فتنۂ ملبوسات

مفتی عبد الغفور گوگانوی(استاذ جامعہ اکل کوا)

            عصر حاضر کے بڑے بڑے فتنوں میں سے ایک فتنہ فحاشی وعریانی کابھی ہے ۔ اہل مغرب نے صنف نازک؛ یعنی عورتوں کو ان کے گھروں سے باہر نکال کر اپنے افکار ونظریات کی ترویج کے لیے بڑی خوش اسلوبی سے استعمال کیا ہے؛ آج معاشرہ میں ہر جگہ فحاشی وعریانی کا بازار گرم ہے اور یہ تمام تر فحاشیت و عریانیت ؛مغربی فکر اور اس کے فلسفے کے اثرات ہیں کہ حیا باختہ عورتوں کا لباس مغربی عورتوں کی تقلید میں دن بدن گھٹتا ہی چلاجارہا ہے ،شروع میں برقع اترا، پھر دوپٹہ بھی گیا اور اب چہرے کے ساتھ ساتھ سر اور گردن بھی ننگی ہوگئی ، بڑے گلوں کا رواج آیا تو سینے کا ایک حصہ بھی نمایاں ہوکر سامنے آگیا ۔ آئے دن عورتوں کی قمیصیں چھوٹی اور تنگ سے تنگ ہوتی جارہی ہیں، جس کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہے کہ عورتوں نے جسم کے جن اعضا کو معاشرتی قدغنوں کی وجہ سے چھپا یا ہوا ہے وہ بھی کسی طرح تنگ اور باریک کپڑے پہننے سے نمایاں ہوکر سامنے آجائیں ؛ حالاں کہ لباس کی وضع قطع تہذیب ومعاشرت کے اہم ترین مسائل میں سے ہے ، جس میں اسلام اپنا ایک الگ لباس متعارف کرواتا ہے ، جو سترو حجاب کی تعلیمات کے عین مطابق ہے؛ جب کہ اس کے برعکس مغرب ؛ایک ایسا لباس سامنے لے کر آتا ہے ، جو اس کے فلسفۂ حیات کے مطابق ہے ۔ یعنی فحاشی وعریانیت پر مشتمل مردوں کا لباس عورتوں کو اورعورتوں کا لباس مردوں کو اور عورتوں کا لباس نیم برہنہ ؛کہ کپڑوں کے باوجود وہ برہنہ اور ننگی نظر آتی ہیں ۔ یہ بھی انہیں فتنوں میں سے ایک ہے ، جس کی نشان دہی آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے فرمائی ہے اور ایسی عورتوں کو جہنم کی بشارت دی ہے ، جولباس پہن کر بھی برہنہ ہی رہتی ہیں۔ یعنی یا تو اتنا باریک لباس پہنتی ہیں کہ سارا جسم اس میں سے نظر آرہا ہوتا ہے یا پھر اتنا تنگ لباس پہنتی ہیں کہ جسم کے نشیب وفراز واضح ہوکر دعوتِ نظارہ دے رہے ہوتے ہیں ۔

            عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صنفان من أہل النار لم أرہما قوم معہم سیاط کأذناب البقریضربون بہا الناس، ونساء کاسیات عاریات، ممیلات مائلات رؤسہن کأسنمۃ البخت المائلۃ لا یدخلن الجنۃ ولا یجد ریحہا وإن ریحہا لیوجد من مسیرۃ کذا وکذا ۔(رواہ مسلم )

            دو گروہ ایسے ہیں کہ جو اہل جہنم میں سے ہیں ، لیکن میں نے ان کو نہیں دیکھا ۔(یعنی میری وفات کے بعد آئیںگے )ایک تو وہ لوگ ہوں گے؛ جن کے پاس گائے کی دموں جیسے کوڑے ہوںگے ، جن سے و ہ لوگوں کو ماریںگے۔ اور دوسری وہ عورتیں ہوںگی جو کپڑے پہن کر بھی ننگی ہوںگی (یعنی یاتو اتنا باریک لباس پہنا ہوگا جس کی وجہ سے جسم نظر آرہا ہوگا یا پھر ایسا لباس پہنا ہوگا کہ جس نے ان کے جسم کا کچھ حصہ ڈھانپا ہوگا اور کچھ حصہ ننگاہی ہوگا )مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اور خود مردوں کی طرف مائل ہونے والی ہوںگی ،ان کے سر ایسے ہوں گے جیسا کہ خراسانی نسل کے اونٹ کے کوہان ہوں۔ (سر کے بالوں کے نت نئے فیشن اور اسٹائلز کی طرف اشارہ ہے ۔ واللہ اعلم )یہ عورتیں نہ تو جنت میں داخل ہوںگی اور نہ ہی جنت کی خوش بو پاسکیںگی ، حالاں کہ جنت کی خوش بو اتنے اتنے فاصلہ یعنی طویل مسافت سے محسوس ہوگی ۔ (مسلم شریف )

