مولانا محمد ناظم ملی ؔ تونڈا پوری /استاذ جامعہ اکل کوا
چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہے گردوں نے
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھے آشیانوں میں
دنیا کہہ لیں یا ابلیسی نظام اور شیطان ڈپلومیسی ؛دینِ اسلام اور اس کے ماننے والوں کو اس صفحۂ گیتی پر پھلتا پھولتا اور بار آور دیکھنا نہیں چاہتا ۔وہ چاہتا ہے کہ یہ ظالم الجھے رہے ان کی شام زندگی شب زندگی میں بدلے ، لیکن صبح کا اجالا نہ ہوسکے اور وہ بساط عالم پر اپنا رول ادا نہ کرسکے ، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ ان کا بیدار ہونا کسی ایک قوم کا بیدار ہونا نہیں، بل کہ دنیا جہاں کی بیداری ہے ۔ اس ـلیے وہ مختلف پیرائے سے ہر عہد اور ہر زمانہ میں تھپکیاں دے دے کے سلاتا رہا ہے یا پھر مسائل اور پیچیدگیاں پیدا کر کر الجھاتا رہا ہے ۔ آج بھی مسائل کو کھڑا کرنا ، الجھنوں کو پیدا کرنا اس کا مرغوب مشغلہ ہے ،روز ازل سے حق کے سامنے باطل کو صورتیں بدلا بدلا کر لاکھڑا کرنا اس کا محبوب مشغلہ رہا ہے ، چناں چہ کبھی مسیلمہ کذاب کی صورت میں ، کبھی اسود عنسی کی صورت میں ، کبھی سجاح کی صورت میں اور کبھی مرزا قادیانی کی صورت میں وہ لاتا رہا ہے ، مگر باطل کے سر پر ہمیشہ اہلِ حق برق بے اماں بن کر گرتے رہے ہیں ۔فتنۂ شکیلیت بھی باطل پرستی ہی کا ایک عنصر ہے ، گرچہ یہ فتنہ آج ایک حساس مسئلہ بن چکا ہے ، جس کی طرف سے آنکھیں موند نا ،نظریں پھیرنا کسی بھی مسلمان کے لیے کسی صورت میں بھی درست ور وا نہیں ؛ذیل میں ہم شکیلیت کے خدو خال پیش کریںگے ۔
قرب قیامت میں ظہور مہدی ایک امر واقعہ ہے :
قربِ قیامت میںحضرتِ امام مہدی کا آنا، ظاہر ہونا ایک محقق امر ، بل کہ سرکارِ نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیوں کا ایک جاوداں اور زندہ عنوان ہے ،جن کی آمد اور ظہور باطل کے لیے پیغام اجل ہو گا ۔ دجل و شیطنت کے سہارے دنیا میں فتنہ برپا کرنے والی تمام قومیں اور اکائیاں؛ ان کے آنے سے ان کو اپنی اوقات یاد آجائے گی، وہ ایک کراماتی شخصیت کا روپ لے کر عالم وجود میں ظہور فرمائیںگے ۔ باطل کے تمام تر منصوبوں پر پانی پھیردیں گے اور دجالیت کے لیے سُم قاتل ثابت ہوںگے ،یہودیت ونصرانیت کی پھیلائی ہوئی بدبو کو صاف کردیںگے اورایک ایسی اسلامی سلطنت قائم کریںگے ،جو پورے کرۂ زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی ، اور دنیا پھر ایک بار خلافتِ راشدہ کے سایۂ عاطفت کو یاد کرے گی ؛بنا بریں امت مسلمہ بڑے اشتیاق اور شوق سے ان کی منتظر ہے ۔اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسی ظہور ِمہدی کی آڑ میں باطل سازش کا روں اورفتنے پرور جماعتوں نے کبھی اس کو سلطنت وحکومت کے حصول کے لیے استعمال کیا اور کبھی امتِ مسلمہ کے انتشار کے لیے استعمال کیا ؛کبھی تو خود مہدی بن کر اپنے کریہہ چہرے کے ساتھ ظاہر ہوئے اور جھوٹے مہدی بننے کی کوشش کرتے رہے ۔ قادیانیت ہو یا مہدویت ، بہائیت ہو یا تحریک ِدینداری ، ہر فرقہ کی بنیاد مہدویت کے دعوے ہی سے پڑی ہے اور پھروہ اپنی اسی جھوٹی مہدویت کے سہارے زیغ وضلال اور گمراہی کے دلدل میں پھنستے چلے گئے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آٹھویں صدی ہجری تک یہ دعوے زیادہ ترعرب ملکوں میں وجود پاتے رہے ، لیکن بعد میںیہ منحوس سلسلہ برِ صغیر میں بھی شروع ہوگیا اور نویں صدی ہجری کے وسط میں یہاں سب سے پہلے سید محمد جون پوری نے ’’انا المہدی ‘‘ کا نعرہ لگایا ، جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ مسندِ خطابت کی بے مثال شخصیت تھے ، قدرت نے بے پناہ جوہرخطابت ان کو ودیعت کیا تھا ،وہ بذات خود پر اثر اور جاذبِ نظر شخصیت کے مالک تھے ، اس پر اثر خطابت نے ان کی ذات میں کشش اور بے پناہ جاذبیت رکھی تھی، لوگ ان سے بہت متاثر ہوئے ، لیکن چوں کہ مہدویت کے لیے سرکار نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے جو علامات متعین فرمائی ہیں وہ اس سے یکسر خالی تھے ؛ اس لیے اہل علم حضرات نے ان کا تعاقب کیا، تاہم وہ ایک فتنہ کی بنیاد ڈالنے میں کام یاب ہو گئے ۔ایک ایساہی ابلیہ زر خرید ، سفاک ، بے ہودہ اور عقل سے پیدل شخص مرزا غلام احمد قادیانی( لعنۃ اللہ علیہ )جس نے سب سے پہلے قسمت آزمائی کی ، لیکن علمائے حق نے اس کے مہدویت کی بھی دھجیاں بکھیر دیں اور پھر وہ بز عم خود ترقی کرتے ہوئے مسیحِ موعود بن گیا ،بعد کی زندگی میں اتنے دعاوی کیے اور ایسے ایسے کہ الامان والحفیظ ! لیکن چوں کہ سرکار ِنامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی بتلائی ہوئی علاما ت اس کذاب میں بھی نہ پائی گئیں ؛چناںچہ علمائے ربانیین نے اس کے قلعہ کو بھی مسمار کردیا اور وہ خائب وخاسر دنیا سے جہنم کی طرف سدھارا ، تاہم ایک بڑے فتنہ کی بنیاد وہ بھی رکھ گیا ،جس کی پشت پر یہودو نصاریٰ قائم ہیں اوریہ فتنہ آج تک امتِ مسلمہ کو ایک اژدہا بن کر ڈس رہا ہے ۔ یہ بھی محقق ہے کہ پھر قادیانی مرزا کے بعد تقریباً ۸؍ دہائیوں تک کسی نے بھی مہدویت کا علم بلند نہیںکیا ،پھر زمانہ کی ستم ظریفی کہ یہودیوں اور نصرانیوں کی مرکب اور ملی جلی سازش سے بڑی جاپک دستی اور منصوبہ کے تحت عراق میں مسلمانوں کے خون کی ارزانی کی گئی ۔
بموں ، بلاسٹک میزائلوں اورکروز میزائیلوں کا استعمال کرکے عراق میں لہو کا بازا ر گرم کیاگیا ؛اسی کے ساتھ نائن الیون اور پھر اس کے ضمن میں خاص پچاس ملکوں کا سہارا لے کرایک ایک اور نہتے مسلم ملکوں پر حملے کیے گئے ؛یہاں تک کہ مسلمانوں کو اپنے آپ کا دفاع بھی ممکن نہ رہا اور انتہائی بھیانک انداز سے عالمی پیمانے پر مسلمانوں کا سقوط ہونے لگا ، تو پھر مسلمانوں کو حضرت مہدی کی یاد ستانے لگی ، باتیں شروع ہوگئیں اور ظہور کی آمد بن گیا ۔ پھر کیا تھا؟ عدوانِ دین متین اس سے کب ناآشنا رہ سکتے تھے ، دشمنان دین اورعدوان اسلام نے موقع کو برابر سادھ لیا اور مسلمانوں کی شکستگی و خوردگی اور ان کی ہزیمت کا سہارا پاکر موقع کو غنیمت جانا کہ اس سے اچھا اور کون سا موقع ہوسکتا تھا؟ چناں چہ موقع پرستوں اور ابن الوقتوں نے کسی طرح کی کوئی کوتاہی نہیں کی اور اس موقع غنیمت کو ہاتھ سے جانے نہ دیا اوروہ پھر مہدویت کا راگ الاپنے لگے ۔
شکیلیت اپنی مکاری کے آئینہ میں :
آج ہندوپاک میں جھو ٹے مہدی ہونے کے دعوے دار پچاسوں ہیں، کچھ زنداں میں سڑ رہے ہیں اور کچھ چھپے چھپے پھررہے ہیں ،انہیں فراری ، دغاباز، عیار ، مکار اور جھوٹے لوگوں میں آج کا مرزا قادیانی شکیل بن حنیف بھی شامل ہے ۔
شکیل بن حنیف تو عثمان پور دربھنگہ بہار کا (بھنگی ) ہے ،وہ انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے ، تلاش معاش کے لیے وہ دہلی چلا آیا، پہلے ہارڈ ویئر کی دوکان پر کام کر نے لگا اور پھر مرکزِ تبلیغ سے وابستہ ہوگیا۔ پھر غنڈوں اور غلط نیت لوگوں کا ساتھ پکڑ کر خفیہ سازش کرنے لگا اور کسی خاص گروہ سے اس کی تائید واعانت حاصل کرکے خوب مالی استحکام حاصل کرلیا ،شدہ شدہ جب اس کی خبر غیرت مند مسلمانوں کو لگی تو انہوں نے اس کو وہاں سے بھگایا اور ’’بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے ‘‘کے مصداق اس نے وہ محلہ چھوڑ کر لکشمی نگر میں سکونت اختیار کرلی؛ یہاں بھی اس نے بڑی سازش اورعیاری سے منار والی مسجد کے دعوتی حلقہ سے جڑ کر لوگوں میں متعارف ہوا اور دھیرے دھیرے لوگوں میں مہدی ہونے کی ہوا چلادی ؛چوں کہ اس کی پشت پر ایک اسلام دشمن قوت تھی یا ہے، جو اس کو دامے درمے سخنے اس کی امداد واعانت پر کمر بستہ تھی یا ہے ،اس نے لوگوں کی غربت کا فائدہ اٹھایا ۔ یہ بھی مشہور ہے کہ لوگوں کو مال ، گھر اور کاروبار کا لالچ دے دے کر اپنی مہدویت کی تشکیل کرتا رہا ، جب لوگوں کے علم میں بات آئی تو پھر وہ مشتعل ہوگئے اور ایک بڑی تعدادِ علما اور دیگر افراد نے اس کو جھنجھوڑا اور اس سے مہدویت کا ثبوت مانگا ، مگر وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا؛ لوگوں نے اس کی اس وقت پٹائی کی اورپھر اس نے اپنے پاگل پن کا عذر پیش کر کے معافی مانگی اور آئندہ اس حرکت سے باز رہنے کے وعدہ پر لوگوں نے اس کو چھوڑ دیا ۔ پھر دہلی بدر کرنے کا فیصلہ لیا، مگر وہ بدبخت پھر اپنی پرانی حرکت پر آ گیا، لوگوں نے اس کا حلق کرکے اس کو گھمایا ، مارا،پیٹا مگر وہ پھر بھی باز نہ آیا اور اب کی بار اس نے قانونی تحفظ حاصل کرکے اپنے مخالفین پر ایف آئی آر (FIR )بھی درج کرادی ۔ وہ آج بھی دہلی کے لکشمی نگر میں موجود ہے، پہلی بیوی کو طلاق دے کر دوسری شادی کی ، جس کی بیوی ڈی ڈی اے میں ملازمہ ہے اور تیسری اپنے کسی مرید کی لڑکی سے کرلی ہے ۔ وہ گھر سے باہر ہی نہیں آتا اور اگر گھر سے باہر نکلا تو بالکل بہروپیا بن کر نکلتا ہے اور اب اس نے اپنا کام آگے بڑھا دیا ہے ، جب دہلی میں وہ مایوسی کاشکار ہوگیا تو مہاراشٹر ، آندھرا اور کرناٹک کے غریب علاقوں کو اپنا مرکزِ توجہ بنایا ہے ۔
(مستفاد : ملک شام )
ضلالت کی سوداگری :
نبوت و ولایت اور مہدویت کا دعویٰ کرنے والوں کے سلسلے میں تاریخ بتاتی ہے کہ وہ دلائل گھڑنے میں انتہائی بے باک اور جری ہوتے اور کھلی خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں ۔آیات واحادیث کو غلط معنی پہناتے ہیں کہ دل دہل جاتا ہے اور ڈرنے لگتا ہے کہ دین و ایمان اور کتاب اللہ واحادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کھلواڑ کرنے سے کہیں خدا کا عتاب ان پر نازل نہ ہوجائے ۔ بجلیاں انہیں اچک نہ لیں، یہ حقیقت ہے کہ شکیل بھی اسی مکار ، عیار اور شیطانی ٹولہ سے تعلق رکھتا ہے ؛وہی شاطرانہ ادائیں ، وہی عیارانہ ومکارانہ پالیسیاں ، وہی جھوٹ وگھسوٹ ، وہی افترا وبہتان اور کذب بیانی ، صدق و امانت ، سچائی ووفاداری جیسے خوش خصال فطری اور اخلاقی زاویوں سے اس کا دور دور کا بھی تعلق نہیں ،بالکل مرزا غلام احمد قادیانی کا سچا جانشین اورپیرو کار نظر آتاہے ۔
علمی خیانت تو وہ اس دھڑلے سے کرتا ہے جیسے اس کا علم خود اس کا اپنا ہو۔ اور محنت اٹھااٹھاکر اس نے حدیث اور تفسیر کے علوم میں مہارت حاصل کررکھی ہو، اس کے ہاتھ پیر بیعت کرکے ، پھر توبہ کرنے والے ایک فرد کے بقول ’’ کہ وہ دوسروں کی جمع شدہ احادیث وتفاسیر لیتا ہے اور اس کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے ، کسی بھی کتاب سے سب کچھ لے کر وہ اس کا حوالہ نہ دینا علمی سرقہ ہے اور شکیل جیسے بے شرم لوگ ہی اس کا ارتکاب کرتے ہیں ،وہ اس قدر گھمنڈی اورمتکبر ہے کہ کبھی کسی عالم ربانی کی کسی بات کا حوالہ ہی نہیں دیتا ،ٹھیک اسی طرح ہی ؛جس طرح قادیانی کیا کرتا تھا ، اس کا مقصد امت ِمسلمہ کو پارہ پارہ کرنا ہے ۔ (مستفاد شکیل بن حنیف )
جس کے لیے وہ تمام حدود پھلانگتا نظر آتا ہے ۔ یقینا شکیل باطل کا ایجنٹ ہے اور کسی ماورائی طاقت کے اشارہ پر وہ یہ سارا پروگرام چلا رہا ہے ، لہٰذا امت مسلمہ کہ ہر ایک فرد کو ہوشیار ہوجانا چاہیے۔ ملی تنظیموں کو اس خبیث کی خباثتوں کو طشت ازبام کرنے کے لیے مستعد ہوجانا چاہیے کہ کس طرح امت ِمحمد یہ کے سادہ لوح اورغریب طبقہ سے وہ ان کے ایمان کا سودا کررہا ہے ۔ اہل علم اور اہلِ ثروت حضرات کو اس مکار کی جعل سازی اورفتنہ سامانی سے خود ہوشیار ہوجانا چاہیے اور امت کے غریب طبقہ کو اس خبیث کی خباثت سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری اقدام کرنا چاہیے اور دجاجلہ کفرو شیطنت کی ان تمام کوششوں کو ناکام بنانا چاہیے ؛یہاں پہنچ کر اہل ثروت ودولت پرایک ذمہ داری یہ بھی عائد ہوتی ہے کہ جب ائمہ کفر وشیطنت غربا کو اپنا اسیر کرنا چاہتے ہیں ، تو پھر ہماری وہ دولت؛ جو اللہ نے ہمیں دے رکھی ہے ، وہ کب کام آئے گی؟ وہ سرمایہ دار ذرا توقف کریں ، خلوت میںسوچیں کہ وہ کیاجواب دیںگے مالک ارض و سما کو؛ جب کہ وہ رب الارباب ، احکم الحاکمین سامنے موجود رہے گا اوروہ سوال کرے گا کہ بتلاؤ میرا دین طاغوتی طاقتوں کی زد پر تھا اور میرے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ِمطہرہ ناجیہ پر دجالی طاقتیں سیم و زر اور دولت وثروت کی بنیادوں پرحملے کرارہی تھیں؛ مفلوک الحال اور فاقہ مست اور بدحال لوگوں سے ہمدردی جتا جتا کر ان کے ایمان واسلام سے کھلواڑ کرا رہی تھیں ؟ غریب علاقوں میں جاجاکر مسلمانوں سے ان کا سب سے قیمتی اور گراں مایہ سرمایہ چھین رہی تھیں ، ان کے درمیان مال و دولت کو لٹا لٹا کر ان سے گوہر ایمان لوٹ رہی تھیں ! اور تم اپنی باغ و بہار میں مست تھے ، اپنے ہی کاروبار میں بدمست تھے ، تم اپنے حماموں ، بیت الخلاؤں ، بیڈ روموں اور کچن روموں کی زیب و زینت اور سجاوٹ پر پانی کی طرح رقمیں بہار ہے تھے ؛خدائی عطیہ اور اس کی عطا کی ہوئی دولت اس کے دین کے تحفظ وحمایت میں نہیں لگا رہے تھے ۔ وہ خالق کائنات پوچھنے پر آجائے اور وہ سوال کر بیٹھے کہ قادیانیت ، شکیلیت ، یہودیت اور نصرانیت کے اشاروںپر غریب علاقوں میں میرے بندوں کی غریبی قلاشی ، محتاجی ، تنگدستی غربت اور فاقہ مستی سے فائدہ اٹھا کر لوگ ان کے ایمان سے کھلواڑ کررہے تھے ،ان کے یقین واعتقاد پر ڈاکہ ڈال رہے تھے ،ان کی متاع گراںمایہ ایمان کو لوٹ رہے تھے ۔ اور تم اپنی شادی بیاہ کے پروگراموں اور منصوبوں کو پورا کرنے میں گھوڑے جوڑے اور ویڈیو کاپی کرنے اور بڑے بڑے طعام ولزومات اور ماکولات ومشروبات جیسی لایعنی رسومات پرصرف نام ونمود کے لیے لاکھوں لاکھ روپئے برباد کررہے تھے ؟ بسبب ِناداری میرے بندوں اوربندیوں اورمعصوم بچوں اور بچیوں کے ایمان کا سودا کیا جارہا تھا اور تم اپنی عافیت گاہوں، اپنی رنگ رلیوں اور خرمستیوں میں مست تھے ؛کیوں تمہارا احساس نہ جاگا ؟ تمہارے کانوں پر جوں تک نہ رینگی ؟ بتلاؤ اس وقت کیا جواب بنے گا ؟ امت محمدیہ کے یتیموں ، یسیروں ، لاچاروں ، فاقہ کشوں ، حالات کے ماروں اور غربت وقلاشی سے تنگ مفلوک الحال لوگوں پر تمہیں ترس نہ آیا جب کہ ان کے متاع ایمان کا نشیمن باطل طاقتوں کی زد پر تھا ،لہٰذا بڑی ہی چابک دستی اور دانائی سے امت مسلمہ کو سوچنا ہوگا اور ان حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا ۔
کرنے کے کام :
غربت زدہ علاقوں میں گھوم پھر کر ہر آسودہ مسلمان ایک غریب گھرانے پر ان کی زبوں حالی پراگر توجہ دیں اور ان کو ان کے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے کاروبار سے لگا نے کے لیے، جس سے ان کی غربت وقلاشی کا مستقل علاج ہوسکے منصوبہ بند طریقہ اور منظم پیرائے پر کام کریں تو یقینا یہ ان کے ایمان کے تحفظ کا کام ہوسکے گا اور پھر محض غربت کی و جہ سے کوئی ان کے ایمان پرڈاکہ نہ ڈال سکے گا ۔ غریبی ہٹاؤ کے لیے اسلام نے مسلمانوں کے سامنے بہت سی راہیں کھول رکھی ہیں ؛مسلمان اپنی زکوٰۃ ، صدقات ودیگر مدات کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کی خدمات کرسکتے ہیں ۔ موجودہ دور میں یہ ایک بڑا جہاد اور کرنے کا کام ہوگا ۔
شکیلیت کا فروغ اورشیوع :
جن بنیادوں پر شکیلیت پرپھیلارہی ہے ، ان میں ایک بڑا سبب مسلمانوں کا افلاس اور ان کی غربت کا بھی دخل ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں امیری ، غریبی ، سرمایہ داری اور ناداری یہ سب خدائے بزرگ وبرتر کا عطیہ ہے ،عطائے الٰہی کے بغیر نہ کوئی دولت وثروت پا سکتا ہے ، نہ قلاشی وناداری کو پہنچ سکتا ہے ۔ یہ خدائے واحد کے رازہائے سربستہ ہیں ۔ اور اسی حکیم و دانا کی تدبیر وتقدیر کے تابع ہیں ۔{ نحن قسمنا بینہم معیشتہم} تاہم اس نے راہیں کھول رکھی ہیں ۔
{فلیتنا فس المتنا فسون } ! اس کا رجہاں میں جو اپنی جولانیوں اور محنتوں کو جتنا بڑھائے گا فتوحات کے دروازے اتنے اس کے لیے ہوتے جائیںگے ،جو جتنا اپنی کوششوں کے گھوڑے کو تیز ومہمیز کرے گا وہ اتنا ہی آگے بڑھے گا۔ {وان لیس للانسان الا ما سعیٰ وان سعیہ سوف یری }۔
افلاس وناداری خطرہ کا سائرن :
اس سے قطعی انکار نہیں کہ غربت وافلاس شریعت مطہرہ ناجیہ کی نظر میں خطرہ کی گھنٹی ہے ۔ تاہم یہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش بھی ہے {ولنبلونکم} اور یہ آزمائش اس وقت اور زیادہ سخت اور شدید ہوجاتی ہے ، جہاں دولت کی ریل پیل ہو، جہاں غریب اور فاقہ مست بلا سے محنتی اور جفاکش ہوں اور بہ نسبت اس کے دولت مند اور مال دار کا ہل و سست ہو ں؛ ایسے حالات میں قلّاش آدمی شیطانی و ساوس کا شکار ہوجائے یہ عین ممکن ہے ۔ ممکن ہے کہ اس کی زبان پر شکوہ وشکایت ہجوم کرنے لگے کہ نعوذ باللہ خداکی تقسیم مبنی بر انصاف نہیں ہے ،کسی عربی شاعر نے کہا ہے ؎
کم عالم عالم اعیت مذاہبہ
وجاہل جاہل تلقاہ مرزوقا
ہذا الذی یترک الالباب جائزۃ
وصیر العالم النحریر زندیقا
موجودہ عہد میں مادیات کی بہتات ، عقیدے کی زبوں حالی اور ایمانی ضعف کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ غربت یقینا اپنا اثر دکھلائے گی کہ جب غربت افلاس کسی کے گھرانے اور خاندان یا کسی گاؤں اور علاقہ کا احاطہ کرتی ہے ،تو بے دینی بھی اس کے تعاقب میں ہوالیتی ہے ۔
حضرت ذو النون مصری ؒ فرماتے ہیں : ’’ بے صبر اور فاقہ کش بدترین کافر ثابت ہوتے ہیں ۔‘‘
(اسلام میں غریبی کا علاج )
اور یوں بھی صبر کا مادہ لوگوں میں کم ہی ہوتا ہے ۔ ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی لطافت کو بھی دیکھیے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’ کاد الفقر ان یکون کفرا ۔‘‘ قریب ہے کہ غریبی کفر تک پہنچادے۔(گرچہ محدثین نے اس کو ضغیف قرار دیا ہے )(بیہقی ، طبرانی ، ابو نعیم)
ناداری کردار کو متاثر کرتی ہے :
غربت کردارکو بھی متاثر کرتی ہے اور سیرت و اخلاق پر بھی اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں ۔ قلاشی ، مفلوک الحالی اور فاقہ مستی وتنگدستی کے آگے انسان مجبور ہوجاتا ہے اور پھر اخلاقِ سیئہ وشنیعہ کا مرتکب ہونے لگتا ہے اور ایسے کردار پر اتر آتا ہے ، جس کو نہ کبھی عقلِ سلیم گوارہ کرتی ہے ، نا ہی انسانی شرافت ومروت اس کی اجازت دیتی ہے ؛چناں چہ آج اگر فواحشات ومنکرات ، چوری، ڈکیتی ، زنا ودیگر خرافا ت کو جہاں آپ ٹٹولیں گے ، گہرائی سے اس کا مطالعہ کریںگے تو ہویٰ وہوس اور فسادِ قلب ونظر کے معاً ساتھ ہی اس کی گہرائیوں میں غربت بھی اپنا نام درج کرواتی نظر آئے گی ۔ اسی لیے کسی نے کہا ہے ’’ کہ پیٹ کی آواز کے آگے ضمیر کی آواز بھی دب جاتی ہے ۔‘‘
غربت کے اثرات انسانی مزاج پر :
ناداری کا اثر بد انسان کی ذات وکردار تک محدود نہیں رہتا ، بل کہ اس کی اڑان تفکرات وخیالات تک ہوتی ہے ؛بریں بنا عقول انسانی میں فتور کا ہجوم ہونے لگتا ہے اورذہنِ انسانی انتشار کا مخزن بن جاتا ہے اور یکسوئی کے ساتھ کسی معاملہ پر سوچنا دشوار ہوجاتا ہے ۔ خصوصاً جب کہ اطراف کا ماحول اور اس کے پاس پڑوس رہنے والے اس کے بالمقابل صاحب ِمال مرفّہ حال اور مال دار ہو ۔ کبھی کبھی تو یہی ذہنی انتشار ، لسانی توازن اور دماغی توازن سے بھی تجاوز کرجاتا ہے اور پھر یہی لسانی ودماغی بے راہ روی کفر تک رسائی کردیتی ہے ۔
اذا قل مال المرء قل بہا ئہ
وضاقت علیہ ارضہ وسماء ہ
واصبح لا یدری ان کان داریا
اقدامہ خیر لہ وراعا ہ
یعنی خالی ہاتھ آدمی بجھا بجھا سا رہتا ہے اور آسمان وزمین باوجود وسعت کے اس کو تنگ معلوم ہونے لگتے ہیں اور باوجود لیاقت وصلاحیت کے اس کو مطلق علم نہیں ہو پاتا کہ فلاں کام کرنا یا نہیں کرنا ،کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے میں وہ تذب ذب کا شکار ہوجاتا ہے۔
افلاس کا اثر خاندان پر :
ناداری کا ایک پہلو یہ بھی بڑا واضح اور روشن ہے کہ غریبی خاندان پر مختلف پہلوؤں سے اثر انداز ہوتی ہے ، جس کا ایک پہلو یہ بھی ہے۔قرآن ِپاک ارشاد فرماتا ہے :
{لا تقتلوا اولا دکم خشیۃ املاق نحن نرزقکم وایاہم } (انعام)
بسبب ناداری اولاد کو قتل مت کرو ،ہم تم کو اور ان کو بھی روزی دیںگے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے ، جس کو قرآنِ مجید طشت ازبام کررہا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں ایسا ہوتا تھا کہ باپ اپنے ہاتھوں معصوم کا دم گھونٹ دیتا تھا اور جو آج بھی ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ زمانۂ جاہلیت تھا تو پیدا ہونے کے بعد یہ قتل کا ارتکاب ہوتا تھا ،اب زمانہ ترقی کا ہے ، تو پیدائش سے پہلے ہی رحم مادر میںیہ قتل انجام دیا جارہا ہے ۔ یہ جرمہائے سیاہ انسانیت کی رد ائے حشمت و عظمت پر ایک بد نما داغ ہے ، جس پر انسانیت ہمیشہ شرم سار رہے گی کہ اس حیا سوز اور بے رحم حرکت کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ قرآن نے گہار سنائی: {واذا الموؤدۃ سئلت بای ذنب قتلت }۔
تیری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر وغنا نہ کر
کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدار قوت حیدری
افلاس کے سماجی اثرات:
سطور بالا میں جو تلخ حقائق پیش کیے گئے ہیں ، کوئی سماج ومعاشرہ اس سے مبرا نہیں ۔ واقعی سماج و معاشرے کی تعمیر میں افلاس حد فاصل اور زبر دست مانع ہے؛ چناں چہ مشہور صحابی رسول سید نا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ مجھے ڈر ہے کہ تہی دست اور فاقوں کا مارا بھوک سے تنگ آکر قتل و غارت گری کا پیشہ نہ اپنا لے ۔‘‘
(بحوالہ اسلام میں غریبی کا علاج ص ۳۷)
اسلام جبریہ کے نظریہ کی تردید کرتا ہے :
جس طرح اسلام مسیحی موقف کو قبول نہیںکرتا ، اسی طرح جبریہ کے اس نظریہ کی بھی تردید کرتا ہے ۔ جبریہ کا کہنا ہے : ’’ کہ امیری وغریبی کو تقدیر الٰہی کا ناقابل تنسیخ فیصلہ تصور کرلیا جائے ‘‘ اور صرف اس لیے کہ یہ فیصلہ خدا کی عین مرضی اور منشا کے موافق ہے کہ آدمی خود کو تقدیر کے حوالے کردے اور ہرطرح کی جد و جہد اور کوشش دل و دماغ سے نکال باہر کردے ۔ علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا ؎
عمل سے فارغ ہوا مسلمان بناکے تقدیر کا بہانہ
تقدیر کا بہانہ :
عمل نہ کرنا اور تقدیر کا بہانہ کرنا ، یہ عمل سے جی چرانا ہے اور یہ تقدیر کا غلط اور من مانی مفہوم متعین کرنا ہوا ۔ یہ سمجھنا کہ اللہ آسمان سے روٹی سالن برسادے، گھی اور شہد بھیج دے ،یا فرشتہ چبا چبا کر میرے منہ میں ڈال دے، تو یہی تصور تو گمراہی کا سبب ہے؛ جب کہ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ بھی کوئی اہم اور مشکل کام نہیں ہے، اس نے دنیا میں سیکڑوں مثالیں قائم کررکھی ہیں ؛ مگر دستور اس علیم و خبیر نے اسباب کے اختیار کا قائم کررکھاہے۔
ایک مرتبہ حضور ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا :
دوا ، علاج اور پرہیز کرنا کیسا ہے؟ ہل تردد من قدر اللہ شیئا ، قال ہی من قدر اللہ ۔
(احمد ، ابن ماجہ )
کیا اس سے تقدیر بدل سکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (کیوں نہیں ) وہ بھی تو اس کی مشیت ہوگی !
تدبیر کے دست زریں سے تقدیرر درخشاں ہوتی ہے
قدرت بھی مدد فرماتی ہے جب کو شش انساں ہوتی ہے
جس طرح تقدیر کا غلط مفہوم لوگ اپنے طور پر متعین کرکے عمل سے دور ہوگئے ، ٹھیک اسی طرح قناعت کا مفہوم بھی غلط تصور کرلیا گیا ہے ۔
قناعت کا غلط مفہوم :
اکتساب کے لیے جد و جہد نہ کرنا ، جو ہے اسی پر اکتفا کرلینا اور آگے بڑھنے اور ترقی کرنے سے رک جانا اور اس کو قناعت کا لباس تصور کرنا ، راہِ اعتدال سے تجاوز کرنا ہے ۔ قناعت کا مفہوم ہر گز درست نہیں، بل کہ قناعت کا یہ تصور غلط ہے ۔ مفلس وتنگ دست، مور و ملخ اور کیڑے مکوڑوں جیسی زندگی بسر کریں اور حلال کمائی اور آسودہ زندگی کی تمنا بھی نہ کریں اوریہ سمجھ لیں کہ خالق ومالک کویہی منظور ہے ، تو قناعت کا یہ مفہوم اس لیے تصور نہیں کیا جاسکتا کہ خود حضور ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خالق وپالن ہار سے غنی اور بے نیازی کی دعائیں مانگا کرتے تھے ۔
اس لیے یہ ملحوظ خاطر رہے کہ قناعت وتقدیر بڑے لطیف مراحل ہیں ۔ قناعت کا مفہوم یہی ہے کہ بندہ قدرت کی بخشی ہوئی طاقت وقوت کے دائرہ میں رہ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں ؛حد ود اللہ کو پھلانگنے کی کوشش نہ کریں ، اسلام کی قائم کردہ حدود میں رہ کر اپنی سرگرمی جاری رکھیں ؛یہی قناعت کا صحیح مفہوم ہے ،اسلام کی نظر میں ایک مسلمان کا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ دوسروں کی دولت پر للچائی ہوئی حریصانہ نظریں نہ گاڑیں ۔ رشک وحسد سے اوپر اٹھ کر اپنی مقدور بھر کوشش کرتا رہے ؎
توہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگیٔ داماں بھی ہے
غریبی ایک مسئلہ ہے، مگر لا علاج نہیں :
اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ مفلسی وناداری ایک مسئلہ ضرور ہے ، مگر ایسا پیچیدہ اور مشکل نہیں جو لا ینحل ہو ، بل کہ اسلام اسے حل کے لیے ان تمام وسائل ، ذرائع و اسباب کی نشاندہی ورہ نمائی کرتا ہے ،جو غریبی پر ضرب کاری لگائے ۔ غریبی کا علاج اسلامی نقطہ نظر سے مشیت یاتقدیر سے ہرگز مجادلہ نہیں ہے ؛جیسا کہ بعض لوگ اپنی کج فہمی سے سمجھنے لگتے ہیں ۔ لاریب غریبی، ناداری، افلاس ، قلاشی اور محتاجی یہ ایک وبال اور بڑی مصیبت ہے ، بل کہ زندگی کی راہوں میں ارتقا کے لیے ایک روڑا اور حائل دیوار ہے ،اس لیے اسلام نے غریبی ہٹاؤ کے لیے بڑے رہ نما اصول دیے ہیں ؛تاکہ اس کی وجہ سے عقائد ، عبادات اورمعاملات وغیرہ میں فساد نہ آئے ،سماج و معاشرہ اوربرادری کا تحفظ قائم ہو ؛بالخصوص ایک ایسے معاشرے کی تعمیر ہو جس میں ہر فردِ بشر اخوت و مساوات کے مخلصانہ جذبات سے سرشار ہو اوریہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ ہر آدمی جد وجہد اور حرکت کی مشعل اپنے ہاتھوں میں اٹھالے۔
یقیں محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میںہیں یہ مردوں کی ہیں شمشیریں
غریبی ہٹاؤ کے رہنما اصول :
عمل پیہم اور جہد مسلسل کرنے والا کبھی شاکی نہیں ہوتا ،وہ اپنے انہیں ہتھیاروں سے میدان مارتا رہتا ہے ،دولت وثروت حاصل کرتا ہے ؛یہی و ہ ہنر ہے، جس سے آدمی زمین کے خرابے اور ویرانے کو شادو آباد اور لالہ زار کرتا ہے اور محتاجی وقلاشی، ناداری وغربت پر لگام لگا سکتا ہے۔
باوجود صلاحیت واستعداد کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہوکر بیٹھے رہنا اورکچھ نہ کرنا ، افلاس وناداری کو دعوت دینا ہے ۔ قرآن کریم کہتا ہے : {فاذا قضیت الصلوٰۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ } پس جمعہ کی نماز سے فارغ ہوجاؤ، تو پھر زمین میں پھیل پڑو اور اپنی روزی کی تلاش کرو ۔
فضل الٰہی کی جستجو اور تلاش معاش کے لیے سرگرداں ہونا ہی گوہر مراد کو پانا ہے ۔ عربی سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ’’ وابتغوا ‘‘ فعل امر ہے اور امر کا مفہوم طلب و تقاضا ہوتا ہے ۔ یعنی کاتبِ تقدیر کو اصرار ہے کہ رزقِ حلال تلاش کیا جائے ، اس کے حصول کے لیے جتنا ممکن ہو کوشش کی جائے۔ راہ عمل میں گامزن رہنا اس کو محبوب ہے ۔اسلام اور شارع علیہ السلام کو پسندیدہ عمل ہے ۔ شارع علیہ السلام کے اقوال پر ذرا غور فرمائیں ! کس طرح معاشیات اور روزگار حاصل کرنے پر ذوق وشوق کے گھوڑے کو مہمیز کررہے ہیں ، تجارت؛ جو روز گار کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔ آپ فرماتے ہیں : ’’ التاجرالصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشہداء ‘‘ (ترمذی ) سچے تاجر کا حشر انبیا ، صدیقین اور شہدا وصالحین کے ساتھ ہوگا ۔ خود ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم حصولِ معاش کے سلسلہ میں ۲۵؍ سال کی عمر میں تجارت سے وابستہ ہوگئے تھے ۔ زراعت و کاشت کاری کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا : ’’ ما من مسلم یزرع زرعاً او یغرس غرسا فیأکل منہ طیرا اور انسان او بہیمۃ الا کان لہ بہ صدقۃ ‘‘ (بخاری )
کہ جب کوئی مومن بندہ کاشت کاری کرتا ہے یا پودا لگاتا ہے ، پھر اس سے کوئی پرندہ یا جانور یا انسان مستفید ہوتاہے ،تو اس کی طرف سے یہ عمل صدقہ تصور کیا جاتا ہے ؛اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دست کاری اور صنعت وحرفت کی طرف متوجہ فرمایا: {ما اکل احد طعاما قط، خیرا من ان یاکل من عمل یدہ } کسی آدمی نے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے زیادہ لذیذ کھانا نہیںکھایا ۔ (بخاری )
طبرانی کی ایک روایت میں آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے : ’’من امسیٰ کالًّا من عمل یدیہ امسیٰ مغفوراً لہ ‘‘ جو شخص کام کرتے کرتے شام کردے اور تھک جائے خدا اسے معاف فرمائے گا ۔
مشہور تابعی ابراہیم نخعی ؒ سے کسی نے دریافت فرمایا ، امانت دار تاجر اور عبادت گزار صوفی میں آپ کس کو ترجیح دیںگے ؟ ابراہیم نخعی ؒ نے فرمایا: ’’ امانت دار تاجر میری نظرمیں افضل ہے ۔ ‘‘
سطور بالا سے یہ واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کو غربت وافلاس سے نجات پانے کے لیے پوری توانائی وتندہی کے ساتھ کسی کام اورپیشہ سے جڑ جانا چاہیے ،خواہ یہ کام کسی بھی نوعیت کا ہو ،نتیجہ اس کا خوش گوار اوراچھا ہی ہوگا کہ اپنے گھر قبیلہ کی کفالت کر سکے گا ، ناکسی ادارہ اور حکومت سے شکایت ہوگی ،اس کو دیکھ کر اوروں میں بھی امنگیں بیدار ہوں گی ؛پھر کسی شیطان صفت انسان کو مسلمانوں کی غربت کے راستہ سے ایمان پرڈاکہ ڈالنے کی ہمت نہیں ہوگی اور نا ہی موجودہ دور کی دجالیت ، بنام قادیانیت وشکیلیت مسلم بستیوں میں اپنا ڈیرہ جما سکیںگی ۔
اس جانب اُمرا اور قوم کے مال دار افراد کو بھی حساس ہونے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے مال سے کسی غریب کی امداد کرکے کاروبار سے لگانے کی فکر کریں ۔ تعاونوا علی البر والتقویٰ