سنہری یادوںکی کرنیں؛تم اپنے دل میںرہنے دو!

نگارش: ابوعالیہ نازقاسمیؔ، مدھوبنی/استاذجامعہ اکل کوا

اجالے اپنی یادوں کے تم اپنے ساتھ رہنے دو

نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

کوئی دورائے نہیںکہ:        

            ’’آمدورفت‘‘  اِ س فانی دنیاکی کہانی میںازل ہی سے رچی بسی ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں جوآتا ہے جانے ہی کے لیے آتاہے ۔گویاکہ یہاںکسی کاآنا؛جانے ہی کی ایک تمہیدہوتی ہے ۔اِس لیے ارشادربانی {کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ}او ر خالق انس وجان ، رب دوجہان کے فرمان{کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَان وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ}کوسامنے رکھ کر اگر دیکھیںتومطلب یہ ہواکہ ہرآمد؛روانگی کا اورہرزندگی موت کاسگنل ہوتی ہے ۔ لیکن اِس حقیقت سے بھی انکارکی گنجائش نہیںکہ اُن جانے والوں میںکچھ ہستیاں ایسی بھی  ہوتی ہیں،جن کی موت’’موت العالِم موت العالَم‘‘کی ترجمان وبیان ہوتی ہے۔

            چناںچہ آج ہماراقلم کاغذی صفحات پر؛سنن ابو داؤد کتاب الادب میں موجود حضرت ابن عمر سے  مروی حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم’’اذکروامحاسن موتاکم‘‘کی روشنی میںجس ذاتِ گرامی کی عقیدتوں کے خوب صورت گل دستے لٹانے جا رہاہے،وہ گلشنِ وستانوی کا ایک ایسا شگفتہ پھول ہے، جس کی خوش بو برسوں تک ہمارے فکرونظر کو معطرومعنبرکرتی رہے گی۔جسے دنیا اب تک حافظ ،قاری و مولانا سعید احمدبن بانی ومہتممِ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا وسابق مہتمم دارالعلوم دیو بند مولاناغلام محمد بن محمد اسماعیل بن محمدابراہیم بن محمد رندیراکے نام سے جانتی تھی۔ اب صرف اُن کی حسین یادیں ہی ہماراپیچھا کرتی اور خونِ دل پینے پر مجبور کرتی رہیںگی۔

ایسے لمحات بھی آتے ہیں:

            یہ بڑی عجیب سی بات ہے کہ بسااوقات شاہ راہِ زندگی میںایسے لمحات بھی آتے ہیں،جس پر یقین ہی نہیںآتا۔لیکن بادلِ ناخواستہ ہی سہی؛مگرکرناہی پڑتاہے۔کچھ ایسا ہی واقعہ ۱۹؍رجب المرجب ۱۴۴۰ھ مطابق ۲۷؍مارچ ۲۰۱۹ء بروز :بدھ ؛بعد نماز مغرب راقم السطور کے ساتھ بھی پیش آیا ۔ہوا یوں کہ رفیق محتر م جناب قاری عبدالصمد صاحب نے تقریباً ۸؍بج کر ۱۰؍منٹ پر یہ اندوہناک خبرسنائی کہ مولانا سعیداحمد صاحب اِس دارِ فانی سے دار جاودانی میں پہنچ گئے ۔یہ خبر ایسی دلخراش تھی کہ جس پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا،چند لمحے سکتہ کے عالم میں کھڑے رہنے کے بعد تصدیقِ قلبی کے لیے اپنے رفیقِ کار مولانا مسعودعالم مظاہریؔ سے فون پر رابطہ کیا تو ساری حقیقت آشکارا ہو گئی کہ بات بالکل سچ ہے ۔( اِنَّا  لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ )

آئیے !آپ کی حیاتِ مستعارکامطالعہ کریں :

            مولاناسعیداحمدمرحوم اپنے۹؍ بھائی بہنوںمیںسب سے بڑے تھے۔آپ اصلاًصوبہ گجرات کے مشہور تجارتی وثقافتی شہر ’’سورت‘‘ سے شمال مشرق کی جانب۵۰؍ کلومیٹرکی دوری پر؛ کوساڑی سے متصل ایک چھوٹے سے گاؤں’’وستان‘‘ کے رہنے والے تھے،اسی لیے وستانویؔ کہلاتے ہیں۔لیکن آپ کی ولادت بھروچ ضلع کے ’’کنتھاریہ‘‘میں۲۲؍ اپریل ۱۹۷۷ء مطابق ۳؍ جُمادی الاولیٰ ۱۳۹۷ھ بروزجمعہ کواُس وقت ہوئی؛جب کہ والدِ محترم حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب دارالعلوم کنتھاریہ کی مسندِتدریس پر فائز تھے۔

تعلیمی سفرکی کہانی:

            یہ بھی سعادت ہی کی بات ہے کہ آپ نے مسلم شریف کی روایت ’’طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم‘‘کے مطابق تعلیمی سفر میں جب قدم رکھاہے تو از ابتدا تا انتہا ازہرِمہاراشٹرجامعہ ا سلامیہ اشاعت العلوم اکل کواہی میں مکمل بھی کیاہے۔

شعبۂ دینیات میںداخلہ:

            ۱۹۸۰ء میں (محلہ)مکرانی پھلی مسجدِ احسان کے غربی جانب میںجامعہ کی بنیادرکھی گئی ۔روزِ اول ہی سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے جامعہ اکل کواکے شعبۂ دینیات میں۳؍ سالہ نصاب چل رہاہے ،جس میں نورانی قاعدہ، چہل اللٰہم ،چہل ربنا ،تعلیم الاسلام ،دینی تعلیم کارسالہ وغیرہ اردوکتابیں اور ناظرہ قرآن مجیدکی تکمیل ہوتی ہے ۔قارئین کوحیرت بھی ہوسکتی ہے کہ اِس شعبہ میںآپ کے اساتذہ کی فہرست میں ناظم مطبخ حافظ عبد الصمد صاحب کانام بھی ملتاہے ۔ اِ ن کے علاوہ قاری نثاراحمدبھاگل پوری، مولانا محمد علی (علی حضرت) اورقاری محمداقبال صاحب دیولوی بھی شامل ہیں۔

شعبۂ تحفیظ القرآن میں:

            دینیات کا۳؍ سالہ نصاب مکمل کرنے کے بعد۱۱؍ شوال المکرم ۱۴۰۶ھ مطابق۱۹؍ جنوری ۱۹۸۶ء بروز اتوار درجہ حفظ میں عمرواڑہ ،ضلع بھروچ کے رہنے والے حافظ احمدصاحب کروڈیا کے پاس داخل ہوئے اور۳؍ سال کی مدت میں ۱۳؍ شعبان المعظم ۱۴۰۹ھ مطابق ۲۱؍ مارچ ۱۹۸۹ء بروز: منگل کو تکمیلِ حفظ قرآن کریم کی دولت وسعادت سے بہرہ ور اورمالامال ہوئے۔

آگے قدم بڑھائیے:

            شعبۂ تحفیظ القرآن سے فارغ ہونے کے بعدجب درونِ خانہ{ہل من مزید}کی صدابلند ہوئی،شوق وذوق اورجستجو نے سکون حرام کیاتو پھر علمی تشنگی بجھانے کی خاطر شعبۂ عالمیت میںداخل ہوئے اور  وقت کے اساطین علم وفضل اوراہل کمال حضرات سے اکتسابِ فیض کیا،جن میںسے چندکے اسمائے گرامی یہ ہیں:

            حضرت شیخ سلیمان شمسیؔؒ(جامعہ کے سابق شیخ الحدیث)،قاری انصارالحق صاحب سیتا مڑھی، مولانا حسن ابراہیم ستپونی، مفتی محمدجعفرملی رحمانی،مولاناعبدالرحیم فلاحیؔ، مولانا عبد الحفیظ ستپونی، مولانا عبد القدیر عمریؔ،شیخ رضوان الدین معروفیؔ ( موجودہ شیخ الحدیث)قاری عارف الدین انوی، مولانا شاہد جمال، مولانامحمد زاہدندویؔ، مولانا عبد الرحمن ملیؔندویؔ، قاری محمد سلیمان رویدروی؛جوکہ فی الحال شعبۂ دینیات کی مسندِ صدارت پر فائزہیں۔ اِس طرح تعلیمی سفر کی کہانی ۱۴۱۸ھ مطابق۱۹۹۷ء میںسندِ فراغت او ردستارِ فضیلت لے کراپنے آخری اسٹیشن پر پہنچ گئی۔

استاذِجامعہ کی حیثیت سے :

            فراغت کے بعدہی شعبہ ٔعا  لمیت کے استاذکی حیثیت سے آپ کاتقررعمل میںآگیا۔اور علم النحو، نحو میر، علم الصرف،قصص النبیین ،النحوالواضح ،ترجمہ قرآن مجید،نورالایضاح،ہدایۃ النحو کے علاوہ حدیث کی کتاب ریاض الصالحین آپ سے متعلق رہیں۔

عہدۂ نظامت وصدارت پر:

            اللہ تعالیٰ نے اپنی شان کریمی سے مولانامرحوم کے اندرانتظام وانصرام کی صلاحیت کابھی وافرحصہ عنایت فرمایاتھا۔یہی وجہ تھی کہ حضرت رئیس الجامعہ حفظہ اللہ نے ۱۴۲۷ھ مطابق ۲۰۰۶ء میںآپ کوجامعہ ابو بکر صدیق عنبڑضلع جالنہ کاناظم بناکربھیجاتھا۔آپ نے اپنی ۶؍ سالہ دورِ نظامت میںخونِ جگردے کرجامعہ کو ترقی کی شاہ راہ پرگامزن کیا۔پھراُس کے بعد۱۴۳۳ھ مطابق ۲۰۱۲ء میںاپنے والدمحترم ہی کی ایماپردوبارہ جامعہ اکل کوا تشریف لے آ ئے ۔بعدازاں روضۃ الاطفال’’شعبۂ دینیات‘‘ کے عہدۂ صدارت پرجلوہ افروزہوئے اورتادم واپسیں اِس منصبِ عالی پر فائز رہے ۔اپنے دورصدارت میں شعبہ کوفعال اورمتحرک بنانے میںکوئی کسرباقی نہ رکھی ۔ اساتذہ میںوہ اسپرٹ اوربیداری پیداکی ؛کہ اُن میں جواں مردی آگئی۔ اور سرپراِس عظیم ترین ذمہ داری کابوجھ ہونے کے باوجود بھی شعبۂ کتب میںریاض الصالحین اورترجمہ قرآن مجیدکادرس دیتے رہے ۔ 

 مولانا مرحوم کے اوصاف عالیہ:

             والدمحترم کی لیے شباہت،فربہ اورڈُھلڈھلی جسامت،ہردم چہرے پر بشاشت ولطافت، چھوٹوں پر شفقت و عنایت،زبان وبیان میں سلاست ،تدریس میں فصاحت، کذب بیانی سے زبان کی حفاظت ،نہ کسی سے شکوہ نہ شکایت،مصائب پر چٹان جیسی استقامت،تھوڑے پرصبروقناعت،حضرت باندویؒ سے تعلق و ارادت،رفتار میں متانت،گفتار میں حلاوت، کردار میں عدالت،طبیعت میں شرافت، مزاج میں قدرے ظرافت،مومنانہ فراست ، آنکھوںسے ٹپکتی ذہانت، خالق کی طرف انابت،قول و قرار میں صداقت،ہرکسی سے قرابت ، ناداروں اور لاچاروںکی خفیہ اعانت،ہرایک کے حقوق کی رعایت،اخلاق و ایثار کی علامت ،جامعہ ابوبکرصدیق عنبڑ کی نظامت اوردارالتعلیم والتربیۃ’’ شعبۂ دینیات‘‘کی صدارت؛جیسے اوصافِ عالیہ کے خوب صورت فریم میں جو تصویرقارئین کرام کو نظر آ رہی ہے ، وہ بانی ورئیس الجامعہ اکل کواحضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم کے لخت جگرنورنظر ’’مولانا سعیداحمد‘‘صاحب مرحوم کی ہے ،جوکہ اَب بہ مشیتِ ایزدی بعدطویل علالت ہمارے درمیان نہیں رہے۔

سعید کی سعادت:

            یہ بھی تو ہے جو کہ خالق کون ومکان کی طرف سے کتابِ رشدوہدایت قرآن کی شہادت ؛سورہ ہود کی آیت نمبر۱۰۸ {وَاَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّۃِ}میں موجود ہے :یعنی۲۸؍مارچ۲۰۱۹ء جمعرات کے دن جامعہ ڈی ایڈ کالج کے وسیع و عریض میدان میں؛ جہاں جامعہ کے ہزاروں طلبا ،علمااور صلحا کے علاوہ اطراف و اکناف اور دور و قریب کے عقیدت مندوںکے جم غفیر نے نماز جنازہ میں شرکت کی ،وہیں ملک و بیرون ملک کے سوا درجن کلامِ نبوی کے حاملین، خیرالانام کے وارثین، حرم نبوی کے محدثین اورعلمائے دین متین؛( جو ہفتہ بھرسے احاطۂ جامعہ میںمقیم رہ کرجامعہ کے زیراہتمام چل رہے’’دورۃ الحدیث لسنن ابی داؤد‘‘ میںفن حدیث کی مشہور کتاب ’’ابوداؤدشریف ‘‘کا درس علماوطلباکے درمیان دے رہے تھے ۔ اُن کے اسمائے گرامی یہ ہیں:

            شیخ احمد بن عاشور المدنی ،شیخ احمد الکسار الالبانی الکویتی، شیخ حامد اکرم البخاری المدنی،شیخ حسن حیدرالوائلی الیمنی،شیخ حفظ الرحمن الکملائی بنگلہ دیشی،شیخ ذاکر التونکی،شیخ صفوان الدائودی الشامی المدنی،شیخ عامر بہجت المدنی،شیخ عبد الرحمن الشمرانی المدنی،شیخ عبداللہ التوم المکی،شیخ قاسم آنٹی گجراتی،شیخ القدیمی الیمنی ،شیخ قمر الدین القاسمیؔ،شیخ یحیٰ الندویؔ، الاخ معاویہ جہاد عایش الکویتی وغیرہم )نے بھی شریک جنازہ رہ کر مرحوم کے حق میں دعائے مغفرت فرمائی۔

اہل نظرفرماتے ہیں:

            کہ جب خاندان میںکوئی بچہ پیداہواکرتاہے ،تووہ اپنے آباواجدادکاعکس جمیل ہوتاہے۔ خصوصیات، امتیازات اورصفات وکمالات کاامین وپاسبان ہواکرتاہے ۔بہ ظاہراُس کی ذات اورفطرت سادہ ہوتی ہے ، مگر مردانِ دور اندیش اُسی سادہ سی ذات میں گلشن کی رعنائیوںاوربہاروںکوملاحظہ کرلیاکرتے ہیں۔مرحوم کاحال بھی کچھ ایساہی تھا۔ مرحوم اپنے والدِ بزرگوارکاعکسِ جمیل تھے۔وہ اوصاف وکمالات؛جووالدبزرگوارمیںہیں،مرحوم میںبخوبی جھلکتے تھے۔

وفات حسرت آیات:

            مولانامرحوم اِدھرتقریباً ۳؍سال سے مختلف بیماریوںکے نرغے میںاپنی سانسیںلے رہے تھے۔علاج تسلسل کے ساتھ چل رہاتھا،صحت یابی کی ہرممکن کوشش کی جارہی تھی اورجگہ جگہ پردعاؤںکااہتمام بھی ہورہا تھا، لیکن نوشتۂ تقدیر کچھ اور ہی تھا،جس کوبدل دینا کسی انسان کے بس میں نہیں تھا۔اِس لیے دوا میں اثرڈالنے والے علیم وخبیر کی جانب سے اِس کی اجازت نہیں تھی۔ یوںزندگی کی گاڑی اپنی رفتار سے آگے کی طرف آہستہ آہستہ چلتی اور دنیاوی اسٹیشن چھوڑ کرآخرت کے پلیٹ فارم کی جانب کھسکتی رہی، یہاں تک کہ مشیتِ ایزدی کااشارہ پاکر فرشتۂ اجل نے۴۱؍ سال ۱۱؍ ماہ ۵؍دن؛یعنی ۱۵۳۰۵؍ دن کی مختصرسی عمر میں ۱۹؍رجب المرجب ۱۴۴۰ھ مطابق ۲۷؍ مارچ ۲۰۱۹ء بروز بدھ شام کے ۸؍بج کر ۱۰؍ منٹ پر سعید کی روحِ سعید کو{ ٰٓیاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْ ٓاِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ}کاپیغام ِ جانفزا سناکراِس دار الفرار سے اٹھا کر دار القرار میں پہنچادیا۔

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے

اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے

نمازجنازہ اورتدفین:

            ۲۰؍رجب المرجب ۱۴۴۰ھ مطابق ۲۸؍مارچ ۲۰۱۹ء بروز جمعرات کوصبح کے ۱۰؍بجے جامعہ ڈی ایڈ کالج کے وسیع وعریض میدان میں نمازجنازہ مسجدنبوی کے مایہ ناز محدث الشیخ حامداکرم البخاری حفظہ اللہ نے پڑھائی۔ اُس کے بعدجنازہ وہاںسے اٹھ کر دائمی آرام گاہ؛یعنی’’مکرانی پھلی قبرستان‘‘ کی جانب چلاہے تو دید کا عالم ناقابل بیان ہے ۔ سوگواروںاورغم گساروںکاجم غفیراورپروانوںکی امڈتی بھیڑ اتنی زیادہ تھی کہ خاموش بستی (قبرستان)کوجامعہ سے چندہی قدم کے فاصلے پرواقع ہونے کے باوجود جنازہ چیونٹی کی رفتارچلتے ہوئے تقریباً ۵۰؍ منٹ میںقبرستان پہنچاہے ۔ بہرکیف مولانامرحوم کے جسدخاکی کواشکباراورپُرنم آنکھوںکے ساتھ {مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی} پڑھتے ہوئے اکل کوا کی خاک کے سپرد کر دیا۔ یوںشرکائے جنازہ’’زندگی بھرکی محبت کاصلہ دینے لگے‘‘۔

پس ماندگان :

            حضرت مرحوم کے پس ماندگان کی فہرست میںاہلیہ محترمہ کے علاوہ ۵؍اولادیںہیں۔جن میں۲؍ لڑکے خزیمہ اورخباب اور ۳؍ لڑکیاںشامل ہیں۔

ہماری دعاہے یہی اے خدا:

            کہ مولانامرحوم کی لغزشوںاورخطاؤںپراپنی رحمت کاپردہ ڈال کر،حسنات کوشرفِ قبولیت سے نوازے، بال بال مغفرت فرمائے،اُن کی قبرمبارک کواپنے لاڈلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ گوہر فشان سے نکلے الفاظ ’’روضۃٌ من ریاضِ الجنۃ‘‘کامصداق بنائے۔ اہلِ خانہ اورمتعلقین کو صبرواجر اورنعم البدل عطافرمائے خصوصاً حضرت رئیس الجامعہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی کو اِس ضعیفی اورپیرانہ سالی میں پیش آمدہ حادثۂ فاجعہ پر صبروہمت عطا فرمائے اور اُن کا سایۂ عاطفت تا دیر امت کے سروں پر امن و عافیت کے ساتھ رکھے۔ آمین یارب العالمین ! 

            اللٰہم اغفرلہ وارحمہ وسکّنہ فی الجنۃ یاارحم الراحمین۔