علما سے نفرت کافتنہ

                                                محمد مجاہد بن حافظ محمدصادق صاحب اشاعتی پھلمبری

            اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اورجنابِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیثِ مبارکہ میں حضراتِ علما کی فضیلت بیان فرمائی ہے اوراِنھیں دین کے محافظ ،انبیا کے وارث ،اللہ سے خشیت رکھنے والے اورطرح طرح کے اوصاف والقاب سے بھی نوازاہے؛لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دشمنانِ اسلام نے ہردوراورہرزمانے میں علما کوبدنام کرنے اوراُنھیں جڑ سے ختم کرنے کی سازشیں کی ہیں ،کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اگردین وشریعت کو ختم کرنا ہے توپہلے اِن علما کو ختم کرنا ہوگا یا پھرعوام کے ذہن ودماغ میں ان کے متعلق ایسی من گھڑت باتیں پیش کرنا ہوںگی، جس سے ان کا تعلق ختم ہوجائے ۔اوروہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگرعوام کا علما سے ربط ختم ہوجائے گا ، تو پھرسادہ لوح لوگ ایمان وشریعت سے خودبہ خود ہاتھ دھو بیٹھیں گے یا کم ازکم ان کے عقیدے کی مضبوطی ،عبادات کی پابندی اورشعائراسلام سے لگا ؤ میں کم زوری آجائے گی اوروہ لوگ اِ س مشن میں کسی حدتک کام یاب بھی ہوگئے ؛وہ اِ س طرح کے جب لوگوں کے سامنے علما کی برائیاں بیان کی جانے لگی اوراُن کے دلوں میں نفرت پھیلائی گئی تو عوام کا ربط علما سے کم ہوتا چلا گیا؛ جب کہ اہلِ علم اورعلما کاکیا مقام ومرتبہ ہے اس سے کوئی بھی ایمان والاناواقف نہیں ہے، پھربھی اہلِ علم اورعلما کے متعلق چندسطریں قرآن وحدیث کی روشنی میں نقل کی جاتی ہیں ۔

علما وراثتِ انبیا کے امین ہیں:

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضراتِ علما کی فضیلت ایک حدیث میںاِ س طرح بیان فرمائی ہے :

            ’’ إِنَّ العُلَمَائَ وَرَثَۃُ الأَنبِیائِ ‘‘ (سنن أبی داؤد)

            دین کا علم انبیا کی وراثت ہے اورحضرات علما کرام اس وراثت کے امین ہیں ،دین کے جتنے بھی علوم ہیں تفسیر وحدیث وغیرہ ا وران کی تشریح وتوضیح کی ذمہ داریاں علما کے سپردکی گئیں ہیں ؛دین کی صیانت وحفاظت ، دعوت وتبلیغ کا فرضِ منصبی علما ہی صحیح طورپرنبھاتے ہیں، بل کہ صحیح بات یہ ہے کہ علما ہی امت اورنبی کے درمیان واسطہ ہیں ،لہٰذاعلما کے واسطے میں جتنی کمی آئے گی امت کانبی سے تعلق ویساہی کم زورہوتاجائے گا۔اِس لیے ہمیں چاہئے کہ نبی سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنے اورشریعت کو سمجھنے کے لیے علماے دین سے ربط مضبوط کریں اوران کے مقام ومرتبہ کو پہچانیں، کیوں کہ یہی علما انبیا کی وراثت کے امین ہیں ۔

علما معاشرے میں مثلِ قلب ہیں :

            حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:ان خواص اورعلما کو معاشرے میں وہی مقام حاصل ہے ،جو آدمی کے جسم کے اندر دل کو حاصل ہے۔گویا جس طرح جسم کا صلاح وفساد قلب کے اوپرموقوف ہے ،اسی طرح معاشرے کا صلاح وفساد اسی طبقے کے اوپرموقوف ہے اورجوحال قلب کا ہے ،وہی حال مِـلّت اورمعاشرے میں اہلِ علم کاہے ۔

            إِنَّمَا یَخْشَی اللّہَ مِنْ عِبَادِہِ العُلَمَاء َ(سورۂ فاطر)اللہ کے بندوں میں علما میں اللہ کی خشیت سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔

            شریعت کے مسائل واحکام ،اللہ کی معرفت اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاکو جس طرح علما سمجھ سکتے ہیں وہ عوام کے بس کی بات نہیں ،اسی لیے خوفِ خدااوراللہ رب العزت کی خشیت ومعرفت علما کو سب سے زیادہ حاصل ہوتی ہے۔

تعلیم کے لیے معلم ضروری ہے :

            انسانی فطرت ہے کہ انسان سیکھنے کے عمل کو پسندکرتاہے اوراسی کو اپنی ترقی وعروج کا ضامن سمجھتا ہے ، لیکن سیکھنے کے عمل کو معیاری اوربامقصد بنانے کے لیے کسی سکھانے والے کاہونا ضروری بھی ہے ،لہٰذاجس قدرتعلیم ضروری ہے اسی قدرمعلم بھی ضروری ہے اورجس طرح معاشرتی ضروریات کو پوراکرنے کے لیے علم ضروری ہے اسی قدر اس علم کو سکھلانے والے اوراس کی آبیاری کرنے الے اہلِ علم وعلما بھی معاشرے کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں۔

            { فَاسْئَلُواأَہْلَ الذِّکْرِإِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ}(النحل:۴۳)

             ’’اگرتم نہیں جانتے ہو تو اہلِ علم سے پوچھو۔‘‘

            لیکن آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم شرعی مسائل بھی علما سے نہیں پوچھتے۔ جب کہ قرآن کریم نے صاف طور پربیان فرمایاہے کہ اگرتم نہیں جانتے ہوتو اہلِ علم سے پوچھو۔ہم اپنے مسائل کا حل علما سے نکال سکتے ہیں، لیکن علما کا عوام سے جیسا ربط ہونا چاہیے ویسا ربط ہی نہیں اورعوام علما سے ہمیشہ کٹ کررہتی ہے، جو دشمنان ِ اسلام کا منشا ہی ہے؛ بل کہ عالم کے پاس جاکر مسائل پوچھنے کو عار سمجھا جاتا ہے اور اگر علما از خود مسائل بتائیں تو بھی اس پر عمل نہیں کیا جاتا ۔

            نہ علما سے نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج کے مسائل معلوم کیے جاتے ہیں اور نہ ہی تجارت وملازمت اور دیگر دنیاوی امور کے دینی و شرعی نقطہ ٔ نگاہ سے آگاہی حاصل کی جاتی ہے ،اگر علما کبھی رشوت اور سود کی حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں تو ان کو ناسمجھ اور نہ جانے کیا کیا کہا جاتا ہے ۔ و ہ کبھی دنیا داروں کو تجارت کے مسائل سے آگاہ کریں تو کاروباری دنیا کے ماہرین انہیں کم ظرف اور دنیاداری سے نا آشنا ہونے کا طعنہ دیتے ہیں ۔

            بہر حال کسی بھی طرح علما کی باتوں کی طرف وہ توجہ دینا نہیں چاہتے اور اپنا ربط علما سے ختم کرنا چاہتے ہیں اوراسی میں وہ اپنی بھلائی سمجھتے ہیں ، جو کہ بالکل غلط ہے ۔

علما سے عوام کا ربط ختم کرنے کی عالمی سازش :

            مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے ہر دور میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ علما اور عوام کے رابطہ کو کم زور کردیا جائے ۔یہ جوکمیونسٹ آئے مسلم ملکوں میں کئی مسلم ملکوں کو ہضم کرگئے۔ انہوںنے یہی طریقہ اختیار کیا کہ انہوں نے علما اور مشائخ کی اتنی برائیاں بیان کیں اور مسلمانوں کا ذہن ان کے بارے میں اتنا پرا گندہ کیاکہ آپ ریسین کمیونسٹ تحریک کی تاریخ پڑھیے،تو معلوم ہوگا کہ مقتدیوں نے اپنے امام کو قتل کیا اور مریدوں نے اپنے شیخ کوتہ تیغ کیا ۔

            یہ ایک سازش ہوتی ہے کہ علما اور عوام کے درمیان کے رابطہ کو کم زورکردیا جائے اور یہ کوئی نئی بات یا نیا سلسلہ نہیں ہے ، شروع سے ہوتا آیا ہے۔ آپ دیکھیے ! منافقین صحابہ کرام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بدظن کرنے اور دور کرنے کے لیے کیسی کیسی ترکیبیں اختیار کرتے تھے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کو ترجیح دیتے ہیں، تم نے ان کی کتنی خدمت کی، لیکن تمہاری طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جھکاؤ نہیں ہے۔ یہ مثال دے رہاہوں کیوںکہ جس سے انسان کا ایمان جڑا ہوا ہے ،جس کے ذریعہ اس کے دین کو تقویت پہنچ رہی ہے، جب اس سے اس کا رشتہ کٹ جائے تو اس کو اچک لینا اور اغوا کرلینا کچھ مشکل نہیں ہوتا ہے۔

            اس کی مثال کچھ اس طرح دی جاسکتی ہے کہ بہت سارے بلب ہیں۔ ٹیوب لائٹس ہیں، لیکن جہاں الکٹرک کا مرکز ہے، وہاں سے اگر اس کا تعلق ختم ہوجائے تو ایک ایک بلب کو بجھانا نہیں پڑے گا، پوری روشنی ایک ساتھ ختم ہوجائے گی، تو اس وقت یہ عالمی سازش چل رہی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے دین سے بدظن کرنے کے لیے ان کو علما سے بدظن کردیا جائے ۔

عوام کو علما ومدارس سے بدظن کرنا میڈیا کا محبوب مشغلہ :

            ہمارے ملک کے میڈیا میں جو مسلمانوں کو بدنام کیاجاتا ہے تو بدنام کرنے کے لیے یہ نہیں کہتے کہ اسلام نے ایسا کہا،کہتے ہیں کہ ملّاؤں نے ایسا کہا ہے ؛ہر جگہ انہوںنے نام ملّاؤںکا لے رکھا ہے ملّا ایسا کرتے ہیں ۔ مُلّا ویسا کرتے ہیں ۔ یہ بالکل جھوٹے ہیں، علما کو بدنام کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ کوئی سڑک چلتا آدمی جو ٹوپی ڈاڑھی رکھا ہوا ہو، اس کو کہلوانا چاہتے ہیں، اس کے لیے تیار کرتے ہیں،پیسہ دے کر اس کو میڈیا تک لے آتے ہیں اور مولویوں اور علما کو بدنام کرتے ہیں ۔کبھی ان کے بارے میں جہالت کی باتیں ہوتی ہیں تو کبھی یہ کہ یہ قوم پر بوجھ ہیں، ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ یہ ایک بہت بڑی سازش ہے اور واقعی اس سازش کے بارے میں ہم لوگوں کو چوکنا ہونا چاہیے۔ اور بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک کا میڈیا بہت تیزی سے اس سازش کو پھیلارہاہے۔ دیکھیے!عوام کا ایمان علما سے تعلق کی بنا پر ہی قائم رہے گا، اس لیے مسلمانو ںکو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس چیز سے تمہارے دین کا بقا ہو اس کی اہمیت اور اس کی عظمت کو محسوس کرو ۔

(بحوالہ: فیضان علم وعرفان)

علما کا احترام کریں :

            حضرت جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :فَضْلُ العَالِمِ عَلیَ العَابِدِکَفَضْلِی عَلی أَدْنَاکُمْ (ترمذی )ترجمہ:عالم کی فضیلت ایک عابد پرایسی ہے، جیسے میری فضیلت میرے ایک ادنی امتی پر۔جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک عالمِ دین کی یہ فضیلت بیان فرمارہے ہیں، تو ہمیں ان کا احترام ضرورکرنا چاہیے ، کیوں کہ یہی وہ علما ہیں، جو ہمیں بتاتے ہیں کہ نمازفرض ہے۔ روزہ، زکوۃ، حج اوردوسرے ارکان کی فرضیت کاعلم کاپتہ اہلِ علم سے ہی ہوتاہے؛ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عابدوں پر علما کی فضیلت بیان فرمائی ہے؛ کیوں کہ جوخالص عابدہوگااورعالم نہ ہوگا تو وہ مسلمانوں کے گمراہ ہونے میں رکاوٹ نہیں بن سکتا ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس میں ایسی صلاحیت نہیں ہوتی ہے کہ وہ اعدائے اسلام کے سوالات اوران کے پیداکیے جانے والے شبہات کا جواب دے سکے ۔عالم ہوسکتاہے کہ عمل کے اعتبارسے کوتاہ ہو، لیکن وہ انسان کے ایمان کو ضائع ہونے سے بچانے کی صلاحیت رکھتاہے ؛اس لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ فضیلت عالم کی بیان فرمائی ہے ۔

            ان علما کی قدرکریں ورنہ ایک وقت آئے گا کہ یہ اہلِ علم باقی نہیں رہیں گے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پرغورفرمائیں :