            لہٰذا آج ہم سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ تنگ اور ٹائٹ لیگیز ، شرٹش اور باریک ترین کپڑوں میں ہماری مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں فخر سے تیار ہوکر گھروں سے نکلتی ہیں دکھانے کے لیے اوـپر سے یہ عبائیں اور برقع پہن کر اسکولوں ، کالجوں ، یونی ور سٹیوں اور آفسوں میں جاتی ہیں اور وہاں جاکر وہ برقع اتار دیتی ہیں ۔ بس یا ٹرین میں سفر کرنا ہو تو وہاں بھی یہی نقشہ نظر آتا ہے کہ گاڑی میں سوار ہونے کے بعد برقعہ اتار کر سائڈ میں رکھ دیتی ہیں۔پھر بڑے بڑے چاکوں سے جھانکتے ہوئے ان کے جسم کے سب سے زیادہ پردے میں رکھے جانے والے حصہ کو فخریہ غیر مردوں اور عورتوں کو دکھائے جاتے ہیں ، یہ بتانے کے لیے کہ ہم ایسی آئیڈیل فکر رکھتے ہیں ،کسی بھکاری کی طرح لوگوں کی نظروں کی بھیک مانگی عورتیں سمجھتی ہیں کہ اس سے ان کو اچھا رشتہ مل جائے گا یا اچھی جاب یا اچھی سیلری مل جائے گی ، لیکن اس کی قیمت ان کو اپنے بدن کی نمائش سے چکانی پڑتی ہے؛ پھر اس کی پاداش میں ان کے ساتھ قبر اور آخرت میں کیا معاملہ ہوگااوپر ذکر کردہ حدیث میں بتادیا گیا کہ ایسی عورتیں جنت کی خوش بو بھی نہیں سونگھ سکیںگی ۔

لباس کے متعلق بنیادی اصول :

            اسلام ایک دین فطرت ہے ، اس لیے ہر معاملہ میں وہی تعلیم دیتا ہے ، جو فطرت کے عین مطابق اور عقل سلیم سے ہم آہنگ ہو، چناںچہ اس نے ستر پوشی کو واجب اور ضروری تو قرا ر دیا ، لیکن اس کے لیے کوئی مخصوص وضع قطع متعین نہیں کی ؛ کیوں کہ لباس کی ساخت ، تراش خراش اور نوعیت لوگوں کے مزاج ومذاق کے اعتبار سے مختلف ہواکرتی ہے ۔ موسم ، آب و ہوا اور جغرافیائی حالات وخصوصیات کے اعتبار سے بھی لباس میں تفاوت ناگزیر ہے ،نیز طرز معاشرت ، معاشی حالت تہذیب وشائستگی بھی لباس پر اثر انداز ہوتی ہے ،اس رنگا رنگی اور اختلاف کے باوجود لوگوں کو کسی ایک لباس کا پابند بنانا مشکل ودشوار تو ہے ہی، خلاف ِفطرت بھی ہے ،اس لیے اسلام نے کسی خاص لباس کا پابند نہیں بنایا ؛البتہ اسلام نے کچھ اہم بنیادی اصول و آداب بتائے ہیں۔ ان آداب اور اصول کا لحاظ رکھنا از حد ضروری ہے ، پس جو لباس ان شرعی حدود میں ہوگا وہ شرعی لباس کہلائے گا ورنہ خلافِ شرع ہوگا ۔ وہ حدود یہ ہیں :

            ۱-  لباس اتنا چھوٹا ، باریک یاچست نہ ہو کہ وہ اعضا ظاہر ہوجائیں، جن کا چھپانا واجب ہے ، بل کہ لباس ایسا ہونا چاہیے جس سے مکمل طور پر ستر پوشی ہوتی ہو۔

