انتخابات اور ووٹ سے متعلق چند اہم مسائل

 دورِ حاضر کی سیاست اور ووٹ:

 موجودہ دور کی سیاست نے الیکشن اور ووٹ کے لفظوں کو اتنا بدنام کردیا ہے کہ ان کے ساتھ مکر وفریب ، جھوٹ، رشوت اور دَغا بازی و وعدہ خلافی کا تصور لازمِ ذات ہوکر رہ گیا ہے، اس لیے اکثر شریف لوگ اس جھنجھٹ میں پڑنے کو مناسب نہیں سمجھتے، اور یہ غلط فہمی تو بے حد عام ہے کہ الیکشن اور ووٹوں کی سیاست کا دین ومذہب سے کوئی واسطہ نہیں، یہ اور اس طرح کی دیگر غلط فہمیاں – خواہ کتنی ہی نیک نیتی کے ساتھ پیدا ہوئی ہوں، لیکن بہر حال غلط اور ملک وملت کے لیے سخت مضر ہیں، کیوں کہ جمہوری نظام میں ووٹ کی غیر معمولی اہمیت ہے، جب تک ہم اپنے ووٹوں سے صاف سُتھرے لوگوں کو منتخب نہیں کریں گے، ہم اپنے دینی ، قومی اور مِلّی مفادات کے تحفُّظ میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے، لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے حقِ رائے دہی (ووٹ دینے کا حق) کا بھرپور استعمال کریں۔

اپنے آپ کو بحیثیت امیدوار پیش کرنا:

عام حالات میں اسلامی مزاج کے مطابق عہدہ واقتدار کی طلب غیر مستحسن ہے، کیوں کہ عہدہ کی طلب وحرص، اور مسابقت ایک ایسی لذت ہے کہ اگر عہدہ چھن جائے تو پھر حسرتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،لیکن اگر طلبِ عہدہ کے پیچھے کسی حظّ نفس کا دخل نہ ہوبلکہ محض انسانیت کا درد، امانت ودیانت کے ساتھ مفاداتِ عامہ کے تحفظ کا جذبہ کارفرما ہو، نیز انسانوں کو صحیح فائدہ پہنچانا ، خلقِ خدا کو جبر وظلم سے نجات دلانا اور شرور وفتن سے بچانا مقصد ہو ، فساق وفجار کے منتخب ہونے سے معاشرہ میں بے دینی کی ترویج کا خطرہ ہو، اور اس عہدہ ومنصب کے لائق دیگر افراد موجود نہ ہوں، بلکہ تنہا وہی شخص اس عہدہ کے لیے موزوں ہو، تو اب اس پرمذکورہ تمام مقاصد کے حصول کے لیے الیکشن میں اپنے آپ کو بحیثیت امیدوار پیش کرنا واجب ہے، البتہ وہ شخص از خود پرچۂ امیدواری داخل نہ کرے بلکہ دوسرے لوگوں کے ہاتھوں پرچۂ نامزدگی داخل کریں، تاکہ وہ طلبِ عہدہ میں متہم نہ ہو۔

فرقہ واریت پر مبنی منشور والی پارٹی میں شرکت:

 جو سیاسی پارٹیاں کھلے طور پر مسلم دشمن ہیں اور ان کے منشور میں اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت شامل ہے، اور کسی شخص کی یہ نیت ہو کہ وہ پارٹی میں شریک ہوکر اس کے ایجنڈے کو بدلنے کی کوشش کریگا، توایسی پارٹی میں شامل ہونے کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے، کیوں کہ اس طرح کی پارٹیوں میں شرکت اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت میں تعاون کے مترادف ہے، جو شرعاً ممنوع ہے۔

ووٹ کی شرعی حیثیت اور اس کی  خریدوفروخت :

 شرعاً ووٹ کی حیثیت شہادت(گواہی)، شفاعت (سفارش) اور وکالت کی سی ہے، گویا کہ جس شخص کو ووٹ دیا جاتا ہے اس کے حق میں ملک وملت کے خیر خواہ ہونے کی شہادت دی جاتی ہے، اس کو اپنا وکیل اورنمائندہ بنایاجاتا ہے، اور اس کے حق میں سفارش کی جاتی ہے، ان تینوں حیثیتوں کے اعتبار سے ووٹ قیمتی مال نہیں، جس سے شرعاً نفع اٹھانا ممکن ہو،جب کہ شرعاً کسی بھی چیز کی خریدو فروخت جائز ہونے کے لیے اس کا قیمتی مال ہونا ضروری ہے، اس لیے ووٹ کی خرید وفروخت شرعاًجائز نہیںہے۔

خواتین کے لیے حق رائے دہی کا استعمال:

خواتین انتخابات کے موقع پر اپنا حق رائے دہی (ووٹ) کا استعمال کرسکتی ہیں، بشرطیکہ پردہ اور دیگر امور شرعیہ کا لحاظ وخیال کریں، ورنہ ارتکابِ معصیت سے ووٹ کا ترک افضل ہے، حضرت مفتی ٔ اعظم مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ عورتوں کا ووٹر بننا ممنوع نہیں ہے، ہاں! ووٹ دیتے وقت شرعی پردہ کا لحاظ رکھنا لازم ہوگا۔‘‘

ووٹ دینے کے لیے جانے پر کرایہ وصول کرنا:

 ووٹ ایک شہادت ہے، اور جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ جب کسی شخص پر ادائے شہادت لازم ہوجائے، تواس کے لیے اس پر اجرت لینا حلال نہیں ہے، کیوں کہ یہ اقامتِ فرض ہے، اور اقامتِ فرض پر اجرت لینا حلال نہیں ہے، اللہ رب العزت کا فرمان ہے: {واَقِیمُوْا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہ}۔ (اور اللہ کی خاطر سیدھی سیدھی گواہی دو)، لیکن جب کسی شخص پر ادائے شہادت لازم نہ ہو، اور وہ محتاج وغریب ہو، اور ادائے شہادت کے لیے اُسے اپنا کام کاج چھوڑنا پڑتا ہو، اور مشقت برداشت کرنی پڑتی ہو، تو اس صورت میں بھی جمہور کا مذہب تو یہی ہے کہ ادائے شہادت پر اُس کے لیے اُجرت لینا جائز نہیں ہے، البتہ محض آمد و رفت کا کرایہ لے سکتا ہے، ارشادِ ربانی ہے: {ولا یُضارَّ کاتِبٌ ولا شہیدٌ}۔ (اور نہ لکھنے والوں کو کوئی تکلیف پہنچائی جائے ، نہ گواہ کو)، جب کہ شوافع اور حنابلہ اس صورت میں اپنے کام کاج چھوڑنے کی وجہ سے ہونے والے نقصان کو لینے کے جواز کے قائل ہیں، کیوں کہ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنا فرضِ عین ہے، اور ادائے شہادت فرضِ کفایہ ہے، جب شاہد (گواہ) نے آمد ورفت کے کرایہ کے ساتھ اپنا ہونے والا نقصان بھی لے لیا، تو گویا اس نے دونوں اَمروں (فرضِ عین وفرضِ کفایہ) کو جمع کرلیا، اور چوں کہ اِس صورت میں شہادت اُس پر لازم بھی نہیں تھی، لہٰذا اُس کے لیے اپنی اُجرت لینا جائز ہوگا، یہ ایسا ہی ہوا، جیسے قاضی وثائق (دستاویز) کے لکھنے پر اُجرت لیتا ہے، جو جائز ہے۔

ووٹ کے عوض ملے روپیوں سے مسجد کی تعمیر:

آج کل الیکشن کے موقع پر مختلف پارٹیوں کے امیدواروں کی طرف سے ووٹروں کو ان کے حق میں ووٹ ڈالنے کیلئے جو روپئے دیئے جاتے ہیں، وہ رشوت ہے، جو نص قطعی سے حرام ہے، اس لیے اس طرح کے روپئے مسجد کی تعمیر ، یا مسجد ، عیدگاہ اور قبرستان کی زمین کی خریدی، اور ان کی چہار دیواری وغیرہ بنانے میں صرف کرنا شرعاً ناجائز وحرام ہے۔

ووٹر کی انگشت پر روشنائی مانع وضوہے یانہیں؟:

 ووٹنگ کے وقت حکومتی انتخابی عملہ ووٹر کی انگشت پر روشنائی لگاتا ہے، تاکہ ووٹر دھوکہ دے کر دوبارہ ووٹ نہ ڈال سکیں، انگشت پر لگائی جانے والی یہ روشنائی دھونے پر بھی آسانی سے نہیں نکلتی، بلکہ کئی دنوں تک باقی رہتی ہے، اس کے انگلی پر لگے رہنے کی حالت میں وضو وغسل صحیح ہے، کیوں کہ وہ تہہ دار نہ ہونے کی وجہ سے وضو اور غسل میں بدن تک پانی پہنچنے کو نہیں روکتی۔

معتکف کا ووٹ دینے کے لیے جانا :

اگر الیکشن کے ووٹنگ کی تاریخ اعتکاف مسنون کے زمانے میں واقع ہورہی ہو اور معتکف ابتدائے اعتکاف میں ہی یہ تصریح کرلے کہ میں اللہ تعالیٰ کے لیے رمضان المبارک کے عشرۂ اخیرہ کے اعتکاف کی نیت کرتا ہوں، البتہ انتخاب والے دن ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشن (Poling Station) پر جاؤں گا، تواس کے لیے ووٹنگ کے لیے نکلنا جائز ہوگا، پھر ایسے وقت نکلے کہ جاتے ہی ووٹ ڈال سکے، اور فارغ ہوتے ہی مسجد آجائے اور اعتکاف پورا کرے۔

معتدہ کا ووٹنگ کے لیے نکلنا:

جو عورت طلاق یا وفات کی عدت گذار رہی ہے، اس کے لیے ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے، کیو ں کہ الیکشن میں ووٹ ڈالنا ایسی ضرورت نہیں ہے، جس کی وجہ سے عدت میں عورت کو نکلنے کی اجازت دی جائے۔