مولانا صادق علی قاسمی بستوی ؒ
مولانا افتخار احمد قاسمی ؔ بستویؔ
اللہ کا حکم اٹل ہے ، موت سب کو آنی ہے اور آتی ہے ، لیکن کچھ شخصیات اورافراد ایسے ہیں جن کی موت بساط عالم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے اور فضا ئے کائنات یک لخت سونی ہوجاتی ہے ۔ انہیں شخصیات میں حضرت مولانا صادق علی صادق قاسمی انصاری بستوی کی نابغۂ روزگار شخصیت ہے ۔ آپ کے انتقال کی خبر جامعہ اکل کوا میں احقر کو بذریعہ فون میرے ہم درس رفیق برادرم امتیاز احمد خان خلیل آبادی نے ۱۵؍ دسمبر بروز شنبہ دوپہر گیارہ بجے دی ۔ خبر سن کر ایسا لگا کہ جیسے میں اپنے پورے وجود کے ساتھ یخ بستہ ہوچکاہوں ، خود کو سنبھالا تو سب سے پہلے مولانا شمس الہدیٰ قاسمی بستوی (آٹا کلاں سنت کبیر نگر /استاذ جامعہ اکل کوا)سے ذکرکیا تو کہنے لگے کہ نو بجے مجھے اس کی اطلاع ملی تھی ، شاید میں نے آپ کو بتلا یا تھا ۔
انتقال کی خبر سن کر ذہن کے پردے پر ماضی کے گوناگوں واقعات یکے بعد دیگرے ابھرنے ، مٹنے اور چھپنے لگے ۔ رمضان شریف میں حضرت مولانا صادق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دولت کدے پر چند معزز احباب کے ساتھ ملاقات ، گفتگو اورحسن خاتمہ کی دعا کے الفاظ اور حضرت مولانا کے متواضعانہ اسلوب ، علمی گفتگو، منطقی استدلال اورفلسفیانہ موشگافیاں ، طالب علمی کے زمانے میں حضرت مولانا کی دارالعلوم الاسلامیہ بستی میں ششماہی اور سالانہ امتحانات کے موقعوں پرآمد ، امتحان کے پرچوں کا واضح علمی اور نکتہ سنج انداز، ایک ایک کرکے ماضی کے جھروکے سے جھانکتے ہوئے ان گنت واقعات کی ایک فہرست ذہن میں ایک ریل کی مانند چلنے لگی ۔
دارالعلوم الاسلامیہ بستی میںعربی دوم کی جماعت میں حضرت مولانا صادق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا تحریری امتحان کے لیے ہدایۃ النحو کا ایساپرچہ بنانا کہ امتحان گاہ میں ہم تمام طلبہ کا مہذب احتجاج ، پھرحضرت مولانا صادق صاحب کا پرچے کی تسہیل کے بجائے ہدایۃ النحو کتا ب ہی کو امتحان گاہ میں بچوں کو دلوانا اوردیکھ کر ہی حل کرلینے اور جواب تحریر کرنے کا حکم ، یہ سارے واقعات ایک ایک کرکے ذہن کے پردۂ سیمیںپر ابھر نے لگے ۔
لیکن اب و ہ شخص جس نے ۱۵؍ اپریل ۱۹۳۶ء میں اس دنیائے رنگ بو میں آنکھیں کھولی تھیں اور۱۹۵۵ء میں دارالعلوم دیوبند سے ایک ممتاز عالم دین اورعبقری شخصیت بن کر ابھراتھا ، اب وہ ہمارے درمیان نہیں رہا ۔ تقریباً ۸۳؍ برس کی عمر پاکر یہ انمول خزانہ زمانے کے ہاتھوںنے زیر زمین دفن تو کردیا لیکن ایسا لگتا ہے کہ ابھی مولانا مرحوم زندہ ہیں ، نظروں کے سامنے ، چلتے پھرتے اوراٹھتے بیٹھتے دکھائی دے رہے ہیں ۔
آدمی اپنے کردار سے زندہ رہتا ہے ۔ شخصیات اپنی خدمات کے خورشید سے عالم تاب اورروشنی کا مینار ثابت ہوتی ہیں ۔ حضرت مولانا صادق علی قاسمی بستوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پیچھے تصنیفات وتالیفات کا ایک ذخیرہ چھوڑا ہے ، جس میں (۱) رمضان کی باتیں (۲) نماز کیا ہے ؟ (۳) تب و تاب (مجموعہ کلام منظوم )(۴) مظلوم شہزادہ (کہانی ) (۵) قبر پر اذان (۶) مرقات کی شرح ’’ تشریحات علی المرقات ‘‘(۷) تسہیل الآلہ (یہ کتاب تعریف الاشیا کی شرح ہے )(۸) ریاض الصرف (۹) ریاض النحو (۱۰) منظوم میزان منشعب (۱۱) عبد اللہ بن سلام بحضور سید خیرالانام (۱۳) خیر المفہوم شرح سلم العلوم (۱۳) چارستارے (۱۴) چاند کی شرعی حیثیت (۱۵)اور داعیٔ اسلام غیر منقوط وغیرہ ۔
’’داعیٔ اسلام‘‘ غیر منقوط کتاب جب طبع ہوکر منظرِ عام پر آئی تو علمی وادبی حلقوں میں ایک کہرام مچ گیا کہ ابھی تک کسی نے بھی اتنی تنگ گھاٹی سے سلامت روی اور فائز المرامی سے پار ہوکر منزلِ جاودانی پانے کی سعادت حاصل نہیں کی ۔ اردو زبان کا دامن بہ نسبت عربی اوردیگر زبانوں کے تنگ دامانی کا شکوہ کناں رہتا ہے ۔ عربی زبان کی وسعت کا چرچہ البتہ چہاردانگ عالم میں ہمہ وقت ہوتا ہے، جس میں ’’ شیر کے لیے ہزار ہزار الفاظ آتے ہیں ، اردو میں ایسا نہیں ۔ اردو جیسی تنگ دامانی کا شکوہ کرنے والی زبان میں اسے اور تنگ کرکے صرف غیرمنقوط الفاظ کو منتخب کرنا ، اسے قافیہ بندی کے قالب میں ڈھالنا ، پھر سیرت رسول کے مضامین کو اشعار کی لڑی میں پرونا اور مضمون کی نزاکت کا پوراخیال رکھتے ہوئے افراط و تفریط سے گریزاں ہوکر راہ ِاعتدال پر چل کر تقریباً ۲۰۰؍ صفحات پر مشتمل معریٰ کلام پیش کرنا یقینا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، لیکن اسے بھی مولانا صادق علی بستوی رحمۃ اللہ علیہ نے سرکیا اوراس خوش اسلوبی سے اس وادی میں صحرا نور دی کی کہ وقت کے مشہور مورخ وادیب مولانا قاضی اطہر مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ (جن کا اصلی نام عبد الحفیظ ہے) بول پڑے : ’’ صنعت بے نقط میں دس پانچ سطریا صفحہ دو صفحہ لکھنا زیادہ مشکل نہیں اور نظم ونثر میں اس کی مثالیں پائی جاتی ہیں ، مگر اس تنگ دائرے میں رہ کر منظوم کتاب لکھنا دشوار سے دشوار تر کام ہے ۔ اس کی پہلی مثال ’’ داعیٔ اسلام ‘‘ نامی کتاب ہے ، جس کو دارالعلوم دیوبند کے بوریہ نشین فاضل نے نظم میں لکھا ہے ، جس کے سامنے اردو زبان کے بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کو اعتراف وعقیدت کے ساتھ سرنگوں ہونا چاہیے۔ مولانا صادق علی صاحب صادق بستوی (رحمۃ اللہ علیہ ) نے یہ کتاب اس انداز سے لکھ کر جہاں اپنے لیے توشۂ آخرت جمع کرلیا ہے ، وہیں اردو شعر وادب میں اپنا منفرد مقام پیدا کرلیا ہے ، محبت رسول کی سچی تڑپ کا صدقہ ہے کہ انہوں نے اس مشکل ترین انداز میں عقیدت ومحبت کے پھولوں کا یہ ہار تیار کیا اور سوانح نگارانِ رسول کے حلقہ نشینوں میں ممتاز جگہ پائی ‘‘ ۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صدر شعبۂ اردو جامعہ ملیہ نئی دہلی ، پروفیسر غلام مصطفی خان صاحب صدر شعبہ اردو یونی ورسٹی حیدر آباد پاکستان ، پر وفیسر ڈاکٹر سید محمد ابو الخیر کشفی صدر شعبہ اردو کراچی ، پاکستان ، مولانا سعید احمد اکبر آبادی ایڈیٹر ماہنامہ ’’برہان‘‘ دلی وپروفیسر مسلم یونی ور سٹی علی گڑھ ، ڈاکٹرمحمود الٰہی زخمی سابق صدر شعبہ اردو گورکھ پور یونی ورسٹی ، چیر مین اردو اکادمی اتر پردیش لکھنؤ ، ناز انصاری مرحوم سابق ایڈیٹر روزنامہ’’ الجمعیہ‘‘ دلی ، جناب محمد عبد الرحمن غضنفر الرحیم اکیڈمی کراچی ، مولانا فضیل احمد قاسمی مرکزی جمعیۃ علمائے ہند دہلی ، عزت مآب حکیم عبد الحمید صاحب مالک ہمدرد دواخانہ دہلی ، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں صاحب ندویؒ اور عارف باللہ حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اپنی تقاریظ میں ’’ داعیٔ اسلام ‘‘ (معری کلام ) کو بے حد سراہا ۔
قاری صدیق احمد صاحب باندوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا کہ ’’ تقریباً دوسال قبل جناب محترم ولی رازی کی کتاب ’’ ہادیٔ عالم ‘‘ ہندو پاک میں داد تحسین حاصل کرچکی ہے ، اس کے بعد ہندستان کے مشہور عالم اردو شاعر جناب مولانا صادق علی قاسمی ؒ کی کتاب ’’ داعیٔ اسلام ‘‘ منظوم منصہ شہود پر جلوہ افروز ہوئی ۔ ولی رازی کی شخصیت اور ان کا درجۂ اولیت اپنی جگہ مسلم ، لیکن اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ’’ داعیٔ اسلام ‘‘ کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ مقام جناب رازی کی کتاب کو حاصل نہ ہوسکا ۔ ذلک فضل اللہ یو تیہ من یشاء !
مولانا صادق علی بستوی ایشیا کی عظیم درس گاہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے ۔دارالعلوم دیوبند سے دورۂ تفسیر بھی کیا تھا ۔ مولوی فاضل کی سند بھی پنجاب یونی ور سٹی سے حاصل کی تھی ۔ یوپی بورڈ الٰہ آباد سے فاضل معقولات تھے ۔ ادیب کا مل جامعہ اردو علی گڑھ سے اور فاضل تفسیر لکھنؤ یونی ور سٹی سے ہونے کے باوجود نہایت سادگی کے پیکر تھے ، ہمہ وقت ایک قمیص اور لنگی میں ملبوس تواضع کا مجسمہ نظر آتے ، یہاں تک کہ جب نئی دہلی میں واقع سعودی سفارت خانے نے تقریباً دو سال قبل آپ کو خادم حرمین شریفین کے مہمانوں کی فہرست میں شامل کرکے فریضہ حج کی ادائیگی پر بھیجا تو وہاں بھی اسی پوشاک میں نظر آئے ۔ ۱۹۹۴ء میں رئیس جامعہ حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی مدظلہ کی دعوت پر جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا بھی تشریف لائے تھے ، اس وقت بھی آپ ایک لنگی اورکرتا ہی زیب تن کیے ہوئے تھے ۔
زندگی کے ایام اوراپنے تعلیمی دور کو کانٹوں بھری خواب گا ہوں میں جاگ کر کاٹا ۔ دارالعلوم دیوبند اعلیٰ تعلیم دین کی تحصیل کے لیے جب گئے ہیں تو وہاں کا منظر ہی عجیب تھا ، ہمہ وقت کتاب کی گفتگو ، علما اورادبا کے لطائف اوردقیقہ سنجیاں ، اسی میں شب و روز گزارتے تھے ، بسا اوقات یہ کتابوں میں اس قدر منہمک ہوجاتے کہ کھانا پینا تک یاد نہ رہتا ، ساتھیوں کو صادق کو تلاش کرکے کھانا کھلانا پڑتا تھا، سونا اورکھانا ان کے لیے ایک اتفاقی امر بن گیا تھا ۔سچ ہے صادق کی یہ حالت جو بھی دیکھتا ماضی قریب کی اسلاف کی یاد تازہ کرلیتا ؎
آئی جوان کی یاد تو آتی چلی گئی
اور ہر نقشِ ماسوا کو مٹاتی چلی گئی
مولانا عبد الحفیظ رحمانی انصاری مرحوم نے مولانا صادق علی بستوی ؒکے مجموعۂ کلام ’’ تب و تاب ‘‘ کے پیش لفظ میں بجا لکھا ہے کہ صادق علی بستوی کسی خوش حال گھرانے کے چشم وچراغ نہ تھے ۔ اسی لیے دیوبند کی زندگی سادہ ہی نہیں فاقہ مست تھی ، لیکن اللہ نے صادق ؒ کو بے پناہ صبر دیا تھا کہ وہ اس تنگ زندگی میں بھی مسکراتے نظر آتے تھے ، زمانہ طالب علمی سے لے کر زندگی کی آخری سانس تک بندۂ خدا کو ہر حال میں مگن اور مبتسم ہی دیکھا جاتا ۔
علوم دینیہ اورفنون اسلامیہ بالخصوص منطق وفلسفہ میں مہارت کے ساتھ زبان وادب میں آپ کو خاص ملکہ تھا ، تقریباً تمام اصناف سخن پر مولانا صادق علی مرحوم نے طبع آزمائی کی ہے ۔ غزل کا ایک شعر اس وقت بار بار یاد آرہا ہے ۔ مولانا کہتے ہیں ؎
مجھے ننگ بہار گل بتا کر قید کرتے ہو
قفس ہی میں اگر فصلِ بہار آئی تو کیا ہوگا
مولانا صادق علی صاحب زندگی کی تہ بہ تہ پرتوں کو اپنی جگہ رہنے دینے کے قائل نہ تھے کہ ان پر گرد کا ڈھیر جمع ہوجائے اورزندگی ایک عضوِ معطل ہوکر رہ جائے ، بل کہ وہ زندگی کو متحرک ، فعال اور
ع نرم دمِ گفتگو ، گرم دمِ جستجو
کے قائل تھے ۔ زیست کے جمود کو توڑنا اور زندگی کی رفتار میں سرعت پیدا کرنا ، ان کی بھر پور کوششوں کا محور تھا ۔وہ حالات کی ستم ظریفی پر نشتر چلاتے ہیں تو یوں گویا ہوتے ہیں :
نہ گل کو اذنِ تبسم ، نہ مجھ کو اذنِ نظر
بہار ہو اگر ایسی ، بہار ہی کیا ہے
اردو اکیڈمی اتر پردیش کی جانب سے ’’ داعیٔ اسلام غیر منقوط ‘‘پر اس وقت کے پانچ ہزارروپئے کا نقد انعام اور’’ حمد ونعت اکیڈمی نئی دہلی ‘‘کی طرف سے ’’حسان بن ثابت ؓ ایوارڈ ‘‘ سے نوازے جاچکے ہیں ۔ تعلیمی وتربیتی ، سیاسی وسماجی اور ملی خدمات مین بھی بڑھ چڑ ھ کر حصہ لینے والوں میں ایک تھے ، جمعیۃ علما ضلع بستی کے جنرل سکریٹری اور جمعیۃ علما ئے ہند اتر پردیش کے بھی جنرل سکریٹری رہے ۔ غازی آباد ، ہاپوڑ یوپی میں مدرسہ خادم الاسلام میں تدریس کی خدمات انجام دیں ۔ ضلع بستی میں مدرسہ اطہر العلوم امرڈیہا سنت کبیر نگر ، مدرسہ ہدایت العلوم کرہی سنت کبیر نگر ، مدرسہ سراج العلوم آطا کلاں میں بھی تعلیمی وتربیتی سرگرمیوں میں باقاعدہ حصہ لیتے رہے ۔ ملک و ملت بچاؤ تحریک ۱۹۷۷ء کے تحت مرکزی جنتاپارٹی کی حکومت میں ایک ہفتے تہاڑ جیل میں رہ کر سزا بھی کاٹی ۔
Z.R.U.C.C. این ، اے ، ریلوے کے ممبر بھی رہے ، اردو اکیڈمی لکھنؤ اتر پردیش ، آل انڈیا اردو ایڈیٹر کانفرنس نئی دہلی کے رکن رہے ، ایک عرصے تک نیشنل انٹر کالج موڑا ڈیہہ بیگ کے منیجر کے منصب پر رہے۔ آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن گورکھ پور یوپی سے نشر ہونے والے مباحثے میں شریک رہے ، جس میں ’’ مولانا آزاد اور سیکولرازم ‘‘ ادب و صحافت کا رشتہ ’’ مسلمانوں کی پس ماندگی کا سبب ‘‘ یہ عنوانات زیرِ بحث رہے ۔ ’’ کفایت شعاری کام یاب زندگی ‘‘ ’’ بہادر شاہ ظفر (نغمہ خواں اجالوں کے ) ‘‘ ’’ جنگ آزادی میں علما کا حصہ ‘‘ ’’ مجاہد آزادی اورمولانا رحم اللہ دریابادی ‘‘ جیسے عنوانات پر مقالے پیش کیے ۔ ’’ میرا پیارا چمن (خلیل آباد ) کے عنوان پر فیچر لکھا‘‘ اور ’’ اردو رسائل کا مستقبل ‘‘ ’’ فلسفۂ صدقۂ فطر ‘‘ ’’ اردو مجلات اور ان کے مدیر ‘‘ ’’ قرآن امنِ عالم کا داعی ‘‘ یہ مقالات بھی آپ ہی کی کاوش قلم ہیں۔ ایک ماہنامہ ’’ نقوش حیات ‘‘ آٹا کلاں بستی سنت کبیر نگر ادارے سے نکالا ، روزنامہ راپنی گورکھ پور کے ایڈیٹر تھے ، روزنامہ اردو ٹائمز ممبئی ، مشرقی آواز گورکھ پور اور روزنامہ قومی آواز لکھنؤ کے نامہ نگار رہے ۔
غرض مولانا صادق علی قاسمی بستوی رحمۃ اللہ علیہ کی پوری زندگی دست و بردِزمانہ کی تلخیوں سے ایسی بھری ہوئی ہے کہ جب آپ نے بڑھاپے کی دہلیز پرقدم رکھا اورطاقت وقوت جواب دینے لگی، جس سے عملی سرگرمیوں کی رفتار پر قد غن لگنے لگی ، تو یوں گویا ہوئے ؎
خیال آیا جوانی میں ، نہ کچھ عہدِ ضعیفی کا
ضعیفی میں مگر عہدِ جوانی یاد آتاہے
بہت خوبیاں تھیں جانے والے میں ، آنے والے جانے کے لیے ہی آتے ہیں اور جانے والے لوٹ کر آتے نہیں ۔ خلقت کو رنجور ، مجبور اور غموں میں چور چھوڑ جاتے ہیں ، ہم نے بھی حضرت مولانا کو آخری خواب گاہ پہنچادیا اور غموں سے نڈھال اب یہی دعا کرتے ہیں ۔
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نوروستہ اس گھر کی نگہ بانی کرے
آمین!