ستارہ جو ٹوٹ گیا

مولانا عبد الوہاب ندوی ،مدنی /استاذعربی ادب جامعہ اکل کوا

            جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا میں اجلاس کا منعقد ہونا ، بزم کا سنور نا، اسٹیج کا سجنا اور بینر کا لگنا کوئی نئی بات نہیں ۔ آئے دن یہاں مہمانوں کے استقبال یا فائز وممتاز طلبہ کے اعزاز یا مسابقہ ومنافسہ کی مناسبت سے مختلف بزمیں سجائی جاتی رہتی ہیں ۔ شعبۂ دینیات کے وسیع وعریض صحن نے بار ہا ایسی محفلیں دیکھیں ،جس میں طلبہ واساتذہ پورے شوق و ذوق اور بڑے جوش وخروش کے ساتھ شرکت کررہے ہوں، لیکن یکم اپریل۲۰۱۹ء بروز پیر بعد نماز مغرب ایک ایسی مجلس منقعد ہوئی ، جس میں نہ کسی مہمان کا استقبال تھا ، نہ کسی کا اعزاز ، طلبہ کا مسابقہ تھا نہ آزادی کی خوشی ۔ مغرب بعد متصلاً طلبہ و اساتذہ سرجھکائے ، اپنے جذبات کو قابو میںکیے شعبۂ دینیات کے صحن میں جمع ہورہے تھے ،دیکھتے ہی دیکھتے اساتذہ وطلبہ سے سارا صحن بھر گیا ۔ جامعہ کے فاضل قاری محمد الطاف ایولہ کی پرسوز آواز سے {اَلَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ } اور {کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمُوْتِ } وغیرہ موت کی حقیقت کو بیان کرنے اورصبر کی تلقین کرنے والی آیات کی تلاوت سے مجلس کا آغاز ہوا ۔ یہ جلسہ بہ طور ’’تعزیت ‘‘اور’’ذکرمحاسنِ میت ‘‘کا تھا ۔ یہ بزم مولانا سعید وستانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کوایصال ثواب اور ان کے لیے دعا ئے مغفرت کرنے کی غرض سے منعقد کی گئی تھی ۔ جلسہ کی نظامت جامعہ کے فاضل اور مؤ قر استاذ مولانا اخلاق صاحب عال آبادی فرمارہے تھے ۔

            در اصل حضرت مولانا سعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بعد جب دنیا بھر سے مختلف تعزیتی رسائل وپیغامات موصول ہوئے اور کئی جگہوں سے تعزیتی نشست قائم کرنے کی خبریں ملیں؛ تو ابنائے جامعہ کو یہ احساس ہوا کہ جامعہ کے درو دیوار نے مولانا مرحوم کے بچپن سے لے کر وفات تک کا سارا زمانہ دیکھا ، اسی سرزمین پر آپ کی پرورش ہوئی ۔ علمی ، فکری اور عملی میدان میںیہیں سے آپ کو ترقی ملی ، یہیں کے اساتذہ نے آپ کو لائق وفائق بنایا ، یہاں کے طلبہ و اساتذہ ؛سبھوں کو آپ سے تعلق تھا ۔ لہٰذا جامعہ کے فارغین پریہ حق ہے کہ وہ مرحوم کے والد ماجد حضرت وستانوی کی تعزیت کریں ۔ ان کے بھائیوں کو دلاسا اور تسلی دیںاور مرحوم سعید کی سعادت مندی کے دور کو یادکریں۔ ان کی خوبیوں اورمحاسن کوطلبہ واساتذہ اور منتسبینِ جامعہ کے سامنے پیش کریں؛ تا کہ لوگ انہیں اپناکر سعادت مندی کا سفر طے کریں ۔ دنیامیں سعید بن کر رہیں اور آخرت میں بھی سعادت ان کا مقدر بنے ۔ فضلائے جامعہ کے آپسی مشورہ واتفاق اورذمہ داران سے اجازت کے بعد بروز پیر بعد نماز مغرب تعزیتی مجلس بہ غرض ذکر محاسن میت کے انعقاد کا فیصلہ ہوا ۔

