پہلی قسط:
مولانا حکیم فخر الاسلام
بات۱۴۰۴ھ؍ ۱۹۸۴ء کی ہے ،جب اُستاذِ محترم حضرت مولانا سعادت علی قاسمی مدظلہ نے تفسیر کے پرچۂ امتحان میںایک سوال یہ کیا تھا کہ ا پنی پسندیدہ پانچ تفسیروں کے نام لکھیے اور وجہِ ترجیح بھی ذکر کیجیے؟اب اِس وقت اگر اِس سوال کو حل کرنے کی فکر کی جائے توبڑی کاوش درکار ہے اور بڑے دلائل کی ضروت ہے؛لیکن اُس وقت کی بات بھی دوسری تھی اور سوال کا جواب بھی تخمیناًصرف ایک گھنٹے کے محدود وقت میں تحریر کرنا تھا،کیوں کہ دوسرے دو گھنٹے دیگر سوالات کے حل کرنے میںخرچ ہونے تھے۔بہر کیف اُس زمانے میںجن تفسیروں کی طرف مراجعت کی نوبت زیادہ ر ہتی تھی ،یا تنقیدو مقارنے کی نظر سے اُنہیںدیکھنے کی ضرورت پیش آتی تھی،اُس وقت تواُن ہی کے نام لکھ دیے اور وہ نام علی الترتیب الاول فالاول یہ تھے۔۱: بیان القرآن۔۲:معارف القرآن ۔۳:تفسیر ماجدی ۔۴:تفہیم القرآن۔۵:درِ منثور۔پھر قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ جب بعد کے سنین میں تفسیر سے شغف بڑھا،تومذکورہ بالاابتدائی چار تفسیریںدوبارہ مطالعے کے لیے منتخب کرنے کی نوبت آئی۔لیکن فکری مضامین اور معاصر افکار،نیز اہلِ حق اور اہلِ زیغ کی کتابوں کا مطالعہ بھی چوں کہ ساتھ ساتھ جا ری رہا،اس لیے مذکورۃ الصدر تفسیروں میں سے ’’تفہیم القرآن‘‘کا زیغ واِنحراف تومجھ پر کھُلتا چلا گیا، (جس میں بڑی مدداپنے ماموں مخدوم مفتی عبد القدوس رومی ؔرحمہ اﷲمفتی شہر آگرہ کے تصنیف کردہ رسائل مثلاً’’تفہیم القرآن سمجھنے کی کوشش‘‘وغیرہ سے ملی) اور اُسی نسبت سے بیان القرآن کی اہمیت بھی نظرمیں روزافزوں ہوتی چلی گئی،جب کہ دیگر دو تفسیروں میںترجیحی پہلوذوق و ضرورت پرموقوف محسوس ہوا۔یعنی جس شخص کے پیشِ نظر اپنی اور دوسرے مسلمانوں کی اصلاح ہو،اُسے معارف القرآن دیکھنے کی زیادہ ضرورت پڑے گی۔اور جس کسی کوفکری مضامین ،تقابلی مطالعے اور تازہ بہ تازہ عصری معلومات کے تناظر میںتفسیر پڑھنے کا شوق ہو،وہ تفسیر ماجدی کی طرف مراجعت زیادہ پسند کرے گا۔
اِسی دوران میں نے اپنے ذہن و فکر کی دنیا میں ایک اِنقلاب محسوس کیا۔ہوا یہ کہ ۲۰۰۳ء میںمفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہ کی کتاب’’تبصرے‘‘ میری نظر سے گزری۔اِس کتاب میں تبصرہ نگار نے تفسیر ماجدی جلد اول کے بعض بعض مقامات پر پے در پے چند تنقیدا ت کی تھیں۔مجھے پڑھ کر ایسا محسوس ہوا کہ مفتی صاحب موصوف کی گرفتیں بڑی مضبوط ہیں،جس کے بعد میں نے طے کیا کہ ’’تفسیر ماجدی ‘‘ کی تمام جلدوں(جن کی تعداد اب نئی طباعت کے مطابق سات ہے) کا مطالعہ اہلِ حق کے اصولوں کی روشنی میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور کر لیناچاہیے۔خدا کا شکر ہے کہ اپنے عزم کو توفیقِ عمل میسر آئی اورمیں نے اپنا نتیجۂ مطالعہ مضامین کی شکل میں مرتب کر دیا جو ماہ نامہ شاہراہ علم میں ۲۰۱۲-۲۰۱۵کے درمیانی عرصے میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔یہاں پر کہنا یہ ہے کہ ’’تفسیر ماجدی‘‘کا مطالعہ پہلے بھی کیا کرتے تھے ،لیکن کوئی خاص قابلِ ذکر کمی نظرنہیں آتی تھی ۔سوائے اِس کے کہ کبھی کہیں پر کوئی بات محسوس ہوجاتی تھی، تو اُس کا درجہ یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ جیسے اہلِ علم،اہلِ فن کے اِختلافات ہوتے ہیں کہ راجح و مرجوح کا فرق ہو جاتا ہے یاعلمی و استدلالی چوک واقع ہوجایا کرتی ہے،تفسیر ماجدی میں بھی بعض جگہوں پر بس ایسا ہی ہوگیا ہوگا۔اورپھر خود کو یہ اطمینان دلا لیا کرتاتھا کہ آخر مفسر دریابادی جو بھی بات کہتے ہیں ،اُس کے ساتھ دلائل بھی تو ذکر کرتے ہیں؛لیکن حجۃالاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی اِس بات کی طرف کہ:’’اکثر اختلاف دلائل ہی سے پیدا ہوتے ہیں اور وجہ اِس کی یہ ہے کہ دلائل سے (صحیح)مطلب تک پہنچنا ہر کسی کو نہیں آتا۔‘‘(۱)اِس امر کی طرف واقعی اِلتفات شروع میں نہ ہو سکا اوراِس کی شرح و تفصیل بہت بعد میں سامنے آئی ،پھر اس کے اِنطباق میں تو اور بھی دیر لگی۔
اِس سبب سے تفسیر ماجدی کے متعلق یہ اندازہ بالکل نہیں ہو پایا تھا کہ علامہ عبد الماجد دریا بادی اپنی تفسیر میںسر سید وشبلی کے بعض افکاراور اہلِ مغرب کے بعض فاسد اصولوں کی بے ضرورت و بے دلیل تطبیق و ترجیح کے درپے ہوئے ہوں گے اوریہ کہ اُنہوں نے تفسیر کے بعض صحیح اور مسلم اصولوں سے جگہ جگہ اِنحراف کیا ہوگا ۔یہی وقت تھا (یعنی تفسیر ماجدی کا مطالعہ ہنوزجاری تھا کہ) میں نے ’’بیان القرآن ‘‘کو بھی اِس نظر سے دیکھنا شروع کیا کہ فی الواقع اِس میں کیا خوبیاں ہیں؟ یہاں اُنہی خوبیوں کا تذکرہ حسب ِ اِستطاعت پیش کرنے کا اِرادہ ہے۔جس کی ابتدا مفسر عبدالماجد دریابادی مرحوم کے ’’تاثرات ‘‘ سے ہوگی ۔کیوں کہ واقعہ یہ ہے کہ معاصر مفکروں میں شاید محقق عبدالماجد دریا بادی ہی ایسے مفسرہیں جنہوں نے ’’بیان القرآن ‘‘سے اِستفادہ- اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں -زیادہ کیا ہے- باوجوداس کہ اُنہوں نے بار بار اہلِ حق کی صحیح تفسیر میں تشکیک کو راہ دے کر حضرت تھانویؒ کی درست تحقیقات سے بے دلیل معارضہ کیا ہے ،موصوف کی دو باتیں بڑی خصوصیت کی حامل ہیں۔۱:’’بیان القرآن ‘‘کے محاسن سے متعلق اُنہوں نے جو اعترافا ت کیے ہیں،وہ نہایت وقیع ہیں۔۲:بیان القرآن کے متعلق موصوف کی جانب سے دیے گئے بعض مشورے ، نیز استدراکات کے لیے کی گئی بعض سفارشات جنہیں حکیم الامت ؒنے قبول کیا ہے ۔یہ دونوں باتیں نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ان وجوہ سے’’ نقوش وتأثرات ‘‘میں مذکور موصوف کے بعض اعترافات کے ذکر سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔
بیان القرآن ؛محقق عبد الماجد دریا بادی کی نظر میں:صاحبِ تفسیر ماجدی نے اپنی تفسیر کا طریقۂ کار ذکر کرتے ہوے لکھا ہے:’’اِس عاجز نے اپنے لیے دلیلِ راہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ترجمے کو بنایا جو اُن کی تفسیر بیان القرآن کے ساتھ۱۳۲۶ھ/۱۹۰۸ء میں اول بار شائع ہوا ہے۔اپنی خصوصیات کے لحاظ سے بس اپنا نظیر آپ ہی ہے۔‘‘’’اِسے اگراردو کی ساری تفسیروں کا سرتاج سمجھا جائے،تو شاید مبالغہ نہ ہو۔‘‘(۲)
مفسر دریا بادی کو حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے ساتھ تفسیری مباحث کے باب میں مراسلت و مکاتبت کی نوبت بھی پیش آئی تھی، جو طویل سے طویل تر ہوتی گئی تھی، یعنی کم و بیش ۱۵ سال تک جاری رہی۔اُن مراسلات میں سے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
’’بیان القرآن (پارۂ اول)میں دو مقامات مجھے بالکل بے نظیر نظر آئے۔ایک تخلیقِ آدم کے موقع پر فرشتوں کی گفتگو،دوسرے تعلیمِ سحر ہاروت و ماروت کی زبان سے۔دونوں مقامات بڑی اُلجھن کے ہیں۔اﷲ تعالی نے آپ کے قلم سے اُنہیں ایسا سُلجھا دیا کہ اب کوئی سوال ہی نہیں باقی رہ جاتا۔‘‘ (۳) ما بعد کی گفتگو ’’م‘‘ =ماجد۔’’ا‘‘=اشرف ۔ علامت پیشِ نظر رکھ کر تفسیر ماجدی کے دورانِ تالیف مفسر کی جانب سے کی گئی درج ذیل مراسلت میں ملاحظہ ہو:
م: تفسیر لکھنے کے ’’اِس کام میں جتنا گہرا اُترتا گیا ہوں،بہ خدا اُسی قدر آپ کی تفسیر کی عظمت و وقعت دل میں-عقیدت مندی کی بنا پر نہیں-علی وجہ البصیرت بڑھتی گئی۔
ا: ایک درجہ عقیدت مندی کا یہ بھی ہے کہ عقیدت مندی کی بھی خبر نہیں ہوتی۔
م: اور بعض اکابر حضرات کی قدر اِس حیثیت سے کم ہوتی گئی۔یہ اور بات ہے کہ وہ حضرات آپ سے متقدم ہیں۔اِس لیے ہو سکتا ہے کہ اِستفادہ جناب کو بھی براہِ راست یا بالواسطہ اُن ہی حضرات سے ہوا ہو۔
ا: غلبۂ محبت نے اِس طرف نظر نہیں جانے دی کہ اصول اُن حضرات اکابر ہی کے ہیں جن سے تفریع کی ہمت ہو گئی۔زمانہ کے اور طبائع کے اِختلاف سے عنوان میں تفاوت ہو گیا۔احسان اُن ہی کا ہے۔‘‘(۴)
م: ’’بیان القرآن کی پوری قدر رفتہ رفتہ ہی جا کر ہوتی ہے۔جب شروع میں اِسے -کئی سال ہوے-میں نے دیکھا تھا ،تو ایک اوسط درجے کی کتاب نظر آئی تھی۔پھر جب بعض لوگوں کو میں نے ترجمۂ قرآن اِس کی مدد سے پڑھانا شروع کیا،تواِس کی قدر بڑھی اور پوری قدر تو اِس کی اب جا کر ہو رہی ہے۔یہ معلوم ہوتا ہے کہ مفسر نے ایک ایک لفظ تول تول کر کے رکھا ہے۔ ‘‘
اول منزل میں اِلتزامات کم ہیں،بعد میں زیادہ:
ا: میں تو اتنا بھی معتقد نہیں؛لیکن آپ کی قدر دانی سے مسرت ہوئی۔بے تکلف یہ بھی اِطلاع کرتا ہوں کہ اول منزل میں اِلتزامات کم ہوئے ہیں۔ان شاء ا ﷲ تعالی جوں جوں آگے بڑھئے گا ،زیادہ خوش ہو جیے گا۔‘‘(۵)
م: ’’بیان القرآن سے جتنا نفع مجھ بے علم کو ہو ا اور ہورہا ہے،اُسے بس میرا ہی دل جانتا ہے۔مجھ سے تو اگر کوئی یہ فرمائش کرے کہ تفسیر ابن عباس سے لے کر تفسیر حقانی تک جتنا ذخیرہ تفسیروں کا تمہارے پاس ہے،سب سے دست بردار ہو کر صرف ایک تفسیراپنے پاس رکھو،تو میرا اِنتخاب تو بیان القرآن ہی کے حق میں ہو گا۔‘‘(۶)
اسی ضمن میں مزید ایک دو معاصرین کے تاثرات سن لیجیے:
بیان القرآن :بعض دیگر معاصرین محققین کی نظر میں:
مولانا محمد یحی صاحب کاندھلویؒ کا بیان:’’مولانا (یحی صاحب والد شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحبؒ نے اپنے شاگردمولانا عبدا ﷲ صاحبؒ)۔۔۔سے فرمایا کہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ ہمیں بھی تفسیر آتی ہے۔لیکن بیان القرآن دیکھ کر معلوم ہوا کہ ہمیں کچھ بھی تفسیر نہیں آتی۔‘‘(۷)
علامہ انور شاہ کشمیری کا اعتراف: ’’مولانا انور شاہ صاحب بہت بڑے متبحر عالم تھے۔یہاں تک کہ ہے تو گستاخی ؛لیکن سچی بات کو کیوں چھپاؤں؟میرا یہ خیال ہے کہ وہ اپنے اکثر اساتذہ سے بھی علوم میں بڑھ گئے تھے۔مولاناا نور شاہ صاحب نے ایک صاحب سے فرمایا کہ میں یہ سمجھتا تھا کہ اردو کتابوں میں علوم نہیں ہیں،اس لیے میں کسی کی اردو تصانیف کو دیکھنا بے کار سمجھتا تھا؛لیکن جب سے بیان القرآن دیکھنے کا اتفاق ہوا،یہ معلوم ہوا کہ اردو کی تصنیف میں بھی اب علوم موجود ہیں۔اور اُس وقت سے مجھے اردو کی کتا بیں پڑھنے کا شوق پیدا ہو گیا۔اور جو بے وقعتی اردو کی کتا بوں کی میرے خیال میں پہلے سے تھی،وہ جاتی رہی۔‘‘(۸)
اب اس موقع پرمناسب ہے کہ کسی قسم کا تکلف وتصنع نہ رکھنے والے حقیقت وحق گوئی کے خوگرمفسر مولانا تھانویؒکی نظرمیں خود اپنی تفسیر کی کیا اہمیت وحیثیت ہے،یہ بھی معلوم ہوجائے اور یہ کہ مفسر نے تفسیر لکھتے وقت کیا معیار وانتظام مقرر فرمایا ہے:
بیان القرآن ؛ خود حکیم الامت کی نظر میں:’’اِس کے تمام مضامین اِلہامی ہیں۔چناں چہ ا ﷲ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے جو الفاظ و معانی اِلہام فرمائے ،بعینہ میں نے وہی لکھے ،بجز دو ایک مقام کے جن کی میں نے نشان دہی کر دی ہے۔یہ تفسیر میں نے کامل شرحِ صدر کے ساتھ لکھی ہے۔اِس کی قدر تو اُن لوگوں کو ہو گی جنہوں نے کم از کم۲۰ معتبرتفاسیر کا مطالعہ کیا ہو۔وہ دیکھیں گے کہ وہ مقامات جہاں سخت اِشکالات و اختلافات واقع ہوئے ہیں ،اُن کا حل کس سہولت کے ساتھ قوسین کے اندر صرف چند الفاظ بڑھادینے سے ہو گیا۔یہ ا ﷲ تعالی کا محض فضل ہے۔(۹)
’’میں نے بیان القرآن میں یہ بھی اِلتزام کیا ہے کہ تفسیر تو وہی لکھی جو میری سمجھ میں آئی؛لیکن جب تک اُس کی تائید سلف صالحین کی تفاسیر سے نہیں ملی،اُس پر اِطمینان نہیں کیا۔اور جہاں اپنی تفسیر کی کوئی صریح تائید سلف سے باوجود تلاش کے نہیں ملی،وہاں بھی رکھا میں نے اپنی ہی تفسیر کو؛لیکن اُس کے آگے لکھ دیا ہے کہ’’ ہذا من المواہب‘‘ پھر اِس سلسلے میںمحنتِ شاقہ برداشت کی۔مثلاً یہ کہ’’… بعض بعض مقامات(کی)تفسیر لکھنے سے قبل میں آدھ آدھ گھنٹہ ٹہلتا رہا اور سوچتا رہا اور ا ﷲ تعالی سے دعا ء کرتا رہا،تب کہیں جا کر شرحِ صدر ہوا۔اور جن بعض مقامات کے متعلق پھر بھی شرحِ صدر نہ ہوا،وہاں اُس کا بھی اِظہار کر دیا اور لکھ دیا کہ اگر اِس سے بہتر کہیں تفسیر مل جائے،تو اُسی کو اِختیار کیا جا ئے۔چناں چہ تفسیر میں دو مقامات ایسے ہیں:ایک سورہ برأۃ میں اور (دوسرے)سورہ حشر میں۔‘‘(۱۰)
حضرتؒ نے اپنی تفسیر کا جو طریقہ اور معیار مقرر فرمایا ہے، اُس میں دو چیزیں قابلِ توجہ ہیں۔۱:سلف کی طرف منسوب کرنا۔(اِس کی صراحت تو حضرت نے خود ہی فرمائی ہے،مزید تفصیل آئندہ آئے گی۔)۲:مبتدع فرقوں کی تفسیروں سے اِشتباہ کا اِزالہ۔(اِس کی صراحت اگرچہ یہاں نہیں ہے ؛لیکن آگے اِس کی بھی تحقیق آرہی ہے)پہلی بات کے متعلق فرماتے ہیں:
’’بدوں تائید سلف ،میں قرآن کے ایک لفظ کی تفسیر بھی گوارا نہیں کرتا۔کیوں کہ تفسیر بالرائے سے ڈرلگتا ہے۔ہاں نکات و لطائف بیان کرنے کا مضائقہ نہیں۔کیوں کہ وہ تفسیر میں داخل نہیں؛بلکہ امرِ زائد کے قبیل سے ہے۔‘‘(۱۱)’’میں بہت ڈھونڈ کے تفسیر کے اندر نکالتا تھا کہ کسی نہ کسی کا قول مل جائے ،تو اچھا ہے۔‘‘ ’’بلدۂ طیبہ کی تفسیر مولوی حبیب الرحمن نے کی تھی اور اُس کو کسی بزرگ کی طرف منسوب کیا۔مولوی عبید اﷲ(سندھی)نے کہا:بہت اچھی تفسیر ہے،فقط اِنتساب کا نقص ہے۔مولوی حبیب الرحمن نے کہا یہی تو خوبی ہے جو دوسروں کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔‘‘(۱۲)
اسی طرح قرآن کریم کے دو مختلف مقامات پر ایک ہی نوع کے ا ِشکال کے چند درچند جواب نقل کرنے کے بعد حضرت تھانویؒ نے ایک توجیہ ذکر کی اوراُس تاویل و توجیہ کی قرآن ہی سے نظیر(حضرت ابن عباسؓ کی تائید) ذکر کرکے جو کچھ لکھا وہ سننے کے قابل ہے۔فرماتے ہیں:
’’میرا جواب ابن عباس رضی ا ﷲ عنہ کے قول سے مؤ یّدہے اور مجھے اِس کی بہت مسرت ہوتی ہے کہ اپنے قول کی تائید سلف کے اقوال میں مل جائے۔بعض لوگ تو سلف سے اپنا علم منقول دیکھ کر افسردہ ہو جاتے ہیں کہ ہائے ہماراتفرد باطل ہو گیا ۔اور میں خوش ہوتا ہوں کہ الحمد ﷲ وہیں ذہن گیا جہاں مقبولانِ الٰہی کا ذہن گیا تھا۔اکابر کے علوم سے اپنے علوم کی موافقت بڑی دولت ہے جو نعمتِ صحتِ مذاق وسلامتِ فہم کی علامت ہے۔‘‘
اور یہ اِشکال نہیں ہونا چاہیے کہ یہ تو اِتفاق ہے کہ تائید مل گئی-اگر تائید نہ ملتی،تو ایک تفسیر اپنی طرف سے کیسے مقرر کر لی گئی-اس لیے کہ حضرتؒ نے جواب کو قواعدِ عربیہ تفسیریہ اورمسئلۂ کلامیہ کی رو سے مبرہن فرما چکنے کے بعدتائید پر مسرت کا اِظہار فرمایا ہے۔(۱۳)
دوسری بات کے متعلق فرماتے ہیں:’’عموماً مفسرین نے قواعدِ شرعیہ عربیہ کی رعایت کے ساتھ بہت سی تفسیریں کی ہیں کہ عموماً علمائے اہلِ حق نے اُن پر نکیر نہیں کیا۔۔۔۔اُس کو فِرَقِ مبتدعہ کی تفسیر پر قیاس کرنا صحیح نہیں۔اس لیے خلف اہلِ سنت نے سلف کی تفسیر کی نفی نہیں کی۔اپنی تفسیر کو درجۂ اِحتمال میں رکھتے ہیں۔اور بدعتی سلف کے اقوال کی نفی کرتے ہیں اور اپنی تفسیر (کو)-جو کہ معارض ہے سلف کی تفسیر سے-حق اور سلف کی تفسیر کو باطل سمجھتے ہیں۔‘‘(۱۴)
اِمتیازات:
۱:عقلی شبہات کا اصولی حل:حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں:’’بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ تمہاری تفسیر میں کیا ہے؟میں یہ کہا کرتا ہوں کہ جب کسی مقام پر اِشکال ہو،تو اول اور تفسیروں میں دیکھو،تب معلوم ہوگا کہ اِس میں کیا ہے!‘‘(۱۵)
مقالہ نگار راقم احقر نے خود اپنے تجربے پر مبنی تبصرہ کسی تحریر میں یہ ذکر کیا تھا کہ :
’’بیان القرآن تفسیر کی ایک اکیلی کتاب ہے جس میںاہلِ زیغ کے تمام عقلی شبہات کااہتمام کے ساتھ اصولی رد کیا گیا ہے۔کسی اور تفسیر میں یہ اہتمام اور استیعاب نہیں ہے۔‘‘(۱۶)اور اِس کی گواہی محقق عبد الماجد دریابادی نے بھی دی ہے ۔حکیم الامت حضرت تھانویؒ کو لکھے گئے ایک مکتوب میں فرماتے ہیںکہ:’’یہ کرامت آپ کی بیان القرآن ہی میں دیکھی کہ پختہ مسلمانوں کے لیے تو ہے ہی ،لیکن ساتھ ہی بد مذہبوں اور مذبذبین سب کی رعایتیں موجود۔‘‘(۱۷)’’بڑے بڑے اِشکالات بات کی بات میں حل ہو جاتے ہیں۔‘‘(۱۸)
۲:’’اصول و فروع (میں )شریعت کے مزاج اورسلف کے مذاق کا نہایت درجے اہتمام کیا گیا ہے۔‘‘(۱۹)
۳:مضامین کی سرخیاں:’’مجالس حکیم الامت ‘‘میں مفتی محمد شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں:’’مجلس میں کسی صاحب نے بیان القرآن میں ربطِ آیات کے اہتمام کی بہت تعریف کی اور کہا کہ یہ عجیب چیز ہے۔حضرتؒ نے فرما یا کہ بے شک یہ بھی ا ﷲ تعالی کا فضل ہے؛لیکن میرے نزدیک کوئی زیادہ اہم چیز نہیں۔کیوں کہ ربط آیات کے بیان کی ضرورت زیادہ نہیں۔البتہ اِس تفسیر میں ایک چیز ایسی ہے جس کو میں نے بڑی مشقت اور محنت سے جمع کیا ہے۔اور وہ اب تک کسی دوسری تفسیر میں میری نظر سے نہیں گزرا۔وہ یہ کہ مضامین قرآنیہ کی سرخیاں آیات کے شروع میں لگا دی ہیں۔ کہ اہلِ علم اگرقرآن کے حاشیے پریہ عنوانات ہی لکھ لیں،تو پوری تفسیر کا کام اِن سے لے سکتے ہیں۔ (۲۰)
حضرت مفتی محمد حسن امرتسریؒ فرماتے ہیں کہ حضرت تھانویؒ نے فرمایا بیان القرآن کی سرخیوں میں علوم القرآن ہیں۔اُن کے اندر غور کرنے سے قرآن کے علوم کا اور غرض مسوق لہ الکلام(جس غرض کے لیے گفتگو لائی گئی ہے)کا پتہ چل جاتا ہے۔(۲۱)
یہاں ایک بات یہ قابلِ لحاظ ہے کہ بیان القرآن سے استفادے کے باب میں خود حضرت مفسر تھانویؒ کس حد تک آسانی کے روادار ہیں۔ کیوں کہ مفکروں کی جانب سے بیان القرآن کو عام فہم بنانے کی بھی ابتدا ہی سے کوشش ہورہی ہے،تو اِس باب میں حضرت کا مذاق درج ذیل ملفوظ سے ظاہر ہوتا ہے۔فرماتے ہیں:’’مطبع مجتبائی والوں نے ایک مولوی صاحب سے تفسیر بیان القرآن کی تسہیل کرائی ہے۔سمجھ میں نہیں آیاکہ الفاظ کی تو تسہیل ہو سکتی ہے؛مگر جو مضمون علمی ہیں،اُن کو سہل کرنے کی کیا صورت ہے؟دیکھیے!اُقلیدس کو کوئی اردو میں لکھے،تو کیا اُس کی شکلوں کو بھی جو کہ اِثبات ہے خاص دعووں کا،اِس معنی کر سہل کر سکتا ہے کہ ہر شخص سمجھ لیا کرے۔‘‘(۲۲)
ایک اور موقع پر عوام کی دلچسپی اور سہل انگاری کے متعلق فرمایا:
’’…۔ان کی دلچسپی کس کس چیز میں دیکھی جائے اور ان کی دلچسپی کی رعایت کہاں تک کی جائے…واہیات بات ہے۔ان کی (دلچسپی)کی وجہ سے ہم اپنے اصول بدل دیں اور اپنے بزرگوں کے طرز میں کتر و بیونت شروع کر دیں… اگر کل کو وہ کہنے لگیں کہ فلاں حدیث یا فلاں آیت(جدید اصولوں کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے مثلاً)سمجھ میںنہیں آتی۔یا(یہ کہیں کہ)ہمیں اِس (حدیث و آیت کے احکام )سے دلچسپی نہیں،تو کیا اُس میں اِنتخاب کیا جا ئے گا۔یہ سب خیالی اور بے اصول باتیں ہیں۔کبھی ایسی باتوں سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ہم اِس کے ذمے دار یا ٹھیکے دار نہیں کہ ہربات سمجھ ہی میں آجا یا کرے۔اگر ہر بات سمجھ میں آجایا کرتی،تو اِتنے باطل فرقے کیوں پیدا ہوتے؟ایک بھی نہ ہوتا۔…اور اگر سب کی سمجھ اور دلچسپی کی رعایت کی جائے،تو قیامت تک بھی کوئی اصول قرار نہیں پا سکتا۔‘‘(۲۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:(۱)تقریر دل پذیر ص۱۲۸ شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند ۱۴۳۱ھ۔(۲)تفسیر ماجدی جلد ۱ ص۱۸،۱۲،ایڈیشن ۲۰۰۸۔(۳)’’نقوش و تاثرات‘‘ص۳۴۷ سعدی بک ڈپو،الہ آباد۔(۴)’’نقوش و تاثرات‘‘ص۴۴۹،۴۵۰ ۔ (۵)’’نقوش و تاثرات‘‘ص۴۴۲،۴۳۳ ۔ (۶)’’نقوش و تاثرات‘‘ص۵۹۳۔(۷)ملفوظات جلد ۹ ’’حسن العزیز‘‘ص۲۳۳،۲۳۴۔(۸)ملفوظات جلد ۹ ’’حسن العزیز‘‘ص۲۳۳،۲۳۴۔(۹)ملفوظات جلد ۹ ’’حسن العزیز‘‘ص۲۳۳،۲۳۴۔(۱۰)سید ابرار علی :ص۳۲۵،۳۲۶ بہ حوالہ مآثرِ حکیم الامت ص۳۰۱،۳۰۲۔ (۱۱)ملفوظات جلد ۱۵ص ۹۱۔(۱۲)اشرف التفاسیر جلد ۴ ص۲۳۴۔(۱۳)نیز ملاحظہ ہو:اشرف التفاسیر جلد ۲ص۳۱۴،۳۱۶۔(۱۴)ملفوظات جلد ۶ ص۳۳،۳۴۔ (۱۵)ملفوظات جلد ۱۸ ص۲۸۶۔(۱۶)مجلہ شاہ راہِ علم:’’مفکر ملت نمبر ‘‘’’دو لمحے،دو صحبتیں‘‘۔(۱۷)’’نقوش و تاثرات‘‘ص۳۴۳۔’’الاِفاضات الیومیہ‘‘جلد ۹ ۲۱۔(۱۸)’’نقوش و تاثرات‘‘ص۴۴۹،۴۵۰ ۔(۱۹)ملفوظات جلد ۳ ص۱۷۔(۲۰)ملفوظات جلد ۲۴ص۲۱۴۔(۲۱)ملفوظات جلد ۲۶’’الکلام الحسن ‘‘ ص۳۹۲۔(۲۲)ملفوظات حکیم الامت ’’الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ‘‘جلد ۲ص۳۲۲۔(۲۳)ملفوظات حکیم الامت ’’الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ‘‘جلد ۲ص۳۰۹۔
(جاری…)