ابو جویریہ اشاعتیؔ خادمِ تدریس: مدرسہ مرکزِ اسلامی سلیمیہ سلوڑ ضلع اورنگ آباد
علامہ شبلی نعمانیؒ نے برسوں پہلے کہا تھایہ دنیاسرائے فانی ہے۔اس حقیقت پر میرا ایمان ایک بار پھرپختہ ہوگیا،جب۲۷؍مارچ ۲۰۱۹ء بروز بدھ کو بعد نمازِمغرب میں نے یہ خبر سنی کہ استاذِ محتر م اورخانوادۂ وستانوی کے چشم وچراغ حضرت مولانا سعید صاحب وستانوی اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں، بے اختیار زبان اناللہ واناالیہ راجعون پڑھنے پر مجبور ہوگئی۔
آخر جس بات کاخدشہ پچھلے کئی دنوں سے لگا ہوا تھا،وہ بات واقع ہوکر رہی اورایک بے قرارروح کوخدا کی بارگاہ میں پہنچ کرقرار آہی گیا۔اور اسی کے ساتھ ساتھ اللہ کی طاقت وقوت اور اس کے سامنے بندے کی کمزوری اور بے بسی کاادراک بھی ہوا۔
قرآنِ حکیم نے سچ ہی تو کہا ہے: {وخلق الانسان ضعیفا}دوسری جگہ یہ بھی فرمایاکہ{ کل نفس ذائقۃالموت} جب وقتِ موعود آجائے،تو پھرمشیتِ ایزدی میں کس کو دم مارنے کی مجال ہوسکتی ہے؟اور اس کائنات کا کونسا ایسا فیصلہ ہے جو اس کی اجازت اور اس کے حکم کے بغیر وجود میں آسکتاہے؟
بہرحال یہی خدا کی مرضی تھی اور ہم سب کو اسی پر راضی وصابررہناہے ۔باقی رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے۔
اللہ باقی؛باقی فانی:
یادش بخیر!بات ہے غالباً1997،98کی مادرِ علمی جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا(زادہ اللہ شرفاًوتعظیماً)میں میری طالبِ علمی کا پہلا سال تھا،اور اسی مادرِعلمی کے احاطے میں حضرتِ مرحوم کو پہلی مرتبہ دیکھا۔میں بالکل مبتدی بل کہ نورانی قاعدے کاطالبِ علم اور حضرتِ مرحوم کادورۂ حدیث شریف کاسال تھا۔مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت دورۂ حدیث شریف کی درسگاہ موجودہ کتب خانہِ تحتانیہ(جوشایدآج دارالمطالعہ ہے)اُس کے بالکل اوپر واقع تھی اورمسندِ حدیث پرغالباً مولاناسلیمان شمسی رحمۃ اللہ علیہ تشریف فرماتھے ۔یہ ہے وہ سنہری یادیں ،جوحضرتِ مرحوم کے تعلق سے میرے سینے میں الحمداللہ! آج بھی محفوظ ہیں۔
اس کے بعد حضرتِ مرحوم کاتدریسی دور شروع ہوا ۔اوریہ دور تقریباً بیس بائیس سال کے عرصے پر محیط ہے اوراس عرصے میں حضرتِ مرحوم کو بہت قریب سے دیکھنے کاموقع ملا۔وہ طلبہ کے لیے انتہائی شفیق اور مہربان تھے۔طلبہ کے لیے ان کے دل میں ہمیشہ ہی ہمدردی،عطا،اوربخشش کاجذبہ موجزن رہا۔جب کبھی کسی طالبِ علم کوکسی چیز کی ضرورت پڑتی، وہ فوراًحضرتِ مرحوم ہی کی خدمت میں حاضر ہوتا اور اپنی مراد پاتا،پھرچاہے وہ ضروت روپے پیسے کی لائن سے ہویا دواخانہ کی لائن سے یاکوئی طالب علم کوکسی کتاب کی ضرورت ہویاپھرکسی کو گھر جانے کے لئے چھٹی چاہیے ہو۔ساری درخواستیں وہاں قبول ہوجاتی تھیںاور کوئی نامراد نہیں لوٹتا۔
اپنے عظیم والد کی اکثروبیشتر خوبیاں حضرتِ مرحوم میں پائی جاتی تھیں،وہی سادگی،وہی نرمی،وہی طلبہ سے شفقت ومحبت اوروہی اکابرین کا ادب اور ان سے عقیدت۔
ہمارے دورِ طالبِ علمی میں طلبۂ عزیز کا ایک مزاج تھا کہ وہ اکثر چھٹی کی درخواستیں (بڑے حضرت) مولاناغلام صاحب وستانوی اور حضرتِ مرحوم کے پاس لے کر جاتے۔یہاں یہ فائدہ تھا کہ زیادہ پوچھ تاچھ اورگرفت نہیں ہوتی ۔دوسرا فائدہ یہ کہ چھٹی جتنے دن کی چاہیے اتنے دن کی مل جاتی اور یوں طلبہ اپنے مقصد میں آسانی سے کامیاب ہوجاتے۔
حضرت استاذِ محترم کی ایک خاص صفت بل کہ وصفِ امتیاز کہنا چاہیے ،وہ یہ تھا کہ حضرتِ مرحوم کو طلبہ میں کتابیں تقسیم کرنے کابڑا شوق تھا۔میں اکثر دیکھا کرتا تھا کہ حضرتِ مرحوم کے دفتر کے باہر کتابیں لینے کے لیے طلبہ کی لمبی لائنیں لگا کرتی تھیں۔ اگر انہیں کسی طالب علم کے بارے میں پتہ چلتا کہ یہ محنتی ہے تو اس کو دفتر میں بلا کر کتابیں عطا کرتے۔ابھی ماضی قریب ہی کی بات ہے،ڈھائی تین سال پہلے تمام ہی شاخہائے جامعہ کے اساتذہ کوجامعہ میں مدعوکیا گیاتھا،اُس وقت حضرتِ مرحوم شعبۂ دینیات کے صدر تھے؛اس موقع پربھی حضرتِ مرحوم تمام ہی مہمان اساتذۂ کرام کوکتابوں کا ہدیہ دینا نہیں بھولے۔اللہ ہی بہتر جانتاہے حضرت مرحوم نے اپنی زندگی میں کتنی کتابیں تقسیم کی ہوںگی اور نہ جانے کتنوں نے ان کتا بوں سے فائدہ اٹھایا ہوگااور ان کو پڑھ کراس پر عمل کیا ہوگا۔ان کی عطا کردہ کتابیں جب تک بھی پڑھی جاتی رہیںگی ،مرحوم کے نامۂ اعمال میں ثواب لکھا جاتا رہیگا۔خوشی کے ساتھ تعجب بھی ہے کہ وہ کس قدر نفع کاسودہ کر کے سدھارگئے اور خدا کو راضی کرنے کا سامان کرگئے۔
اللہ حضرتِ مرحوم کو کتابوں کی اس خدمت کے بدلے اپنی شایانِ شان بدلہ عطا فرمائے۔
سنا ہے حضرتِ مرحوم کو قرآنِ پاک بہت اچھا یاد تھا،کیوں کہ وہ بہت بچپن ہی میں حافظِ قرآن ہوچکے تھے۔ایک مرتبہ ہمارے حفظ کے زمانے میں سورج گرہن ہوا تو منتظمینِ جامعہ نے صلوٰۃِخسوف ادا کرنے کاارادہ فرمایا۔استاذِ محترم مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحی ؔدامت برکاتہم نے امامت کے لیے جس شخصیت کوآگے بڑھایا ،وہ حضرتِ مرحوم ہی کی ذات تھی۔
جس سال اللہ پاک نے مجھ نا چیز کوحفظ کی دولت سے مالامال فرمایا تو اُس سال جامعہ کے داخلی مسابقے میں جو ایک سے تیس پارے کی فرع تھی ،اس فرع میں سائل کے فرائض حضرتِ مرحوم نے ہی انجام دیے تھے۔
ایک مرتبہ(بڑے حضرت)مولاناغلام صاحب وستانوی دامت برکاتہم نے حضرتِ مرحوم کے لڑکپن کا ایک قصہ سنایا کہ ایک مرتبہ سعید کو میں نے ان کے ماموں مفتی عبداللہ صاحب کے پاس جامعہ مظہرِسعادت ہانسوٹ میں پڑھنے کے لیے بھیجا،کچھ مہینوں بعد میرا وہاں جانا ہوا،وہاں سے واپسی کے وقت سعید مجھ سے ملنے کے لیے آیا،میں نے جو اس کاحال دیکھا تو میری آنکھوں میں آنسوں آگئے کہ کپڑے پراگندہ اور پھٹے ہوئے ہیں۔میں نے مفتی عبداللہ سے کہا کہ بھئی سعید کو میرے ساتھ واپس بھیج دو۔مجھے اس کی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی۔
میں اپنی فراغت کے بعد تین چار مہینے گھرپرہی رہا،لیکن کچھ دنوں بعد جب میں نے تدریسی خدمت انجام دینے کا ارادہ کیا تو ایک بہت بڑی شخصیت نے مجھے مدرسہ ابوبکر صدیق عنبڑحضرت مرحوم کی خدمت میں بھیجا اُن دنوں حضرت مرحوم وہاں کی نظامت سرانجام دیرہے تھے ۔رسمی علیک سلیک کے بعد میں نے حضرتِ مرحوم کو اپنے آنے کا مقصد بتلایاتو بڑے افسوس کے ساتھ فرمانے لگے:بیٹا!میرے پاس جگہ خالی نہیں ہے، ورنہ میں تجھے ضرور رکھ لیتا۔پھر فرمایا کہ تم مجھے اپنا نمبر دیتے جاؤ ،جیسے ہی ضرورت محسوس ہوگی تمہیں بلالیا جائے گا۔پھر جب میں واپس ہونے لگا تو اپنے محاسب سے فرمایا کہ اس کو پانچ سو روپے دیدو۔یوں میں وہاں سے اپنائیت اور محبت کی سوغات لیکر واپس ہوا۔
دعا ہے کہ اللہ پاک حضرتِ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں اورپسماندگان ،ان کے بچوں اور اہلیہ کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کی تمام خدمات کو قبول فرماکر بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ آمین!
استاذِ محترم مولانا ولی اللہ بستوی کے اس شعر پر اس مضمون کو ختم کرتاہوں۔
ہے ولی کی یہ دعا اے خالقِ کون ومکاں
کہ بنادے تربتِ مرحوم کو جنت نشاں