            یہ مجلس نوحہ کرنے اوررونے دھونے کے لیے ہر گز منعقد نہیں ہوئی تھی ، شریعت مطہرہ نے تو اس سے صراحۃً منع فرمایا ہے ۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ’’ لیس منا من ضرب الخدود او شق الجیوب أو دعا بدعوی الجاہلیۃ ‘‘ (متفق علیہ ) بل کہ اس کا مقصد حدیث نبوی ’’ اُذْکُرُوْا مَحَاسِنَ مَوْتَاکُمْ ‘‘ پر عمل کرنا تھا ۔

            حضرت رئیس جامعہ کی صدارت میں اس مجلس کا انعقاد عمل میں آیا ۔ تلاوتِ کلام پاک کے بعد جامعہ کے مؤقر استاذ قاری حسین صاحب معروفیؔ نے مرحوم کی یاد میں ایک مرثیہ ’’ آپ کی رحلت سے چھلنی ہوگئے قلب و جگر‘‘ بڑی پرسوز آواز میں پیش کیا ۔ مرثیہ کیا تھا ؟ حقیقت میںوہ سبھوں کے جذبات کی عکاسی تھی ، سبھوں کے غم کو قاری صاحب نے الفاظ کے سانچے میںڈھالااور اپنی پرسوز آواز سے اس درد کو بیان فرمارہے تھے ۔ اس درد بھری آواز نے سارے ماحول کو غمگین بناڈالا ۔ یہ مجلس ہرطرح کی روشنی سے آراستہ ہونے کے باوجود بے نور معلوم ہوتی تھی ، گویا کہ بجلی اور روشنی بھی غم میں برابر کے شریک ہوں اور کہکشاں کو اپنے ایک انمول ستارہ کے کھوجانے کا افسوس ہو ۔شعبۂ دینیات کے درو دیوار خاموشی سے اس محفل کو تک رہے تھے ۔ گویا کہ وہ بھی ماتم کناں ہوں اور کیوں نہ ہوتے؟ حضرت مرحوم ہی نے اس شعبہ کو اپنی خداداد صلاحیتوں اور جہد مسلسل سے ترقی کے بام عروج پرپہنچایا تھا ۔ اس کے بعد اساتذۂ کرام اپنے تاثرات اور تعزیتی کلمات پیش کرتے رہے۔

            سب سے پہلے مولانا قاری عارف الدین صاحب (استاذ تفسیر و حدیث ) نے مرحوم کے اعلیٰ اخلاق اور تواضع پرروشنی ڈالی اور علمائے کرام سے تعلق اور بڑوں کی خدمت کے جذبہ کو بیان فرمایا ۔ آپ کے والد ماجد کے حسن تربیت کو بیان کیا اورفرمایا کہ مرحوم مولانا سعید صاحب اسم با مسمیٰ تھے ، یقینا سعادت مندی کی تمام صفات بدرجہ اتم ان میں پائی جاتی تھی ، مزید آپ نے دنیا کی بے ثباتی کو { کل نفس ذائقۃ الموت }کی روشنی میں بیان فرمایا اور کہا اس موقع پر ہم شریعت اسلامیہ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے صبر و ضبط سے کام لیں ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔

            اس کے بعد حضرت مولانا افتخار احمد صاحب قاسمیؔ بستویؔ نے نہایت ہی اچھوتے انداز میں ’’ کل حی الی ممات وکل جمع الی شتات ‘‘ پر روشنی ڈالی ۔ پھر حضرت مرحوم کے خدمت علما کے جذبہ ، تواضع اور بڑوں سے تعلق کو بیان فرمایا ۔ آپ کی کئی خوبیوں پر روشنی ڈالنے کے بعد حدیث ’’ اشد الناس بلاء الا نبیاء ، ثم الامثل فالامثل ‘‘ (ابن ماجہ ) پڑھی اور پھر فرمایا کہ بندہ جتنا اللہ کا مقرب ہوتا ہے ، اتنا ہی آزمائش میں رکھا جاتا ہے اور یہ آزمائشیں اسے گناہوں سے پاک کرتی رہتی ہیں۔ یہاں تک کہ حدیث میںآتا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہے ، لیکن ان آزمائش پر صبر کرنے کی وجہ سے وہ ایسے معصوم ہوجاتا ہے، جیسا کہ ایک معصوم بچہ جو ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو اور اس پر کوئی گناہ نہ ہو ۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ حضرت مرحوم نے جس طرح بیماریوں کو برداشت کیا اور مصائب کو جھیلا ۔ ضرور آپ ایسے ہی معصوم اس دنیا سے رخصت ہوئے ہوںگے ۔

            حضرت مرحوم کے رفیق درس جامعہ کے شعبۂ عا  لمیت کے استاذ مفتی عبد القیوم صاحب نے مرحوم سعید کی طالب علمانہ زندگی میں پائی جانے والی سعادت مندانہ صفات اور بلند اخلاق کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت کو قرآن پاک سے بہت زیادہ عشق تھا ۔ آپ جب بھی درجہ میں خالی وقت پاتے، تلاوت کلام اللہ میں مشغول ہوجاتے ۔ دیگر ساتھی باتوں اور دوسرے کاموں میں وقت گزارتے ، لیکن آپ تلاوت کرتے رہتے ، کلام اللہ سے یہ تعلق محبت الٰہی کی بین دلیل ہے ۔ اسی طرح خارجی مطالعہ اور درسی کتب کی شروحات کا بھی آپ بہت اہتمام فرماتے ، خود بھی پڑھتے اور شروحات خرید کر دوسروں کو بھی استفادہ کا موقع فراہم کرتے ۔ نیز آپ میں درجہ میں تسابق وتنافس کا جذبہ خوب تھا، جو آپ کی علمی ترقی کاراز بھی ہے ۔ ہم درس ساتھیوں کے ساتھ بغیر کسی بھید بھاؤ کے میل ملاپ رکھنا ، غریب ونادار ساتھیوں کا مالی تعاون فرمانا اور ادارہ کے رئیس کے فرزند ہونے کے باوجود آپ میں فرزندی کا غرور نہ پایا جانا؛ یہ سب آپ کی شخصیت کے درخشاں پہلو ہیں ۔ اسی طرح تدریس کے منصب پر فائز ہونے کے بعد بھی اپنے ساتھیوں سے تعلق ،طلبہ سے محبت وشفقت اوربڑوں وبزرگوں سے تعلق آپ کی نمایاں خصوصیات میں سے ہیں ۔

            شعبۂ دینیات کی نمائندگی کرتے ہوئے مولانا عبد الغفار صاحب اشاعتی نے مرحوم کے شعبۂ دینیات کو بام عروج پرپہنچانے کی تڑپ ، جہد مسلسل اور شعبہ کے تئیں خصوصی توجہات کا ذکر فرمایا اور کہا کہ مرحوم ہمیشہ یتیم ونادار طلبہ کی خبر گیری فرماتے ،ان کا تعاون کرتے اور ہر ممکن انہیں آرام پہنچانے کی فکر میں رہتے ۔ آپ نے اپنے علمی ذوق اورمحنت وجستجو سے شعبۂ دینیات میں ایک نئی روح پھونک دی ، طلبہ کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی ہر ممکنہ کوشش میں آپ لگے رہتے ۔ زمانہ طالب علمی میں جو طلبہ آپ ؒ سے قریب ہوتے آپ ان کی تعلیمی رہ نمائی فرماتے ، شعبۂ عا  لمیت کے دورہ کے طلبہ بھی آپ سے علمی استفادہ کرتے ، جب بھی کوئی ایسی کتاب آپ کی نظر سے گزرتی، جو طلبہ واساتذہ کے لیے مفید ہو تو آپ فوراً اسے کثیر تعداد میں طلب فرماکر طلبہ واساتذہ کو ہدیہ کرتے ، جس سے آپ کے علمی ذوق اورطلبہ کے اصلاح کی فکر صاف ظاہر ہوتی ہے ۔ یقینا حضرت مرحوم کی رحلت طلبہ واساتذہ کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے ۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے ۔ آمین!