            إنَّ اللّہَ لَایَقْبِضُ العِلْمَ إِنْتِزَاعًا،یَنْتَزِعُہ مِنَ العِبَادِ وَلکِنْ یَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَائِ حَتّی إِذَالَمْ یَبْقِ عَالِمًا،إِتَّخَذَالنَّاسُ رُئُ وسًاجُہَّالًا،فَسُئِلُوا،فَافْتَوابِغَیْرِعِلْمٍ ،فَضَلُّوا وَأضَلُّوا۔

(رواہ البخاری عن عبد اللہ بن مسعودؓ)

            ترجمہ: اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں (کے سینوں سے )نکال لے، بل کہ علما کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا؛یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو جاہلوں کو اپنا سرداربنالیں گے اوران سے ہی (دینی مسائل )پوچھے جائیں گے اوروہ بغیرعلم کے فتوے دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اوردوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ۔

            ظاہر ہے کہ اہلِ علم اٹھتے چلے جائیں اوردوسرے لوگ علم کی طرف مشغول ومتوجہ نہ ہوں ،تو یہی ہوگا کہ علم کا قحط پڑ جائے گا اور جہل کا دور دورہ ہوگا اور لوگ جاہلوں کو علما کا منصب دے کر ان سے فتوے لیں گے اورگمراہی میں پڑجائیں گے۔

علمِ دین حاصل کرو :

            علمِ دین کی اہمیت وضرورت ایک مسلمہ چیز اورعلم سے دوری وبُعدہزاروں فتنوں کی جڑہے ۔آج جولوگ فتنوں کا شکارہوکرگمراہی کی طرف جارہے ہیں ،ان کی اصل خرابی یہی علمِ دین سے ناواقفیت ہے ،جس کی وجہ سے کسی بھی فتنے کااثرقبول کرلیتے ہیں ؛بعض لوگ قادیانیت کے فتنے کا شکا رہوجاتے ہیں، تو بعض لوگ انکارِ حدیث کے فتنے سے متأثرہوجاتے ہیں ؛اسی طرح بسااوقات جہالت کی وجہ سے آدمی عیسائیت وغیرہ قبول کرلیتاہے ۔غرض یہ کہ جہالت اورعلم دین سے ناواقفیت ،ہزاروں فتنوں کا سامان ہے ،اس لیے مسلمان کو جاہل ہونا یا جاہل رہنا جائز نہیں، بل کہ اس پرعلم دین کی تحصیل فرض ہے ۔

جاہل عابداورفاسق قاری :

            جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آخری زمانہ میں بے علم عبادت گذاراوربے عمل قاری ہوں گے ۔مطلب یہ ہے کہ آخری زمانے میں ایسے عبادت گذارلوگ ہوں گے ،جن کے پاس دین کا علم نہیں ہوگا اورفاسق بے عمل قاری ہوں گے اوریہ دونو ں ہی طبقے دین وملت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں،کیوں کہ جاہل عبادت گذاردین کا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے بدعات وخرافات ؛بل کہ شرکیات ولغویات میں مبتلاہوجاتے ہیں اوراپنی جہالت سے ان کو دین میں بھی داخل کرلیتے ہیں پھراپنی عبادت کے غرورمیں علمائے حق کے فتاوی کی بھی مخالفت کرتے ہیں اورایک مستقل محاذبنالیتے ہیں اورجولوگ ان کی عبادت وریاضت اورمحنت ومجاہدے کو دیکھتے ہیں ،وہ ان کے معتقد وحامی بن جاتے ہیں اورمستقل ایک فرقہ اورجتھابنالیتے ہیں؛چناں چہ جاہل صوفیا ،جواپنے آستانوں اورخانقاہوں میں بدعات وخرافات اورشرکیات میں ملوث ہیں اوردوسروں کو ملوث کررہے ہیں ،یہ اس حدیث کے سچے مصداق ہیں ۔ہاں جوصوفیا واقعی اللہ کے محبوب ومقرب ہیں ،جنہوں نے علمِ شریعت بھی حاصل کیااورعلمِ شرع کے مطابق عمل کیا اورکرتے ہیں ،وہ دین کے داعی اورمحافظ ہیں ۔اسی طرح فاسق قراء ، علمابھی دین وملت کے لیے خطرہ ہیں ؛ کیوں کہ ان کا فسق وفجور اوران کی بے راہ روی ودنیا طلبی ،ان کو کبھی دین میں تحریف وتبدیل پر،کبھی تاویل وترمیم پر،کبھی حذف واضافے پرابھارتی ہے اورمحض اپنی خواہشات کی بنیاد پراللہ کے دین کو کھلواڑبنالیتے ہیں اوراللہ سے بے خوفی وبے تعلقی ان کوحرام وحلال کی تمیزسے محروم کردیتی ہے ۔اس لیے محض دنیاکے لالچ اورخواہشات کی پیروی کی بناپریہ لوگ خودبھی گمراہ ہوتے ہیں اورعوام الناس کو بھی گمراہی کے گڑھے میں لے جاتے ہیں ۔اللہ ہردوطبقہ سے ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔(بحوالہ: حدیث نبوی اور دور حاضر کے فتنے )

عوام؛ فتنۂ تنفیرمع العلما میں کیسے مبتلاہوئی :

            دشمنانِ اسلام نے اپنی چال کے ذریعہ سادہ لوح عوام کو شعوری وغیرشعوری طورپرتعلیماتِ اسلامی سے برگشتہ کردیااورپھرعوام نے اُن علما ہی کو (جواُنھیں حلال وحرام کی تمیزبتاتے ہیں ،جائزوناجائزکادرس دیتے اورمشتبہات سے دوررکھتے ہیں)ناکارہ اورنااہل قراردے دیا اورخودہی اپنے ذہن ودماغ سے خواہشاتِ نفسانی کے مطابق قرآن وحدیث کی تشریح وتوضیح کرنے لگے ۔اوراہل حق علما سے دورہوکرخودبھی گمراہ ہوئے اوردوسرے لوگوں کو بھی گمراہ کرنے لگے اوریہی وہ لوگ ہیں جب ان کے سامنے اہل حق علما دینی مسائل پیش کرتے ہیں تو یہ لوگ یاتو سنتے ہی نہیں اوراگرسنتے ہیں تو پھر اس کوسیاسی رُخ دے دیتے ہیں۔ اورپھرعلما سے بغض، عناد اوردشمنی کرلیتے ہیںاوررفتہ رفتہ پورامعاشرہ علما سے دورہوجاتاہے اور اس طرح تنفیرمع العلما میں مبتلاہوجاتے ہیں ۔

            مزید یہ کہ دشمنانِ اسلام کی طرف سے اسلاف کے متعلق سوشل میڈیا کے ذریعہ اور کبھی اشتہارات اور رسائل کے ذریعہ غلط باتیں بیان کی جاتی ہیں اور کبھی موجودہ علما کو ٹارگیٹ کرتے ہوئے یہ سازشیں رچی جاتی ہیں اور جب عوام کے سامنے یہ پروپیگنڈہ آتا ہے ، تو عوام ان سب باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے تنفیر مع العلما  میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔

علما پربے اعتمادی کا فتنہ:

            آج کل عام ماحول یہ بنتا بل کہ بنایاجارہاہے کہ علما پراعتماد نہ کرتے ہوئے دین کے علم کو سوشل میڈیااورانٹرنیٹ کے ذریعہ حاصل کیا جائے؛ جب کہ سب جانتے ہیں کے علم ِ دین کا تعلق سینے سے ہے ۔اس کو سینہ بہ سینہ حاصل کیا جاتاہے ۔اورآج معاشرہ کا حال یہ ہے کہ وہ انٹرنیٹ پراعتماد کرتاہے، لیکن اہلِ حق علما پر اعتمادنہیں کرتا ،جب کہ اللہ رب العزت نے قرآن ِ کریم کے ساتھ معلمِ قرآن کو بھی نازل فرمایا ہے ؛ورنہ اگرصرف کتاب سے علم حاصل کرلیاجاتا تونبی کی ضرورت ہی نہ ہوتی ۔

            اس لیے ہم اگرعلم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو علما پراعتماد کریں اوران سے علم سیکھیں۔ٹی وی ، کمپیوٹر اور دیگر جدید آلات پراعتماد کرکے ان کواپنامعلم نہ بنائیں ،دینی مسائل علما سے حل کرائیں کہ یہی کام یابی کے زینے ہیں ۔

علمائے حق اورعلمائے سو میں تمیز:

            خاص بات تو یہ ہے کہ عوام علمائے حق اورعلمائے سوء میں فیصلہ ہی نہیں کرپاتی اورہردوطبقہ کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کرتے ہیں ،جو کسی صورت میں درست نہیں ۔اوریہی وجہ ہے کہ عوام کو شکوہ بھی ہوتا رہتا ہے کہ اب علما رہے کہاں ؟حالاں کہ علما ہرزمانہ میں ر ہے ہیں اوررہیں گے ،جب تک دین وشریعت باقی ہے تب تک اس کے محافظین بھی باقی رہیں گے ۔علما ئے سوء کی بدکرداریاں، یقینا امتِ مسلمہ کے لیے بڑی خطرناک اورمہلک ہیں ، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ آپ علمائے حق کو بھی علمائے سوء کے درجہ میں رکھ دیں اورہردوکے ساتھ یکساں سلوک کریں ۔ہم پرضروری ہے کہ ہم علمائے حق اورعلمائے سوء کے درمیان تمیز کریں اورجانیں کو ن لوگ اسلام اورمسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہیں اورکون ایسے ہیں جو رہبرشریعت اورمحافظِ دین وایمان ہیں ۔

کچھ اپنوں کی ستم ظریفیاں :

            آج کل علما کو ہرجگہ لعن طعن کیاجاتا ہے۔ان کی تحقیر کی جاتی ہے، ذلیل کیاجاتاہے ۔علما کے تواضع وانکساری کو تذلل اورفقیری کانام دیاجاتاہے ،اُن کے اخلاص پرشک کیا جاتاہے ۔اکثروبیشتریہ بات بھی دیکھی جاتی ہے کہ مساجدکے متولیان ،اربابِ مدارس اورمکاتب کے ذمہ داران کا معاملہ علما کے ساتھ نازیبا اورغیراخلاقی ہوتاہے ۔ عوام کی طرف سے علما کی معمولی لغز شوں کو ایشوبناکر پیش کیا جاتاہے اورپورے معاشرے اورسوسائٹی میں بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ؛بعض مرتبہ دین دارطبقہ چند سطریں پڑھ لینے اورایک دوبیان سننے کے بعد اپنے آپ کو عالم اورحقیقی عالم کو جاہل سمجھنے لگتا ہے ،جس کی وجہ سے معاشرہ میں ان کی قدرومنزلت نہیں ہوتی ۔جب کہ سب کو اہلِ علم کا مقام ومرتبہ معلوم ہے ،اُن کی گستاخی کرنے کے انجام سے کوئی شخص ناواقف نہیں ہے اوریہی وہ علما، جو بچپن سے بڑھاپے بل کہ پیدائش سے موت یعنی ہندستان سے قبرستان تک ہماری رہبری کرتے ہیں ۔ نیزقرآن وحدیث میں ان کی اتنی فضیلت بیان فرمائی گئی ،اس لیے سبھی کو چاہیے کہ وہ علما کااِکرام کریں ،تنفیرمع العلما سے اجتناب کریں اوردشمنانِ اسلام کی سازشوں سے اپنے آپ کو مکمل طور پر بچائے رکھیں۔

آخری بات :

            جب ہم سب جانتے ہیں کہ یہ پُرفتن دورہے اورطرح طرح کے فتنے آئے دن جنم لے رہے ہیں ۔ خاص طورپرعالمی صیہونی طاقتیں اسلام کو بدنام کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑتی، وہ ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ، جس سے تنفیر مع العلما میں مدد مل سکے ۔ایسے حالات میں ہم اہلِ ایمان کو اپنے ایمان کو مضبوط کرنے اورشریعت کے تقاضے کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی ضرورت ہے ۔علما سے رہبری حاصل کرنے اوراس پرعمل کرنے کی ضرورت ہے ۔اوردشمنانِ اسلام کی سازشوں کوناکام بنانے کاوقت ہے ۔آپسی اختلافات کو ختم کرکے ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوکراسلام اوراہلِ اسلام کی طاقت وقوت کا مظاہرہ کرنا ہے اوریہ لازم کرلینا ہے کہ ہم ہرکام حضراتِ علما سے پوچھ کرہی کریں گے اورحقیقت یہی ہے کہ یہی بوریہ نشیں علما اُمت کے مسائل حل کرسکتے ہیں ؛ یہی وہ لوگ ہیں ،جو وفاشعار اورمخلص ہوتے ہیں اورقرونِ اولیٰ سے آج تک امت کی کشتی کے ناخدابن کرموجوں اورمخالف سمت ہواؤں کا مقابلہ کرتے ہوئے ہرموڑپرامت کی صحیح رہبری اوررہ نمائی کرتے آئے ہیں ۔

            دعا کریں کہ اللہ رب العزت ہمیں اہل حق علما کی قدر ومنزلت عطا فرمائے ۔ آمین !

(اسی تنفیر علما سے جڑا یاسر ندیم الواجدی صاحب کا اگلے صفحہ پر آرہا مضمون بھی ہے) ۔از: ابراہیمیؔ