شاہد ٹانڈوی
ہرطرف ہے آج لوگو بس یہاں چرچا یہی
رحمتیں رب کی ہو ان پر سب دعا کرنا یہی
وقف کردی زندگی دیں کے لئے دیکھایہی
دین کی نصرت ہوکیسے ہر گھڑی سوچا یہی
حضرتِ وستانوی کو صبر دے ربِ کریم
تھے بڑے فرزند حضرت کے تو مولانا یہی
حافظ اسحاق کے تھے یہ بھتیجے پیارے سے
صبر دے مولا انھیں بھی ہُوں دعا کرتا یہی
دور حاضر کے اکابر کہتے ہیں سب آج یہ
تیری رحمت میں ہیں وہ،ہے فرش پر چرچا یہی
نام ان کا تھاسعید اور تھی طبیعت بھی سعید
پیار کرتے تھے وہ ہم سے کہتے ہیں طلبہ یہی
اے خدا جنت میں ان کو جنت الفردوس دے
حافظ قرآن بھی تھے تو نے تھا بخشا یہی
جس سے ملتے دل اسی کا جیت لیتے تھے یہاں
کرتے ہیں ہم سب دعارحمت میں تو رکھنا یہی
اتنی تھی تکلیف پھر بھی مسکراتے ہی رہے
رب کی مرضی پہ تھے راضی ہم نے تو دیکھا یہی
وہ بہت بیمار تھے پھر بھی نہ تھا پرہیز کچھ
رب سے ہونے کا یقیں تھا ان کا تھا تقویٰ یہی
دور حاضر کے اکابر سے انھیں قربت رہی
رابطہ رکھتے تھے ان سے مشغلہ بھی تھا یہی
جس سے ملتے عطر دیتے یا کوئی دینی کتاب
ملنے جو آتاکوئی دیتے اسے ہدیہ یہی
سارے طلبہ پر ہمیشہ شفقتیں ان کی رہیں
حوصلہ افزائی کرتے سب کی تھا جزبہ یہی
جب خبر پھیلی کہ پہنچے اپنے رب کے پاس وہ
نم تھی آنکھیں سب کی بس تھا ہر طرف چرچا یہی
لشکرِ وستانوی تھے صبر کے پیکر یہاں
صبر کریئے ہر کوئی تلقین کرتا تھا یہی
نو بجے ہو گی جنازے کی نماز اعلان ہو
شیخ مولانا حذیفہ نے کہلوایا یہی
آگئے پھر آپ مسجد میمنی کے درس میں
آخری درسِ ابو داؤد بھی تو تھا یہی
پڑھتے جاتے تھے عبارت یہ ابوداؤد کی
ہاں نبی کے دور میں صبر صحابہ تھا یہی
دونوں بھائی اور ماموں اور خود وستانوی
اور عرب کے تھے مشائخ یوں ہوا ہے وا یہی
خانوادہ یہ تمہارا اے غلام وستانوی
رب کی مرضی پہ ہے راضی لوگوں نے دیکھا یہی
ختمِ مجلس پر ہوئی مرحوم کی خاطر دعا
آئے تھے دسیوں محدث تھا یہاں جلسہ یہی
ایک دن مجلس میں شامل تھے یہاں مرحوم بھی
تھے بہت بیمار پر شرکت کا تھا جذبہ یہی
زندگی پائی 42 سال کی مرحوم نے
چاہنے والے ہیں لاکھوں حق بھی تھا ان کا یہی
کی ہزاروں نے ہے شرکت دیکھ مہمانِ رسول
اور ہزاروں چاہنے والے تھے تھا مجمع یہی
شیخ حامد نے پڑھائی جب جنازے کی نماز
خوش نصیبی یہ بھی تو ہے ہر کوئی کہتا یہی
پھر جنازے کو اٹھایا پہنچے مکرانی پھلی
جب اتارا قبر میں تو ہم کو یاد آیا یہی
کل ہمیں بھی آکے سونا ہے یہیں پر سوچ لیں
زندگی کی کیا حقیقت سب کا ہے کہنا یہی
لکھنے کو تو ہے بہت کچھ پر اجازت دیجئے
تاقیامت ان کا چرچا ہاں یہاں ہو گا یہی
تو بڑھا درجات ان کیاے مرے پروردگار
یہ دعا تم بھی کرو شاہد بھی ہے کرتا یہی
مرثیۂ پسرِ وستانوی
نتیجۂ فکر : شفیع احمد سپول متعلم جامعہ اکل کوا (ششم :الف)
حضرت وستانوی کے لاڈلے اک چل بسے
مغفرت کر دے خدایا ان کی اپنے فضل سے
جامعہ کے شعبۂ دینیات کے تھے وہ صدر
تقسیم انعام میں تھے معتبر اور بااثر
ہم سے رخصت ہوگئے رنج و الم میں چھوڑ کر
جاچکے وہ دار باقی فانی دنیا چھوڑ کر
سب کے دل مغمو م اور آنکھیں ہیں ان پر اشک بار
قصبۂ اکل کو میں غم کا ایک ٹوٹا پہاڑ
بازوئے وستانوی کو بخش دے پرور گار
جنت الفردوس دے کر تو پلا کوثر کا جار
ہے شفیع ِ بے نوا اب آپ سے امیدوار
ہم کو محشر میں ملا اے خالق و پروردگار