مفتی عبد القیوم مالیگاؤں/استاذ جامعہ اکل کوا
سعادت مندی کی بات :
ماہِ رجب کا آغاز ہوچکا ہے ،بل کہ نصف اول پورا ہورہا ہے ۔ رمضان کے روزہ ونماز کے شوقین (عشاق) نے ہلالِ رجب دیکھتے ہی دعائے مسنون ’’اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَانَ ‘‘بڑے وجد و یقین کے ساتھ پڑھ لی اور رمضان کی عبادات ، روزہ و تراویح اور تلاوتِ قرآن کے لیے پیشگی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ کاموںکو تیز رفتار کرکے سمیٹنے لگے تاکہ ر مضان میں علاوہ عبادت کے کوئی اور مشغلہ ہمارے پیچھے نہ لگا رہے ۔ کتنے مبارک ہیں ایسے نیک طبیعت اور مردانِ باصفا؛ جنہوں نے ابھی سے برکاتِ رمضان اور سوغاتِ رمضان کے حصول کے لیے تیاری اور لائحہ عمل مرتب کرنا شروع کردیاہے اور واقعتا ایسے ہی عشاق کے لیے رمضان کی آمد مبارک صد مبارک ہوتی ہے؛چناں چہ ایسے ہی مخلصین و محسنین ہمارے اکابر واسلاف کے متعلق لکھا ہے کہ چھ مہینے قبل سے ہی رمضان کا انتظارکیا کرتے تھے اور بعد رمضان چھ مہینے تک عبادتوں کی قبولیت کے لیے خداوند قدوس کی بارگاہ میں دعائیں کرتے تھے ، یہ تو سعادت مندوں کا حال ہوا ۔
سب سے بڑا پیر:
رہے وہ قسمت کے مارے؛ جن کی نگاہ میں رمضان بھی عام مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے؛ بل کہ مال اور دنیا کمانے کا ایک سیزن اور گولڈن چانس ہے ، انہوں نے بھی رمضان کی آمد آمد سے خوشی کا اظہار کیا اور مسرت وشادمانی کا ترانہ گنگنایا۔ اس سنہرے موقع سے ’’نہ عیسیٰ پیر نہ موسیٰ پیر ، سب سے بڑا ہے پیسہ پیر‘‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کرتے ہوئے حصول ِمال وزر کے لیے تیاریاں شروع کردی کہ اس سال کس چیز کا کاروبار کیا جائے۔ بس! حق ادا ہوگیا رمضان کا ۔ کتنی جگہوں اورچوراہوں پردوکانوں،ٹھیلہ گاڑیوں کا نظم کیا جائے ۔ اب غور کرنے کی بات ہے کہ ان کے لیے رمضان کیسے مبارک بن سکتا ہے ، جب کہ انہوں نے نہ اس کی نمازوںکی فکر کی نہ روزے وتراویح ، نہ تلاوت ِقرآن کی، بل کہ زیادہ کمانے کی دھن میں ایسے بد مست کہ ان کے ضائع ہونے پر انہیں افسوس تک نہیں ، ایسے ہی نامرادوں کے لیے اقبال مرحوم کہہ گئے ؎
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
حالاں کہ رمضان المبارک اور اس کی مخصوص عبادتیں ، روزے اور تراویح پر جو انعامات مذکور ہیں ،ان کا تقاضا تو یہ تھا کہ آدمی مہینہ بھر ساری مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف عبادات رمضان میں منہمک ہوکر مولائے حقیقی کو مناکر دامن مراد کو شانِ کریمی کی موتیوں سے بھر لیتا۔ لیکن ہائے افسوس ! نہ کوئی وعدہ ان کے جمود کو ختم کرسکا اور نہ کوئی وعید اُن کے سوئے ضمیر کو بیدار کرسکی ۔ ایسے ہی مردہ ضمیروں کے لیے قرآنِ کریم میںرب کائنات نے فرمایا ہے :
{وان تتولوا یستبدل قوما غیرکم ثم لایکونوا امثالکم}
کہ اگر تم بندگی کا حق ادا نہ کروگے تو اللہ تمہاری جگہ دوسری قوم کو پیدا کرے گا ،جو حق بندگی ادا کریںگے اور وہ تم جیسے نہیں ہوںگے ۔
ہم اپنی وفا کا ثبوت کیا دیںگے :
عبادات چاہے رمضان کی ہو یا غیرِ رمضان کی وہ ہماری ذمہ داری ، ہمارے لیے مفید اور دنیا و آخرت کے فلاح کی ضامن اور کام یابی کی سند ہے ۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ ہماری عبادات کے اللہ محتاج ہیں یا انہیں ہماری عبادات سے فائدہ پہنچتا ہے، بل کہ نفع و نقصان دونوں ہمارا ہے۔ اور خدا کی بندگی جس کے مختلف طریقے اور انداز مختلف عبادتوں کی شکل میں دیے گئے ہیں ، ہم کیوں نہ بجا لائیں جب کہ ہر قسم کی ظاہری وباطنی نعمتیں، جو مسلسل اللہ رب کریم کی طرف سے ہم پر برستی ہیں جو بے شمار اور انمول ہیں ۔ ان کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم کسی لمحہ اور کسی لحظہ اس کی بندگی اور اس کی یا د سے غافل نہ ہوتے ؛لیکن بجائے اس کے کہ ہم ہر آن اس کی بندگی کو بجا لا کر اپنی غلامی اور عاجزی ودرماندگی کا ثبوت دیتے ، اس جانور سے بھی زیادہ گئے گزرے ہوگئے ،جسے اس کا مالک اس کی حاجت وضرورت سے بھی کم غذا دیتا ہے ، لیکن پھر بھی وہ اپنا کام، اپنی ذمہ داری اور مالک کی اطاعت وفرماںبرداری کو پورے طور پر نبھاتا ہے اور کبھی اپنے حق کی کمی کا شکوہ بھی نہیں کرتا ۔ سچ فرمایا ہے اللہ رب کریم نے اپنے کلام حق میں {ولقد ذرأنا لجہنم کثیرا من الجن والانس لہم قلوب لا یفقہون بہا ولہم اعین لا یبصرون بہاولہم اٰذان لا یسمعون بہا اولئک کالانعام بل ہم اضل} کہ کتنے ہی جنات و انسان ایسے ہیں، جو اللہ کی ان نعمتوں کو صحیح استعمال کرکے راہ حق سے اپنے کو نہیں جوڑتے ۔ ایسے لوگ جانورہی نہیں، بل کہ جانوروں سے زیادہ بدتر راستہ سے بھٹکے ہوئے ہیں ۔ ایک طرف تواطاعت اور بندگی سے روگردانی اور اعراض ہے ۔
ستم بالائے ستم :
مزید ستم یہ بھی کہ ایسے مسلم محلہ جات اور علاقے؛ جہاں کل آبادی مسلمانوں کی ہے ۔ غیرمسلموں کا کوئی گزر بسر نہیں اور نہ ہی ان کی ضرورتیں وہاں سے متعلق ہوتی ہیں ۔ایسے مقامات میں بھی چائے کی ہوٹلیں ، پان کی دکانیں اور کھانے پینے کے لیے کھانا ول کھلے ہوتے ہیں اور اگر تھوڑی سی شرم کہیں سے آئی تو پھر یہ کرتے ہیں کہ میلے کچیلے پردے دکانوں اور ہوٹلوں پر ایسے لٹکا دیتے ہیں جیسا کہ انہوں نے رمضان کا لحاظ اور مکمل احترام کرلیا۔ اس انداز اور ادا کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہوا کہ طاعت وبندگی سے نہ صرف گریز ہے؛ بل کہ کھلے عام اللہ کے ساتھ بغاوت کا جھنڈا لہرا کراورپر دے لگاکر اللہ کے باغیوں ، عاصیوں کی از خود حفاظت کرنا اور مزید بغاوت کے لیے آسانی پیدا کرناہے ، جب کہ رمضان تو آتا اس لیے ہے کہ گیارہ مہینے کے عاصی اور باغی ذرا اب سنبھل جائیں ، اپنی پچھلی کوتاہیوں اور غفلتوں کو ختم کرکے اللہ کے لیے اپنے کو جھکائیں۔
جیساکہ رمضان کی آمدپر خود رب کریم بندوں سے فرماتے ہیں :
’’ یا طالب الخیر! اقبل ویا طالب الشر اقصر ‘‘ اے خیر کے طلب گار آگے بڑھ اور اے شر کے خوگر بس کر دے ۔
گویا کہ رمضان کی خصوصی عطایا اور نوازشات سے محرومی کس قدر بڑی محرومی اور کیسا عظیم نقصان ہے کہ اللہ بھی مخصوص طور سے غافلوں کے لیے شاعر مشرق علامہ اقبال کی زبان سے تنبیہ فرمارہے ہیں کہ
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہ رو منزل ہی نہیں
قسم بخدا ! ایسی صدا ئے خیر پر مرمٹنا چاہیے اور کریم کے کرم کو جی جان سے سمیٹنا اور خوش بختوں میں اپنے کو شمار کرلینا چاہیے کہ محبوب خود بندوں کی اداؤں پر فدا ہوا چاہتا ہے اور فرشتوں پر فخر کے لیے بے تاب وبے قرار ہے کہ دیکھو دیکھو اے فرشتو !یہی و ہ انسان ہے جس کی تخلیق تمہیں نا پسند اور بے ضرورت لگی تھی ۔ کن کن اداؤں سے ، کیسی کیسی صداؤں سے، کیا کیا بندگی کے ترانوں سے بے تاب وبے قرار کیفیتوں سے مجھے راضی کرنے اور منانے کی کوشش کررہا ہے ۔رونا نہیں آتا ہے لیکن رونے کی شکل بناتا ہے ،دعاؤں میں جی لگاتا ہے ، قبولیت کی امید رکھتا ہے ۔ بہ ظاہر نہ ملنے پر بھی مایوس ہوکر مانگنا نہیں چھوڑتا ہے ۔ اے فرشتو! تمہیں گواہ بناکر ان کی معافی ،بخشش اور ان کی مرادوں کی جھولیوں کو بھرنے کا اعلان کرتا ہوں ۔ میری عزت کی قسم ، میری سلطنت کی قسم ، میرے جاہ و جلال کی قسم ان میں سے کسی کو محروم نہیں رکھوں گا ؛ چناںچہ فرشتے بھی ان انعامات وثمرات کو سن کر حیران اور اللہ کی مصلحتوں کے معترف ہوجاتے ہیں ۔
گرچہ گندے ہیں لیکن بندے ہیں :
لہٰذا اپنے مولیٰ کی منشا اور اس کی طلب کی لاج رکھ کر اپنے اندازِعبادت اور طرزِ بندگی سے اللہ کو راضی کرکے بتلادیں کہ ہم بھی آپ کے بندے ہیں اگر چہ گندے ہیں ، جنہیں حرص وہوس نے آپ سے دور رکھا ۔ لذات ِدنیا میں مست رہے اوراپنا ہی سب کچھ کھویا ، لیکن آپ کی توفیق وعبادت سے اور رمضان کے نورانی ماحول اورروحانی فضا نے ہمیں جھنجھوڑا، ہماری آنکھوں سے غفلتوں کا دبیز پردہ چاک کیا ، ہمارے خفتہ ضمیر کو بیدار کیا ، ہم بھی اس یقین اوراقرار کے ساتھ ربِ کریم کے دربار میںحاضری دینے، اس کی رحمتوں اور عنایتوں کا مورد بننے اور کچھ کرکے پانے اور ملنے کے حوصلے کے ساتھ تیری چوکھٹ پر آگئے ہیں ۔ توبالیقین اللہ رب کریم جو خود اپنے غافل بندوں اور انسانوں سے بڑے پیار اور دلار کے ساتھ فرمارہے ہیں : {یایہا الانسان ما غرک بربک الکریم الذی خلقک فسوٰک فعد لک } آیت پاک کے اندازبیان کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا اللہ رب العزت ایک ایک بندے اور انسان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کی منت و سماجت کرکے یوں فرمارہے ہیں کہ اے میرے بندے! تجھے اپنے رب ِکریم سے کس چیزنے دھوکا دیا ، غافل رکھا ؟ کیا تجھے اپنے مولیٰ کی کریمی یاد نہیں ، تجھے اپنے رب کی تخلیق یاد نہیں کہ جس نے تجھے پیدا کرکے برابر بنایا اور اعضائے بدن میں اعتدال رکھا ۔ نعمتِ تخلیق اور نعمتِ اعتدالِ اعضا خود متقاضی تھی کہ تو اپنے خالق اورکریم پرور دگار کو کبھی نہ بھولتا ایسا کریم جو حق سے زیادہ دیتا ہے ، ایسا کریم جو دے کر احسان نہیں جتلاتا، ایسا کریم جس نے تیری معصیتوں اور بغاوتوں پر نہیں ، بل کہ ہمیشہ نظر اپنے کرم پر رکھی اور تیری روزی تیری سا ری ضروریات؛ بل کہ تیری سانسوں اور دھڑکنوں کو جاری رکھا اور تجھے تو بہ کا موقع دیتا رہا ۔فرمایا : {توبوا الی اللہ جمیعاً ایہا المؤمنون لعلکم تفلحون }اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ ‘‘ کہ توبہ کرکے اور ندامت کے چند آنسو بہا کر اپنے کو پاک وصاف کرلو کہ اس سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں ہوسکتی؛کیوں کہ ابھی خدائے کریم کی شانِ کریمی سے رسی ڈھیلی ہے {واملی لہم ان کیدی متین } کا منظر سامنے نہیں ہے ۔ اس ـلیے ابھی تو موقع ہے ، مہلتِ عمل ہے ، طاقت ہے ، قوت ہے ،اگر ایسا نہیں کروگے تو پھر معلوم کروکہ حضرت شیخ سعدی ؒ کیا فرمایا کرتے تھے ؎
باز آ باز آ ہرآنچہ ہستی باز آ سو بار اگر تو بہ شکستی باز آ
کہ سوبار بھی اگر تیری توبہ ٹوٹ جائے تو پھر توبہ کر مایوس نہ ہو ۔
صرف میری طرف دیکھو :
اتنے کریم ، اتنے حسین اور اتنے بندہ نواز مولی اور آقا سے تو نے کیوں اپنی نظر ہٹالی اور غیر پر ٹکٹکی باندھی؟ ہمارا مولیٰ ، ہمارا رب، کتنا حسین اورمحبت کے قابل ہے ذرا اس واقعہ سے اندازہ لگایے کہ ایک مرتبہ حضرت جنید بغدادی ؒ کے پاس ایک خاتون آئی اور آکر اپنے شوہر کی شکایت کرنے لگی کہ میرا شوہر میری طرف توجہ نہیں دیتا ، نظر نہیں کرتا جب کہ میں اتنی حسین اور جمیل ہوں کہ اگر شریعت میں پردے کا حکم نہ ہوتا تو آپ کو چہرہ کھول کردکھلادیتی ۔ اتنے حسن و جمال کے باوجود وہ میری طرف التفات کیوں نہیں کرتا ، اس کی گفتگو سن کر حضرت جنید بغدادی ؒ بے ہوش ہوگئے ۔جب افاقہ ہوا تو مریدین نے حضرت سے بے ہوشی کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ تم نے سنا نہیں کہ وہ عورت کیا کہہ رہی تھی کہ اتنی خوب صورت ہوتے ہوئے میرا شوہر میری طرف نظر نہیں کرتا ، تو مجھے وہ حدیث قدسی یاد آئی جس میں اللہ فرماتے ہیں :کہ میں تمہارا رب کتنا حسین بل کہ احسن الحسین ہوں پھر بھی تم میری طرف نظر نہیں کرتے ، بل کہ میرے غیر پر نظریں جماتے ہواور ہر در پر سر جھکاتے ہو۔ اللہ اکبر! اللہ رب کریم کتنے حسین ہیں ،جس نے حسنِ نور کو پیدا کیا ، کتنے محبت کرنے والے ہیں ،جنہوں نے ماؤں کے اندر محبت کا جذبہ اور مادہ پیدا کیا ایسے مولیٰ کو چھوڑ کر تم کدھر پھرے جاتے ہو ۔ {فانی توفکون }،{فاین تذہبون}اور {فانی تصرفون}اس لیے اب ضرورت اس بات کی محسوس ہوتی ہے کہ توبہ کا دروازہ ایسا جم کر کھٹکھٹا ئیں کہ معافی کا پروانہ اور بخشش کی سند لیے بغیر واپسی نہ ہو اورہمارا انداز کچھ ایسا عاشقانہ ،عاجزانہ، والہانہ اورسائلانہ ہوکہ ہر حال میں مولیٰ سے لینا ہے اور درِ مولیٰ کو مضبوطی سے تھامنا ہے اور اس کے حضور دست بستہ عرض کرنا ہے کہ
اُدھر وہ درنہ کھولیںگے
اِدھر میں درنہ چھوڑوں گا
حکومت اپنی اپنی ہے
اُدھر ان کی اِدھر میری
اور اس رمضان کو اپنے لیے اوراپنی نسل کے لیے، بل کہ پوری ملتِ اسلامیہ کے لیے معاشرتی، دینی،اخلاقی اور تربیتی انقلاب کا ذریعہ بنائے ؛تا کہ ذلت وادبار کی گھٹائیں چھٹیں اوراللہ ہم سے راضی ہوکر پھر سے ہمارے لیے عزت اور اقبال کا فیصلہ فرمائے ۔ اور ہمیں ہمارا کھویا ہوا وقار واپس مل جائے۔ اللہ ہم کو ایسے اعمال کی توفیق بخشے جو اس کی رضا کا ذریعہ بنے اور ان اعمال سے ہماری اور پوری امت کی حفاظت فرمائے ،جن سے اس کی ناراضگی آئے اوررمضان المبارک کو ہمارے لیے حقیقتاً مبارک ومسعود بنائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم !