تأثرات رفیق؛ بروفات سعید ؒ

مفتی عبد القیوم مالیگانوی ؔ/استاذ جامعہ اکل کوا

            موت اس کائنات کی سب سے ٹھوس اور مضبوط حقیقت ہے ۔ارشاد قرآنی ہے : {یُدْ رِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْکُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُشَیَّدَۃٍ} آ ہنی سلاخیں ، فولادی قلعے اور مستحکم دیواروں کا حصار اس کے لیے کوئی مانع نہیں، کب آئے گی پتا نہیں ؟کہاں اورکیسے آئے گی معلوم نہیں ۔{وَلَا تَدْرِیْ نَفْسٌم بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ} ان ساری حقیقتوں کے باوجود ہم ہیں کہ یکسر اس سے غافل اور غیر متوجہ ہیں اور ہماری غفلت کا درجہ اس کی حقیقت کے درجہ سے کچھ کم نہیں ،تاہم کچھ افراد دنیا سے ایسے جاتے ہیں کہ ان کا جانا مدتوں دراز یاد رہتا، دنیا کی بے ثباتی اور اپنی بے بسی کا مرثیہ سناتا رہتا ہے ۔ ایسی ہی قابلِ عبرت اور لائق عظمت دنیا سے رخصتی؛ حضرت رئیس جامعہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی مدظلہ العالی کے چہیتے، فرزندکبیر ،میرے علمی سفر کے پانچ سالہ رفیق اور محسن حضرت مولانا سعید صاحب وستانوی ؒ کی ہے ، جو گزشتہ دوسال سے زائد عرصہ سے بڑی بھاری اور تکلیف دہ بیماریوں اور آلام کو جھیلتے جھیلتے شکستہ دلی، رنج و غم ، حسرت ویاس کی تصویر بنے اور امیدِ صحت وزندگی لیے ہوئے ۱۹؍ رجب المرجب ۱۴۴۰ھ – ۲۷؍ مارچ ۲۰۱۹ء بروز بدھ بعد نماز مغرب اپنی حیات مستعار کے لمحات پورے کرکے اپنے اہل خانہ ، بل کہ پورے جامعہ ومنتسبین و متعلقین جامعہ کو سوگوار کر کے ـچلے گئے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون !

            اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے ۔ حورو غلمان سے استقبال فرما کر اہل خانہ ، بل کہ ہم سب کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین !

            مرحوم نے اپنی زندگی کے اخیری دوسال ،جس کرب و الم اور مختلف النوع بیماریوں میں گزارے ہیں ، یقینا یہ مدت اور حالات ان کے لیے محوِ سیئات کے ساتھ رفع درجات کے بھی سبب ہوںگے ۔ ان شاء اللہ !

            نظام قدرت کے مطابق ہرانسان کا جسم تیار ہوتا ہے ماں کے پیٹ میں ، لیکن صفات بنتی ہیں دنیا میں۔ اور یہ امر مسلم ہے کہ اچھی صفات ، محاسن و کمالات یوں ہی نہیں بنتے ، بل کہ باصفات ، اعلیٰ اقدار کے حاملین اور مزکیّٰ ومجلّیٰ نفوس کی صحبت ومحنت اس کی شخصیت سازی اور کردار کی تعمیر میں کلیدی رول ادا کرتی ہے ، جو صفات اس کی شخصیات کا تعارف ہوتی ہے ۔ اللہ نے اپنے کرم اور فیضِ بے پناہ سے مرحوم مولانا سعید صاحب وستانوی ؒ کو رئیس جامعہ مشائخین کے منظور نظر اوربزرگوں کے تربیت یافتہ عظیم والد بزرگوار کی صحبت وشفقت کا بھر پور موقع عنایت کیا تھا۔

            یقینا ہر انسان کچھ اچھی اور نمایاں صفات کا حامل ہوتا ہے ، جو در اصل اس کی شخصیت کا تعارف ہوتی ہے۔ ایسے ہی مرحوم ؛جہاں بہترین حافظ قرآن، قاریٔ قرآن اور باصلاحیت عالم و فاضل اور تقریباً ۱۸؍ سال سے تدریسی خدمات پر مامور تھے ، ان سب کے علاوہ اللہ رب العزت انہیں بزرگوں کی صحبت ،بل کہ خدمت کا خوب سے خوب موقع عطا کیا۔ جامعہ میں تقریباً ۲۰، ۲۵؍ سال قبل بزرگوں ،اکابرین اور مشائخین کی آمد بکثرت ہوتی رہتی تھی ، چناںچہ ان کی آمد ورفت اور مدت ِقیام میں جگہ وانتظامات مولانا سعید صاحب ؒ بڑے خوش اور فکرمندی کے ساتھ فرماتے تھے ۔ اس دوران نہ جانے کتنے بزرگوں اور اللہ والوں کی کیسی کیسی دعائیں انہیں ملی ہوںگی ، جو ہمارے لیے قابل رشک چیز ہے ۔ مجھے اچھی طرح یا د ہے کہ جب ۱۹۹۶ء میں ہم مشکوٰۃ شریف کے سال میں تھے ، اس وقت وطن عزیز شہر مالیگاؤں میں پہلی مرتبہ شیخ الحدیث حضرت مولانا یونس صاحب جون پوری رحمۃ اللہ علیہ تکمیل بخاری شریف کے موقع پر تشریف لائے تھے ۔ چوں کہ شیخ کا شہرہ تھا ، مجھے شیخ کو دیکھنے اور شرکتِ درس کا شوق تھا ، میں بھی مالیگاؤں پہنچ گیا ، وہاں مولانا سعیدوستانویؒ ؒ شیخ کو لینے کے لیے پہنچے ہوئے تھے۔مالیگاؤں کے احباب شیخ کو’’ اکل کوا‘‘ لے جانے کے منکر تھے ، چوں کہ شیخ نے مرحوم کو اجازت دے رکھی تھی ، چناں چہ باصرار مولانا سعید صاحبؒ نے اس وقت دوکرایہ کی گاڑی کا انتظام کیا اور شیخ کو اکل کوا لانے میں کام یاب رہے۔ چناں چہ اس مبارک آمد پر ہم سب کا نورانی قاعدہ حضرت شیخ ؒ کے دست مبارک پر تکمیل کے مرحلہ پہنچا تھا، جوہمار لیے بڑی سعادت کی بات رہی ۔ مولانا سعید ؒ کو دورانِ تعلیم درسی کتابوں کی شروحات خریدنے کا بڑا شوق تھا۔ہر آنے والی نئی شرح پران کی توجہ رہتی تھی ، چوں کہ ان کے پاس اسباب مہیا اور شوق تھا اور ہم تو تہی دست؛ اساتذہ کرام کی درسی کاپیوں پر قانع رہتے تھے ، جیساکہ معلوم ہے کہ زمانۂ تعلیم میں آگے کے نمبر والے طلبہ کے مابین ایسی آپسی رسہ کشی اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جذبۂ تسابق ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے تعلقات تلخیوں کا شکار بھی ہوجاتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود بے تعلقی پر انہیں اصرار نہیں ہوتا تھا، بل کہ اپنے ساتھیوں کو کوئی قلم ، کوئی کتاب اور عطر کی شیشی وغیرہ دے کر تعلقات کو استوار کرلیتے تھے ۔گویا کہ مولانا مرحوم زندگی کی اس فلسفہ کو خوب سمجھتے تھے کہ

 زندگی یوں ہی بہت کم ہے محبت کے لیے

یوں روٹھ کر وقت گنوایا نہ کیجیے

             نیز بہت بڑی خوبی جو مجھے معلوم ہے کہ اپنے ساتھیوں میں جو مالی کمزوری کا شکار ہوتا ، اس کی خفیہ مدد کرتے اور اس کے لیے تعلیمی سفر کی تکمیل میں معاون ومدد گار رہتے تھے ۔ یقینا یہ ساری حسنات ان کے لیے صدقۂ جاریہ ثابت ہوںگی ۔