            لباس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بدن کو چھپائے ،اس قدر باریک وشفاف نہ ہو کہ کپڑا پہننے کے باوجود برہنہ اوربے لباس معلوم ہو اور اس کے اندر سے بدن جھلک رہا ہو۔اس کی ساخت اس قدر تنگ اور چست نہ ہو کہ جسم کے نشیب وفراز نمایاں ہو ں ؛چناں چہ مرد کے لیے کم ازکم اتنا لباس ضروری ہے ، جو ناف سے لے کر گھٹنے تک کے حصہ کو چھپالے ۔ لہٰذا آج کل جو نیکر پہننے کا فتنہ وفیشن چلا ہوا ہے ، جس میں گھٹنے کا حصہ کھلا رہتا ہے سراسر ناجائز وحرام ہے ،نیز اتنی ٹائٹ جنس، جس میں اعضا کی بناوٹ وساخت نظر آئے جائز نہ ہوگی ؛ اسی طرح ایک عورت کے لیے منہ ، ہاتھ ، پاؤں کے علاوہ بقیہ تمام جسم کو چھپانا ضروری ہے ۔ واضح رہے کہ یہ ستر کے حکم میں ہے ، حجاب وپردے کے حدود اس سے بھی زیادہ ہیں کہ اجنبی مردوں سے ہاتھ اورچہرہ وغیرہ کو چھپانا بھی ضروری ہے ، لہٰذا اسکٹ ، بلاؤز ، بغیر آستین یا ہاف آستین کی قمیص یا ٹائٹ لیگیز وجنس اور کرتی فراک ،جس میں جسم کے نشیب و فراز نظر آئے ؛یہ سب سخت ناجائز وحرام ہیں ۔

            ۲-  لباس میں غیروں کی مشابہت ونقالی اختیار نہ کریں ۔

            اسلام چاہتا ہے کہ اس کے پیرو کار، حق کے پرستار ، رفتار وگفتار ، معاشرت وکردار، لباس و پوشاک ، حجاب و نقاب ، چال چلن اور رہن سہن میں نمایاں اور ممتاز ہوں ۔ خالص اسلامی تہذیب وتمدن کے حامل ہوں، غیروں میں مل کر وہ اپنی حیثیت عرفی کو نہ گنوا بیٹھیں ، اپنی شناخت اور پہچان برقرار رکھیں ،اس لیے حدیث میں بڑی شدت سے غیر قوموں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ۔حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ٹوک لفظوں میں فرمایا : ’’ من تشبہ بقوم فہو منہم ‘‘ جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہیں میں سے ہوگا ۔ (ابو داؤد)

            لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اولادِ آدم میں باہم بہت سی چیزیں مشترک ہیں ،اس لیے ہر بڑی چھوٹی چیز میں امتیاز ہونا مشکل اور دشوار ہے ،اس لیے یہ ضروری ہے کہ مشابہت کی حدیں واضح کردی جائیں، تاکہ مسئلہ کی مکمل وضاحت ہوسکے ۔ ممنوعہ مشابہت کی عمومی طور سے چار صورتیں ہو سکتی ہیں ۔

            ۱-  مذہبی تشبہ :   کسی قوم کا مذہبی شعار ، طور طریقہ کو اختیار کرنامثلاً:زنّار پہننا ، صلیب لٹکانا (آج کل فیشن کے طورپر ایسے کپڑے ، ٹی شرٹ اور کیپ وغیرہ پہنے جارہے ہیں، جن پر صلیب کا نشان ہوتا ہے )ہر طور سے ناجائز وحرام اور تشبہ کی بدترین شکل ہے ۔ فقہائے کرام نے ایسے شخص کے بارے میں کفر کا اندیشہ ظاہر کیا ہے ۔ چناں چہ فتاوی ہندیہ میں لکھا ہے :

            ’’ یکفر بوضع قلنسوۃ المجوس علی رأسہ علی الصحیح إلا لضرورۃ دفع الحر والبرد ویشد الزنار فی وسطہ إلا اذا فعل ذالک خدیعۃ فی الحرب وطلیعۃ للمسملین ۔ ‘‘ (۲/۲۷۶)

            اور مجوسیوں کی ٹوپی پہننے کی وجہ سے تکفیر کی جا ئے گی ، مگر یہ کہ ضرورت کی بنا پرسردی وگرمی سے بچنے کے لیے لگائے؛ایسے ہی زنار باندھنے کی وجہ سے بھی تکفیر کی جائے گی ، مگر یہ کہ لڑائی میں تدبیر اور مسلمانوں کے لیے جاسوسی کی غرض سے ایسا کرے۔