            دار الافتا کے صدر مفتی محمد جعفر ملی رحمانی صاحب نے حضرت سعید ؒ کی سعادت مندانہ زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ آپ ایک علم دوست انسان علما و اساتذہ سے محبت کرنے والے اور طلبہ سے شفقت کرنے والے ، ان کے حق میں ایک عظیم محسن تھے ۔ آج ہم ان کے محاسن کو یاد کررہے ہیں، تا کہ ان عظیم صفات کو اپنی زندگی میں اپنا کر ہم بھی دنیا وآخرت کی سعادت حاصل کریں ۔ بڑوں اور بزرگوں سے انہیں والہانہ تعلق تھا ، اپنے اساتذہ کا ہمیشہ ادب ولحاظ کرتے ، ان کی ضروریات کا تفقد کرکے اسے پورا کرنے کی کوشش کرتے اورکبھی ان کی خدمت میں کتابی شکل میں علمی ہدایا بھی ارسال فرماتے تھے ۔ اللہ ان کے درجات کو بلند فرمائے اور حضرت وستانوی اور مرحوم کے اعزا واقربا کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین!

            اب باری تھی جامعہ کے استاذ حدیث وتفسیر مولانا فاروق صاحب مدنی کی۔ وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے آپ نے اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے نہایت ہی مختصر؛ لیکن پر اثر تاثر پیش کیا اور فرمایا کہ مرحوم مولانا سعید وستانوی صاحب ؒ ’’جامع السطور والصدور ‘‘ تھے۔ یعنی آپ خود علمی ذوق اور کتابوں سے عشق رکھنے والے تھے اور آپ نے اپنے کئی طلبہ کو ورّاق بنا رکھا تھا ۔ کئی طلبہ آپ کی ذاتی لائبریری سے استفادہ کرتے تھے اور خصوصاً نادار اور وہ طلبہ، جن کا بہ ظاہر کوئی پرسان حال نہ تھا ، آپ ان سے شفقت فرماتے ۔ ان پر نوازشات اور عنایات فرماتے اور انہیں بھی علم دوست بناتے ۔ اور جہاں تک صدور کی بات ہے تو آپ کو بزرگوں سے صرف تعلق ہی نہ تھا ، بل کہ آپ کو بڑے بڑے بزرگان دین کا اعتماد حاصل تھا ۔ اوربلاشبہ یہ شرف ایک عظیم باپ کے عظیم سپوت ہی کو حاصل ہوسکتا ہے۔ پھر آپ نے حضرت مولانا سید ذوالفقار صاحب ؒ کا قول نقل فرمایا اور کہا کہ حضرت نے خود مجھ سے مولانا سعید مرحوم کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’ بہت کم صاحبزادوں کو یہ شرف حاصل ہوتا ہے کہ وہ کم عمری میں ملک کے اکابر علما کا اعتماد حاصل کرلیں ‘‘۔ نیز آپ میں بلند حوصلگی ، عالی ہمتی اور امت کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ بھی خوب تھا ۔ یہ مرحوم کی چند خوبیاں اور نمایاں صفات ہیں اور بھی خوبیاں ہیں ،جو بیان کی جاتی رہیں گی اور رہنا چاہیے ۔

            جامعہ کے ناظم تعلیمات مرحوم کے برادر کبیر حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی نے( جنہوں نے اپنی عمر کی چالیس بہاریں اپنے برادر کبیر کی شفقتوں اور محبتوں کے سائے میں گزاری تھی) اپنے قلبی تاثرات پیش کیے۔ یقینا بھائی کی جدائی کا غم، ان کی شفقتوں کا سایہ اٹھ جانے کا رنج و الم آپ کو کچھ کہنے سے رکاوٹ بنا ہوا تھا ، آپ بہت کچھ کہنا چاہتے تھے ، مگر غم سے نڈھال کچھ زیادہ کہہ نہ سکے ۔ آپ نے مرحوم سے محبت وتعلق اور بچپن کی کچھ یادوں کا تذکرہ فرمایا اور کہا کہ ہم دونوں بھائیوں میںوالد ماجد حضرت وستانوی کی تربیت کا یہ اثر رہا کہ ہمارے درمیان ہمیشہ لکھنے پڑھنے اورمطالعہ کے معاملہ میں تنافس وتسابق کا جذبہ رہا کہ کون کتنا زیادہ پڑھتا ہے ۔ اور فرمایا کہ آپ بچپن ہی سے زبر دست ذہانت کے مالک تھے ۔ کم عمری میں قرآن حفظ کرلیا اور آپ ایک جید حافظ بھی تھے ۔ نیز آپ بے شمار خصوصیات کے مالک تھے ، جن کا تذکرہ کیا جاچکا ہے ۔ اخیر میں حضرت نے نہایت ہی کرب و الم کے ساتھ حقیقت پر مبنی ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایا کہ جس سے سننے والوں کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں ، اور آپ خود بھی اپنے اشکوں کو قابو میں نہ کرسکے ، فرمایا :

