دہشت گرد کون؟!!!

انوار نبوی ا        

محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمیؔ

            عن انس ابن مالک (رضی اللہ عنہ )عن النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) قال:

أکبر الکبائر: ألإشراکُ باللہِ، وقتلُ النفسِ، وعقوقُ الوالدینِ، وقولُ الزور۔(صحیح البخاری )

ترجمہ: حضرت انس ؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:کبیرہ گناہ میں بڑے  بڑے گناہ:اللہ کے ساتھ شریک کرنا،ماں باپ کی نافرمانی کرنا،کسی انسان کو قتل کرنا،اور جھوٹی گواہی دیناہے۔

            حدیثِ بالا میں :اکبر الکبائر کو بیان کیا گیا ہے،اور’’ قتل ِنفس‘‘ کسی بھی انسان کو ناحق قتل کرنے کو سب سے بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ ،قتل وغارت گری ، فساد ودہشت گردی کی مذمت اور اس کے انسداد سے بھری پڑی ہیں۔ان آیات واحادیث کے مجموعے پر ہمارے بڑوں کی کئی کتابیں موجود ہیں۔میں ان سے مستفاد کچھ آیات اور احادیث پیش کروں گا۔قبل اس کے، ان کے یہاں پیش کرنے کا پس ِمنظر اوردر حقیقت دل کے زخم بتاتا چلوں ،یقینا یہ زخم آپ قارئین کے قلب کو بھی چھلنی کر رہا ہوگا ۔

چور سے کہے چوری کر،ساہ سے کہے تیراگھر لٹا:

            یہ ایک مثل ہے،اس شخص کی نسبت جو خود ہی نقصان کرائے اور خود ہی ہمدرد بنے۔ہم جس دور سے گذر رہے ہیں،اس میں ایسا ہی کچھ ہورہا ہے۔بل کہ ایک قدم بڑھ کر پروپیگنڈہ کے ذریعہ مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم بتایا جارہا ہے،مظلوموں پر ہمدردی کے بجائے بے دردی کا رویہ اپنایا جارہا ہے،الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے جیسا رویہ برتا جارہا ہے۔امن وآشتی کا درس دینے والوں ،کو دہشت گرد بتایا جارہا ہے،ظلم و جبر کے پنجے مروڑنے والوں کوظالم وجابر باور کرایا جارہا ہے،وفاداروں کو باربار غدار… اور غدار کہا جارہا ہے۔

            ہمارے سی،آر،پی،ایف نوجوانوں کے خون سے ہولی کھیلے جانے کے بعداصل مجرم اور دہشت گردوں کی بیخ کنی کرنے کے بجائے ،اپنے ہی ملک کے وفاداروں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جارہاہے۔ملک کا مسلمان اپنے سپوتوں کی شہادت کے درد کوانتقام کے مَلہم سے سینا چاہتا ہے،اس کا دل اس امن کے گہوارے ہندوستان کی بد امنی سے تل ملا رہا ہے،وہ ان دہشت گرد عناصرکے جڑیں کھودنے کے درپے ہے،مدارس ومساجد میں دہشت گردی ،ظلم اور قتل وغارت کی شناعت وقباحت پر قال اللہ اور قال الرسول کی آوازیں گونج رہی ہیں، ملک کی حفاظت کی قسمیں کھائی جارہی ہیں،بد امنی اور قتل ناحق کو اکبر الکبائر بتایا جارہا ہے۔اس ارض خداوندی سے فتنے وفساد کومٹانے کی تعلیم وتلقین کی جارہی ہے۔اور ان امن کے سپاہیوں اور امن کے سوتیں بہانے والے مدارس ومکاتب کوہی دہشت گرد بتایا جارہاہے۔کان کھول کر سن لیں یہ لوگ! کہ ہندستان میں مدارس و مساجد ، منبرو محراب کا یہ نظام نہ ہوتا تو ہندوستان کب کا قبرستان بن گیا ہوتا؛کیوں کہ بار بارمسلمانوں کی وفاداری پر غداری کالیبل لگا کر شر پسند عناصر جو انہیں ورغلانا چاہتے ہیں ،متنفر کرنا چاہتے ہیں؛یہی مدارس قرآن وحدیث کی روشنی میں درس وتدریس ،منبرومحراب کے ذریعے اپنے نوجوانوں کے ابلتے ہوئے خونوں کو صبر کی تلقین،اور اس پر ملنے والے اجر وثواب سنا کر ،اور فتنہ وفساد پر ہونے والے عذاب وعقاب بتاکر تھامے ہوئے ہیں ۔بارہا ظلم اور سوتیلا رویہ برتنے کے باوجود وطن عزیز سے محبت اور اس کے خاطر قربانیوں کو برداشت کرنے کامادہ پیدا کر رہے ہیں؛کیوں کہ اس وطن عزیزکی سر سبز وشادابی کو ہمارے اسلاف واکابر کے خونوں اور قربانیوں سے سینچا گیا ہے۔اس کی مٹی میں ہمارے اسلاف کی خوش بو رچی بسی ہے ۔ ان کی یادیں ہم پرکیے جانے والے ظلم وتشدد پرمرہم  کا کام کرتی ہیں۔

تعصب پسندوں کو کھلا چیلینج:

            ہم ان متعصبین اور کور چشموں کواوپن چیلینج کرتے ہیں،جو آج گندہ دہنی اورذہنی کے ساتھ مدارس اور علما وطلبا پر الزام تراشی کی زبان دراز کیے جارہے ہیں۔کہ آپ ہمارے مدارس میں آئیں ،مساجد میں آئیں، درس وتقریر میں بیٹھیں۔مخالف نظریے کے ساتھ ہی آئیں،لیکن مادرِ وطن میں امن وامان قائم کرنے کے جذبے سے آئیں آپ کو ہمیں بتانے کی بھی ضرورت نہیں،آپ ہمارے درس حدیث اور تفسیر میں بیٹھیں…قسم بخدا اگر دل میں کہیں پر بھی انصاف پسندی، وطن سے محبت،انسانیت اور انسانیت کی تئیں ہمدردی ہوگی ،تو اس ملک سے بد امنی ختم ہو جائے گی اور یہاں دہشت گردی پنپ نہیں پائے گی۔

            ہے کسی میں ہمت ؟ٹیلویژن اور چینلوں پر ڈبیٹ کرنے والے اینکروں ،کو بھی دعوت اور چیلینج ہے کہ آپ آئیں،کچھ ہی روز صحیح ان مدارس کے ماحول میں رہ کر جائیں آپ کو ڈبیٹ کے آداب بھی معلوم ہوجائیں گے اور اصول بھی ،پھر آپ سے سوال کیا جائے گا کے ’’دہشت گرد کون ہے‘‘ تو آپ کا ضمیر کیا جواب دیتا ہے،وہ ساری دنیا سنے گی اور دیکھے گی۔

دہشت گردی کے خلاف اور امن وامان سے متعلق آیاتِ قرآنیہ اور احادیث:

            ’’ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ  اِلَّا بِالْحَقِّ، وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا  لِوَلِیِّہٖ  سُلْطٰنًا  فَلاَ  یُسْرِفْ  فِّی الْقَتْلِ، اِنَّہٗ  کَانَ مَنْصُوْرًا ‘‘ (الإسراء:۳۳)

            اور جس جان کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے، اُسے قتل نہ کرو، الا یہ کہ تمہیں (شرعاً) اس کا حق پہنچتا ہو، اور جو شخص مظلومانہ طور پر قتل ہوجائے، تو ہم نے اُس کے ولی کو (قصاص کا) اختیار دیا ہے، چناں چہ اُس پر لازم ہے کہ وہ قتل کرنے میں حد سے تجاوز نہ کرے۔ یقینا وہ اس لائق ہے کہ اُس کی مدد کی جائے۔

            ایک اور جگہ اللہ کے نیک بندوں کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد ہے: {وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ  مَعَ  اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ، وَمَنْ  یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ  اَثَامًا، یُّضٰعَفْ لَہُ الْعَذَابُ  یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہٖ مُھَانًا}الفرقان:۶۸،۶۹

            ’’اورجواللہ کے ساتھ کسی بھی دوسرے معبودکی عبادت نہیں کرتے اورجس جان کواللہ نے حرمت بخشی ہے اسے ناحق قتل نہیں کرتے اورنہ و ہ زناکرتے ہیں ۔اورجوشخص بھی یہ کام کرے گا ،اسے اپنے گناہ کے وبال کا سامناکرناپڑے گا۔قیامت کے دن اس کاعذاب بڑھابڑھاکر دوگناکردیاجائے گااوروہ ذلیل ہوکر اس عذاب میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔‘‘

            اِن دونوں آیتوں میں صر ف مسلمانوں کے قتل ہی کی ممانعت نہیں ہے ،بل کہ ہر اُس شخص کے قتل کی ممانعت ہے ،جس کی جان کو اللہ تعالیٰ نے حرمت بخشی ہے ،چناں چہ اس میں وہ غیرمسلم بھی داخل ہیں جن کے ساتھ مسلمانوں نے امن کایا ان کی جان ومال کی حفاظت کامعاہدہ کیاہواہو۔

 اورحضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت فرماتے ہیںکہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            ’’لن یزال المومن فی فسحۃ من دینہ مالم یصب دما حراما‘‘(فتح الباری)

            یعنی’’ایک مسلمان شخص کو اپنے دین کے معاملے میںاس وقت تک (معافی کی )گنجائش رہتی ہے، جب تک وہ حرام طریقہ سے کسی کاخون نہ بہائے ۔

            اس حدیث کامطلب یہ ہے کہ کسی کاناحق خون بہانے کے بعد معافی کاامکان بہت دورہوجاتاہے ۔

چناں چہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں: ’’جن مشکل کاموں میں اپنے آپ کو پھنسا کر آدمی کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کسی کا حرمت والا خون ایسے طریقے پر بہائے، جو اُس کے لیے حلال نہ ہو۔‘‘(صحیح البخاری، کتاب الدیات، حدیث ۶۸۶۳)

            اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو ناحق قتل کرنے کے بعد اس گناہ کی معافی اس لیے سخت مشکل ہے کہ اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور بندوں کے حقوق صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے، جب تک وہ شخص معاف نہ کرے جس کی حق تلفی کی گئی، اور قتل ہوجانے کے بعد اُس سے معافی مانگنے کا کوئی راستہ نہیں رہتا۔

 غیر مسلم کا قتل گناہ کبیرہ ہے:

            اسی طرح ’’اسلام اور سیاست ‘‘مجموعۂ افادات حضرت تھانویؒ میںغیر مسلم کے قتل کو گناہ کبیرہ لکھا ہے:

            قال اللہ تعالٰی:’’ ولا تقتلوا النفس التي حرم اللہ الا بالحق‘‘جس جان کو خدا تعالیٰ نے حرام کر دیا ہے اس کو ناحق نہ مار ڈالو۔ ناحق کسی غیر مسلم کو بھی قتل کرنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔

روزِ قیامت سب سے پہلا فیصلہ:( اول ما یقضیٰ بین الناس یوم القیامۃ فی الدماء )۔

’’ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون ریزی کا فیصلہ سنایا جائے گا ۔ ‘‘ (بخاری، کتاب الدیات)

غیر مسلم شہری (معاہد) کو قتل کرنے والا جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا🙁( من قتل معاہدا لم یرح رائحۃ الجنۃ ، وان ریحہا توجد من مسیرۃ اربعین عاما )) (بخاری ، کتاب الجزیۃ ، رقم : ۲۹۹۵)

غیر مسلم مذہبی پادریوں کے قتل کی ممانعت : (( کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا بعث جیوشہ قال : لا تغدروا ولا تغلوا ولا تمثلوا ولا تقتلو الولدان ولا اصحاب الصوامع ))۔ (مسند احمد بن حنبل : ۱/۳۳۰، رقم : ۲۷۲۸)

’’ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے لشکروں کو روانہ کرتے تو حکم صادر فرماتے : غداری نہ کرنا، دھوکہ نہ دینا، نعشوں کی بے حرمتی نہ کرنا اور بچوں اور پادریوں کو قتل نہ کرنا ۔‘‘

مسلم اور غیر مسلم کا قصاص اور دیت برابرہے :

’’ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کو دیت میں مساوی حقوق دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے :

            (( دیۃ الیہودی والنصرانی وکل ذمی مثل دیۃ المسلم ))۔(مصنف عبد الرزاق : ۱۰/۹۷-۹۸)

غیر مسلم پر ظلم کی ممانعت : قرآن و حدیث کے مطابق ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے ۔ جس نے ظلم کیا حسب دستور بدلہ اور سزا کا وہی مستحق ہے ، اس کے بدلے میں کوئی دوسرا نہیں ۔ اس کے جرم کی سزا اس کے اہل وعیال ، دوستوں یا اس کی قوم کے دیگر افراد کو نہیں دی جاسکتی ۔ ارشاد ربانی ہے :

              {وَلَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْھَا ج  وَلَا  تَزِرُ  وَازِرَۃ’‘   وِّزْرَ  اُخْرٰی ج  ثُمَّ  اِلٰی   رَبِّکُمْ  مَّرْجِعُکُمْ  فَیُنَبِّئُکُمْ  بِمَا  کُنْتُمْ   فِیْہِ  تَخْتَلِفُوْنَ } (الانعام:۱۶۴)

            امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے شام کے گورنر سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو جو فرمان لکھا تھا اس میں من جملہ دیگر احکام کے یہ بھی درج تھا : ’’ (تم بحیثیت گورنر شام ) مسلمانوں کو ان غیر مسلم شہریوں پر ظلم کرنے ، انہیں ضرر پہنچانے اور ناجائز طریقہ سے ان کا مال کھانے سے سختی کے ساتھ منع کرو ۔ ‘‘ ( کتاب الخراج لابی یوسف : ۱۵۲)

مسلم علاقوں میں بھی واقع غیر مسلم عبادت گاہیں مسمار کرنے کی ممانعت :

            جصاص نے ’’ احکام القرآن ‘‘ میں محمد بن الحسن کا یہ قول نقل کیا ہے : (( فی ارض الصلح اذا صارت مصرا للمسلمین ، لم یہدم ما کان فیہا من بیعۃ او کنیسۃ او بیت نار ))۔ (احکام القرآن للجصاص : ۵/۸۳)

            ’’ صلح کی زمین پر جب مسلمانوں کا کوئی شہر بن جائے تو اس میںبھی پائے جانے والے گرجے ، کلیسے یا آتش کدے ہرگز گرائے نہیں جائیںگے ۔ ‘‘

جہاد اور دہشت گردی میں فرق:

            اِن آیات اور احادیث سے اسلام میں قتل وغارت گری کی شناعت وقباحت غیر مسلموں کے جانوں مالوں عبادت گاہوں کا تحفظ واضح ہوگیا۔ اب اس کے بعد ضروری ہے کہ مختصراً جہاد کا صحیح تعارف اور دہشت گردی کے مابین فرق بتا دیا جائے۔اس وقت مغربی میڈیا اور کچھ مغربی زر خرید گروہ اپنی عیاری ومکاری اور پروپیگنڈہ کے ذریعہ اس نظامِ امن ’’جہاد‘‘کو نظامِ شر ’’دہشت گردی ‘‘سے موسوم کرنے پر تلا ہوا ہے ،حالاںکہ جہاد اور دہشت گردی میں تعریف ،مقاصد،آداب اور نتائج ہر پہلوسے زمین وآسمان کا فرق پایا جاتا ہے ۔

تعریف کے لحاظ سے فرق :دہشت گردی کی مختلف تعریفات کا خلاصہ ،سیاسی اغراض ومقاصد کے لیے خوف وہراس کی فضا پیدا کرنا ،تشدد وقوت اور قتلِ عام کے ذریعہ دہشت پیدا کرنا ،بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا ،بم دھماکے کرنا ،سول آبادیوں اور نجی وسرکار ی عمارتوں کو تخریب کاری کا نشانہ بنانا ؛جب کہ جہاد کی تعریف اس کے برعکس یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی کے لیے کوشش کرنا ؛علاوہ ازیںاپنے حقوق کے تحفظ کے لیے جارحیت کا مقابلہ کرنا بھی جہاد ہے ۔

 مقاصد کے لحاظ سے فرق:  دہشت گردی کا بنیادی مقصد دراصل مادّی اغراض و مقاصد کا حصول ہے۔ اس لیے کسی خاص گروہ یا ملک پر کنٹرول کرنا، انہیں اپنا تابع فرمان یا حامی بنانایا انہیں غیرمستحکم بنانا یا انہیں اپنا آلۂ کار بنانا یا ان پر مسلسل خوف طاری رکھنا یا بد امنی کی فضا پیدا کرنا،یا وہاں اپنا سیاسی اثر و رسوخ پیدا کرنا۔یہ سب دہشت گردی کے اغراض و مقاصد میں شامل ہیں۔جب کہ جہاد کے اغراض و مقاصد میں ایسی کوئی ’بد معاشی اور غیر اخلاقی حرکت شامل نہیں؛بل کہ جہاد انتہائی نیک مقاصد اور ان ناگزیر صورتوں میں کیا جاتا ہے جن صورتوں میں ہتھیار اٹھانے پر دنیا کی کوئی قوم قد غن نہیں لگا سکتی ۔ جہاد جن اغراض و مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے اس کی تفصیل درج ذیل ہے:

(۱)…حقوق کا دفاع  (۲)…ظلم کا بدلہ (۳)…مقبوضات کی آزادی(۴)…مظلوموں کی مدد(۵)فتنہ وفساد کی سرکوبی(۶)داخلی امن واستحکام(۷)عہدشکنی کے خلاف ۔

            اس موضوع پر احقر کا مضمون شاہراہ علم اپریل،مئی۲۰۱۶ء(’’داعش‘‘خلافت اور جہادِ اسلامی کو بدنام کرنے کی اہم سازشی کڑی) کے عنوان سے دو قسطوں میں آچکا ہے وہاں تفصیل کے ساتھ اس کا فرق بیان کیا گیا ہے۔