            ۲-  صنفی تشبہ :   مرد کو عورت کی ہیئت اپنانا یا عورت کو مرد کی شکل و صورت اختیار کرنا ۔مشابہت کے مفہوم میں بات چیت ، چال چلن اور لباس و پوشاک سب شامل ہیں ،شریعت ایسے لوگوں کو قابل لعنت ٹھہراتی ہے ۔

            حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ، جو مردوں کی وضع اختیار کرتی ہیں اوران مردوں پر بھی لعنت کی ہے، جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں ۔  (بخاری )

            نیز حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جو زنانہ لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر جو مردانہ لباس پہنتی ہے ۔ (ابو داؤد، حاکم مستدرک)

            ۳-  قومی تشبہ :  ان چیزوں کو اختیار کرنا، جو کسی قوم کے ساتھ خاص ہو مثلاً :کوٹ ، پتلون ، کسی زمانے میں انگریزوں کا قومی لباس تھا یا جیسے دھوتی ہندوؤں کا مخصوص لباس ہے ؛کسی دوسری قوم کے مخصوص پہناوے کو اپنانا مکروہ اور ناجائز ہے ، لیکن یہ کراہت اسی وقت ہے ،جب تک خصوصیات باقی رہے ،عموم پیدا ہوجانے کے بعد یہ کراہت ختم ہوجائے گی ۔ حضرت تھانوی علیہ الرحمۃ لندن میں انگریزی لباس پہننے کے بارے میں رقم طراز ہیں :

            ’’ میں اس باب میں یہ سمجھے ہوا ہوں کہ جس جگہ یہ لباس قومی ہے جیسے ہندستان میں ، وہاں اس کا پہننا ’’من تشبہ بقوم فہو منہم ‘‘ میں داخل ہے اور جہاں ملکی ہے ، جس کی علامت یہ ہے کہ وہا ں سب قومیں اورسب مذاہب کے لوگ ایک ہی لباس پہنتے ہیں وہاں پہننا کچھ حرج نہیں ۔ ‘‘ (امداد الفتاوی : ۴/۲۶۸)

            ۴-  تشبہ بالفساق :   جو لباس فساق فجار ، بد دین و بدکار لوگ پہنا کرتے ہیں اسے اپنانا کراہت سے خالی نہیں ، لیکن یہ حکم بھی اسی وقت ہے ،جب تک ان کے ساتھ مخصوص ہو اور دیکھنے والا اس پس و پیش میں پڑجائے کہ یہ شخص بھی غلط کاروں کے گروہ کا ایک فرد ہے ۔

            مذکورہ صورتوں کے علاوہ بقیہ چیزوں میں تشبہ اختیار کرنا ممنوع نہیں ہے، بشر ط یہ کہ شریعت میں صراحتاً اس کی ممانعت نہ آئی ہو ۔ (لباس اور زینت کے شرعی احکام )

            ۳-  جس لباس سے تکبر و تفاخر اور اسراف وتنعم مترشح ہوتا ہو ، اس سے اجتناب کریں ۔ لباس اپنی مالی استطاعت کے مطابق ہونا چاہیے ، مالی استطاعت سے بڑھ کر فخر و نمائش اور تکلف کا اہتمام کرنا درست نہیں اور اس میں اسراف کرنا ناجائز ہے؛ چنا ں چہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا اصولی ارشادگرامی ہے :

            ’’ کلو والبسوا ، وتصدقوا فی غیر إسراف ولا مخیلۃ ای کبریا ‘‘ کہ کھاؤ، پیو، صدقہ کرو ، البتہ اسراف وتکبر سے اجتناب کرو ۔ (بخاری )

            شہرت پسندی اورجذبۂ نمود و نمائش بھی ایک بری عادت ہے ،اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہرت کے کپڑوں سے منع فرمایا : جو شخص دنیا میں شہرت کا لباس پہنتا ہے ، اللہ اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائیںگے پھر اس میں آگ بھڑکا ئی جائے گی ۔ (ابو داؤد)

            لباسِ شہرت سے مراد وہ کپڑا ہے، جو بہ طور تفاخر اور شان و شوکت وخوش حالی کی نمائش کے جذبہ سے پہنا جائے ، جس کو پہن کر دوسروں پر بڑائی جتانا مقصود ہو ۔

            ۴-  مال دار شخص اتنا گھٹیا لباس نہ پہنے کہ دیکھنے والے اسے مفلس یا کنگال بینک سمجھیں ،لباس کی زینت اور ساخت ایسی ہونی چاہیے جسے پہن کر انسان باوقار معلوم ہو۔ اس میں سنجیدگی ومتانت ہو ، دیکھنے میں بھلا اور آراستہ معلوم ہو ،بے تکا اور بے ڈھب نہ ہو ؛ایسے لباس سے بچنا چاہیے ، جس سے مضحکہ خیز صورت بنتی ہو ۔ لباس سے مقصود دو چیزیں ہیں : ستر پوشی اور زینت وآرائش ۔ چنا ں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

            {یا بنی آدم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواٰتکم وریشا } (الاعراف )

            اے انسانو!  ہم نے تمہارے لیے لباس اتارا جو تمہارے لیے ستر پوشی اور سامانِ زینت ہے ۔

            اگر اللہ نے وسعت اور فراوانی دی ہے تو عمدہ اور بہترین لباس استعمال کرنا چاہیے ، پھٹے حال رہنا مناسب نہیں ۔زیب و زینت خدا ترسی اور دین داری کے منافی نہیں ،خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیش بہا اور بیش قیمت لباس استعمال کیے ہیں ؛نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی ہے : اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے پر اس کے انعام واحسان کے آثار ظاہر ہوں ۔ (ترمذی )

            ۵-  مرد شلوار ، تہبند اور پائجامہ وغیرہ اتنا نیچا نہ پہنے کہ ٹخنے یا ٹخنوں کا کچھ حصہ اس میں چھپ جائے ۔

            ۶-  مردوں کے لیے اصلی ریشم کا لباس حرام ہے ۔

            ۷-  لباس صاف ستھرا ہونا چاہیے ۔ مردوں کے لیے سفید لباس زیادہ پسند کیا گیا ہے ۔ خالص سرخ لباس پہننا مردوں کے لیے مکروہ ہے ، البتہ کسی اور رنگ کی آمیزش ہو یا سرخ دھاری دار ہو توکچھ مضائقہ نہیں ۔

(خواتین کے لیے جدید مسائل )

            لباس سے متعلق ذکر کردہ بنیادی اصولوں کی رعایت کرتے ہوئے ہر قسم کا لباس پہننا مردو خواتین کے لیے بلا شبہ جائز ہے ، تاہم مرد حضرات؛ وقت کے علمائے کرام وصوفیائے عظام کا جو لباس ہے وہ استعمال کریں ۔ جبہ کرتا، پائجامہ ، شلوار ، ٹوپی اور عمامہ وغیرہ ۔ البتہ فیشن پرستی کے طور پر جو لباس پہنے جاتے ہیں : مثلاً جنس، ٹی شرٹ، نیکر ، ٹائی وغیرہ سے بالکلیہ اجتناب کریں۔

            اور خواتین کے لیے شلوار ، قمیص ، چادر اور ڈوپٹہ جسے مشرقی لباس کہا جاتا ہے اور برصغیر کی مسلمان خواتین کا پسندیدہ لباس ہے ۔اس میں اگر اوپر بیان کردہ تمام اصول وشرائط موجود ہوں تو خواتین کے لیے یہ لباس دیگر تمام جائز لباسوں سے بہتر ہے ،کیوں کہ اس لباس میں غیرمسلم اقوام کی ساتھ مشابہت بھی نہیں ہے اور دیگر جائز لباسوں کی بہ نسبت زیادہ ساتر بھی ہے ۔ اس کے علاوہ جو لباس ہیں اسکٹ ، جنس ،بلاؤز ، ہاف آستین یا بلاآستین کی قمیص وغیرہ سے اجتناب کریں۔

داڑھی ، مونچھ اور سرکے بالوںکا فیشن :

            دیکھیں آج ہم نے آقا ئے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے مقابلہ میںفیشن کو اپنا کر اپنی وضع قطع کو بگاڑ ڈالا ہے ۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے تھا لیکن فیشن کے نام پر ہم کیا کررہے ہیں ؟

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دس چیزیں فطرت میں سے ہیں : جن میں سے مونچھوں کا کٹوانا اورڈاڑھی کا بڑھانا بھی ذکر فرمایا ۔ (مسلم )

            مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل ہے کہ مونچھوں کو کٹوایا کرو اور ڈاڑھی کو بڑھایا کرو ۔

            حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مبارک اور واضح ارشادات کے بعد تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہر مسلمان ڈاڑھی رکھنے کا اہتمام کرتا ، اس پر خوش ہوتا اور اس کے حکم کی بجاآوری کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتا ، چہ جائے کہ آپ علیہ السلام کی مبارک سنتوں سے منہ موڑ نا، ان کی مخالفت کرنا ، لیکن براہو فیشن پرستی کے جنون کا جس نے ہماری عقلوں کو بالکل الٹ دیا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ ڈاڑھیاں بڑھاؤ ، لیکن فیشن پرست مسلمان ڈاڑھیوں کو منڈا رہے ہیں اور اس قدر منڈاتے ہیں کہ صاف شفاف اور آلو جیسے چکنے ہوجاتے ہیں ؛ پھراس صفا چٹ کو فخر یہ طور پر کلین شیو کہا جاتا ہے ۔ فیشن پرستی کا اس قدر جنون چڑھ گیا ہے کہ بعض لوگ دن میں دو دوبار شیو کرتے ہیں ،بعض لوگ رکھتے بھی ہیں توفیشن کے نام پر رکھتے ہیں ۔ کوئی فرنچ کٹ ڈاڑھی رکھ رہا ہے ، تو کوئی مسائد لاکس ڈاڑھی ۔ شاید دنیا دار لوگ اسے ڈاڑھی کہہ لیں ، لیکن اسلامی شریعت میں اس ڈاڑھی کا کوئی مقام نہیں، یہ اسلامی ڈاڑھیاں نہیں ہوسکتی ، بل کہ اسلامی اصول یہ ہے کہ ایک مشت ڈاڑھی رکھنا واجب ہے ؛ البتہ ایک مشت سے زائد کو مہذّب کہا جاسکتا ہے ، لیکن اس سے کم رکھنا یا کاٹنا سب ناجائز وحرام ہے۔ (مالا بد منہ)

            اور اب تو لوگوں کا عجیب حال ہے کہ جب کوئی نئی فلم ریلیز ہوتی ہے اور اس میں اداکار نے جس انداز میں ڈاڑھی یا بال رکھے ہیں ، بس و ہی فیشن بن جاتا ہے ، بل کہ آج معاشرہ میں عجیب ہیئر اسٹائلس نظرآتے ہیں ۔ مشروم کٹ (Mashroom Cut )سولجرکٹ (Soldir Cut ) اسٹیپ کٹ (Step Cut ) ہیپی کٹ (Hippy Cut ) بے بی کٹ (Baby Cut) راؤنڈ کٹ(Round Cut) اور اس کے علاوہ جتنے بھی انگریزی طرز پر فیشن ایبل کٹ ہیں، سب ناجائز و حرام ہیں ،اس لیے کہ ان تمام کٹوں میں بال یکساں نہیں رہتے ، کہیں بڑے تو کہیں چھوٹے اور اس طرح بال رکھنے کی حدیث میں ممانعت آئی ہے ۔ آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا : ’’ عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن القزع ‘‘ حضرت ا بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا ہے ۔ (ابو داؤد)

            اورقزع کا مطلب یہی ہے کہ سرکے بعض حصے کے بال کاٹے جائیں یا حلق کیے جائیں اور بعض  چھوڑدیے جائیں ۔ نیز یہ خلاف سنت بھی ہے ، کیوںکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کبھی نصف کان ، کبھی کانوں کی لو اور کبھی مونڈھے تک رہا کرتے تھے ۔ اور حلق (پورا سر منڈوانا ) بھی ثابت ہے ۔ (ترمذی )

خواتین کا بال کٹوانا :

            اسی طرح خواتین کا بھی اپنے سر کے بالوں کو کٹوانا، کتروانا یا فیشن کے طور پر چھوٹے کروانا ؛خواہ سامنے سے ہویا دائیں بائیں یا پیچھے کی جانب سے مردوں کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے ناجائز اورگناہ ہے۔ حدیث شریف میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے ۔

            چناں چہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ لعن اللہ المتشبہین من الرجال بالنساء، والمتشبہات من النساء بالرجال ‘‘ اللہ کی طرف سے لعنت ہے ان مردوں پر، جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر، جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں ۔ (بخاری)

            عن علی رضی اللہ عنہ نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان تحلق المرأۃ رأسہا۔

            حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے عورتوں کو سر منڈوانے سے منع فرمایا ہے ۔ (نسائی)

            اس حدیث کے تحت مشکوٰۃ شریف کے حاشیہ میں مذکور ہے کہ عورتوں کو سر منڈانے سے منع فرمانے کی وجہ یہی ہے کہ عورتوں کی زلفیں مردوں کی ڈاڑھی کی طرح ہیں صورت وزینت میں ،لہٰذاجس طرح مردوں کے لیے ڈاڑھی منڈانا یا ایک مشت سے کم کرنا حرام ہے بعینہٖ اسی طرح عورتوں کے سرکے بال منڈوانا اور کٹوانا شرعاً ناجائز اور حرام ہوگا ۔ (خواتین کے لیے جدید مسائل )

            لہٰذا آج کل فیشن کے طور پر جو بال کاٹے جاتے ہیں مثلاً ہپی کٹ ، بے بی کٹ وغیرہ سب ممنوع ہے ۔ اسی طرح بالوں کو تراش کر لٹیں نکالنا بھی درست نہیں ہے ، البتہ خواتین سرکے بال کاٹے بغیر مختلف انداز اور ڈیزائن میں سنوار سکتی ہیں ، لیکن اس صورت میں بھی لحاظ رکھیں کہ کہیں کافرہ وفاسقہ عورتوں کی مشابہت تو نہیں ہورہی ہے ۔ نیز یہ بھی محض اپنا یا اپنے شوہر کا دل خوش کرنے کے لیے کریں ۔

آئی برو(Eye Brow):

            اسی طرح آج کل یہ فتنہ بھی عام ہورہا ہے کہ خواتین اپنے بھوؤںکو خوب صورت شکل دینے کے لیے آئی برو کے ذریعہ آس پاس کے بال تراش کر بھوؤں کو کمان کی طرح باریک کرلیتی ہیں اور مقصد اس سے محض خوب صورتی اور زینت بڑھانا ہے، حالاں کہ ایسا کرنا شرعاً جائز نہیں ، کیوںکہ جسم اللہ کی امانت ہے جس میں کسی شرعی اور فطری ضرورت کے بغیر خود ساختہ تبدیلی درست نہیں ہے ؛لہٰذا ابرو نوچ کر یا تراش کرباریک سی لکیر بنالینا اور دونوں بھوؤں کے درمیان فاصلہ کرنا ،جیسا کہ آج کل کا فیشن ہے تغییر فی خلق اللہ میں داخل ہوکر ناجائز ہوگا ۔

بالوں کی وگ (Wig ):

            آج کل ایک فیشن یہ بھی چلا ہوا ہے کہ مصنوعی وگ یعنی مصنوعی بالوںکی ٹوپی لگائی جاتی ہے اور یہ دوطرح کی ہوتی ہیں: ایک دائمی (جو علا حدہ نہ ہوسکے )اور ایک عارضی کہ جب چاہا لگالیا اور جب چاہا اتارکر پھینک دیا ۔ دونوں حدیث کی روشنی میں ناجائز اور حرام ہیں ۔

             حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بال جوڑنے اور جڑوانے والی پر لعنت فرمائی ہے۔ (بخاری )

            اور کسی شئ پر لعنت اس کے حرام ہونے کی دلیل ہے ، کیوں کہ کسی امر مباح پر لعنت کرنا جائز نہیں اور جب وگ کا استعمال موجب لعنت عمل ٹھہر ا تو یہ مباح نہ رہا ، بل کہ حرام ہوگیا ۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ )

جسم پر ٹیٹوبنوانا :

            ماہرین جمالیات کے نزدیک گالوں اور ہونٹوں پر تل کا نشان علامت حسن ہے ؛اسی لیے آج کل فیشن یہ بھی ہے کہ گال اور ہونٹ پر مصنوعی تل بنائے جاتے ہیں ،عام طور پر اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں :

            پہلی صورت یہ ہے کہ کسی کالے رنگ کے مادہ مثلاً: کاجل وغیرہ کے نقطے تل نما بنائے جاتے ہیں ۔

            دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ آرٹی فیشل میل (Artifical mal ) داغ دے کر تل بنائے جاتے ہیں یا سوئی سے سوراخ کرکے سرمہ یا نیل وغیرہ بھر دیا جاتا ہے ۔تو پہلی صورت جائز ہے اور دوسری صورت ناجائز اور حرام ہے ۔

