تیار نہیں ہے :
اب جب کہ موسم باراں شروع ہوچکاہے اورابھی بھی بہت سارے علاقے ایسے ہیں جو بارش کی راہ تک رہے ہیں چرندو پرند، بل کہ درندے بھی بے چین وبے قرار ہیں ، لیکن انسان خواب غفلت اور اپنی لاپرواہی کے خول سے نکلنے کو تیار نہیں ۔ نہ کوئی فکر ہے، نہ ہی گناہوں سے توبہ اور نہ ہی اپنی معصیت بھری زندگی پر ندامت؛ حالاں کہ توبہ وندامت ہی وہ واحد راستہ ہے ،جو ہمیں اس اضطراب اور طوفان سے باہر نکال سکتا ہے ؛کیوں کہ ارشاد خداوندی ہے {اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ اِنَّہُ کَانَ غَفَّارًا o یُرْسِلِ السَّمَائَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًاo وَیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْہَارًا }کہ مولائے کریم اور روٹھے ہوئے آقا کو استغفار وتوبہ کے راستے سے راضی کرلو۔ شرمندگی کے آنسوؤںاور معصیتوں سے معافی کی بھیک اوررب کو مناکر نظام آسمان کو اپنا مطیع بنالو، پھر دیکھو کیسے موسلا دھار ابر کرم برستاہے ۔ اور مال واولاد کس طرح سے پھلتی اور بڑھتی ہیں اورباغات کی شادابی اورنہروں کی روانی پھرکس طرح واپس آتی ہے ۔ اللہ پاک ارشاد فرمارہے ہیں : {وَتُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَا الْمُوْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ }مزید فرماتے ہیں : {یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَصُوْحًا عَسیٰ رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰ تِکُمْ }کہ اجتماعی و انفرادی دونوں طریق سے بارگاہ ایزدی میں توبہ کا دامن پسارو پھر دیکھو کہ فلاح و کامرانی کیسے تمہارا استقبال کرتی ہے اور سیئات و گناہوں سے صفائی اور دھلائی کیسے ہوتی ہے ، لیکن ان سچے اور مولیٰ کے پیار بھرے ارشادات پر کون کان دھرے ، توبہ کے لیے کون وقت نکالے اور ندامت کے آنسوکیوں کر بہائے کہ معصیتوں کی لذت اور حصول مال وزر کی دھن نے یکسر غافل بنا رکھا ہے کہ اس کام کے لیے فرصت ہی نہیں ملتی ہے۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ دنیا کی مصروفیات ،فضولیات اورلغویات کی دوستی نے اپنی اولاد، بل کہ اپنے فرائض وواجبات سے بھی محروم اور دور کردیا ہے ۔ اے کاش کہ ہمیں احساس ہوجائے اور ہم اپنی ملی و شرعی ،بل کہ انسانی ذمہ داریوں کو بحسن خوبی پورا کریں اور بندگی کے سارے تقاضوں کی مکمل پاسداری وتکمیل کے لیے بسر و چشم جھک جائیں۔
بہت ہی اچھے لگتے ہیں :
یقینا توبہ وہ عظیم راستہ اورایسی مقناطیسی قوت کا نام ہے ،جو تائب اور شرمندہ بندے کو گناہوں سے صفائی کے ساتھ احساسِ ذمہ داری سے بھی آگاہ وسرشار کردیتی ہے، بل کہ آقا و مولیٰ کی توجہات وعنایات کا اس کو مورد وحق دار بنادیتی ہے ۔ اس لیے کہ توبہ کرنے والے بندے کا عاجزی ومسکنت اوراپنی بے بسی ومجرمانہ حالت میں اپنے رب کو اے رب !میرے مولیٰ!میرے اللہ ! جیسے پیار بھرے جملوں سے پکارنا بہت ہی اچھا لگتا ہے، جن سے ان کی رحمت کے فوارے ابلنے لگتے ہیں ، پھر مرادوں کا پورا ہونااور امیدوں کا برآنا بہت آسان، بل کہ یقینی بن جاتا ہے۔
دور فاروقی میں شرابی کا واقعہ :
چناںچہ دور عمررضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ بہت ہی عبرت آمیز اور نصیحت سے پر ہے ۔ ایک شخص جو کہ شراب کا عادی تھا ، شراب کی بوتل ہاتھ میں لیے راستہ چل رہا تھا ، اتفاق اسی راستے پر سامنے سے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لارہے ہیں، جب کہ حرمت شراب نازل ہوچکی تھی ۔ اب یہ آدمی دم بخود اور حیران و پریشان ،بل کہ اپنی جان کو خطرہ میں یقینی سمجھ رہا ہے ، کیوں کہ عمر ؓ جب شراب دیکھ لیںگے تو سوائے قتل کے کوئی اور فیصلہ صادر نہیں فرمائیںگے ۔ اب دل ہی دل میں تو بہ کے الفاظ اورجملے کہہ رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ایسا شخص، جس کی جان ہتھیلی پر ہو کس آہ وزاری اورکس لجاجت و شرمندگی کے ساتھ دعا کرے گا ،وہ محتاج بیان نہیں ۔ حاصل یہ ہے کہ اس نے سچی پکی توبہ کی اورعمر رضی اللہ عنہ بھی قریب آگئے جوسوال ہونا تھا وہ کیا، رب کریم نے اس کی ندامت اورتوبہ کو قبول کرلیا اور حقیقی شراب کی بوتل کو دودھ سے تبدیل کردیا ۔ کریم آقا آج بھی کریم ہے اور اس کا کرم کبھی زنگ آلود نہیںہوتا اور نہ گردش زمانہ سے متاثر ہوتا ہے کیو ں کہ وہ اپنی ذات کی طرح اپنی صفات میں بھی قدیم ہے ۔
جب کچھ نہیں تھا وہ تھا، جب کچھ نہ رہے گا وہ رہے گا ۔ وہ لم یزل اور لایزال ہستی ہے ، جس کے حضور سرنگوں ہونا ہی ہماری معراج ہے جسے سب سے محبوب ہماری ندامت کے دو قطرے ہیں ،جن کا وہ بڑا قدر دان ہے۔ چناں چہ کہا گیا ؎
موتی سمجھ کر شان کریمی نے چن لیے
قطرے میرے جو تھے عرق انفعال کے
ہماری حقیقت فٹ بال جیسی ہوکر رہ گئی:
آج جب کہ امت مسلمہ کی بڑی تعداد زمانہ کے تمام اسباب ظاہر اور متاع حیات سے لبریز ہے ، لیکن پھر بھی بے وقعت ظاہری دبدبہ اور باطنی رعب سے عاری ہوکر دنیا کے لیے کھیل کود، موج مستی کا کھلونابنی ہوئی اور فٹ بال کی طرح ہر جہت ہر محاذ پر ماری جارہی ہے ،کیوں؟ اس لیے کہ اس نے اپنی متاع حقیقی ، قوت جاودانی اور انمول طاقت یعنی تعلق مع اللہ اور قرب خداوندی کو فراموش کردیا ہے، بل کہ اس سے محروم کردی گئی ہے، جس کا بڑا راستہ انابت الی اللہ اور تضرع ومناجات ہے ، جس کے لیے اس وقت امت کے پاس وقت نہیں ،اس کے نزدیک جس کی کوئی اہمیت نہیں ، جب کہ وہ ہماری حقیقی قوت کا سرچشمہ ہے ۔
انابت الی اللہ کی ضرورت:
ان حالات ناگفتہ بہ میں اشد ضرورت ہے کہ ہم رب کریم کی بارگاہ کریمی ورحیمی میں کیفیت حضوری کے ساتھ حاضری دے کر، لذت مناجات سے سرشار ہوکر اشک ندامت ایسے گرائیں کہ اسے ضرور ہم پر پیار ، ترس اور رحم آجائے ۔ جیسا کہ ایک سوالی اور گداگر کسی دنیا دار سخی کے درپر سراپا سوال اور مجسم ضرورت بن کر اپنا دامن مراد ضرور بھر ہی لیتا ہے ،اس سے کہیں زیادہ اس کریموں کے کریم سخیوں کے سخی کے سامنے دستہ بستہ دعاؤں ، التجاؤں اور توبہ ومناجات کی حاجت ہے، جوا س کی ذات کریم کو ہماری طرف متوجہ کرے۔ اور ہماری مشکلات ومصائب کافور ہوجائیں۔
آخری بات :
اس لیے ہمیں کثرت سے توبہ و استغفار میں لگے رہنا ہے؛ تاکہ موسم باراں میں نظام آسمان ہمارے حق میں جاری و ساری رہے ۔ اور ہمیشہ پانی جیسی انمول نعمت کی قدر دانی کرنا ہے؛ تاکہ موجودہ مشکلات کا ہمیں پھر کبھی سامنا نہ کرنا پڑے، کیوں کہ ناقدری پرنعمتیں یا تو سرے سے چھن جاتی ہیں یا پھر گھٹادی جاتی ہیں، جیسا کہ { لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ} سے واضح ہوتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ تمام امت مسلمہ کے ساتھ ہمیں بھی توفیق عمل عطا فرمائے ۔ آمین !