ہندستانی اپنا ووٹ ڈالنے سے پہلے موجودہ  اور گذشتہ ہندستان کا جائزہ لیں !!!

اداریــہ:    

مولانا حذیفہ ابن مولانا غلام محمد صاحب وستانویؔ

            انتخابات کا طبل بچ چکا ہے اور اس کی گہماگہمی کا آغاز ہوچکا ہے ۔’’ ماضی کا ہندستان کیا تھا اور اب ہمارے ان سیاست دانوں نے ہمیں کس پستی میں لاکھڑا کیا ہے ،ذرا اپنا قیمتی ووٹ ڈالنے سے پہلے اس کا جائزہ لیتے چلیں ؛ تاکہ آپ کو اپنے ووٹ کے صحیح استعمال کی فکر ہو‘‘ ۔

            رمیض احمد تقی صاحب کی کتاب ’’ کہانی ہندستان کی ‘‘ سے چیدہ چیدہ اقتباسات پیشِ خدمت ہے :

مختلف تہذیبوں کے اجتماع نے ہندستان کو مستحکم بنایا:

            پانچ ہزار سال سے زیادہ قدیم ہندستانی تہذیب وثقافت کی ہر روایت اس ملک کا اٹوٹ حصہ ہے۔ پوری تاریخِ انسانی میں نہ جانے کتنی تہذیبوں کو آزمایا گیا اور نہ جانے کتنی ثقافتوں کو بلندی حاصل ہوئی، مگر یہ ان کی شومی قسمت تھی کہ وہ اپنی قوم کے زوال کے ساتھ ہی خودبھی زوال پذیر ہوئیں ؛لیکن یہ اس سر زمین کی خصوصیت یا اس کی تہذیب وثقافت کی توانائی وسخت جانی کہیے کہ یہاں کی پوری تاریخ کے کسی بھی عرصے میں اس کی تہذیب وثقافت پر انقلاباتِ زمانے کا کوئی اثر نہیں ہوا، البتہ یہاں وارد ہونے والی مختلف قوموں تہذیبوں اور ثقافتوں کے ساتھ مل کر وہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ومستحکم ہوتی رہی اور قوس قزح کے حسین رنگوں میں ڈھلتی چلی گئی۔

             شاعرِمشرق علامہ اقبال نے اس کی اسی ثبات قدمی اور ظاہری و باطنی حسن کی جانب اپنے مشہور ترانۂ ہندی میں ان الفاظ کے ذریعے اشارہ کیا ہے:

یونان ومصر وروماسب مٹ گئے جہاں سے

 اب تک مگر ہے باقی نام ونشاں ہمارا

 کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری

 صدیوں رہا ہے دشمن دورِزماں ہمارا

            اس ’’ کچھ بات‘‘ میں بڑی بات پوشیدہ ہے ، جو ہندستان کی تہذیبی وثقافتی عظمت کی غمازی کرتی ہے ؛ کیوں کہ اس کا تہذیبی تنوع ہی در اصل اس کی قوت کا سر چشمہ ہے ، جو ہر دور میں نمایاں رہا ہے ۔

ہندستان کا دستوری نام کیا ہے!

            دستور ہند کی دفعہ ایک "India, that is Bharat, shall be a Union of States.”میں ہندستان کے لیے صرف دو ہی نام ’’ بھارت اور انڈیا‘‘ مذکور ہے، مگر اس حقیقت سے بھی کسی کو مجال انکار نہیں کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس ملک کو ’بھارت ورش ‘(Bharat Varsha) ’ جمبودویپ ‘(Jambu Dweepa ) ’ اجانبھا ورش‘ (AjaNbha Varsha )’اریاورت‘(Aryavarta ) اورسونے کی چڑیا جیسے ناموں سے بھی تعبیر کیا گیا ہے ۔

اس ملک کانام کبھی کسی مذہب کا ترجمان نہیں ہوا:

            بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک کا نام کبھی کسی مذہب اور مکتبۂ فکر سے متاثر ہو کر نہیں رکھا گیا اور جہاں کہیں بھی اس طرح کی نسبتیں ملتی ہیں، و ہ صرف نسبت ہی کی حد تک ہے، اسماکی فہرست میں ان کا کوئی بھی ذکر نہیں ہے۔ جہاں تک ہندستان کو’ ہندو‘ جوسناتن دھرم کا ایک نیا ورژن ہے، سے ماخوذماننے کا سوال ہے تو یہ بالکل ہی قابلِ تسلیم نہیں ہے؛ کیوںکہ اس کی نہ تو کوئی دلیل ہے اور نہ ہی سناتن دھرم کی کسی کتاب میں متبعین کو’ ہندو‘ سے مخاطب کیا گیا ہے ،تو پھر ہم بلا دلیل کیسے ہندستان کو ہندوسے ماخوزمان لیں؟

موجودہ ہندستان:

            3.287 ملین مربع کلومیٹر پرمحیط اس ملک ہندستان کے نو ہمسائی ممالک ہیں۔ آبادی کے اعتبار سے یہ دنیا کا دوسرا اور رقبہ کے اعتبار سے دنیا کا ساتواں عظیم ترین ملک ہے۔ یہاں کل29 ریاستیں، سات یونین ٹیریٹوریز اور 644 اضلاع ہیں۔ اس کی آبادی1,345,136,640یعنی 1.324 بلین ہے اور ہر منٹ میں یہاں تقریبا 51 بچے پیدا ہوتے ہیں۔

ہندستانی معیشت پر ایک نظر:

             اس ملک کے ستر فیصد لوگ زراعت پرمنحصر ہیں اور اس کی پوری معیشت کاپچہتر فیصد حصہ صرف زراعت سے آتا ہے۔ یہاں چاول، گندم، تیل،دال ، مسالا ، کپاس اور عُود وغیرہ کی بڑی تعداد میں کھیتیاں ہوتی ہیں۔یہ ملک سماجی، معاشرتی،لسانی اور مذہبی لحاظ سے دنیا کا واحد ایساملک ہے ،جس کا دامن علم وآگہی کے گلہائے رنگارنگ سے مزین ہے۔

ہندستان کے مذاہب اور بولیاں:

            اس ملک میںتقریباً اناسی مذاہب اور سات سو تین ذات وبرادری اورقبائل کے لوگ آباد ہیں ، جن کی اپنی سیکڑوں زبانیں اور لہجے ہیں، تاہم یہاں قانونی طور پر تسلیم شدہ 23 زبانیں بولی اور لکھی جاتی ہیں ۔

تمام تر وسائل ترقی کے باوجود ہندستان پسماندہ کیوں؟:

            ملک میں مہنگائی،بے روزگاری، مفلسی اور بدعنوانی طاعون کی طرح بڑی تیزی سے بڑھنے لگی ہیں۔ مہنگائی کی مار کو نہ جھیل پانے والے مزدوروں اور کسانوں کے لیے یہاں رہنا اب ایک خواب سا لگنے لگا ہے۔ غریبوں کے بچے اسکولوں، کالجوں اور مدرسوں کا کم، مگرگلی کوچوں اورسڑکوں کا طواف زیادہ کرتے ہیں، ا س ملک کا نوجوان نوکری نہ ملنے کی وجہ سے افیم ،چرس اورہیروئن جیسی زہریلی ونشیلی چیزوں کاعادی ہونے لگا ہے۔ بوڑھوں کو وقت سے پہلے ہی قبر یں اچھی لگنے لگی ہیں، ہر طرف بے چینی اورکس مپرسی کا عالم ہے۔ قتل وغارت گری پہلے سے کئی گنازیادہ بڑھ گئی ہے، حالاںکہ یہ ملک ہر طرح کے قدرتی وسائل اور ذرائع سے مالا مال ہے۔ کسی بھی چیز میں دنیا کے کسی بھی ملک کا محتاج نہیں ہے۔ اگر صرف معدنیات اور قدرتی وسائل کی بات کی جائے تو 31 مارچ 2015 کے دوران، ہندستان نے 763.48 ملین ٹن کاخام تیل اور 1488.49 ارب مکعب میٹر (بی سی ایم) کے قدرتی گیس کے ذخیرہ کا اندازہ کیا تھا اور آپ کو تعجب ہوگا کہ گزشتہ دہائیوں میں ہندستان سعودی عرب کو تیل تیار کر کے دیتا تھا۔ زراعت میں ہندستان دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے ،جب کہ بعض چیزوں میں ہندستان کا پہلا مقام ہے اور پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہندستان ہی چاول سپلائی کرتا ہے، البتہ کمی ہے تو صرف صحیح قیادت کی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر ہندستان کو کوئی امانت دار قائد مل جاتا تو ملک اپنی آزادی کی نصف صدی بعد ترقی پذیر ملکوں کی فہرست میں نہیں ہوتا، بل کہ اس کا شمار ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں ہوتا، مگر افسوس کہ جس پربھی لوگوں نے اعتماد کیا ،اس نے پہلے والے سے بھی زیادہ ملک وملت کا خسارہ کیا۔

ہندستان میں مسلم حکمرانوں کی آمد کے عمدہ اثرات:

            جہاں تک ہندستان میں مسلم حکمرانوں کی آمد کا سوال ہے، تو اس کا آغاز 710 ء عیسوی سے ہوتا ہے، اس کے بعد تقریبا تین سو سال تک کسی مسلم حکمران نے ہندستان کی طرف رخ نہیں کیا۔ پھر تقریباًدسویں صدی عیسوی میں ترک ،افغان اورمغلوں کی یکے بعد دیگرے ہندستان میں آمد ہوئی اور انھوں نے 1857 ء تک ہندستان کے مختلف خطوں پر اپنی اپنی حکومتوں کاسکہ جمایا۔ ان ایام میں مختلف خانوادوں نے اس ملک پرتقریباً 1,147 سال تک حکومتیں کیں۔ ہندستانی سناتنی مؤرخ بابو ناگیندر ناتھ بنر جی کے بقول:اگر یہ حکمراں ظالم ہوتے اور یہاں کے ہندوؤں پر اسلام قبول کرنے کے سلسلے میں جبر کیا ہوتا، تو آج ہندستان میں ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمان چارگنازیادہ ہوتے۔

انگریز نے ہندستان کو کیسے سے کیسا کردیا:

             کانگریسی ممبرِ پارلیمنٹ ششی تھرور نے اپنے ایک آسٹریلیائی دورے پر 4 ستمبر 2017 کوABC کے قومی چینل QandA پرسوال و جواب کے سیشن میں ہندستان میں برطانوی حکمرانی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا:

            ”The British came to one of the richest countries in the world when the GDP was almost 27% in the 17th century. 23% in the 18th. But, over 200  years of exploitation, loot and destruction reduced India to a poster child for third world poverty”. But when they left India in 1947, 90% of the population was living under below poverty level. Literacy rate was below 17% and growth rate from 1900 to 1947 was a meager 0.001%”.

            (برطانیہ دنیا کے سب سے امیر ملک میں آیا جب ملک کا جی ڈی پی سترہویں صدی عیسوی میں تقریباً 27 فیصد تھا اور اٹھارہویں صدی میں 23 فیصد تھا، لیکن دو سو سال سے زائد کے مسلسل استحصال، لوٹ اور تباہی نے ہندستان کو تیسری دنیای ٔغربت کا پوسٹر بچہ بنادیا اور جب 1947 میں وہ ہندستان چھوڑ کر گئے، تو 90 فیصد آبادی غربت کی سطح سے نیچے رہ رہی تھی، شرح خواندگی17 فیصد سے بھی نیچے تھی اور 1900ء سے 1947ء تک ترقی کی شرح 0.001 فیصدتھی۔

اکھنڈ بھارت کی بنیاد مسلمانوں نے ڈالی:

            نیز آج جس اکھنڈ اور متحدہ بھارت کی بات کی جاتی ہے، وہ دراصل انہیں مسلم حکمرانوں کامرہون منت ہے ،ورنہ تو ان کی آمد سے قبل ہمارا بھارت مختلف رجواڑوں اور ٹکڑوں میں بٹاہوا تھا اوران میں سے ہر ایک کا اپنا الگ الگ راجا تھا ،مگر انہوں نے ان سب کو ایک دار السلطنت دہلی کے تحت جوڑ ااورپھر افغانستان سے عراق تک اپنی سرحدیں درازکیں۔

مسلمانوں نے ہندستان کو کیا دیا؟

             اس ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے لیے اٹھارہویں صدی میں جہاں ٹیپو سلطان نے راکٹ کی ایجادکی اور انگریزوں کے خلاف اس کا استعمال کیا، تو وہیں اس سے قبل مغل اورمسلم حکمرانوں نے پوری دنیا میں ہندستان کو سوپر پاور متعارف کرانے کے لیے کئی طرح کے توپ خانے اور دیگر کیمیائی اسلحے ایجاد کیے، بل کہ ابھی ماضی قریب میں اس ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والا بھی اے پی جے عبدالکلام ایک مسلمان ہی تھا۔نیز پورے ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے بے شمار پرشکوہ عمارتیں، دل کش عجائب گھر، جو آج پوری دنیا کے زائرین کا مرکزِ توجہ بنے ہوئے ہیں، بلا شبہ وہ ملک کی معیشت بڑھانے میں بڑا اہم رول ادا کر رہے ہیں ۔یہ بھی  انہیں کا صدقہ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عہد مسلمانی کا ہندستان دنیا کا سب سے مال دارملک تھا اور انہی کے عہد میں ہندستان کو سونے کی چڑیا بھی کہا جاتا تھا۔

ترقی کے لیے قائد کا مخلص اور قابل ہونا ضروری ہے:

            قوموں کی تاریخِ عروج وزوال میں قائد ین کابڑا اہم رول ہوتا ہے۔ قائد اگر اپنے عوام کے تعلق سے واقعی مخلص ہو، تو وہیں سے اس قوم کے عروج کی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے، مگر جب قائدین خائن ورہزن بن جائے ، تو پھر اس قوم کا زوال یقینی ہے۔ ہمارے ملک ہندستان کی سب سے بڑی بدنصیبی یہی رہی ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک اس کو کوئی ایسا قائد اور رہبر نہیں ملا، جوملک اور اس کے عوام کے تعلق سے مخلص ہو۔ گو کہنے کو تو تمام سیاسی قائدین اپنی اپنی پارٹیوں کے پلیٹ فارم سے یہ صدا ضرور لگاتے ہیں کہ صرف وہی ملک وقوم کے خیر خواہ ہیں ،مگر کیا ان کے دل ان کی زبانوں کا آئینہ ہوتے ہیں؟ اس وقت ملک میں مجموعی طور پر تقریبا 1703 سیاسی پارٹیاں ہیں، جن میں6 قومی اور 54 صوبائی مشہور سیاسی پارٹیاں ہیں، ان کے علاو ہ رجسٹرڈ غیر معروف سیاسی پارٹیوں کی تعدادتقریبا1643 ہے۔

ترقی کے لیے تعلیم کی طرف توجہ ضروری ہے:

            قوموں کی رفعت و عظمت کا تصور یقینا اس کے قائد سے ہوتا ہے اور کامیابی و کامرانی کا اندازعلم وعمل سے؛ چنانچہ جس قوم کا قائد ورہبر ناخواندہ ہو اور اس کی قوم زیورِعلم سے آراستہ ہو تو اس کی تعمیر وترقی کا آفتاب بے نور ہونے لگتا ہے۔ کبھی ہمارا ملک ہندستان بھی گو نا گوں خوبیوں سے مالا مال تھااور آج اس کو اقوامِ عالم کی فہرست میں سب سے اوپر ہونا تھا ،مگر افسوں کہ اس کو کوئی بہترین قائدنہ مل سکا اور آزادی کے بعد بھی یہ ملک باطنی طور پر تنزلی ہی کا شکار ہے۔

ووٹ دینے سے پہلے کینڈیڈیٹ کی تعلیمی لیاقت اور اخلاقی حالت کا جائزہ لیں!

             سیاست دانوں نے تعلیم وتعلم کی طرف اپنی توجہ مبذول کی اورنہ عوام ہی کو اس سے کوئی سروکار رہا، چناںچہ(,september,NORRAG,2010) میں (Education Development Index-EDI) کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی، جس میں 2001 سے 2009 تک دنیا کے تقریباً 182-122 ممالک کی تعلیمی درجہ بندی کا جائز لیا گیا تھا۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ ان میں ہندستان کا105 واں مقام تھا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی ملک تعلیم کے میدان میں اس قدرپیچھے ہو تو اس سے ملک کے تمام شعبہ ہائے حیات پر گہرا اثر پڑتا ہے، کیوںکہ جب لوگ ہی ناخواندہ ہوں گے تو وہ سیاسی قائدین جو ان کی طرف سے منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں ان کی ترجمانی کرتے ہیں، ان کا مبلغ علم بھی یقینا لائق اعتنا نہیں ہوگا۔ خاص کر ایسے ملک میں جہاں تقریباً815 ملین ووٹرس ناخواندہ ہوں اور وہ اس حقیقت سے بالکل ہی نا آشنا ہوں کہ ان کے ترجمان کے لیے کتنا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے، تو ظاہرسی بات ہے کہ ان کے نزدیک انتخاب کا کوئی معیار نہیں ہو گا اور چوںکہ اس ملک میں عموماً ذات پات او رشخصی بنیاد پر ووٹ دیے جاتے ہیں، بل کہ گاؤں سماج میںا س کا اثر و رسوخ تھوڑازیادہ ہوتا ہے۔

             وہی کامیاب ہوتا ہے، خواہ اس کا ماضی کتناہی خراب اور اس کی قابلیت کتنی ہی کم کیوں نہ ہو، جس کی وجہ سے ہر کس و ناکس، جاہل وکرمنل سیاسی عہدوں پر جلوہ افروز ہوجاتا ہے۔ بسا اوقات اپنے بعض سیاسی قائدین کا تعارف کراتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کہ وہ انگوٹھا چھاپ ہونے کے باوجود کیسے کرسیِ اقدار پر فائز ہیں۔ آپ اگر سولہویں پارلیمانی انتخاب میں منتخب ہونے والے اراکین پارلیمنٹ کے علمی،سیاسی اور سماجی چہروں کا جائزہ لیں، تو آپ کو بڑی حیرت ہوگی کہ 543 اراکین میں تقریبا10 فیصد رکن پارلیمنٹ دسویں بھی پاس نہیں ہیں۔

ہندستان کی پسماندگی تعلیم سے بے اعتنائی کی وجہ سے ہے:

            ترقی وخوشحالی کی دوڑ میں ہندستان کے بچھڑنے کی اصل وجہ ہماری تعلیمی پس ماندگی ہے ۔سن 2011 کے عالمی علمی سروے کے مطابق شرح خواندگی میں ہندستان کا دنیا کے 234 ممالک میں سے 134 واں مقام تھا اور اس وقت ملک کی شرح خواندگی 63 فیصدتھی، جوبڑھ کر اب 75 فیصد تک پہنچ چکی ہے ،مگر سوال یہ ہے کہ ان تعلیم یافتگان کا معیار کیا ہے اور ان میں کتنے لکھے پڑھے ہیں اور کتنے پڑھے لکھے؟ تو حالیہ تحقیق میں ملک کی 75 فیصد آبادی کو تعلیم یافتہ بنایا گیا ہے۔ یعنی کل آبادی 1,283,470,000 میں سے 9,62,602,500 لوگوں کو تعلیم یافتہ، جبکہ 20,867,500, 3,لوگوں کو نا خواند ہ شمار کیا گیا ہے ،مگریہ بھی سچ ہے کہ ان 75 فیصد تعلیم یافتہ لوگوں میں سے پچاس فیصد وہ لوگ ہیں جوواقعی پڑھے لکھے ہیں، جب کہ ابھی بھی اس کا نصف فیصدان لکھے پڑھوں کی تعداد ہے،جو انگوٹھا لگانے کی بجائے دستخط کرنا جانتے ہیں ۔ظاہرسی بات ہے کہ جس ملک کی کل آبادی کا نصف سے زائد حصہ زیورِ علم سے آراستہ ہو، تو وہاں ترقی کا نام لیناریت پرگھروندے تعمیر کرنے کے مترادف ہو گا۔ مزید یہ کہ ہمارے تعلیم یافتگان کیسے ہیں؟ ان کا مبلغ علم کیا ہے؟ ذرا اس کا بھی سرسری جائزہ لیتے چلیں، مگر اس سے قبل تعلیمی اداروں کا تجزیہ کرناضروری ہے ،تو 2014کے عالمی سروے کے مطابق چوٹی کی دُوسَویونی ورسٹیوں کی فہرست میں ہندستان کی ایک یونی ورسٹی بھی نہیں تھی،بل کہ اس سے پہلے سنہ 2013 میں اے، آر، ڈبلیو ،یو(Academic Ranking of World Universities)نے دنیا کی 500 چوٹی کے اعلیٰ تعلیمی انسٹی ٹیوشنز کی فہرست جاری کی تھی ، صد افسوس کہ ان میں بھی کسی ہندستانی انسٹی ٹیوشن کا کوئی مقام نہیں تھا۔

اسمارٹ بنانے سے پہلے تعلیم یافتہ ہندستان بنانا ضروری ہے:

            ہمارے نیتا ہندستان کو اسمارٹ سٹی بنانے کے گو ہزار بلند بانگ دعوے کر لیں، مگر جب تک وہ ملک کے نظامِ تعلیم کو درست نہیں کر لیتے، ان کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر ہو ہی نہیں سکتا، کیوںکہ تعلیم کے بغیر ملک کی زیبائش ممکن نہیں، اور علم ہی وہ آلہ ہے جس کے ذریعہ ہم پورے عالم میں اپنی خفت مٹا کر برتری حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے ملک کے ہرکس و ناکس کا زیورِ علم سے آراستہ ہو نانا گزیر ہے۔ آج ہم جن ممالک کو ترقی یافتہ بتاتے ہیں، وہ یونہی ترقی یافتہ نہیں بن گئے۔ انہوں نے تعلیم ہی کو ترقی کا اولین زینہ مانا اور پھر چڑھتے چلے گئے۔             ان ممالک میں پیدائش کے بعد سے ہی بچوں کی تعلیم وتربیت پرخصوصی توجہ دی جاتی ہے اور حکومت کی طرف سے کم از کم انہیں بارہویں تک مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ آپ کو یہ جان کر یقینا تعجب ہو گا کہ نیدرلینڈ میں اگرکوئی طالب علم اسکول سے بلا اجازت غیر حاضر رہتا ہے ،تو پولیس اس کے گھر تک پہنچ جاتی ہے۔ ظاہر ہے اس کا اثر ان کی شرح خواند پربھی ہو گا۔ مزید حکومت اعلیٰ تعلیم کے لیے بچے اور والدین کا بھر پور تعاون کرتی ہے۔ ان ممالک میں سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کی تعلیم میںبل کہ معیارِ تعلیم میں ذرہ برابرفرق نہیں ہوتا؛بل کہ پرائیویٹ اداروں کے مقابلے میں سرکاری ادارے کچھ زیادہ ہی جدید آلات سے لیس ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے بچوں کا رجحان بھی ان کی طرف زیادہ ہوتا ہے، مگر ہمارے ملک کا انداز ہی جداہے۔

بے روز گاری ایک جائزہ:

            ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے گودنیا کا دوسرا عظیم ترین ملک ہے ،مگر کیا اس کا ہر شہری برسرِ روز گار ہے؟ کیا اس ملک میں رہنے والے ہرشخص کو روٹی کپڑا اور مکان آسانی سے دستیاب ہے؟ ہرگز نہیں؛بل کہ روز بروز بڑھتی بے روزگاری اور آسمان کو چھوتی مہنگائی نے ہندستانی عوام کو بالکل لاچار و بے بس کر دیا ہے۔ یہاں ہرشخص کو ملازمت مل جانا تو دور کی بات، اگر ملک کے سارے تعلیم یافتہ ہی برسرِ روزگار ہو جائیں، تو ملک کی شرحِ بے روزگاری میں بڑی کمی واقع ہوگی، کیوںکہ جن لوگوں کے پاس اعلیٰ تعلیمی اسناد ہیں، وہ بھی روزگار کی خاطر مارے مارے پھر رہے ہیں اور جو ناخواندہ ہیں، ان کا کیا پوچھنا۔ لاکھوں لوگ نوکری نہ ملنے یا اپنے لیے ملک میں کوئی بھی ذریعہ معاش نہ پانے کی پاداش میں احساس کمتری کا شکار ہو کرکبھی تو خودکشی کرنے پرمجبور ہو جاتے ہیں، تو کبھی ان کی بھوک مری انہیں غلط کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

            سنہ 2012 کے سروے کے مطابق پورے ملک میں برسرِ روزگارلوگوں کی تعدادتقر یباً487 ملین تھی  اور اس وقت ملک کی آبادی تقریباً1220 ملین تھی ،(اور ابھی اخبارات کی رپورٹ کے مطابق بے روزگاری نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور حالات انتہائی درجہ ابتر ہے) جن میں سے 94 فیصد لوگوں کو حکومت کی طرف سے کوئی اعانت حاصل نہیں تھی۔

            مذکورہ بالا سروے کا جائزہ لیا جائے ،تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان دو فیصد لوگوں کو ذریعہ معاش کے لیے کوئی بھی حکومتی مراعات حاصل نہیں تھی۔ اسی طرح جب 2008 میں رجسٹرڈ اداروں میں کام کرنے والے لوگوں کا سروے کیا گیا، تو ان کی تعداد 27.5 ملین تھی، جن میں سے 17.3 ملین لوگ تو حکومت اور ان سے منسلک اداروں میں کام کر رہے تھے، جبکہ 10.2 ملین لوگ اس وقت بھی پرائیویٹ سیکٹروں کا حصہ تھے۔ مجموعی طور پر 1983 ء سے لے کر 2015 تک ملک میں بے روزگاری کی شرح اوسطا 7.32 فیصد رہی ہے، جبکہ سب سے زیادہ بے روز گاری.40 9فیصد کے ساتھ 2009 میں رہی اور سب سے کم 4.90 فیصد بے روز گاری 2013میں تھی ۔

تعلیم یافتہ طبقہ میں بے روز گاری:

            یہ تو ملک کی بے روزگاری پر ایک عمومی تبصرہ تھا، تاہم اگر تعلیم یافتہ طبقہ میں بے روزگاری کی بات کی جائے، تو آپ کوتعجب ہوگا کہ ملک میں غیر تعلیم یافتہ کے بالمقابل تعلیم یافتہ لوگ زیادہ بے روزگار ہیں، چناںچہ وزارت ِعمل روزگار کی رپورٹ کے مطابت سنہ 2011 میں گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اوردیگر تکنکی ڈگریاں والے دس ملین تعلیم یافتہ افراد بے روزگار تھے،بل کہThe Hindu   7نومبر 2015 کی رپورٹ کے مطابق ملک میںغیر تعلیم یافتہ کے مقابلے میں تعلیم یافتہ کی شرحِ بے روز گاری کئی گنا زیادہ ہے۔The Hindu کے اسی تجزیے کے مطابق سنہ 2011 میں 116 ملین وہ لوگ جو روزگار کی تلاش میں تھے، یاکہیں کام میں لگے ہوئے تھے۔ ان میں سے صرف 32 ملین لوگ ہی غیر تعلیم یافتہ تھے، جبکہ 84 ملین لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے ،چناںچہIIM (Indian Institute of Management)  بنگلور کے سابق ڈائر یکٹر جناب جے فلپ نے ٹائمس آف انڈیا کے صحافیوں سے بات چیت کے درمیان ملک کی بے روزگاری کے تعلق سے جو بات کہی وہ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ انہوں نے کہا:

ہمارے طلبہ میں گلوبل ہنر کی کمی:

            ’ایک تو ہمارے طلبہ میں گلوبل ہنر کی کمی ہے ،چناںچہ اگر سروے کی مانیں، تو ہمارے گریجویٹ طلبہ میں سے تقریبا 34 فیصد لوگ ہی ملازمت کے قابل ہوتے ہیں، بل کہ سنہ 2013 میں جب ہمارے انجینئروں کا جائزہ لیا گیا تو ان میں سے تقریباً90فیصد لوگ نا قابل ملازمت تھے …

مواقع کم امیدوار زیادہ:

            اف ! اور دوسری بات جو انہوں نے بتائی و ہ بھی واقعی بہت اہم ہے کہ ہمارے ملک میں مواقع بہت کم اور امیدوار بہت زیادہ ہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر سال ملک میں لاکھوں کی تعداد میں طلبہ منجمینٹ کالجوں سے ڈگریاں حاصل کرتے ہیں، مگر معاملہ یہ ہے کہ پورے ملک کی منڈیوں میں ہر سال صرف تین سے چار ہزار کے درمیان ہی منتظمانہ امیدواروں کی ضرورت ہوتی ہے اور ظاہرسی بات ہے کہ جب پیداوار زیادہ اورسپلائی کم ہوگی تو بے روزگاری بڑھے گی ہی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے مواقع فراہم نہیں کیے جاتے۔ اگر واقعی حکومت اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرتی اور ہر شعبۂ روزگار میں مواقع فراہم کرتی تو شاید یہ شکایت دور ہو جاتی۔

ہندستان کے بھکاری ایک جائزہ:

            حالیہ سروے کے مطابق ہندستان میں تقریباً 14,51,000گداگر ہیں ۔ گزشتہ کچھ دہائیوں کے بالمقابل اس میں ایک لاکھ سوالیوں کا مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ صرف ممبئی میں تقریباً 3,00,000 بھیک مانگنے والے ہیں ، جب کہ ملک کے دارالحکومت دہلی میں بھکاریوں کی تعداد تقریباً60000 ہے ، جن میں تقریباً 71 فیصد انتہائی غریب ہیں ۔ نیز حیدر آباد اور بنگلور میں سے ہرایک شہر میں تقریباً 30,000 سوالی ہیں اور گزشتہ چند سالوں میں گداگر عورتوں اور بچوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہوا ہے ۔

بدعنوانی اور میڈیکل ایک جائزہ:

            سنہ 2016 کی بات ہے کہ ایک آسٹریلیائی ڈاکٹر ’’ڈیوڈیر جر‘‘ کو رضا کار ڈاکٹرکی حیثیت سے ہندستان کے بعض اسپتالوں میں چھ مہینے گذارنے کا موقع ملا تو اس نے ہندستان کے شعبہ ٔمیڈیکل میں ہونے والی بدعنوانیوں کو ایک مضمون میں قلم بند کیا، جس کو ’بی ایم جے‘ نامی میگزین نے اپنے اداریہ میں جگہ دیا تھا کہ ہندستانی ہیلتھ کیئر مشینریز کے ہر شعبہ میں رشوت و بدعنوانی کا دبدبہ ہے۔ یہاں بلا ضرورت ایکس رے، ایم آر آئی اورسی ٹی اسکین کے مشورے دیے جاتے ہیں؛ تا کہ مریضوں سے ناجائز پیسے وصول کیے جائیں۔ اس کی تصدیق ساتھی(Sathi) (Support for Advocacy and Training in Health Initiatives) کی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے کہ ممبئی میں واقع اینجلس میڈیکل سینٹر کے ڈاکٹروں نے 12,500 مریضوں میںسے 44 فیصد یعنی ساڑھے پانچ ہزار مریضوں کو سٹینٹ،گھٹنے کی تبدیلی، کینسر اور بانجھ پن جیسے امراض بتا کر انہیں سرجری کرانے کا مشورہ دیا تھا، مگر جب ان لوگوں نے دوسرے ڈاکٹروں سے مشورہ لیا تو انہوں نے ان کی رائے کی تردید کی۔ 2003 میں جب ٹیم برائے عالمی سول سوسائٹی ’’Transparency International‘‘جو پوری دنیا میں شرح بدعنوانی و کرپشن کا انکشاف کرتی ہے، نے ہندوستان کے شعبۂ میڈیکل وطب کا سروے کیا تو اس نے تمام ممالک میں ہندستان کو سب سے زیادہ بد عنوان بتلایا۔

رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں:

            Health Care is among themost currupt services in India” ”      بل کہ خود میرے ایسے دوست ہیں ،جو ہندستان کے کئی بڑے اسپتالوں میں مترجم کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہوںنے بتایا کہ ڈاکٹر بل کہ ہاسپیٹل کا پورا عملہ انتہائی کر پٹ اوربھرسٹ ہوتا ہے۔

            یہ تھا ہندستان کے موجودہ حالات کا مختلف اعتبار سے جائزہ۔اب ہماری ذمے داری ہے کہ اللہ کی عطاکردہ نعمت عقل کا صحیح استعمال کریں اور ایسے افراد کو منتخب کرنے کی کوشش کریں ،جو ہمارے مسائل حل کریں، نہ کہ ایسے افراد جو ہم میں بٹوارہ کر ڈالے صرف اپنی اور اپنی پارٹی کی فکر کرے اور اپنی پارٹی کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک گر جائے،اور نہ ہمارے مسائل سے اسے کوئی دلچسپی ہو۔اگر ہم نے اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کیا ،تو یہ ہندستان مزید پسماندگی کی طرف جا سکتا ہے ۔ ان سب کے ساتھ اللہ کی طر ف متوجہ ہوکر ملک کے روشن مستقبل کے لیے دعاکریں۔