            اسی طرح جسم کے مختلف حصوں پر ٹیٹو مثلاً کوئی پھول وغیرہ کی ڈیزائن یا کسی جان دار کی تصویر بنائی جاتی ہے ، یہ سب ممنوع اور حرام ہے ، کیوں کہ یہ تغییر فی خلق اللہ میں داخل ہے ۔

            حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ گودنے والیوں گدوانے والیوں ، بالوں کو نوچنے والیوں ، نچوانے والیوں اورخوب صورتی کے لیے دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں اور اللہ کی خلقت میں تبدیلی کرنے والیوں پر اللہ کی لعنت ہے ۔(فتح الباری ، محقق ومدلل جدید مسائل )

ہاتھ میں کڑا وغیرہ پہننا :

            آج کل بہت سارے مسلمان بچے اور نوجوان ؛شوقیہ اوردیکھا دیکھی یا کسی اور مقصد سے اپنے ہاتھوں میں لوہے کا کڑا ، کالا دھاگا یا زنجیر یا ربڑ کے بند پہننے لگے ہیں ،اگر ان چیزوں کا پہننا یا باندھنا کسی غلط عقیدے پر مبنی ہے یعنی اس سے فائدہ پہنچتا ہے تو یہ حرام ہے۔ اور اگر یہ محض زینت کے طورپر ہے، تو یہ فاسقوں کا طریقہ اور فضول ہونے کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہے ؛نیز ہاتھوں میں کڑا پہننا یا گلے میں لاکٹ پہننا از قبیل زیورات ہیں اور زیورات کا استعمال مردوں کے لیے درست نہیں ۔

مردوں کے لیے انگوٹھی پہننا :

            آج کل مردحضرات میں انگوٹھی پہننے کا عام روا ج ہوگیا ہے ،اگر چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کی ہے تو وہ بالکل درست نہیں ہے ؛کیوں کہ فقہائے کرام نے چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کی انگوٹھی عورتوں کے لیے بھی مکروہ لکھا ہے، چہ جائے کہ مردوں کے لیے۔ رہا مسئلہ چاندی کی انگوٹھی کا تو عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ چاندی کی انگوٹھی پہننا سنت ہے ؛حالاں کہ فقہائے کرام ، ۴؍ گرام ۳۷۴؍ ملی گرام چاندی کی انگوٹھی پہننے کو جائز اور نہ پہننے کو افضل کہتے ہیں ۔ جیسا کہ در مختار میں ہے: ’’ ترک التختم لغیر السلطان والقاضی افضل ‘‘ اس پر بعض حضرات کی طرف سے اشکال ہوتا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھی پہنی ہے تو پھر وہ سنت کیسے نہیں ہوگی؟ اور یہ بھی کہتے ہیںکہ ہمارے لیے حجت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے نہ کہ در مختار کی عبارت ،اس طرح کے لوگوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جس علت کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھی پہنی تھی وہ آج کل مفقود ہے، اس لیے اس کو سنت نہیں کہا جاسکتا ؛چناں چہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر و کسریٰ اور نجاشی کو خطوط لکھے تو آپ سے کہا گیاکہ یہ لوگ بغیر مُہر کے کوئی خط قبول نہیں کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھی بنوائی، اس کا حلقہ یعنی رنگ چاند ی کا تھا اور اس میں ’’محمد رسول اللّٰہ‘‘   نقش تھا ۔

            اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ انگوٹھی پہننے کی نہیں تھی ، جب آپ کو عجمی حکمرانوں کو خطوط لکھنے کی ضرورت پیش آئی اور آپ کو یہ بتایا گیا کہ بغیر مُہر کے خطوط قبول نہیں کرتے تو مہر لگانے کی غرض سے آپ نے انگوٹھی بنوائی ،آج بھی اگر کوئی حاکم یا قاضی اس غرض سے انگوٹھی پہنے تو یقینا اس کے لیے یہ سنت ہوگا۔ نیز ان لوگو ں کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ در مختار میں قرآن وحدیث سے الگ کوئی فقہ پیش نہیں کی گئی ہے، بل کہ اس کے مسائل بھی قرآن وحدیث سے ہی مستنبط ہیں ۔

            ان تمام کے علاوہ اور بھی طرح طرح کے فیشن اور فتنے موجود ہیں ۔ اللہ تعالیٰ پوری امتِ مسلمہ خصوصاً نوجوان بچوں اور بچیوں کی حفاظت فرماکر آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین!