اداریــہ:
مولانا حذیفہ ابن مولانا غلام محمد صاحب وستانویؔ
اللہ رب العزت نے اس کائنات کو بنایا اورحضرت انسان کو اس میں اشرفیت عطا کی ۔ کائنات کی ہر چیز انسان کے لیے بنائی اس طور پر کہ ہر چیز کا تعلق بلاواسطہ یا بالواسطہ انسان ہی کے نفع سے ہے یا اس سے مضرت کو دور کرنے سے ہے ، مگر انسان اس دنیا میں آزمائش کے لیے پیدا کیاگیا ہے ؛البتہ ہر زمانہ کی آزمائش الگ الگ ہوتی ہے ۔
دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں وسائلِ دنیویہ نقل و حمل اور آلاتِ حرب وغیرہ اتنے زیادہ ترقی یافتہ نہیں تھے تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی آزمائش ہجرت کے ذریعہ کبھی حکم ِجہاد کے ذرریعہ ہوئی ۔ اور اب ہمارے زمانے میں وسائل دنیویہ کی بہتات اور خوب فراوانی ہے، تو آزمائش وسائلِ جدیدہ کے صحیح اور غلط استعمال کے ذریعہ ہورہی ہے ۔کلی طور پراس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اب ہم ہجرت اور جہادسے آگے ہیں ، بل کہ یہ اکثری حالت پر محمول ہے یعنی اب بھی ضرورت پڑے اور شرائط پائی جائے تو صحابہ کی طرح ہم پر بھی ہجرت اورجہاد فرض ہوگا ، مگرعام حالات میں آزمائش وسائل اور جدید ٹیکنالوجیز کے صحیح استعمال کی صورت میں ہے ۔ صحابہ نے اُس دور میںجو احکامات ان پر فرض کیے گئے، انہیں اللہ کی مرضی کے مطابق کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی کرلیا تو اب ہم بھی مادیت اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں احکام خداوندی پر عمل پیرا ہو کر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کریں اور دنیا و آخرت میں سرخ روئی حاصل کریں۔ ان شاء اللہ ! ہمت کریں گے تو سب آسان ہوجائے گا ، صحابہ نے ہمت کی تو مشکل سے مشکل کام بھی ان کے لیے آسان ہوگیا۔ آج بھی وہی اللہ ہے، جو صحابہ کے دور میں تھا اور اس کا قانون اور دستور بھی وہی ہے جواس زمانہ میں تھا {وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً} تو آئیے پر فتن دور سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بشارتیں دی ہیں، اسے معلوم کریں اور مشاکل سے بچنے کی جو راہیں بتائی ہیں اسے جان کر اختیار کرنے کی کوشش کریں۔
فتنوں کے دور میں اطاعت اور عبادت پر اجر کیوں زیادہ ؟ :
قبل اس کے کہ ہم دورِ فتن میں بچنے کی تدابیر جاننے کی کوشش کریں، فتنوں کے دور میں اعمال صالحہ کے لیے جو جد وجہد اور مشقت اٹھانی پڑتی ہے، اس کے عوض جو کثر تِ ثواب کی بشارتیں احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں اس سے واقف ہوتے ہیں ؛تاکہ ہمیں حوصلہ ملے اور ہم تمام تر بدترین حالات کے باوجود اپنے آپ کو بھلائی کے راستے پر ڈالنے کی کوشش کریں۔
’’المؤنۃ بقدر المشقۃ ‘‘ یعنی جتنی زیادہ مشقت اٹھانی پڑے گی اتناہی اجر وثواب زیادہ ملے گا ۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کے دور میں آنے والے مسلمانوں کو کثرت ِثواب کی بشارت دے کر اعمالِ صالحہ کی طرف راغب کیا ہے۔
فتنوں کے دور میں اطاعت اور عبادت کے فضائل
عبادت کا اجر ہجرت کے برابر:
عن معقل بن یسار رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’العبادۃ فی الہرج کہجرۃ إلیَّ ‘‘ (مسلم)
اسی روایت کو طبرانی نے ’’ العمل فی الہرج کہجرۃ الیَّ ‘‘(مسند احمد ،معجم کبیر طبرانی )اور ایک جگہ پر یہ الفاظ ہے ’’ العبادۃ فی الفتنۃ کہجرۃ الیَّ ‘‘ (مسند احمد ، معجم کبیر طبرانی )
الہرج کے معنی کثرت کے ہیں ۔ اوراحادیث میں وارد ’’ ہرج ‘‘ سے مراد کثرتِ قتل اور کثرتِ اختلاط ہے۔(ابن منظور : لسان العرب : ۲/۳۸۹)
الدکتور سالم جمال الہندی اپنے مقالہ ’’ فضل العبادۃ فی زمن الفتن‘‘ میںلکھتے ہیں:کہ فتنوں کے دور میں عبادت پر کثرتِ فضیلت اس لیے وارد ہے کہ عام طور پر لوگوں کی اکثریت غفلت کا شکار ہوتی ہے اورعبادت سے جی چراتی ہے اور بہت کم افراد ایسے ہوتے ہیں، جو عبادت سے دل چسپی رکھتے ہیں ۔ (الألوکۃ ویب سائٹ)
کثرتِ اجر کیوں؟
امام حجر عسقلانی ؒ نے امام قرطبی کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ: فتنوں کے دور میں دین پر قائم رہنا اورلوگوں سے زیادہ میل جول نہ کرنا کثرت ثواب کا سبب ہے اور اس کا اجر ہجرت کے مانند ہے ۔ گویا کہ اس نے صحابہ کے طرز عمل کو اختیار کیا ؛صحابہ نے اپنے دین کو بچانے کی خاطر اپنے وطنِ عزیز کو ترک کیا۔ معاشرہ میں چوں کہ تمام لوگ اپنی اپنی دنیا میں مست ہوںگے ، ان کو عبادتِ خداوندی اور اطاعت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا ، اب ایسے ماحول میں جب کوئی عبادت اور طاعت کرے گا تو اللہ اسے اجر عظیم سے نوازے گا ۔ (فتح الباری :۷۵/۱۳)
اس کو ہجرت کے برابر اجر اس لیے حاصل ہے ،گویا اس نے ہجرتِ معنوی کا فریضہ انجام دیا اورمخلوقاتِ خداکو ان کے بد اعمالیوں میں چھوڑ کر خود اپنے خالق اور مالک اللہ کی طرف ہجرت کر گیا اور اس کی اطاعت وعبادت میں لگ گیا ۔ اسی کو ایک حدیث میں کہا گیا ہے : والمہاجر من ہجر مانہی اللّٰہ عنہ۔(البخاری) یعنی حقیقی ہجرت اللہ نے جن چیزوں سے منع کیا ہے اسے چھوڑ نا ہے ۔
علامہ مناوی فرماتے ہیں کہ: اس لیے یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ جیسے دورِ اول میں ایمان لانے والے بہت کم تھے ، لہٰذا ہجرت کرنے والے بھی کم ہوئے تو فتنوں کے دور میں بدی کو چھوڑنے والا کم اور بدی کرنے والے زیادہ ہوںگے ۔ (الفیض القدیر : ۴/۳۷۳)
امام ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ جب فتنے عام ہوجاتے ہیں ،اکثر لوگوں کی دل چسپیاںگناہوں اور برائیوں سے وابستہ ہوجاتی ہیں ۔ گویا ماحول بالکل بگڑ جاتا ہے ، مگر ایسے حالات میں بھی اگر کوئی عبادت پر آمادہ ہوجاتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ واقعتا اسے اللہ رب العزت کے ساتھ دل سے محبت اور عشق ہے ؛لہٰذا اسے اجربھی زیادہ دیا جائے گا ۔ (کشف المشکل :۲/۴۲)
امام ابن رجب فرماتے ہیں کہ فتنوں کے دور میں عبادت کو ہجرت کے برابر اس لیے قرار دیا گیا کہ عام طور پر لوگ پر فتن دور میں نفسانی خواہشات کے عادی ہوجاتے ہیں اور دین کی طرف التفات نہیں کرتے ، تو ان کی کیفیت اور حالت دور ِجاہلیت کے لوگوں جیسی ہوجاتی ہے اور پھر ایسے میں جواِکاَّ دُکاَّ افراد دینِ اسلام سے وابستہ ہوجاتے ہیں اور پابندی کے ساتھ اللہ کی عبادت میں منہمک رہتے ہیں اور اللہ کی مرضیات پر چلتے ہیں اور اللہ کی ناراضگی والے اعمال سے دور رہتے ہیں ؛گویا وہ بھی ان صحابہ کرام رضو ان اللہ علیہم اجمعین کے بہ منزلہ ہوجاتے ہیں؛ جنہوں نے جہالت کی تاریکی کو خیر آباد کہہ کر ،جاہلوں سے کٹ کر ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاکر ،آپ کی اتباع کرکے آپ کی طرف ہجرت کی ۔
خلاصہ یہ کہ موجودہ دور فتنوں کا دور ہے ۔ عام طور پر پوری امت عبادت اور طاعت خداوندی کے باب میں غفلت اور کاہلی کا شکار ہے ؛لہٰذا ہمت کرکے اپنے آپ کو عبادت کا عادی بنانے کی کوشش کریں اور ہجرت کے برابر اجر کے مستحق ہوں ۔ اللہ ہماری عبادت کو آسان بنائے اور ہمارے دلوں کو جذبۂ عبادت وطاعت سے سرشار فرمائے۔ آمین !
فتنوں کے دور میں دین پر عمل کرنے والے کو ۵۰؍ صحابہ کے برابراجر کا وعدہ:
ایک حدیث تو فتنوں کے دور میں حوصلہ دلانے کے لیے بڑی عجیب وارد ہوئی ہے اور وہ صحیح روایت بھی ہے ۔ مختلف الفاظ میں وہ حدیث کچھ اس طرح ہے :
عن عتبۃ ابن غزوان رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : ’’ إن من ورائکم ایام الصبر للمتمسک فیہن یومئذ بما انتم علیہ اجر خمسین منکم۔ قالوا: یا نبی اللہ! أو منہم؟ قال بل منکم ‘‘ (کتاب السنۃ ابن نصر )
یہی روایت حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی کچھ اضافہ کے ساتھ یوں مروی ہے : ’’ إن من وارائکم ایام الصبر الصبر فیہن کقبض علی الجمر للعامل فیہا أجر خمسین۔ قالوا: یارسول اللہ اجر خمسین منہم او خمسین منا؟ قال خمسین منکم ‘‘ (رواہ البزار ) اور طبرانی کی روایت میں ہے ’’ للمتمسک اجر خمسین شہیدا۔ فقال عمر: یارسول اللہ منا او منہم؟ قال منکم ‘‘ اس طرح کی ایک مزید روایت حضرت ابو ثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ سے اس طرح مروی ہے : ’’ بل ائتمروا بالمعروف وتناہو عن المنکر حتی إذا رأیت شحا مطاعا وہوی متبعاً ودنیا مؤثرۃ وإعجاب کل ذی رأی برأیہ فعلیک نفسک، ودع أمر العوام ،فإن من ورائکم ایاماً، الصبر فیہن مثل القبض علی الجمر، للعامل فیہن مثل اجر خمسین رجلاً یعملون مثل عملہ۔(قال وزادنی غیرہ)یارسول اللہ أجر خمسین منہم قال خمسین منکم (ابو داؤد)
بل کہ ایک روایت میں ہے من ورائکم أیام الصبر للمتمسک فیہن یومئذ بمثل ما انتم علیہ، لہ کأجر خمسین منکم قالوا یا نبی اللہ او منہم قال بل منکم ثلاث مرات او اربع۔ (الطبرانی الہیثمی )
تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ ؓ سے کہا کہ تمہارے بعد بڑا صبر آزما دور آنے والا ہے، اس میںدین پر جمے رہنا انگارے کو پکڑے رکھنے کے مترادف ہوگا ۔ ایسے دورفتن میں نیکی کرنے والے کو صحابہ میں سے ۵۰؍ صحابہ کی نیکی پراجر کے برابر ثواب دیا جائے گا ۔ صحابہ نے دریافت کیا کہ ان میں سے پچاس ؟تو فرمایا: نہیں! نہیں! تم میںسے پچاس کے برابر اجر ہوگا ۔ بعض روایت میں ہے کہ آپ نے اس بات کو تین یا چار بار دہرایا ۔
بعض روایات میں ایسے زمانے کی علامتیں بھی بتلائی گئی ہیں ۔مثلاً:
۱- نفسانی خواہشات کی پیروی کا عام ہونا ۔
۲- محرمات کے طرف لوگوں کا لپکنا اور جو اللہ نے دیا ہو، اس پر قناعت نہ کرنا ، یہ ’’شح مطاع‘‘ ہے۔
۳- حبّ دنیا کا غالب آجانا ، ’’دنیا مؤثرۃ ‘‘سے اشارہ ہے ۔
۴- اور ہرآدمی کا اپنی رائے اور فیصلہ پر اڑجانا ۔
بعض روایات میں تو دین پر جمنے والے کو ۵۰؍ شہید صحابہ کے برابر اجر کا ذکر ہے؛ جیسا کہ مجمع الزوائد اورمسندبزار میں ہے ۔
مذکورہ متعدد احادیث سے فتنوں کے دور میں استقامت علی الدین پر بے پنا ہ اجر کا وعدہ ہے ؛ لہٰذا ہمیں حالات سے دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ، بل کہ صبر سے کام لے کر دین پر جم جانا چاہیے اور مجاہدہ کرکے حدیث میں مذکور اجرِ عظیم سے مالا مال ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔
یہاں ایک امرکی وضاحت ضروری ہے وہ یہ کہ ۵۰؍ صحابہ کے برابر اجر کا یہ مطلب نہیں کہ ان سے افضل یہ لوگ ہوجائیںگے ؛بل کہ اس کا مطلب اجر اتنا زیادہ ملے گا ، البتہ افضلیت میں تو صحابہ سے آگے انبیا کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا ؛جیسا کہ علامہ ابن حجر عسقلانی ؒنے وضاحت کی ہے ۔ آپ تحریر فرماتے ہیںکہ ’’ العامل منہم اجر خمسین منکم لایدل علی افضلہ غیر الصحابۃ علی الصحابۃ لان مجرد زیادۃ الاجر لا یستلزم بثبوت الافضلیۃ ۔‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھے بغیر ایمان لانے والوں کے لیے سات مرتبہ بشارت :
اسی طرح ایک حدیث ہے:
عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان رجلا قال لہ یا رسول اللہ طوبیٰ لمن رأک وآمن بک۔ قال صلی اللہ علیہ وسلم: طوبی من رآنی وآمن بی، ثم طوبی ثم طوبی ثم طوبی، لمن آمن بی ولم یرنی ۔
(مسند ابی یعلیٰ ، المجمع الزوائد ، مسند احمد )
حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو امامہ کی روایت میں تو وطوبیٰ لمن لم یرنی وآمن بی سبع مرات ۔سات مرتبہ ہے(مسند احمد، طبرانی ، ابن عبد البر ، الاستذکار )
اس حدیث میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام اپنے امتی کے لیے بشارت دی ہے ، جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے، تو ان کے لیے کہیں ۳؍ مرتبہ کہیں ۷؍ مرتبہ بشارت دی ۔ یہ سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے کہا کہ کہیں صحابہ کی فضیلت کو سن کر بعد میں آنے والے مایوس نہ ہوجائے، تو آپ نے کہا کہ اگر چہ افضلیت میں ان کو نہیں چھوسکتے ہو ، مگر اجر و ثواب میں ان کے قریب پہنچ سکتے ہو؛ لہٰذا حالات سے نہ گھبراکر تعلیماتِ اسلامیہ پر عمل کرنا ۔ بس اللہ تمہیں بے حساب اجر سے نوازے گا، اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ۔
فتنوں کے دورمیں اطاعت اور عبادت پر بے شمار فضائل اور احادیث ذکر کی گئیں، اب جب اسے پڑھ کر عبادت خداوندی کا شوق پیدا ہو تو مسلمان سوچتا ہے کہ یہ سب تو ٹھیک ہے، مگر اتنے پرخطر اور ہولناک فتنوں سے آخر بچنے کی کیا تدابیر ہوسکتی ہیں تو آئیے احادیث ہی کی روشنی میں بنیادی تدابیر جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔
فتنوں سے بچنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں
طاعت اور عبادتِ خداوندی کا خوگر بننا:
۱- مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اطاعت وعبادتِ خداوندی کا خوگر بنائے ، بجائے اس کے کہ اپنے اوقات بے فائدہ امور میں خرچ کرے ، اللہ کی عبادت میں لگے۔ مثلاً: نماز باجماعت کا مکمل اہتمام کرے ، سنن رواتب کا اہتمام کرے ، اپنے آپ کو ذکراللہ کا عادی بنائے؛ جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا کہ فتنوں کے دورمیں عبادت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب ہجرت کے مترادف ہے ۔ حضرات صحابہ کے برابر ۵۰؍ گنا اجر ملے گا ،یہ اس لیے تاکہ اطاعت اور عبادت کی طرف رغبت ہو۔
فتنوں میں مبتلا کرنے والے امور سے دور رہنا :
۲- فتنہ میں مبتلا کرنے والی چیزوں سے دور رہنا ۔ حدیث میں ہے کہ جو فتنہ میں مبتلا کرنے والی چیزوں سے تعرض کرے گا وہ اس میں مبتلا ہوجائے گا، لہٰذا ہرایسی چیز سے دور رہنا چاہیے جو فتنہ کی طرف لے جائے۔ مثلاً: مسلمانوں میں کسی مسئلہ میں اختلاف اور انتشار ہو تو اس سے دور رہے ،ورنہ آپ بھی اس کی لپیٹ میں آجائیںگے۔کسی بھی قسم کا فتنہ سر اٹھائے تو اس سے اپنے آپ کو الگ کرلیں ، جیسے آج علما کو بھی سیکولر بتانے کے لیے مختلف قسم کی کانفرنسیں کی جارہی ہیں ،تو دیکھیے کہ اس کے منعقد کرنے والے افراد کون ہیں ، ان کے نظریات اور مقاصد کیا ہیں ؟ اور جب نظر آئے کہ یہ راہِ راست سے ہٹے ہوئے ہیں تو اپنے آپ کو اس سے دور رکھیں۔ وغیرہ …
دعائووں کا اہتمام:
۳- فتنوں سے بچنے کی دعاؤں کا اہتمام کرنا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی آخری زندگی میں کثرت سے فتنوں کی نشان دہی کی اورساتھ ہی ساتھ ایک موقع پر صاف ارشاد فرمایا : یاتی علیکم زمان لاینجو فیہ الا مَنْ دَعا کدعاء الغریق۔(مستدرک علی الصحیحین)’’کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس میں وہی شخص فتنوں سے نجات پائے گا جو ڈوبنے والے کی طرح دعا کرے گا ‘‘۔ یعنی فتنے اتنے سخت اور ہولناک ہوںگے کہ دعا کے علاوہ کوئی چیز ان فتنوں سے انسان کو نہیں بچا سکے گی ۔ اگر ہم حالات کا بغور جائزہ لیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ کچھ ایسے ہی حالات بنتے جارہے ہیں ، ہر جگہ مسلمانوں پر زمین تنگ ہورہی ہے ، انہیں ہر جانب اور ہر طریقہ سے پریشان اور مشکل میں ڈالنے کی ہر ممکن کوشش ہورہی ہے ؛مگر ایسے حالات میں مسلمانوں کو مایوس نہیں ہونا چاہیے ، بل کہ اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ۔ دعا ہمارے لیے سب سے مضبوط ہتھیار ہے ، مگر افسوس کہ ہم اس پہلو کو نہیں اختیار کررہے ہیں ۔ ایک بار ہم نماز ، روزہ ، زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ ذکر اللہ اور دعا کا اہتمام اگر شروع کردیتے ہیں، تو ان شاء اللہ اللہ کے وعدے کے مطابق ہمارے تمام مسائل حل ہونے لگیںگے اورمشکلات سب کافور ہونے لگیں گی ۔
بندے کے دل میں کافی عرصہ سے یہ داعیہ پیدا ہورہا ہے کہ امت کو ادعیۂ ماثورہ اور اذکار مسنونہ کی طرف راغب کیا جانا چاہیے ، اور اس کے لیے یہ ترتیب بھی ذہن میں آئی کہ ہر موقع کی مسنون دعا کو اسٹیکر کی صورت میں چھپواکر ہرمسلمان کے گھر میں چسپاں کرنے کا نظام بنایا جائے اور بندے نے اس طرح سے تیار بھی کروا رکھا ہے ، صرف اسے شائع کرنا ہے ؛مگر تاخیر ہورہی ہے بہ طور تجربہ کے اپنے گھر پر الحمد للہ ! ایسے اسٹیکر لگا بھی دیے ہیں مثلاً: گھر سے باہر جانے کی دعا دروازے پر ،داخل ہونے کی دعا ،چپل اتارنے کی جگہ پر ؛تاکہ نظر پڑے اور آدمی پڑھ لے ۔ اسی طرح سونے اور بیدار ہونے کی دعا سونے کی جگہ پر ۔ صبح و شام کے اذکار گھرمیں مجلس کی جگہ پر ۔ بیت الخلامیں آنے جانے کی دعا ئیں بیت الخلا کے قریب مناسب جگہ پر ۔ کھانے کی دعائیں کھانے کی جگہ پر؛ بل کہ ذہن میں ایک اورترتیب ہے کہ کوئی کمپنی ایسے ڈوائس بنادے کہ گھر میں داخل ہوتے ہوئے اسے دبائیں تو دعا شروع ہو جائے اور اسے آدمی داخل ہوتے ہوئے ساتھ ساتھ پڑھ لے؛ اسی طرح دیگر تمام دعائیں ۔ اللہ کرے اس کی کوئی شکل نکل آئے ؛بہر حال دعاؤں سے منسلک ہونا اور ان کا اہتمام انتہائی ضروری ہے۔ ’’ اذ اوی الفتیۃ الی الکہف فقالوا ربنا ‘‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کامیاب منصوبہ کا آغاز ہمیشہ دعا سے ہوتا ہے کہ اصحاب کہف نے کہف میں داخل ہونے سے پہلے دعا کی ۔
خاص طور پر صبح وشام کے اذکار کا رواج امت میں عام ہونا چاہیے ، اس لیے کہ وہ دنیا وآخرت کے اعتبار سے بے پناہ مفید ہے۔ یوں سمجھیے کہ جیسے ہیلمیٹ ،ڈھال، فائٹر پروف، بلیٹ پروف جیکیٹ وغیرہ ہوتے ہیں ، اسی طرح یہ دعائیں مصیبت پروف اور مشکلات سے بچانے والی اور ان تمام محافظ آلات سے زیادہ مفید ہیں ؛اگر ان کا اہتمام کیا جائے تو عصرِ حاضر کی مہلک بیماریوں ،اسی طرح ایکسیڈنٹ ، ناگہانی آفات ، فسادات میں عزت ، آبرو، جان مال اولاد تمام کی حفاظت ہوتی ہے۔ اسی لیے ہمارے اکابرین نے بھی کتاب وسنت میں وارد دعاؤں اور اذکار کو مختلف کتابوں میں جمع کرکے اسے ہفتے میں دنوں پر تقسیم کردیا ہے۔ مثلاً: امام ملا علی قاری ؒ نے حزب الاعظم ، حضرت تھانوی ؒ نے مناجاتِ مقبول اور حضرت شیخؒ ؒ نے منزل ۔ ان کتابوں کی منزلوں کو ہفتہ بھرپڑھنے سے بڑے بڑے مسائل حل ہوتے ہیں ،بندے کو الحمدللہ اس کا تجربہ ہے ۔ روزانہ بفضلہ تعالیٰ وتوفیقہ تحدیث بالنعمۃ کے طور پر کہتاہوں کہ فجر کے بعد فوراً دلائل الخیرات ، حزب الاعظم ، مناجات مقبول ، مناجات فقیر اور حضرت شیخ ؒ کی منزل، صبح کے اذکارِ مسنونہ اورسورہ یٰس کی تلاوت کا اہتمام کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور شام کو بھی شام کے اذکار ۔
صبح مشکل سے ایک گھنٹہ لگتا ہے اور شام دس منٹ اور سوتے وقت پانچ منٹ مگر اس کے اثرات ناقابلِ بیان ہیں۔ میں خاص طور پر علما اور طلبا سے مؤدبانہ درخواست کرتا ہوں کہ دن بہ دن فتنے بڑھتے چلے جارہے ہیں ،اللہ کے واسطے ان دعاؤں کی کتابوں کو اپنے معمولات میں شامل کرلیں؛ ورنہ کس فتنے میں مبتلا ہوجاؤگے کہا نہیں جاسکتا ۔ اور دعائیں بھی کریں کہ اللہ ہماری فتنوں سے حفاظت فرمائے جیسا کہ احادیث میں مختلف دعائیں وارد ہیں۔ مثلاً: اللہم انا نعوذبک من الفتن ماظہر منہا وما بطن۔اسی طرح صبح وشام’’دعاء انس بن مالک ‘‘پڑھنے کا تو ہر ایک مسلمان کو اہتمام کرنا ہی چاہیے۔ یہ مختصرسی دعا اپنے اندر وہ طاقت رکھتی ہے کہ ایٹم اور نیوکلر ہتھیار بھی اس کے پڑھنے والے کو کسی قسم کا گزند نہیں پہنچا سکتی ؛ ہاں مگر پڑھنے والے کو اس پر یقین بھی اسی طرح ہونا چاہیے۔
دعائے انس انتہائی مضبوط حفاظتی حصار:
بِسْمِ اللّٰہِ عَلٰی نَفْسِیْ وَدِیْنِیْ ۔ بِسْمِ اللّٰہِ عَلٰی اَہْلِیْ وَمَالِیْ وَوَلَدِیْ ۔ بِسْمِ اللّٰہِ عَلٰی مَا اَعْطَانِیَ اللّٰہُ ۔ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا ۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، وَاَعَزُّ وَاَجَلُّ وَاَعْظَمُ مِمَّا اَخَافُ وَاَحْذَرُ عَزَّ جَارُکَ وَجَلَّ ثَنَائُکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْطَانٍ مَّرِیْدٍ ۔ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ ۔ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ۔ اِنَّ وَلِیِّ یَ اللّٰہُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰبَ وَہُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَ ۔
ترجمہ: ’’ اللہ کے نام کی برکت میری جان پر اور میرے دین پر ۔ اللہ کے نام کی برکت میرے اہل وعیال ، مال اور اولاد پر ۔ اللہ کے نام کی برکت ہر اس چیز پر جو اللہ نے مجھے عطا کی ۔ اللہ تعالیٰ میرے رب ہیں میں کسی کو ان کے ساتھ شریک نہیںکرتا ۔ اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے ۔ اللہ جل شانہ بہت عزت والے ، بہت بزرگی والے اوربہت بلند ہیںہر اس چیز سے جس سے میں ڈرتا ہوں یا اندیشہ کرتا ہوں ۔ (اے اللہ ! ) آپ کے پڑوس میں (پناہ لینے والا) باعزت ہے ، آپ کی ثنا بڑی ہے ، آپ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اے اللہ میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں اپنے نفس کے شرسے اورہر سرکش شیطان کے شرسے اور ہر متکبر ظالم کے شر سے ، اگر یہ کافر لوگ منھ پھیر لیں تو (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کہہ دیں کہ میرا اللہ مجھے کافی ہے ، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اسی پر میرا بھروسہ ہے، وہ عرش عظیم کا مالک ہے ۔ بے شک میرا دوست ومدد گار وہ اللہ ہے، جس نے کتاب کو نازل کیا اور وہ نیکوں کاروں کا کارساز ہے۔ ‘‘
بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں :
بلا ضرورت کے سفر نہ کرنا اور گھر سے باہر نہ نکلنا بھی فتنوں کے دور میں ضروری ہے ؛جیسا کہ حدیث میں وارد ہے’’ کونوا أحلاس بیوتکم ‘‘ (ابو داؤد)لہٰذا بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنا بھی فتنوں کے دور میں بہت مضر ہوتا ہے۔ بازاروں ،چوراہوں اورٹپریوں پر بیٹھنے سے بھی احتراز کرنا چاہیے ، یہ بھی فتنے سے خالی نہیں ۔
فتنوں کے دور میں انسانوں کی قسمیں:
دور فتن میں انسان تین قسم کے ہو تے ہیں : (۱) منحرف (۲) متذبذب (۳) ثابت ۔
پہلی قسم: جو فتنوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور دین اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ، اسے منحرف کہتے ہیں ۔ یعنی دین حق سے منہ موڑ نے والا ۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے ، امت کا اچھا خاصا طبقہ انحراف کا شکار ہے ، عوام تو عوام بڑے بڑے علما بھی انحراف کا شکار ہورہے ہیں ۔ مثلاً لبرلزم سے متأثر ہونا، مغربی افکارو نظریات ، رہن سہن ، بودو باش اور فیشن سے متاثر ہونا اور اس کی پرزور وکالت کرنا ، اسے اپنانا یہ سب انحراف کی طرف بڑھنا ہے ۔
دوسری قسم: تذبذب کا شکار افراد ۔یعنی جو شک میں مبتلا ہیں ، کبھی ادھر تو کبھی ادھر ۔یعنی جب سب کچھ ان کی طبیعت کے موافق ہورہا ہو تو اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں اور جب کچھ چیزیں ان کی مرضی کے خلاف ہونے لگے تو سب چھوڑ دیتے ہیں ، نہ نماز ، نہ نیکی نہ کچھ اور گناہوں میں منہمک ہوجاتے ہیں ۔ یہ بھی ہلاکت خیز حالت ہوتی ہے ۔ اللہ اس سے بھی ہماری حفاظت فرمائے ۔ آمین!
ارشاد خداوندی ہے’’ فتزل قدم بعد ثبوتہا‘‘ ، یعنی ان کے قدم ثبات قدمی کے بعد پھسل گئے۔ ایسا نہیں کہ تذبذب کے بعد پھسل گئے ؛معلوم ہوا کہ آدمی اگر ثابت قدم بھی ہے تو عجب کا شکارنہ ہو؛ بل کہ اللہ سے ثبات قدمی کی دعا کرے ۔
تیسری قسم :ثابت قدم افراد کی ۔ جو ہر حالت میں اللہ کی عبادت اور اطاعت پر جمے رہتے ہیں؛ مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا کہ وہ بھی اسے اللہ کی رحمت گردانیں اورثابت قدمی کی دعا کرتے رہیں ، اس لیے کہ زندگی نام ہے آزمائش اور فتنوں سے گزرنے کا اور ثابت قدمی اتنی آسان نہیںہوتی ، مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ثابت قدمی ناممکن ہے ۔ ممکن ہے؛ البتہ اس کے لیے کچھ اقدام کرنے پڑتے ہیں جو یہ ہیں :
۱ – عزم مصمم اور پختہ ارادہ: کسی بھی کام کو انجام دینے کے لیے انسان سب سے پہلے ارادہ کرتا ہے۔ ارادہ ٔبَشری کے بغیر کچھ نہیں ہوتا ، لہٰذا اپنی اصلاح کا پختہ عزم کرے۔ آج ہماری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم ہمت اور ارادہ ہی نہیں کرتے اور جب تک بلند ہمتی نہیں ہوگی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ امام غزالی ؒ فرماتے ہیںکہ انسان کا جسم تابع ہے قلب کے اور قلب عقل کے ، جب انسان عقل کے ذریعہ ہمت اورارادہ کرتا ہے تو قلب آمادہ ہوتا ہے اور پھر جسم کے لیے اس کام کا کرناآسان ہوجاتا ہے اورانسان کی عقل ہمت اور ارادہ اسی وقت کرتی ہے، جب اس کے پیش نظر کوئی عظیم فائدہ ہو ۔ خاص طور پر آخرت کی دائمی کامیابی کا تو اس طرح ہم اپنی عقل کو حرکت دے کر ہمت کریں باقی پھر آگے کام آسان ہوجائے گا ۔ان شاء اللہ !
۲- جو نصیحت سنے ، اس پر عمل کرنا : صرف سننے سے کام نہیں چلتا ، بل کہ جو سنے اس پر عمل کی مکمل کوشش کرے ۔آج کل سننے سنانے کا دور توہے ، بل کہ فیشن بن گیا ہے ،مگر عمل کا فقدان ہے{ولو انہم فعلوا ما یوعظون بہ لکان خیرا لہم واشد تثبیتا }اور اگر وہ جس چیز کی نصیحت کی جارہی ہے اس پر عمل کرنے لگے، تو یہ ان کے لیے بہتر بھی ہے اور ثابت قدمی کے لیے بھی زیادہ ضروری ہے ۔ اسی لیے کسی بزرگ سے کسی نے کہا کہ حضرت فلاں آدمی صحیح راہ پر تھا اب بھٹک گیا تو آپ نے بڑا عمدہ جواب دیا کہ اس نے دو میںسے کوئی ایک کام نہیں کیا ہوگا ، اس لیے گمراہ ہوگیا ۔ یاتو اس نے اللہ سے ثابت قدم رہنے کی دعا نہیں کی ہوگی یا پھر اس نے استقامت کی نعمت پر اللہ کا شکر ادا نہیں کیا ہوگا ۔ تو معلوم ہوا کہ اگر ہدایت مل بھی جائے تو اس پر اترانا نہیں چاہیے؛ بل کہ ہمیشہ یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ اللہ نے محض اپنے فضل سے مجھے ہدایت سے نواز ہے ، لہٰذا ہمیشہ اللہ سے دعا کرتے رہنا چاہیے اور اطاعت پر کبر اور فخر سے بچنا چاہیے اور کسی کو حقیر بھی تصور نہیں کرنا چاہیے اور ہمیشہ یہ دو آیتیں اپنے پیش نظر رکھنی چاہیے : {وما توفیقی الا باللہ، علیہ توکلت والیہ انیب }، }وما کنا لنہتدی لولا ان ہدانا اللہ }۔
اس لیے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عظیم ہستی کو یہ کہا جائے {لولا ان ثبتناک لقد کدت ترکن الیہم شیئا قلیلا} کہ ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو قریب تھا آپ تھوڑا سا ان مشرکوں کی جانب مائل ہوجاتے ۔ تومیں اور آپ کو نسے کھیت کی مولی اور اور درخت کی جڑ ہیں جو بچ جائیں۔
بعض حضرات نے ۵؍ امور کو فتنوں کے دور میں ’’ مثبتات‘‘ کہاہے، یعنی صحیح راہ پر جمانے والے پانچ کام:
۱- قرآن کریم کی تلاوت دل سے کذلک نثبت بہ فؤادک۔ مگر افسوس ! آج ہمارے پاس اس کے لیے وقت نہیں ہے ۔
۲- انبیا اور صالحین کی سیرتوں اور قصوں کا مطالعہ اور مذاکرہ ۔ {کذلک نقص علیک من انباء الرسل مانثبت بہ فؤادک}۔قصوں سے سبق اورعبرت حاصل کرنا اصل ہے۔
۳- علم دین کا حصول اور اس پر عمل {ولو انہم فعلوا ما یوعظون بہ لکان خیرا لہم واشد تثبیتا}۔آج ہم طلبہ وعلما علم تو حاصل کررہے ہیں مگر عمل سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔ تو گویا عمل ہماری زندگی سے رخصت ہوچکا ہے ۔
۴- دعا کا خوب اہتمام ’’ یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک ‘‘۔
۵- نیک اورصالح لوگوں کی صحبت {واصبر نفسک مع الذین یدعون ربہم بالغداۃ والعشی یریدون وجہہ }۔ صالحین کی کمی اورپھر ان کی صحبت کا شوق بھی نہیں رہا ۔
اس بات کو ہم اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں کہ آج ہماری جانب سے جو کاہلی ، سستی اور غفلت ہورہی ہے ،اس کی بنیادی وجہ ہمارے دلوں اور اندرون میں خلل اورکمی کا ہونا ہے ، جس کا اندازہ ہم اپنے روز مرہ کی زندگی کے اعمال سے کرسکتے ہیں ۔
۱- دنیوی غرض کے لیے گھنٹوں ہم صرف کرتے ہیں اور ہم پر نہ کوئی بوجھ ہوتا ہے اور نہ گراں گزرتا ہے مثلاً گھنٹوں فضول باتیں کرنا ، کھیلنا، دوکان پر بیٹھنا، تفریح گا ہ میں گھومنا ، مگر جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بوجھ محسوس ہوتا ہے ، جب کہ یہ تو منٹوں کا کام ہے ؟!!! یہ کیوں کہ دل میں اس کی عظمت نہیں ؟!!
۲- ہم رات کو دیر تک بل کہ ہمارے نوجوان پوری پوری رات موبائل اورمحفلوں میں ضائع کرتے ہیں ، مگر رات میں دورکعت تہجد ادا کرنا بھاری پڑتا ہے ، جس کا ثواب بے حساب ہے کیوں کہ دل آمادہ نہیں ہوتا !!!
۳- اپنے بچوں کے ٹیوشن یااسکول کے لیے تو ہم صبح صبح بیدار ہوجائیںگے، مگرفجر کی نماز کے لیے نہیں ، کیوں کہ دل آمادہ نہیں اورنہ اسے آمادہ کرنے کی کوشش کبھی کی !!
۴- اخبارات اور سوشل میڈیا پرتو گھنٹوں صرف کردیںگے ،مگر قرآن کی تلاوت پر پانچ منٹ صرف کرنے کے لیے تیار نہیں ؛ کیوں کہ قلب آمادہ نہیں ۔
سب سے بڑی دشواری یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم یہ سب نہیں کرسکتے اور نہ اللہ نے ہمیں ایسے امور کا مکلف کیا ہے جو ہم سے نہ ہوسکے ، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے قلب پر محنت نہیں کرتے اور اس کو آمادہ نہیں کرتے ، ورنہ سب کچھ آسان ہے ۔ اے اللہ! تو ہمیں قلب سلیم سے نواز اور ہمارے قلب اور روح کی سیاہی کو ختم فرما ۔ آمین یارب العالمین !
خلاصہ یہ کہ فتنوں کے اس گھٹا ٹوپ تاریکی کے دور میں بھی کتاب وسنت میں ہمارے لیے اوپرذکر کی گئی ہدایت موجود ہیں، اسے اختیار کرنے کی اور دوسروں تک پہنچا نے کی فکر کریں۔ اللہ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اورہر طرح کے فتنے سے ہماری مکمل حفاظت فرمائے۔ آمین یارب العالمین !