            مولانا مرحوم سے ساتھیوں کی وارفتگی ،دلی محبت اور خلوص کا یہ نتیجہ ہے کہ امسال تقریباً ۴؍ ماہ قبل ۱۹۹۷ء میں دسویںمرحلہ میں فارغ ہونے والے مولانا کے تمام رفقائے درس ان کی علالت مسلسل اور مرض دائم سے بے چین اور بے قرار ہوکر ایک ساتھ حاضر ہونے کی غرض سے بڑی کوشش کی اور سب سے رابطہ کرکے عیادت وتیمار داری کے جذبات سے معمور نم آنکھوں کے ساتھ حاضر ہوئے اور اہل خانہ کے دیے گئے وقت ملاقات تقریباً ۳۰:۹ بجے گھر پر سب جمع ہوئے ۔ وہ تاریخی اور یاد گار مجلس بھی خوب خوشی وغم ،مسرت ومضرت کے ساتھ ہنسنے اور رونے کا سنگم رہی ۔ دوستوں کی پرانی اور زمانہ طالب علمی کی یادیں تازہ ہوئیں ، تو مجلس عیادت ہنسی و مسرت سے جھوم اٹھتی ، لیکن جیسے ہی مولانا کے تاثرات اور اپنے ساتھیوں کو اچھی حالت میں پاکر ؛پھر اپنی بے بسی اور حالتِ زار پر صبر نہ ہوپاتا تو بے اختیار آنسوآنکھوں سے چھلک کر رخساروں پر بہنے لگتے ، تو ساری مجلس اور شرکائے مجلس فرط ِغم میں ڈوب جاتے اور کوئی بھی اپنے آنسوؤں کو قابو نہ کرسکتا اور اپنے ساتھی کے درد میں شریک، بل کہ ڈوب کر خوب دل کے جذبات دعاؤں میںالفاظ کا جامہ پہن کر ظاہر ہونے لگتے اور اس وقت ہر ساتھی کی کوشش یہ تھی کہ کسی طرح مولانا سعید صاحب ؒ اچھے ہوجائیں ۔کوئی قدرتی عجوبہ اور کرشمہ ظاہر ہوجائے اور پھر سے انہیں صحت اور زندگی مل جائے ۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے ہم ساتھیوں کی یہ خوشی وغم کے جذبات وحالات سے معمور مجلس چلی اور آخر میں بارگاہ رب العزت سے سب نے مل کر اجتماعی طورپر دعا کا اہتمام کیا اورایسی دعا، جس میں ساتھیوں نے بہت عاجزی ومسکنت سے دعائیںکیں ، لیکن بیدہ الامر کُلُّہ اور وہو علی کل شئ قدیر پرہمارا ایمان ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو مولانا کی زندگی مزید مطلوب نہیں تھی، بل کہ ان کی ادائیں اور اس طرح زمانۂ علالت میں جس شکستہ دلی کے ساتھ انہوں نے خود دعائیں کی اور اپنی عبادتیں جس والہانہ اور مخلصانہ انداز میں پیش کی ہوںگی وہ یقینا اللہ کو پسند آئی ہوگی اور اللہ تعالیٰ نے ان حالات ومصائب سے گزار کر اور جسماً و قلباً پاک و صاف کرکے اپنی بار گاہ میں {یٰاَ یَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ }پکار کر {ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْ ضِیَّۃً} کا مژدۂ مسرت سنادیا اور {فَادْ خُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْ خُلِیْ جَنَّتِیْ } سے اپنے بندے کو ابدی اور دائمی رہائش گاہ میں داخلہ کی اجازت عنایت کردی کہ جس کی تمنا ہر ایمان والے کو ہوتی ہے ۔ یقینا نماز جنازہ کی بھیڑ اور عرب علما ومشائخین ومحدثین کی موجود گی؛ مہمانان رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن سے مرحوم کو بڑی محبت تھی ، ان سب کی حاضری نے مولانا کی مغفرتوں کے راستے بہت آسان، بل کہ یقینی بنادیے۔

             اللہ ہمارے حسن ظن کی لاج رکھ کر ان کے حسنات کو قبول فرماکر مغفرت اور اعلیٰ علیین میں جگہ عنایت کرے ۔ تمام اہل ِخانہ ؛بالخصوص رئیسِ محترم ، برادرانِ مکرم اور پوری جامعہ برادری کو صبر جمیل نصیب فرمائے ۔

شریک غم عبد القیوم مالیگاؤں

۳۰؍۳؍ ۲۰۱۹ء