            ’’ آج تک ہم اور والدصاحب دامت برکاتہم یتیموں کی کفالت اور ان کے غم دور کرنے کی فکر میں رہتے تھے ، لیکن آج ایسا وقت آیاہے کہ ہمارے گھر میں خود بھائی کی اولاد یتیم ہوگئی ۔ اللہ ان بچوں کو صبر دے اور مرحوم بھائی کو جنت میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے ۔ ‘‘

            مرحوم کے والد ماجد رئیس جامعہ حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی، جو حقیقت میں اس موقع پر صبر کے پہاڑ بنے رہے ۔اس لیے کہ ایک جواں سال بیٹے کی رحلت کا درد اور اس کے بچھڑ جانے کا غم ،ایک باپ کے لیے نہایت ہی کرب انگیز ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود آپ نبوی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے خود آنسوؤں کے گھونٹ پی کر دوسروں کو صبر کی تلقین فرمارہے تھے۔ یقینا ضبط غم اورصبر کی ایسی مثال کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔

            حضرت وستانوی نے مرحوم کے بزرگوں سے تعلق اور اپنے اساتذہ وطلبہ سے ان کے تعلق للہ کو بیان کیا۔  پھر ان کی بیماری کے عالم میں صبر کا پیکر بنے رہنے کا تذکرہ فرمایاکہ یقینا وہ جنتی ہوگا ۔ مزید کچھ بشارتوں کا تذکرہ فرمایا ۔ آپ کی دعا پر جلسہ کا اختتام ہوا۔

            بلا شبہ مرحوم نہایت ہی صابر تھے ۔ اور ان بے شمار بیماریوں کو برداشت کرتے ہوئے گویا کہ زبان حال سے فرمارہے ہوں :

درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہوجائے گی

موت آئے گی تو اے ہمدم شفا ہوجائے گی

            یقینا مرحوم کو اب ہر طرح کے مصائب سے نجات اوربیماریوں سے شفا مل گئی اور آج وہ عند اللہ اس سے کہیں اچھی حالت میں ہوںگے ، جیساکہ دنیا میں تھے ۔کیوں کہ ان اللّٰہ مع الصبرین ۔

            قارئین  !  موت و حیات کا مالک تو اللہ ہی ہے ۔ اس دنیا میں ہرشخص مرنے والا ہے ۔{ انک میت وانہم میتون }بقا صرف اللہ کی ذات کو ہے ۔ اس فانی دنیا کو ہزاروں ، لاکھوںلوگ خیر باد کہہ جاتے اور مالک حقیقی سے جاملتے ہیں ، لیکن اچھے لوگ کبھی نہیں مرتے ، وہ اپنی مادی اور جسمانی صورت سے تو آزاد ہوجاتے ہیں ، لیکن ان کی یادیں ہمیشہ دلوں میں گھر کیے رہتی ہیں ، انہیں وقتاً فوقتاً یاد کیا جاتا ہے ۔ مولانا سعید صاحب وستانوی ؒ بھی انہیں میں سے ایک تھے ۔ آپ آسمان علم کے ایک ایسے درخشاں ستارے تھے ، جس نے ہزاروں ، لاکھوں کو اپنی روشنی سے منور کیا ، لیکن افسوس کہ آج وہ ستارہ خود ڈوب گیا ۔ دنیا اس کی روشنی سے محروم ہوگئی ۔

             اللہ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ، درجات کو بلند فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ دے ۔

ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا

آنکھ حیراں ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا