جمالیات اِباحت پسندی کے نرغے میں

]اشراطِ ساعت: جمالیات(Aesthetics) کے حوالے سے[

مولانا حکیم فخرالاسلام  

            قربِ قیامت میں رونما ہونے والے ایک گروہ کے متعلق روایت میںوعیدآئی ہے جس کی نشاندہی آں حضرت ﷺ نے اِن الفاظ میں فرمائی تھی:’’نساء کاسِیاتٌ عَارِیاتٌ مُمِیْلَاتٌ مائِلَاتٌ‘‘ ایسی عورتیں ظاہر ہوں گی جو ملبوس ہونے پر بھی برہنہ ہوں گی۔مردوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خود بھی مردوں کی طرف کھنچیں گی۔‘‘

(صحیح مسلم جلد ۲ ص۲۰۵۔حدیث:۴۶۸۳۸۔بہ حوالہ عصرِ حاضر حدیثِ نبوی کے آئینے میںازمولانا یوسف لدھیانوی)

            ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے آں حضرت ﷺ سے قیامت کے آثار و علامات کے بارے میں دریافت کیا ،جس کے جواب میںآں حضرت ﷺ  نے قیامت کی علامات تفصیل سے شمار کرائیں۔اُنہی میں سے ایک علامت سے آگاہ کرتے ہوے فرما یا:’’یا ابن مسعوداِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِہا اَنْ یَّکْتَفِی الرِّجَلُ بالرِّجالِ وَالنِّسَائُ بِالنِّسَائِ‘‘ترجمہ:اے ابن مسعود !بے شک قیامت کے آثار و علامات سے یہ بھی ہے کہ مرد مردوں سے اور عورتیں عورتوں سے جنسی لذت حاصل کریں گی۔

            اور بیہقی کی شعب ایمان میں ایک روایت دو طریقوں پر ذکر کی گئی ہے جس میں ہم جنسی کی لذت پر پروان چڑھنے والی معاشرت کو قیامت کی پانچ اہم ترین علامات میں سے شمار کیا گیا ہے۔

  (ملاحظہ ہوکنز العمال جلد ۱۴ ص۲۲۴،۲۲۶۔حدیث:۴۶۸۳۸۔بہ حوالہ عصرِ حاضر حدیثِ نبوی کے آئینے میںازمولانا یوسف لدھیانوی)

            یہ دو روایتیں اور اُن میں بھی اقل قلیل اجزاء محض نمونے کے لیے بہ طور اِشارے کے ذکر کیے گئے،ورنہ اِس وقت کے جو حالات ہیں،اصولی حیثیت سے اُن کی نشاندہی تفصیل کے ساتھ روایتوں میں موجود ہے۔اِس غرض کے لیے’’ مشکوٰۃ المصابیح‘‘کی ’’کتاب الفتن‘‘ دیکھ لینا کافی ہے۔البتہ مصیبت یہ ہے کہ عہدِ جدیدمیں ، شہوت پسندی ، لذت پرستی اور تمام شیطانی غلاظت کو علم و فن کا درجہ دینے کے بعد اُس کو معاشرت وتمدن،رواج و روایت اور ثقافت سے جوڑکر اِظہارِ ازادی (expression of freedom) کے حق کے سائے تلے تمام معاشرے میں عام کر دیا گیا ہے،جس کی وجہ سے وہ گمراہی،بے حیائی اور فسق ،پروگراموں،کانفرنسوں،سیمناروں کی زینت بن گئے ہیں۔بعد ازاں معاشرے میں روشن خیالی (Enlightenment)لانے کی غرض سے اُنہیں تعلیم سے وابستہ کر نے کے لیے اِداروں میں پہنچادیا گیا ہے جس کے بعد یہ ہم نصابی سرگرمیوں(Co curricular activities) کا حصہ بن گئی ہیں ۔طلبہ میں شخصیتوں کو اُبھارنے اور صلاحیتوں کی دریافت(To search the talent) کے نام پر اِسی اِباحت پسندی اور جمال آفرینی کے ہارمون و رسیلات کی ذہنوں میں تراوش کی جا نے لگی ہے۔پھر اِن چیزوں کوفائن آرٹ کی صورت میں نصاب تعلیم( Syllabus) میں شامل کرکے اِن پر نمبرات مقرر کیے جاتے ہیں ۔اور پاس ، فیل ہونے کے لیے اِنہیں موقوف علیہ بنایا جاتا ہے۔

            دوماہ پہلے کا ایک تازہ واقعہ اِس سلسلے کا یہ ہے کہ ہائی اسکول کی ایک طالبہ کے والد نے بتایا کہ اُن کی بیٹی کو ذمے داروں کی جانب سے ہوم اسائنمنٹ کے لیے مونا لیزا کی تصویر بنانے کو دی گئی۔حالاں کہ ادارے کے یہ ذمے دار، وہ لوگ ہیں جودینی علم و فضل کے حامل ہیں؛بلکہ فارغ التحصیل ہیں اور لڑکیوں کے لیے عالمہ کے کورس کا نظام بھی چلاتے ہیں۔تصویر کی یہ تجویز یقیناًمنتظمہ کے نزدیک بھی مرغوب نہ رہی ہوگی۔اورپھراِس اِمکان کی بھی نفی نہیں کی جا سکتی کہ گو معمولی درجے کی سہی؛مگرمنتظمہ نے اِس تصویر کو الاٹ کرتے وقت قباحت بھی محسوس کی ہوگی۔چناں جب طالبہ کے گھر والوں کی طرف سے تصویربنانے اور اُس میں رنگ بھرنے سے انکار کر دیا گیا،تو اُنہوں نے عذر قبول کر لیا اور دوسرا اسائنمنٹ الاٹ کر دیا۔بہ ظاہریہ ایک سادہ واقعہ ہے؛لیکن اِس میں چند در چند فتنے موجود ہیں۔اِس میں ایک قباحت تو تصویر بنانے کی تھی جسے رد کر دیا گیا ۔پھراِس میں پائی جانے والی جن خرابیوں نے دنیا بھر کے معاشروں کو آلودہ کر رکھا ہے، وہ خاص مونا لیزاور اُس کی پینٹنگ سے تعلق رکھتی ہیں ۔ مجسمہ سازلیونارڈو دڈاوانچی کے ذریعے بنائی گئی ساڑھے پانچ سو سال پہلے کی اِس تصویر کے توسط سے ڈاوانچی افکار سے(فنونِ لطیفہ کے سہارے) طلبہ کے ذہنوں کوآج بھی مسموم کیا جا رہا ہے۔ اِس میں سب سے پہلے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ مونا لیزا ہے کون بلا؟

            مونا لیزا(۱۴۸۰ء -۱۵۴۲ ء)مغربی نشاۃ ثانیہ کے عہد کی ایک لیڈی ہے اور اُسی عہد کا ایک آرٹسٹ لینارڈوڈاونچی(۱۴۵۲-۱۵۱۹ء) ہے ۔یہ مجسمہ ساز،مصور ،رئیس الملحدین ولد الزناکاتارینیا کے بطن سے پیدا ہوا جس نے ۱۵۰۳ء- ۱۵۱۴ء کے دوران مونا لیزا کی بالائی نصف جسم ،برہنہ سینہ کے ساتھ ایک تصویر بنائی ۔اِس تصویر میںمونا لیزا کی ذات اور اُس کا سراپا ،ہسٹری اور مِسٹری سے بھرا ہوا ہے،یعنی تاریخی نوعیت اور پُر اسراروضع و ہیئت کاحامل ہے۔ یہ تصویر آرٹ اور کلاکاری کی ایک شاہکار ہے اور نہایت درجے شہرت کی مالک ہے۔دنیا بھر میںاِس تصویر کو دیکھنے کے لیے-ایک تخمینے کے مطابق- سالانہ ۹۰ لاکھ لوگ سفر کرتے ہیں۔کسی ایک تصویر کے متعلق جو سب سے زیادہ لکھا گیا ،سب سے زیادہ گانے گائے گئے،وہ یہی ہے ۔قلوب پر اثر انداز ہونے والے نیچر کی عکاسی اور خاکہ نگاری کے لیے سب سے زیادہ جس آرٹ ،پورٹریٹ ،مجسمہ سازی اور عکس و شبیہ کی تعریف ہوئی وہ یہی اپنی ہلکی پلکوں ،ابرو اورمسکراتے چہرے کے ساتھ متین و سنجیدہ شبیہ سے پہچانی جانے والی مونیکا لیزاہے۔ اِس کے چہرے کی فریبِ نظرلیکن اُداس مسکراہٹ مستقل تحقیقات کے گوشے پیدا کر رہی ہے ۔اُداسی اِس بات کو ظاہر کررہی ہے کہ وہ اپنی زندگی سے خوش نہیں تھی۔ایسا خیال کیا جا تا ہے کہ اگر اِسے بار بار دیکھیں،تو اِسے سمجھ پائیں گے ۔پینٹنگ کرنے والے نے اِس کی آنکھوں کوناظر کے وسطِ توجہ میں جگہ دی ہے اورچہرے کو محیط سے متعلق رکھا ہے۔مونا لیزا کی شہرت کا راز اِس امر میں پنہا ہے کہ پینٹنگ کے عجائب اور معمے جوابتدائے آفرینشِ عالم سے اب تک تیار کیے گئے،یہ اُن میں سے ایک ہے۔۲۰۰۶ء ،۲۰۰۷،۲۰۰۹کے الگ الگ آرٹیکلز میں مقالہ نگاروں نے یہ ثابت کیا ہے کہ فلورینس (اِٹلی)میں بنائی گئی یہ تصویر آج بھی پینٹنگ کے ایک شاہ کار کے طور پر محفوظ ہے جس کی دلربائی ،سحراور پُر اسرار مسکراہٹ میں ناظرین صدیوں سے گرفتار ہیں۔اِس کو بار بار دیکھنے سے اِس کی مسکراہٹ بدلتی دکھائی دیتی ہے۔بہت سے لوگ اِس کے عاشق ہوئے ،حتی کہ نپولین بھی اِس کے عشق میں گرفتار تھا اوروہ اِسے اپنے بیڈ روم میں لٹکا کر رکھا کرتاتھا۔لیوپ میسکرو ایک مفکر تھا،اسے بھی اِس عورت کی مسکراہٹ سے ایساعشق ہو ا کہ جس کی تاب نہ لاکروہ خود کشی کر بیٹھا ۔اُس کے خود کشی نوٹ میںیہ تحریر تھا کہ یہ عورت اِس دنیا میں موجود نہیں ہے ،اس لیے وہ بھی اِس دنیا میں رہنا نہیں چاہتا ۔ پانچ صدیاں گزر جانے کے بعد اب اِس کی ابرو اور پلکیں خصوصی تحقیقات کا موضوع بنی ہوئی ہیں ۔ اِس پینٹنگ کی اِنشورنس۸۰۰ملین ہے یعنی ایک کھرب روپئے۔آج اِس کی پینٹنگ فرانس میں پیرس کے آرٹ میوزیم میں محفوظ ہے۔اِس پینٹنگ کو اِٹلی حاصل کرنا چاہتا ہے؛لیکن وہ اِس کو حاصل کرنے میں نا کام ہے۔گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصے سے ،یہ تصویر سائنس دانوں کے زیرِتحقیق ہے۔ابھی کچھ عرصے پہلے اِسے اِنفرا ریڈ اور ملٹی اِسپیکٹرل میتھڈ کے ذریعے جانچا گیا ہے۔سائنس داں فرانسیسی پاسکل کوتھ نے اِنعکاسی ٹیکنیک اور لیئر اِملسی فیکیشن کے ذریعے اِس تصویر کے متعلق دل دہلا دینے والی حقیقت کا اِنکشاف کیا ہے۔اُس نے اپنی دس سالہ سائنسی تحقیقات کا یہ نتیجہ پیش کیا کہ یہ تصویر محض تصویر نہیں؛بلکہ ایک راز ہے اور اِس کے نیچے ایک اور تصو یر ہے ۔ اِس تصویر میں بھرے گئے رنگوں نے انسانی آنکھوں کو دھوکا دے رکھا ہے۔جب ہم  اِسے غور سے دیکھتے ہیں،تو بہ ظاہر خوبصورت دکھائی دینے والی مسکراہٹ اِس قدر خوف ناک ہے کہ جس کے اثر سے انسان کے قلب میں ایک خطرناک وحشت طاری ہو جا تی ہے۔ڈاونچی کے ذریعے تیار کی گئی مصوری کی اِس ٹیکنیک کو سفوماٹو کہتے ہیں۔

            فن اور علم کے نام پراِس قسم کے شاہ کارملحد اباحیت پسند ہیومنسٹوں کے دریافت کنندہ ہیں جن کا تذکرہ آئندہ آ رہا ہے۔یونانیوں میں بھی ذہنی خیالات کوشہوانی جذبات سے آلودہ کرنے والے اور معاشرے میں فواحش پھیلانے والے اِباحیت پرست پائے جاتے تھے۔مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں علم کلام کے صحیح عقلی اصولوں سے اِس گروہ کا تعاقب کیا تھا اور اِس کے افکار پرچڑھی عقل و فن کی مغالطہ آمیز غلیظ چادر کو ہٹاکر اِس گروہ کا لقب ’’کلابیہ‘‘ رکھا تھا۔اب والدین کی سامنے یہ سوالات ہیںجو جواب کے طلب گار ہیں۔۱:کہ وہ اپنے جگر گوشوں کو اسکولوں میں داخل کرنے کے بعداُن کے اسلامی افکار کے تحفظ کے لیے کچھ بند و بست کر بھی رہے ہیں ؟۲:یاپھراُ نہیں نصابی،ہم نصابی ،خارج از نصاب اور صلاحیتوں اور شخصیتوں کے اُبھارنے کے نام پرتصورِ ’’اِنفرادیت‘‘(Individualism)کے خوش نما عنوان کے تلے آخرت بے زارملحدانہ رخ پر جانے کی اجازت دے رہے ہیں ؟۳:کیااپنے جان و دل سے عزیز بچوں کو اُن کے کچے ناپختہ ذہن کے حوالے کرکے ،دینی خالص فکرسے عاری اُن کے اساتذہ پراعتماد کو کافی سمجھ رہے ہیں؟۴:یا اِس کے لیے کچھ تدبیر سوچ رہے ہیں؟

 جمالیات(Aesthetics) :

            بہر کیف یہ عصرِ جدید کے جمالیات(Aesthetics) کا ایک نمونہ ہے جمالیات فلسفۂ جدید کی اہم شاخ ہے۔فلسفے کی اِس شاخ میںخوبصورتی ،آرٹ، میوزک،لذت کو موضوع بنا کر ذہن کا مطالعہ کیا جاتا ہے اوراِس بنیادی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ انسانی دماغ چند اشیا کے درمیان تطبیق دے کر خوبصورتی کامنظر کیوں کر پیدا کرتا ہے ۔بنیادی سوال تواپنی جگہ پرہی رہ گیا اوردرست جواب شاید مل ہی نہ سکا ؛لیکن یہ ضرور ہوا کہ اِس حوالے سے:

            ٭ ا باحیت کی طرف رغبت اور شہوات میں ہیجان پیدا کرنے والے گانے فروغ دیے جانے لگے۔٭اِس نفسیات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے- کہ  انسان کی خوبصورتی میں اُس کے لباس کی بڑی اہمیت ہے اور لباس کی خوبصورتی اُس کی ڈیزائن سے وابستہ ہے-فیشن ڈیزائننگ کے نئے نئے طریقے وضع کیے گئے،مثلاًGrunge aestheticکے حوالے سے رقص کے اِسٹائل،بالوں کے اسٹائل،بیگی جینز پینٹ اور لباس کی تراش خراش و اِختصارکے وہ تمام نمونے ایجاد کیے گئے جو انسانی شہوتوں کو برانگیختہ کرنے والے ہوں۔ فواحش و بدکاریاں پہلے بھی تھیں اور قدیم یونان میں اِس کی جڑیں موجود ہونے کے باوجود- علم و فکر سے وابستہ ہو کرمعاشرے میں اعتبار کا درجہ حاصل کرنے سے-وہ یکسر محروم تھیں۔لیکن جب اِن چیزوں نے فکری تحریک کی شکل اختیار کی،تو اُس وقت سے یہ چیزیں معاشرے کی دعوت و دعایت بن گئیں ۔اِس کی فکری تاریخ اُس تصور سے وابستہ ہے جو لذت پرستی کا مبلغ ہے جسے مغربی اصطلاح میں’’انسانیت‘‘ کہتے ہیں۔

اِنسانیت(Humanism):

            ۱۵ ویں اور ۱۶ویں صدی عیسوی میں ظاہر ہونے والی یہ تحریک’’ مذہب مرکزیت‘‘ سے ’’انسان مرکزیت‘‘ کی طرف اِنحراف اور بغاوت پر مبنی ہے۔یہ تحریک انسانی تمام خواہشات کو بے روک ٹوک پوری کرنے کی روادار ہے اورمسرت و خوش حالی کی فراہمی کو مقصود ِ زندگی ٹہراتی ہے۔تمام لوگوں کے لیے لبرل آرٹ(ظواہر پرستی و فحش کاری)کے فروغ کی خواہاں ہے۔انسانیت کے اِ س تصور کا روحِ رواں اور سب سے بڑا علم بردارپیٹرارک(۱۳۰۴-۱۳۷۴) تھا جسے فادر آف ہیومنزم بھی کہتے ہیں۔پھر ۱۷ویں صدی عیسوی میںجدیدرجحان کے تحت جدید فلسفے کا آغاز ہوا،اوراُس نے متذکرہ بالا تحریکِ ’’انسانیت ‘‘کی آبیاری کی۔یہ جدیدفلسفہ متعدد شکلوں میں رونما ہو ا،اُن میں سے ایک شکلفلسفہ بر اعظم یورپ(Continental philosophy)ہے۔ جان اِسٹورٹ مل(۱۸۴۰ء )کے اِس فلسفے نے خاص طور سے تین تحریکوںکی سر پرستی کی۔۱:رومانی تحریک(Romanticism)۔۲:نظریۂ مظاہر(Phenomenology)۔۳:فرانسیسی نسائیت(French Feminism)

ماڈرنزم(Modernism):

            ۱۹ ویں صدی کے اواخر اور ۲۰ ویں صدی کی ابتدا میںماڈرنزم کی لہر پیدا ہوئی۔ یہ ایک تحریک تھی جو آرٹ،فن تعمیر، میوزک(موسیقی)،ادب اور اِطلاقی آرٹ کی اصلاحات کے لیے اُٹھی تھی۔یہ فنون خود کوئی فلسفہ نہیں تھے؛بلکہ یہ ۱۹ویں صدی عیسوی کی اداراتی، مورخیت ،وکٹورین نیشنلزم اورغیر جمہوری ثقافت و روایات کے خلاف ایک بغاوت تھی جو آرٹ ،فن تعمیر ،ادب، مذہبی عقیدہ و ایمان،سوشل تنظیم اور روز مرہ کی زندگی یعنی جدید صنعتی دنیا کے خلاف روایتی گراؤنڈ پر اُٹھی تھی جس کا یہ دعوی تھا کہ یہ تمام چیزیں آؤٹ ڈیٹ ہو چکی ہیں۔لیکن یہ متعدد فلسفی افکار پر اثر انداز ہوئے :

الف:اِطلاقی وعملی فن:یہ جمالیاتی نوعیت سے تعلق رکھتا ہے جو دیکھنے والے کے لیے سرور و فرحت کا باعث ہو۔

ب:فنونِ لطیفہ:خوبصورتی کے ساتھ فکری محرکات کو اُبھارنے والا فن ہے۔آرٹ کی اِن قسموں کے تحت فوٹو گرافی، فیشن ڈیزائن ،گرافک ڈیزائن،عکوسات،تمثالیں،تصویر و خاکہ جو کسی چیز کی تشریح کرے۔ادب،موسیقی،ڈراما، سنیما،تھیٹر،فلم  وغیرہ شامل ہیں۔اسی کے ساتھ۲۰ ویں صدی کے نصف اول میں جرمن سے اٹھنے والی ہیگیلین(Hegalianizm) تحریک نے یہ فلسفی اساس فراہم کی کہ فرد کے لیے بنیادی قدروں اور عقیدوں کے بالمقابل نفسانی چاہتوں کو آزاد بنانے کا رول سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے جو افراد کی اپنی فطرت اورشناخت کے مطابق مہیا ہونا ضروری ہے۔

            یہ ایک اِجمالی جائزہ اُن افکار و نظریات کا پیش کیا گیاجوا باحیت کی طرف رغبت دلانے والے اور شہوات کو اُبھارنے اور ہیجان پیدا کرنے والے ہیں۔لیکن روایت میں ایک جز  یہ ہے کہ ’’ہم جنسی کی لذت پر پروان چڑھنے والی معاشرت کو قیامت کی پانچ اہم ترین علامات میں سے شمار کیا گیا ہے۔ ‘‘اِس کا بھی ایک ہلکا سا تذکرہ مناسب ہے۔

            اِس تعلق سے سب سے پہلے جرمی بینتھم (۱۷۴۸-۱۸۳۲)نے فکری بنیادوں پرفرد کے انسانی حقوق کے حوالے سے جنس پرستی کے جرم ہونے کے خلاف قانون (Decriminalisation of homosexual act) اورجنس پرستوں (Gay rights)کے تحفظ کی وکالت کی۔اِس کی سوچ یہ تھی کہ جو چیز لذت فراہم کرے،وہ خیر(good) ہے۔جماع سے لذت حاصل ہوتی ہے اس لیے  ہر قسم کا اور ہر جنس سے ،اِسے حاصل کرنے کا حق ہونا چاہیے،جو چیز شرط ہو سکتی ہے وہ باہمی رضامندی کاہونااور دل آزاری سے بچنا ہے۔ اوریہ کہ یہ لذت نہ تو مرد و عورت کے باہمی ربط،خلوت و صحبت میں منحصر ہے اور نہ ہی رشتۂ اِزدواج کے اِنتظار کی پابند ہے۔یہ لذت کا موقع ہر ایک کے لیے ہر وقت کھلا ہوا ہونا چاہیے،خواہ ہم جنسی پر مبنی ہو،مضاد جنس کے ساتھ ہویا کئی کئی پارٹنر سے متعلق ہو۔پھر اِسی اصول پر تحقیقات چل پڑیں کہ’’ جنسی آزادی حاصل ہونی چاہیے کیوں کہ انسان کو سب سے زیادہ لذت (شدید تلذذ-intense form of pleasure) فراہم کرنے والی شی یہی جنسی تلذذ ہے۔‘‘(پروفیسرشوفیلڈ۱۹۶۰-عمر ۵۹سال صدر شعبۂ کیمیا آکسفورڈ یونی ورسٹی )

            افسوس! اِس محبت گرفتہ انسان کو اِس کی خبر نہیں کہ محبت کیا چیز ہوتی ہے اوروہ کہاں سے آتی ہے اور اصل محبوب کون ہے؟اِس باب میں الامام محمد قاسم نانوتویؒ کی ایک تحقیق ذکر کی جاتی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ انسان کی اپنی معرفت خدا کی معرفت پراور اپنی محبت خدا کی محبت پر مو قوف ہے۔

اپنی معرفت خدا کی معرفت پرموقوف ہوتی ہے :

            ’’ مگراِس صورت میں مثل ِدھوپ اور خط ِمذ کور، حقیقت اُن-(ممکنات)- کی منجملہ اضا فیات ہو گی جس کا حاصل ہوگا کہ جیسے دھوپ کی حقیقت (کو یعنی سطح کو) سمجھنے کے لیے یہ ضرور(ی) ہے کہ اول شعاع ِآفتاب (ذی سطح) کو سمجھیے۔کیوںکہ سطح (دھوپ)کی حقیقت کا بے ذی سطح( شعاع ِآفتاب ) کے تصور ممکن نہیں۔ ایسے ہی ممکنات کی حقیقت سمجھنے کے لیے وجود محض کی ضرورت ہے؛مگریہ (بات کہ ممکنات کی حقیقت سمجھنے کے لیے وجود محض کی ضرورت) ہے، تو پھر خود ممکنات کو بھی اپنی حقیقت سمجھنے میں یہی واسطہ درپیش ہوگا۔(رہا یہ شبہہ کہ تجربہ تو اِس کے خلاف ہے کیوں کہ دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ خدا سے غفلت بھی ہے اور خدا کی معرفت کا فقدان بھی ہے، تو اِس شبہے کاجواب یہ ہے کہ) جیسے وقت ِبیہوشی اپنی خبر نہیں رہتی(لیکن اِس کی وجہ سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان کو خدا کا علم اور معرفت نہیں)، ایسے ہی اگر اور خیالات میں مشغول ہو کر خدا سے غافل ہو جائیں تو ہوجائیں (مگر یہ غفلت عارضی اور قسری کہلائے گی۔اِس کی وجہ سے یہ نہیںکہہ سکتے کہ انسان خود اپنے آپ سے غافل ہے)۔پھر چوںکہ وجود ِمحض -جو بطور مذکورسامان ِ تحقق ِممکنات ہے- ذاتِ خداوندی سے وہی نسبت رکھتا ہے جو شعاعیں -کہ نور ِمحض ہے -ذات ِآفتاب سے رکھتی ہیں۔ اِس لیے اپنی حقیقت کے تصور میں خدا کے تصور کی حاجت ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اپنا تصور کس کونہیں ہوتا بل کہ سب میں اول تصور ہوتا ہے۔(۱)

اپنی محبت خدا کی محبت پرموقوف ہوتی ہے :

            مگر جب وجہ ِلزو م تصور یہ ہے کہ ممکنات کا تحقق خدا کے تحقُّق پر موقوف ہے، تو اپنی محبت کوخدا کی محبت بھی لازم ہوگی ؛بل کہ اپنی محبت خدا کی محبت پر موقوف ہوگی اور ظاہر ہے کہ اپنی محبت کس کو نہیں ہوتی! اِس صورت میں مقتضائے دقیقہ فہمی اورحقیقت سنجی تو یہ ہے کہ ہر شی کی نسبت یہ اعتقاد کیا جائے (کہ وہ خدا سے محبت رکھتی ہے) کیوںکہ پہلے ثابت ہوچکا ہے کہ ہر چیز میں اِدراک وشعور ہے مگر اتنا بھی نہیں(یعنی اگر جمادات کا اِدراک وشعور مخفی اور غیرمحسوس ہونے کی وجہ سے اِعتراف سے آبی ہے، ) تو اِس سے کیا کم کہ حیوانات کی نسبت (جن کا اِدراک وشعور نمایاں ہے، )یہ امر واجب التسیلم ہو کہ اُن(حیوانات) کے دل میں بھی خدا کی محبت مرکوز ہے۔

ہر چیز میںخدا کی مالکیت اور اپنی مملوکیت کا اعتقاد ہے:

            اور چوںکہ خداوند مالک الملک کی مالکیت اور مخلوقات کی مملوکیت کی بنا اِسی توقف پر ہے جو دربارۂ تحقُّق، مخلوقات کو خدا کی نسبت حاصل ہے(کہ مخلوقات کا تحقق خدا کے تحقُّق پر موقوف ہے) تو مثل محبت-(جس کا ذکر ابھی گزرا کہ ہر حیوان کے دل میں محبت رکھی ہوئی ہے ) -مالکیت اور اپنی مملوکیت کا اعتقاد بھی ہر چیز کی تہہِ حقیقت میں رکھا ہوا ہوگا۔ (۲)(الامام محم قاسم نانوتوی:’’حجۃ الاسلام ‘‘مکتبہ دار العلوم دیوبند۱۴۲۷ھ)


(۱)یہی وہ مقا م ہے جسے ڈیکارٹ ( رینے ڈیکارٹ-Rene Decartes-۱۵۹۶تا۱۶۵۰ء)کی عقل نے دوسرا رخ  دیا، اُس کے قدم ڈگمگائے اور اُس نے خدا کی معرفت حاصل کرنے کے بجائے انسان ہی کو خدا کا مرتبہ دے دیا۔پھراُس کے زمانے سے لے کر آج تک ’’انسانیت ‘‘، ’’انسان پرستی ‘‘اور humanizationکے علمی اور سائنسی تصورات نے بندگانِ خداکو خدا سے باغی بناکرخود انسان کی خدائی کا اعلان کر ا کر چھوڑا۔کچھ وضاحت :ص ۴۰-۴۲۔رسالہ ہذا میں گزر چکی ہے۔(نوٹ:آگے کے مضمون کا ربط تین صفحے پیشتر سے متعلق کر کے ملاحظہ فرمائیے)۔

(۲)خود کُشی اِسی لیے حرام ہے۔تقریر دل پذیر میں زیادہ وضاحت سے اِس مسئلے پر گفتگو ہے۔فرماتے ہیں:’’جب کسی غیر(کی) چیز کو بے اجازت اپنے تصرف میں لانا، اُسے خراب کردینا ظلم گنا جاتا ہے، تو اپنی جان و تن کو بھی – جیسا ابھی گذرا ہے کہ اپنی ملک نہیں؛ خدائے مالک الملک کی مملوک ہیں- سو بلا اُس کی اجازت کے کوئی کام اِن سے لینا، یا اِنھیں خراب، برباد کردینا اول درجے کا ظلم ہوگا۔‘‘(ص۱۵۸شیخ الہند اکیڈمی ۱۴۳۰ھ)

            افسوس! اِس صحیح اور قدرتی اصول اور برہان کے بر خلاف عہدِ حاضرمیں ’’انسانیت‘‘ (Humanism) اور ’’انفرادیت‘‘ (Individualism)کا جوتصور اُبھرا ہے اُس میں خدا کی مالکیت کا اِنکارکیا گیا ہے اور انسان کو اپنی جان کا خود ہی مالک قرار دیا گیا ہے۔ ابھی ماہِ ستمبر ۲۰۱۸ء میں ہند میں دہلی کی عدالتِ عظمی سے ہم جنس پرستی کے جواز کا جو فیصلہ صادر ہوا ہے، اُس میں جواز کی دلیل یہ دی گئی ہے کہ ’’انسان اپنے جسم کا مالک ہے، اس لیے اگر وہ لذت حاصل کرنے کے لیے اپنا جسم اپنی مرضی سے کسی کے سپردکرتا ہے، تو اُسے اِس کا پورا اختیار ہے، کسی کو اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘ (روزنامہ نو بھارت ٹائمز( انگریزی) ستمبر۲۰۱۸)لیکن مذکورہ صراحت سے معلوم ہو گیا کہ یہ بنیاد ہی فاسد ہے کہ انسان خود ہی اپنا مالک ہے۔