فقہ ا لفتن عصر حاضر کی اہم ضرورت

اداریــہ:                                                                         

حذیفہ بن مولانا غلام محمد صاحب وستانویؔ

            اللہ رب العزت اپنے بندوں پر بڑے رحیم اور مہربان ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو جہاں اس دنیا میں وجود بخشا، وہیں ان کی ہر طرح کی مادی وروحانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے اسباب مہیا کیے ۔ مادی ضرورت کے لیے انسان خود سے محنت کرتا ہے اور اپنے جسم کے بقا کے اسباب اختیار کرتا ہے ۔اللہ نے روحانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے غیبی ذرائع مہیا کیے ،حضراتِ انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث کیا ، کیوں کہ انسانی فطرت جستجو کی عادی ہے اور روحانی ضرورت اگر ان کے حوالے کی جاتی تو ہدایت کے بجائے گمراہی کا رجحان غالب رہتا ، کیوں کہ وہ ہر چیز میں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہے ، جب کہ روحانی تسکین کا سامان عقل کے ذریعہ ناممکن ہے ، اس لیے کہ روحانیت کا تعلق اس کے اپنے خالق کے ساتھ تعلق قائم کرنے سے ہے اور اس کے اپنے خالق کی عظمت کی وجہ کر وہ اسے دنیا میں اپنی مادی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا اور جب حواسِ خمسہ سے ادراک نہیں کرسکتا تو ظاہر سی بات ہے، اس کے بارے میں نہ تجربہ کرسکتا ہے ، نہ عقلی گھوڑے صحیح طور پر دوڑا سکتا ہے اور اگر ایسا کرے گا تو لامحالہ گمراہی کا شکار ہوگا؛ جیسا کہ ہمارے سامنے دنیا کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کا حال ہے ۔

             کوئی بت کو معبود بنا بیٹھا تو کوئی آگ کو، تو کوئی سورج ، تو کوئی چاند اور کواکب کو ؛غرض یہ کہ انسان کی روحانی تسکین اور اعتدال وتوازن کے ساتھ دنیوی زندگی گزارنے کے لیے ،اللہ نے حضراتِ انبیا کرام علیہم السلام کو مبعوث کیا ، جن پر اللہ نے وحی نازل کی اور انہوں نے انسان کو اپنے رب کی صحیح معرفت کروائی اور اعتدال وتوازن والی زندگی کے اصول وضوابط بتلائے اور الحمد للہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے اپنے اس فریضے کو مکمل طور پر انجام دیا اور اس میں کسی طرح کی کوئی خیانت یا کمی نہیں چھوڑی ۔

            انبیائے کرام علیہم السلام پر جو وحی نازل ہوئی من جملہ امور غیبیہ کہ ،فتنہ کے بارے میں خاصی تفاصیل نازل کی گئی ۔

کوئی زمانہ فتنہ سے خالی نہیں :

            مذکورہ تمہید کے بعد فتنہ کے بارے میں چند ضروری باتیں ذہن نشین کرنا ضروری ہے ، ان میں سب سے پہلی بات یہ کہ: یہ دنیا عیش و عشرت کے لیے نہیں ، بل کہ آزمائش اور امتحان کے لیے ہے ، لہٰذا ہر لمحہ انسان کو اس طرح گزارنا ہے، جیسے امتحان میںگزرتا ہے کہ مستقل فکر اور ٹینشن ، کیا پتہ جواب صحیح ہے یا نہیں ؟ کیا پتہ کام یاب ہوتا ہوں یا نہیں ؟ کیا معلوم نتائج اچھے آتے ہیں یا نہیں ؟ کیا پتہ نتائج سے متعلقین خوش ہوتے ہیں یا نہیں ؟ بس بالکل اسی طرح ہر گھڑی گزارنی ہے ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے خیر وشر اور حق وباطل ، حسن و قبیح کو پیدا کیا اور اسی کو انسان کے لیے امتحان کا ذریعہ بنادیا گیا، انسان کی زندگی کا ہر لمحہ اور مرحلہ آزمائش اور فتنے سے عبارت ہے ۔کبھی یہ آزمائش اللہ خیر کے ذریع کرتے ہیں اور کبھی شر کے ذریعہ ۔ ارشادِ خداوندی ہے : {وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃٌ وَّاِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ}یہ آیت ہمیں بتلارہی ہے ، اللہ تعالیٰ انسان کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے ، کبھی شرکے ذریعہ اور کبھی خیر کے ذریعہ ، البتہ شرکو مقدم رکھ کر اشارہ کیا کہ اکثر آزمائش شرکے ذریعہ کی جاتی ہے۔

            اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیا میں ہر چیز انسان پر روزِ روشن کی طرح عیاں اور واضح نہیں ہوتی ، بل کہ اس سے تمیز کرنے کے لیے عقل کے ساتھ کتاب و سنت اور سلف وصالحین کے طریقے کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے ، تب جاکر’ شر‘ شر معلوم ہوتا ہے، ورنہ انسان شرہی کو خیر تصور کرلیتا ہے ۔

فتنہ میںکون مبتلا ہوتا ہے :

            فتنہ میں ہر شخص نہیں گرتا ہے ، فتنہ میں وہ شخص مبتلا ہوتا ہے ،جو امورِدینیہ سے ناوقف ہو یا کم واقف ہویا تجاہل ِعارفانہ سے کام لے ، یعنی قصداً کسی مفاد کی بنیاد پر دین پر دنیا کو ترجیح دے ۔ حق وباطل اللہ والوں پر مشتبہ نہیں ہوتے ، اس لیے یہ ہر زمانہ میں حق کو حق ثابت کرنے والے پائے جاتے ہیں ، اگر ایسا نہ ہوتا تو بندوں سے تکلیف ساقط ہوجاتی ۔ یعنی حق کی پیروی لازم نہ ہوتی اور اس طرح ساری انسان فتنہ کے سمندر میں غرق ہوجاتے اور حق وباطل کا فرق ختم ہوجاتا ۔

فتنہ سے بچنے کے لیے علمائے ربانیین سے ربط ضروری ہے :

            جب کوئی بھی فتنہ سر اٹھاتا ہے تو علمائے مخلصین کی ایک جماعت اسے بھانپ لیتی ہے اور اصولِ شرع کی روشنی میں جان لیتی ہے کہ اس فتنہ میں شرکے پہلو کیا کیا ہیں ، لہٰذا عامۃ المسلمین کے لیے ضروری ہے کہ وہ خاص طور پر فتنوں کے دور میں علمائے ربانیین سے خوب وابستہ رہیں، بل کہ کتاب وسنت کی روشنی میں حق وباطل کے اختلاط کے زمانے میں علما سے وابستگی مزید واجب ہوجاتی ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے : {فَاسْئَلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ }کہ اہل ذکر وعلم سے دریافت کر و ، جب تم کسی چیز سے نا واقف ہو ۔

اللہ رب العزت نے فتنوں کی علامتوں کی نشاندہی فرمادی:

            اللہ رب العزت نے حضراتِ انبیائے کرام علیہم السلام پر جو وحی نازل کی ، اس میں قیامت کی نشانیاں ، اسی طرح مختلف قسم کے فتنوں اور اس کی علامتوں کو بھی ذکر کیا ، خاص طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو احادیثِ مبارکہ میںبڑے اہتمام اور تفصیل کے ساتھ فتنوں کو ذکر کیا ہے ۔ محدثین نے کتاب الفتن کے نام سے مستقل عناوین قائم کیے ہیں ؛بل کہ بعض محدثین نے اس پر مستقل کتابیں لکھی ہیں اور اب تو اردو میںبھی اس پر اچھا خاصا کام ہورہا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سے امت کو واقف کیاجائے۔

            حق کی پیروی ، اس کا دفاع ، اس کی جانب دعوت اور حتی المقدور راہِ حق میں قربانی دینا ہر زمانہ میں ہر مسلمان پرواجب ہے ۔ اللہ رب العزت نے حضراتِ انبیائے کرام علیہم السلام کے ذریعے ہرزمانہ میں جب حق پرباطل کے دبیز پردے گرجاتے ہیں ، حق کو اجاگر کرنے کے لیے وحی بھیجی، کتابیں نازل کی ، انہیں شریعتیں عطا کیں، اور ہر فردِ بشر کو مکلف کیا کہ وہ ان کی پیروی کرے ۔ اس سلسلہ میں ہر بنی آدم پر چار چیزیں واجب ہوتی ہیں ۔

            ۱-  حق کی معرفت حاصل کرکے اسے لازم پکڑنا ۔

            ۲-  حق کا ہر میدان میں دفاع کرنا ۔ اگر حق پر اعتراضات ہو، تو علمائے راسخین کے لیے ان کا جواب لازم ہے ۔ حق کی سربلندی اور اس کے دفاع کے لیے اگر مال کی ضرورت ہو تو اپنا مال خرچ کرنا واجب اورضروری ہے ۔ اگر دفاع کے لیے جان کی ضرورت ہوتو جان قربان کرنا بھی لازم ہوتا ہے ۔

            ۳-  حق کی طرف دعوت دینا۔ یعنی ہر فردِ بشر تک حق کا پیغام پہنچانا تمام مسلمانوں پر فرض ہے ۔

            ۴-  حق کے خاطر ہر وقت قربانی دینے کے لیے تیار رہنا اور مالی ، جانی ہر طر ح کی قربانی کو اپنے لیے باعث ِسعادت تصور کرنا ، یہ مسلمان پر فرض اورواجب ہے ۔

فتنوں کے دور میں کسی پر کوئی الزام لگانے میں جلد بازی نہ کرنا ضروری ہے :

            ہم جس دور سے گزررہے ہیں ، یہ فتنوں کا دور ہے ،دن بہ دن امت میں اختلافات بڑھتے جارہے ہیں ، اہل حق تقسیم در تقسیم کا شکار ہورہے ہیں ، ایسے حالات میں عامۃ المسلمین کا کام یہ ہے کہ وہ اس طرح کے اختلافات میں پڑکر اپنی عاقبت خراب نہ کرے ؛ بل کہ غیر جانب داری کا ثبوت دے ، الزام تراشی اور بہتان بازی کے بجائے اپنے اعمال کی اصلاح کی فکر کرے ، اس لیے کہ نیتوں کو جاننے والا اللہ ہے ۔ کس کی کیا نیت ہے اور ہم اس پر خواہ مخواہ الزام لگادیں ، اگر آپ دیکھیں کہ معتبر علما کس کی جانب ہیں اور آپ کو بھی وہ درست معلوم ہوںتو پس آپ کو جو صحیح معلوم ہو اس کی اتباع کرلیں؛ البتہ اس کے اندھے مقلد نہ بنیں ، بل کہ دیکھیں ان کے اعمال کتاب وسنت کے مطابق ہیں یا نہیں ؟ اگر آپ کو لگے کہ ہاں کتاب و سنت کے مطابق ہیں ، تو آپ صرف اتنا کریں کہ ان کو مان لیں ؛ البتہ غلو سے کام نہ لیں ۔ اور اس کے خاطر دیگر مسلمانوں سے اختلاف اور لڑائی جھگڑا نہ کریں ، بحث ومباحثہ سے اجتناب کریں ۔ اورقرآن کی اس آیت پرعمل کریں :{یَأ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ } اے ایمان والو!  تم اپنی فکر کرو اور تمہیں ہدایت مل چکی ہے ، اس کے بعد کوئی گمراہ گمراہی کی طرف نہ لے جائے۔

            اس آیت کی تفسیر حضرت ابو ثعلبہ الخشنی سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ قسم بخدا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیتِ مبارکہ کے بارے میں دریافت کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ تم لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہنا ہاں مگر جب تو دیکھے :

             شحاً مطاعا وہوی متبعا ودنیا مؤثرۃ وإعجاب کل ذی رأی برأ یہ، فعلیک بخاصۃ نفسک ودع العوامَّ، فاِن من ورائکم أیاما، الصبر فیہن مثل القبض علی الجمر، للعامل فیہن مثل أجر خمسین رجلا یعملون مثل عملکم ۔

            تم جب دیکھو کہ ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ بخل کی اطاعت کی جاتی ہے یعنی لوگوں میں بخل پیدا ہوگیا ہے اور فیاضی ختم ہوگئی ہے اور خواہشات کی پیروی کی جارہی ہے ، قرآن و سنت اوردین کو کوئی پوچھتا نہیں ، ہرطرف آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دی جارہی ہے ، ہر آدمی اپنی ہی رائے کو حتمی سمجھتا ہے اور دوسرے کی بات کو سننے کے لیے تیار نہیںہوتا ،خواہ وہ کتنی ہی اچھی کیوںہو ۔فرمایا: اگر ایسا وقت آجائے تو’’ فعلیک نفسک‘‘ پھر اپنی فکر کر اور دوسروں کی فکر چھوڑ دے ۔ ایسے حالات میں اپنے آپ کو بچانا بھی غنیمت ہے کہ کہیں گمراہی میں مبتلا نہ ہوجاؤ ، کیوں کہ آگے ایسے دن بھی آنے والے ہیں کہ صبر کرنا اتنا دشوار ہوجائے گا جیسے جلتے ہوئے کو ئـلے کو ہاتھ میں پکڑنا ۔ فرمایا اس دور میں تم میں سے جوشخص نیک اعمال انجام دے گا، اس کو پچاس آدمیوں کے عمل کے برابر اجر دیا جائے گا ، کیوں کہ یہ فتنہ وخلفشار کا زمانہ ہوگا ۔

 (معالم العرفان ج ۶ص ۴۴۸-۴۴۹)

            ایک اور روایت میںہے (عن ابی ہریرۃ) کیف أنت یا عبد اللہ ابن عمر و اِذ بقیت فی حُثالۃٍ من الناس)قال:وذاک ماہم یارسول اللّٰہ؟قال(ذاک اِذا مرجت أماناتہم و عہودہم وصارو ہکذا ) وشبک بین اصابعہ قال:فکیف بی یارسول اللہ؟قال:( تعمل ما تعرف ودعْ ما تنکر وتعمل بخاصۃ نفسک  وتدع عوام الناس ۔

            ایک اور روایت میں اغلق علیک بابک وایاک علی خطیئتک۔

            پھر وہ تمہیں بتادے گا جو کچھ تم کرتے رہے ، اس کے پاس تمہاری زندگی کا پورا ریکارڈ موجود ہے ۔ وہ ظاہر کردے گا کہ فلاں فلاں وقت میںتم فلاں فلاں کام انجام دیتے رہے ،اچھا یا برا جو کچھ بھی اس دنیا میںکیا ہے ، سب کچھ سامنے آجائے گا ۔ پھریا تو اچھے کام کا جزا پالوگے یا برے کام کی سزا بھگتنا ہوگی۔ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے محاسبے سے بچ نہیں سکے گا ،لہٰذا تمہاری کوشش یہ ہونی چاہے کہ نا مساعد حالات میںبھی اپنی اصلاح کرو اورہدایت کے راستے پرقائم رہو ۔ اگر ایسا کروگے تو دوسروں کا کفر، شرک اوراغلاط تم پر اثر انداز نہیں ہوسکے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کا فریضہ بھی سمجھا دیا اور پھر اُسے تسلی بھی دے دی ۔

(معالم العرفان ج ۶ص ۴۵۲)

            حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اے عبد اللہ ! تم کیا کروگے جب تم ناکارہ لوگوں کے درمیان زندگی بسر کروگے ؟ تو عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دریافت کیا ’’حثالۃ الناس ‘‘کون لوگ ہیں ؟ تو فرمایا وہ لوگ جو نہ امانت کا لحاظ رکھیںگے اور نہ عہد و پیمان کا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں ایک دوسرے میں داخل کردیں … توحضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ ہی فرمادیں میں کیا کروںگا ؟(آپ نے فرمایا) جتنا تم جانو اتنے پر عمل کرنا اور اگر مُنکَر کرتے ہوئے دیکھو تو ان سے تعرض نہ کرنا ، صرف اور صرف اپنی فکر میں لگ جانا اور ’’ عامۃ الناس ‘‘ کو ان کے حال پر چھوڑ دینا۔

            ایک اور روایت میں ہے کہ اپنے گھر کا دروازہ بند کر کے گھر میں بیٹھ جانا اور صرف اپنے آپ کو غلطیوں سے بچانے کی فکر کرنا ۔

            قرآنی آیات اور احادیث کے بارے میں حضراتِ صحابۂ کرام کہا کرتے تھے کہ یہ ہمارے دور کے لیے نہیں۔ مگر اب جو حالات ہیں اس میں بجائے اس کے کہ ہم امت کے اختلافی مسائل میں مبتلا ہوں کوشش کریں اصلاح کی ، اگرنہ ہو تو آخری درجہ میں اپنے عقیدے اور فکرو عمل کو درست کریں اور اپنے آپ کو ہر طرح کی ضلالت سے بچانے کی کوشش کریں۔

            {یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ}  کے بعد ارشاد خداوندی ہے :{  اِلیَ اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ

کسی جماعت کی کثرت اس کے حق ہونے کی علامت نہیں :

            ایک اور’’ مُنکَر‘‘ ہمارے درمیان عام ہے وہ یہ کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کے پیرو کار بہت زیادہ ہیں تو تصور کرتے ہیں کہ یہ حق پر ہے ؛ جب کہ یہ معیارِ حق کی معرفت ہرگز نہیں ہے ۔ بعضے مرتبہ کسی کی قوت کو دیکھ کر اس کے حق پر ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے ، یہ بھی درست نہیں ۔ بعضے مرتبہ کسی کو کثرت ِمقبولیت کی وجہ سے حق پر تصور کیا جانے لگتا ہے ؛ یہ بھی درست نہیں ۔ بل کہ حقیقت یہ ہے کہ اہل حق ہر زمانے میں مختصر اور قلیل ہی رہے اور بہت کم ایسا ہوا کہ اہل حق طاقت ور ہوئے ۔ اصل پہنچان اہل حق کی یہ ہے کہ اس کے اعمال کتاب و سنت کے موافق ہوں ۔

حق و باطل میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے :

            حق اور باطل کے معرکہ مین اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے ؛کبھی کسی مصلحت کی وجہ سے حق عارضی طور پر معتوب بھی ہوتا ہے ، اس سے گھبرا نا نہیں چاہیے۔

فتنوں سے بچنے کا اہم طریقہ رجوع الی اللہ :

            فتنوں سے بچنے کا اہم طریقہ اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے ۔ یعنی نمازوں کا اہتمام کرنا اور خاص طور پر ہر موقع کی دعائیں صبح وشام کی مسنون اذکار وغیرہ کثرت سے قرآن کی تلاوت تو ان شاء اللہ ہرطرح کے فتنے سے محفوظ رہیںگے ۔