فتویٰ ہے شیخ کایہ زمانہ قلم کاہے!

آخری قسط:

شیخ محمدناظم ملی تونڈاپوری/استاذجامعہ اکل کوا

حصول علم میںقلم کاکردار:

            دنیاترقی کاراگ الاپ ضروررہی ہے،مگراس میں شک نہیںکہ اس کی ترقی میںقلم ہی کاکرداررواں دواںہے ۔زمانۂ قدیم کے علوم وفنون قلم ہی کی برکت سے انسان کے درمیان موجودہیں ۔انتقالِ علوم اورترسیلِ علوم وفنون کامؤثرترین ذریعہ قلم ہی ہے۔{علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم}آج پوری دنیا میں طاقت وقوت کامعیار،صحافت،اخبارات اورپریس بن گئے ہیں۔میگزین ورسائل کی دنیاآبادہیںاوریہ مسلم ہے کہ تیروتفنگ،شمشیروسناں،طیارہ شکن توپیںبھی جہاں فیل ہوجاتے ہیں،قلم وہاںاپناایک کرداراورایک جہاںتعمیرکرتاہوانظرآتاہے ۔واقعی آج کی اس بگڑتی ہوئی صورتِ حال میںبھی اگرکسی کی حکومت قائم ہے تووہ ہے قلم۔اذہان واذعان کوتبدیل کرنے اورقلوب کومسخرکرنے کافن اوردلوںکوموہ لینے کاہنرکہیںزندہ وتابندہ  اورحاضروموجودہے تووہ قلم ہے ۔مشرق کے ایک بڑے دانش وراورحکیم علامہ اقبالؒ سے سنیے تودل جھک کران کوسلام کرنے لگتاہے۔کیاہی خوب فرماگئے:

فتویٰ ہے شیخ کایہ زمانہ قلم کاہے

دنیامیںاب رہی نہیںتلوارکارگر

            ادیبِ شہیراورعلوم ومعارف کے ایک عظیم شناور،استاذمحترم،شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدحنیف ملی،قاسمی نوراللہ مرقدہ کے لفظوںمیںکہوںتوکہہ سکتا ہوں: قلم جوکچھ رقم کرتاہے وہ قوموںکی تقدیرہوتی ہے ۔اس لیے کہ وہ ضمیرانسانی کاترجمان ،رموزفطرت کاعکاس،اسرارکائنات کاامین اورنبوی مشن کانقیب ہوتاہے ۔اگر قلم میںسچائی ہے تواس کے ذریعہ ایک ایسی معنوی بادشاہت قائم ہوتی ہے،جوشکوہِ کسروی اورجلال قیصری سے بھی زیادہ دلوںکے لیے کشش رکھتی ہے ۔اوراس کی معنوی طاقت کایہ عالم ہوتاہے کہ وہ بیابانوںاورطوفانوںکوبھی ذرے کی طرح اڑالے جاتاہے ۔قلم کی حکومت قلب وضمیراوراحساس وشعورپرہوتی ہے ۔اوراس پرجو مزاج تشکیل پاتاہے،اس پرموسم کی تبدیلیوںکاکوئی اثرنہیںہوتا۔مشہوراہل قلم ابن المقفع اورسلطان عبدالحمیدجیسے ارباب ذوق نے جوماحول تیارکیاتھا،وہ سب اسی قلم کاصدقہ تھا۔اسی لیے زمانہ کوکہناپڑا’’بدأت الکتابۃ بعبدالحمیدوختمت بابن المعید‘‘لیکن یہ وصف اس وقت پیداہوتاہے،جب آدمی قلم کوخداکی بخشی ہوئی امانت سمجھے۔بِکنے بَکنے اورمصلحتوںکے اشارے پرچلنے والاقلم اپنے اندرکوئی کشش نہیںرکھتا۔

قلم کامعاشرتی وسماجی کردار:

            پُرکشش قلم وہی کہلائے گا،جس میںآفاق کی وسعتیںسمٹ جائیں۔انسانی قلوب میںمضمرصلاحیتیں اس کے ذریعے صفحۂ قرطاس کی زینت بنیں۔وہ سماج ومعاشرہ کو منزہ بنانے اورایک ستھرااورپاکیزہ سماج تشکیل دیں۔ ہرزمانہ میںقلم اپناکمال دکھلاتارہاہے ۔قلم اپنے کردارسے کبھی غافل نہیںرہا۔ترکی میںآج صالح انقلاب کی آمدمیںقلم اورصحافت کاواضح اوربڑاروشن کردارہے ۔جوآج دنیاکے ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میںصفِ اول میںکھڑااوریورپ کے سینے پرایک ترقی یافتہ مسلم ملک دندناتاہوانظرآتاہے ۔کیارازہے؟اورکون سی طاقت ہے؟اس خدابے زاراورمذہب بے زارملک میں؛جہاںاب عوام توعوام خواص بھی اسلام کی زلف گرہ گیرکی اسیراوراسلام پسندنظرآرہے ہیں۔حقیقت میںوہاںکے صحافیوں،قلم کاروںاوردانش وروںنے قلم کواللہ کی ایک بخشی ہوئی امانت سمجھ کراستعمال کیاہے ۔اور اپنی زبان وقلم کی پوری توانائی اسی پرصرف کی،جس کانتیجہ آج اسلامی روشنی ،اسلامی غیرت وحمیت وفورکی حدتک نظرآرہی ہیں،اگرچہ ان کے آشیانے بجلیوںکی زدپر ہی رہیں،تاہم وہ بلالومۃ لائم اوربلاخوف وخطرآتش نمرودمیںکودپڑے۔ اوروقت کے کئی اکاسرہ وقیاصرہ اورنماردہ وفراعنہ کی آنکھوںمیںآنکھیںڈال کران کومحاسن اسلام اپنے قلم کے زورپرسمجھاتے رہے ۔اوراپنی خدادادصلاحیت وصالحیت سے بھرپوراستفادہ کرتے ہوئے قرطاس وقلم کے حوالے سے عوام الناس کے سامنے محاسنِ اسلام پیش کرتے رہے ۔اورعبداللہ نورسی اوران کے رفقائے کارنے اپنے قلم کے بوتے ہی اس کو انجام دیا،جوسرزمین ترکی پرایک تاریخی کارنامہ کہلایا۔جہاںمال وزرکی البیلی ادائیںان کی کمرہمت کورام نہ کرسکیں۔ان کے ثبات قدم میںذراجنبش پیدانہ کرسکیں۔وہیںبرسراقتدارظالموںاورجابروںکی گیدڑبھپکیاںان کے قلم کی کاٹ کوبیڑیاںنہ پہناسکیں،انھوںنے حالات سے سمجھوتہ نہیںکیا۔سماج اورمعاشرے کوایک نئی سمت دی ،ان کے اندرکے انسان کواپنے جادوئی قلم سے جگایا۔

قلم قافیہ پردازکی آواز:

            احوالِ کائنات کاتجربہ کرنے والے محققین،مبصرین ،علمااورکائنات کے اتارچڑھاؤپرگہری نظررکھنے والے ناظرین متفق اللفظ یہ کہتے ہیںکہ معنوی خوبیوں اوراوصاف کے سوااس دنیامیںنہ کسی شئی کوبقاہے نہ دوام۔دولت سے کھیلنے والوںپربھی زوال آتاہے ۔شوکت وقوت کی دل لبھاتی موجوںکوجہاںوالوں نے پسپا ہوتے دیکھاہے۔’’ نشۂ اقتداراورسرمستیٔ پنداربھی زوال پذیرہے ۔خزاںناآشناچمن بھی ایک دن خزاںرسیدہ ہوجاتاہے ۔ہم نے ہرموج کوچڑھ کراترتے دیکھا ہے ۔ زندگی بھی آخرموت کی آغوش میںسوجاتی ہے ،لیکن جسے خداکی ذات کے بعدفنانہیںوہ خداکے پیداکردہ اوصاف ہیں،جوقیامت تک زندہ رہیںگے۔

             اور ان اوصاف کی نمودکامل زبان وقلم سے ہوتی ہیں۔زبان کی کارفرمائی کوبھی موجیںکہیںسے کہیںاڑالے جاتی ہیں۔لیکن قلم قافیہ کی آوازبانگِ درااورضرب کلیم ثابت ہوتی ہے ،جوانسانی دلوںمیںچھپ چھپ کرگھرکرلیتی ہے ۔توذہنی وفکری انقلاب میںدیرنہیںلگتی۔مرحوم انشاء اللہ خاںکہتے ہیں‘‘

ہے صفحۂ قرطاس پہ گلبانگ عنادل

میرے قلم قافیہ پردازکی آواز

            اس منصہ شہودپرجب ہم قلم کے عندلیبوں،شاہینوںاورقلم کے شہ سواروںکوملاحظہ فرماتے ہیں،توہمیںنظرآتاہے کہ خلاق عالم نے قلم کی عظمت ورفعت اوراس کے فیضان کوکتنابارآوراوربلندکیاہے۔ اندازہ کیجیے کہ یہ معمورۂ عالم ہمیشہ شاہان وقت ،سلاطین اورامراوفاتحین سے معموررہاہے ؛یہاںچنگیزوہلاکواور سکندر اعظم بھی آئے ہیں۔مغل اعظم اورتیمورلنگ بھی آئے ہیں۔ہنی پال اورنیپولین جیسے بھی آئے ہیں؛لیکن کیاتماشاہے کہ سب تہ خاک ہیں۔ اوربعض توایسے بھی ہیںکہ دنیا میںآوازہ کَسنے کے باوجودہٹوبچو!کی صداؤںکے بیچ رہنے کے باوجودزمانہ نے اُنھیںنسیاً منسیاً بنادیا۔ان کی تربت کابھی پتانہیں۔تنہائیوںمیںگم ہوگئے اورایسے گم ہوئے کہ کسی زبان پراُن کاذکرتک نہیں۔زمانہ انھیںفراموش کرگیا۔

مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے

            مگرہاں!دیکھنے والے دیکھتے ہیںاورجاننے والے جانتے ہیںکہ زمانہ کی طوالت کے باوجودکچھ لوگ ایسے ہیں،جنھیںزمانہ سینے سے چمٹائے ہوئے ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں،جن کے قلم نے ان کوزندہ رکھاہواہے ۔یہ قلم کی کارفرمائی ہے کہ ہمارے درمیان بخاری،مسلم،ترمذی،ابوداؤد،مؤطین،جلالین،ہدایہ اولین وآخرین ، بیضاوی،ابن ماجہ ،ابن کثیراورابن حبان جیسی کتابیںاوران کے مصنفین ومؤلفین آج تک ہمارے درمیان زندہ وتابندہ ہیں۔اورلوگوںکے دلوںکی دھڑکن بنے ہوئے ہیں۔یہ اُن کے قلم ہی کافیضان ہے کہ وہ مدت مدیدگذرجانے کے باوجودلوگوںکے دلوںپرراج کررہے ہیں۔ایک جہاںان سے اکتساب فیض کررہاہے ۔ اورزندگی کی پُرخطرراہوںمیںلوگ انھیںپڑھ پڑھ کرراہ یاب ہورہے ہیں۔امام ربانی مجددالف ثانی،سفیان ثوری،عبداللہ بن مبارک ابن عیینہ ،اسحق بن راہویہ،شیخین ، طرفین ، صاحبین اوردیگرائمہ واسلاف آج تک اپنے قلم کی کدوکاوش اورکتابت علم کی وجہ سے لوگوںکے درمیان مشعل راہ بنے ہوئے ہیں۔اوربعدمرگ بھی لوگوں کے قلوب پرحکومت کررہے ہیں۔خدابخشے کہ ذوق دہلوی کیاخوب فرماگئے۔

رہتاقلم سے نام زمانہ تلک اے ذوقؔ

اولادسے توہے یہی دوپشت چارپشت

            زمانہ بیت گیا۔گلستاںوبوستاںاورکریماکے مصنف کوزمانہ بیت گیا۔نورالایضاح ،قدوری ،شرح الوقایہ کے مصنفین کوایک طویل زمانہ گذرگیا۔ نورالانوار، اصول الشاشی،علم النحو،علم الصرف،علم الصیغہ اورمالابدمنہ کے مصنفین کو۔کیوںکہ قصص النبیین،معلم الانشاء،القراء ۃ الراشدۃ،القراء ۃ الرشیدہ ،طحاوی اورعقیدۃ الواسطیۃ جیسی کتابیںاوران کے مصنفین ہمارے درمیان ہیں۔ان کی گفتگواوران کاکلام دلوںکوموہ لے رہاہے اورکانوںمیںرس گھول رہاہے۔ہاں!یہ قلم ہی کا فیضان ہے۔یہ قلم جب صحیح الفکراورسلیم الطبع اشخاص کے ہاتھوںمیںہوتاہے تووہ روشنی کامیناراورسرچشمۂ ہدایت ہوتاہے۔

قلم کی بے حرمتی:

            قارئین یہ ہرگزفراموش نہ کیجیے کہ قلم کی ادنیٰ لغزش بڑاقہرڈھاتی ہے ۔ اورجب قلم اپناصحیح کردار نہ نبھائے توپھردنیاتلاطم خیزطوفانوںکی آماجگاہ بن جاتی ہے ۔ قلم صحیح الفکراوربلندخیالات انسانوںکے ہاتھوںمیںنہ ہوتوپھروہی قلم تاریکیوںکوجنم دیتاہے ۔ظلم وجبر،تشددوناانصافی اپنی حدوںکوپارکرنے لگتے ہیں۔انارکی ولاقانونیت کے پرپھوٹنے لگتے ہیں۔خدابے زار اورمذہب بے زارماحول گرماجاتاہے ۔اس کے لیے آج مصرکودیکھاجاسکتاہے،جہاںکے قلم کاروں،صحافیوں اورمحرروںنے اپنے آرٹیکل اورمضامین کے ذریعہ مغربی تہذیب اورمغربی کلچروثقافت کوکیسے فروغ دیا؟قلم کوفضولیات سے وابستہ کردیا،جس کانتیجہ یہ ہواکہ ایک قدیم اسلامی ملک اوراسلامی تہذیب وثقافت کاامین ملک آج کس طرح اسلامیت ومغربیت کی کش مکش میںمبتلاہوگیاہے ؟ اورآج تک مغربیت وہاں سرچڑھ کربول رہی ہے ،یہ بھی قلم کاہی کردارہے۔قلم ایک طاقت ہے۔فرق صرف اچھے برے ہاتھوں اوردل ودماغ کاہے ۔جب یہ سلیم الطبع اورصحیح الفکرانسانوںکے ہاتھوںمیںہوتاہے تواس سے انسانیت کاضمیرروشن ہوتاہے ۔لیکن جب یہ نااہل،بدقماش،چاپلوس لوگوںکی دسترس میںہوتاہے توپھراس سے خرافات جنم لینے لگتے ہیں۔اورپھردنیامیںانارکی، تاریکی، جہالت اورغیرفکری تفکرات وخیالات کی بادِ سموم چلنے لگتی ہیں۔

دورحاضرکاالمیہ:

            دورحاضرکاالمیہ یہ ہے کہ اہل قلم اوران کی صحافت نے دریوزہ گری اختیارکرلی ہے ۔قلم اپنے معیارسے اترچکے ہیں۔صحافت نے موجودہ حالات سے سمجھوتہ کرلیاہے ۔قلم بِکنے اوربَکنے لگے ہیں۔قلم کابلندمعیارعالم کے اندرآج شرمندہ ہورہاہے ۔صحافت نے بِکنے جھکنے اوردبنے کی سرشت اختیارکرلی ہے ۔تاہم بیاباں کی شب تاریک میںچندقندیلِ رہبانی موجودہیں۔اس گرتی ہوئی صورت حال میں بھی قلم کے دھنی صحافت کے اعلیٰ کردار،سچی صحافت کے سچے عاشق اورروشنی کے مینار اب بھی جگمگارہے ہیں۔صحافی اورقلم کارہرزمانہ اورہرجگہ اپنے قلم کی روشنی بکھیرتاہے، اپنی قلمی کاوشوںسے حسن کے جلوے دکھاتاہے ۔اورصالح جذبات کوالفاظ کا جامہ پہناتاہے ۔جواپنی معیاری صحافت کے بوتے اپنے انفاس کی عطربیزی کرتااوراپنے قلب وجگرکی خلش اورصالح جذبات کوالفاظ کاجامہ پہناتاہے۔جس طرح آفتاب اپنی کرنوںکو،ماہتاب اپنے بانکپن کو،پھول اپنی مہک اورکانٹااپنی چبھن کونہیںچھپاسکتا۔حق پسند،سچااورامانت دارقلم کاراورصحافی اپنے قلم کی کاٹ کودبا نہیں سکتا۔ صحافت جب تک شریفانہ اورمہذبانہ لباس میںملبوس ہے ۔اورسچائی وحق پسندی کالبادہ اوڑھے ہوئے ہے توپھرصحافت؛صحافت ہے ۔اورخدائے پاک کے بنائے ہوئے اس قلم کی لاج ہے ۔جس صحافت کی سرشت میںتملق،چاپلوسی،بِکنے بَکنے ،جھکنے اوردینے کی ریت ہو،فتنوںکی آگ برسانااورفتنوںکی آگ جگانا،جھوٹ کھسوٹ کی آمیزش کرنا۔بلاسے جوآج ہمارے دیارمیںواقع ہے ۔ایسی صحافت صحافت ہی کہاںہے؟وہ توپھرتلبیسِ ابلیس ہے ۔اوروہ صحافی اورقلم کارقلم کی عظمت داغ دارکرتاہے۔اورایساصحافی اورقلم کارقلم کاشناورہی نہیں،اس کوصحافت کے کوچے میںقدم نہیںرکھناچاہیے ۔دنیوی اغراض ومقاصدکے پیش نظراپنے قلم کی عظمت وفوقیت کوداؤپرنہیںلگاناچاہیے ،جوصرف اورصرف ضمیرفروشوںہی کاکام ہوسکتاہے ۔اس لیے کہ قلم کی کوئی قیمت لگائی نہیںجاسکتی کہ وہ ایک گراں مایہ سرمایہ ہے ۔

قلم لازوال قیمتی سرمایہ ہے:

            قلم ایک گراںمایہ سرمایہ ہے ۔سیم وزرکے ذخائر،سونے چاندی کے سکوںکی کھنک اورکسی دل رباکے پایل کی جھنکاراورہفت اقلیم کی ثروتیںبھی قلم کوپابہ رکاب نہیںکرسکتی،جب جاہ وحب مال کابھی یہاںبس نہیںچلتا،یہ ساری چیزیں مل کربھی قلم کی رعنائی،اس کے حسن اوراس کے جمال وکمال اورسچائی کونہیںخریدسکتے ۔ سچائی کے ساتھ چلایاجانے والاقلم دنیاسے انارکی اورجنگل راج کوختم کردیتاہے ۔قلم کی نوک شمشیربے نیام ہوتی ہے،وہ پہلوانوںاورایوانوںکاپتّہ پانی کردیتی ہے،دریاؤںکے دل دہلادیتی ہے،پہاڑوںکی صلابتیں،فضاؤںکے زنّاٹے اورطوفانوںکے بگولے اس کاسامنانہیںکرسکتے ۔رب ذوالجلال نے جنھیںقلم کاشائق ،پاسباںاوراس کادھنی بنایاہے،یقیناوہ ہرصالح انقلاب کے موجدومعمارہوئے ہیں۔انھیںکے قلم سے قوم کے بکھرے گیسوسنوارے جاسکتے ہیں۔معاشرے اورسماج سے جہالت اورعلم بے زارماحو ل کوختم کیاجاسکتاہے۔ حضرت مولاناابوالکلام آزاد،حضرت مولانامحمدعلی جوہر،مفتی کفایت اللہ ،سیدسلیمان ندوی،میاںمحمدصاحب دیوبندی،مولاناعبدالماجددیوبندی،حضرت علی میاںندوی،مولانامنظورنعمانی صاحب،حضرت مولانا عبدالحمید نعمانی رحمہم اللہ ؛جن کے قلم کی سچائی وبے باکی نے ایک جہاں آبادکیا۔یہ ان کے قلم کی مسیحائی ہے۔اوران کی یہ سرمدی زندگی اِسی قلم کافیضان ہے ۔کہنے والوںنے کہاہے اوربڑے وثوق واعتمادسے کہاہے:’’وہ علم بے فیض ہے،جس کاسونتاآدمی کے نوک قلم سے نہ ابلے‘‘۔