/ویں قسط :
تالیف : الدکتور احمد حسین عبد الکریم ترجمانی : مفتی مجاہد اشاعتی پھلمبری
جامعات اور یونی ور سٹی میں قرآن کریم سے بے اعتنائی :
شیخ محمد دویش فرماتے ہیں : آج جب ہم وسیع پیمانہ پر جامعات اور یونی ور سٹیوں کے نصاب تعلیم میں نظر ڈالتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو ادیب مصطفی صادق رافعی کے ہم خیال پاتے ہیں ۔
چناں چہ موصوف فرماتے ہیں : ہمیں بہت ہی افسوس ہوتا ہے اور کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے ، دل چھلنی ہوتا ہے ، جب ہم موجودہ دور میں نئی نسل کو قرآن کریم اور اس کے احکام سے بے اعتنائی اور تجوید وقرأت سے لا پروا ہی برتتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ایک تو وہ قرآن کریم حفظ نہیں کرتے ، اگر تھوڑا بہت یاد کر بھی لیں تو بہت جلد اسے بھلا بیٹھتے ہیں ۔ پھر ایسے پروان چڑھتے ہیں جیسے بھیڑ ،بکری کے سینگ برابر تو اگتے ہیں لیکن برابری پرقائم نہیں رہتے ۔ اور ایسے نکلتے ہیں کہ اپنی زبان بھلا بیٹھتے ہیں ، اپنی قوم سے اجنبیت اختیار کرلیتے ہیں ۔ اور اپنے خون سے الگ ہو جاتے ہیں اور آداب واحکام سے بالکل نا واقف ہوجاتے ہیں اور یہ بات بھی کہنے سے نہیں شرماتے کہ ہماری حیثیت ، مقام اور مرتبہ کو پہچانو۔
بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرنے والوں کا حال :
ہر غیرت مند مسلمان کے دل میں یہ بات آتی ہے کہ ہم مدارس اور جامعات سے فارغ ہونے والی ایک بڑی جماعت کو دیکھیں۔ لیکن آج دنیا ئے اسلام میں بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرنے والوں کا حال یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کی صحیح طور پر تلاوت نہیں کرپاتے چہ جائے کہ اس کے کچھ پارے یا سورتیں حفظ یاد کرلیں ۔ اور کتنے جامعات اور یونی ورسٹیوں سے نکلنے والے ایسے فارغین اور فضلا ہیں جنہیں قرآن کریم کا تیسواں پارہ تجوید وقرأت کے اعتبارسے یاد ہوں ؟
اسلاف کا طریقہٴ کار :
دکتورہ اور ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے والوں کا حال تو یہ ہے کہ مکمل تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی انہیں قرآن کریم کی چند سورتیں یاد نہیں ۔جب کہ ہمارے اسلاف کا حال یہ تھا کہ وہ معلمین اور موٴدبین کو وصیت کرتے کہ اپنی اولاد کی تعلیم کا آغاز قرآن کریم سے کریں۔
حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ کی معلمین کو نصیحت :
ایک مرتبہ حضرت امام شافعی ہارون رشید کے ایک حجرہ میں داخل ہوئے اور آپ کے ساتھ ان کے خادم سراج تھے ۔ خادم نے آپ کو ہارون رشید کی اولاد کے استاذ وموٴدب ابو عبد الصمد کے پاس بیٹھا یا اور امام شافعی سے کہا اے ابو عبد اللہ ! یہ ہارون رشید کی اولاد ہے اور یہ ان کے استاذ ۔ اگر آپ کچھ وصیت کردیں تو بہتر ہوگا ، چناں چہ امام شافعی رحمة اللہ علیہ نصیحت کرنے لگے ۔ آپ نے ابو عبد الصمد سے فرمایا چاہیے کہ آپ ہارون رشید کی اولاد کی اصلاح کرنے سے پہلے خود کی اصلاح کرلیں۔کیوں کہ ان کی نگاہیں آپ پر جمی ہوتی ہیں ، ان کے نزدیک بہتر اور اچھا وہی ہوگا جس کو آپ بہتر سمجھیں اور قبیح و ناپسندیدہ وہ ہوگا جس کوآپ برا سمجھیں ۔ انہیں کتاب اللہ کی تعلیم دیں اور ان پر زور زبر دستی نہ کریں کہ وہ اکتا جائیں پھر انہیں پاکیزہ اشعار اور عمدہ کلام سناوٴ اور ایک علم سے دوسرے علم کی طرف منتقل نہ ہوں، یہاں تک کہ رسوخ حاصل نہ کرلیں۔ کیوں کہ بہت سارے کلام ایک ساتھ جمع ہوجانا سمجھنے میں دشوار کن ہوتا ہے ۔ بل کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کے لیے حضرات قرائے کرام کا انتخاب کیا کرتے تھے جیسا کہ ہارون رشید نے اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کے لیے امام کسائی کا انتخاب کیا تھا ۔
عربی زبان سے لا پرواہی :
قرآن کریم کو پڑھنے اور سمجھنے میں جو چیزیں معین ومدد گار ہوتی ہیں ان میں سے عربی زبان ہے۔ عربی زبان کے بغیر قرآن کریم اپنے متبعین پر دشوار ہوجاتا ہے ۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں : ﴿انا انزلناہ قرآنا عربیا لعلکم تعقلون﴾ (یوسف: ۲) ہم نے قرآن کریم کو عربی زبان میں اتارا تاکہ تم سمجھو۔ اور عربی زبان سے بے اعتنائی اور لاپرواہی کا سبب درس وتدریس میں عربی زبان کی نشر واشاعت کا مطالبہ ہے ۔
استاذ محمد رشید رضا رقم طراز ہیں : اور ان ہی میں سے بعض لوگ وہ ہیں جو قرآن کریم کی زبان خاص کو عام شہری اور علاقائی زبان میں بدلنا چاہتے ہیں اور مقصد اس بدلنے سے مسلمانوں کو ہدایت اسلام اور اعجاز قرآنی سے روکنا ہے ۔
رافعی فرماتے ہیں : ہمیں ایسی کوئی بات نہیں جو اس بات پر دلالت کرتاہو ، علاقائی زبان تاریخ کے کسی دور میں اتنی عام ہوتی ہو ۔ اس کے ذریعہ کسی چیز کو مدون کیا گیا ہو۔ اور آج کے زمانے میں تو علاقائی اور شہری زبانیں عام ہوگئی ہیں اور اس کے صحائف شائع ہوچکے ہیں اور اس کو مستعین پڑھتے بھی ہیں اور اس کو کہتے بھی ہیں ۔ اور یہ فساد زمانہ کی وجہ سے ہوا اورعقیدہ سے اور جہالت علمی سے انحراف ہے ۔ جیسے بعض ملکوں نے قرآن کریم کو اپنی زبان میں پڑھنا شروع کردیا ۔ (جاری …)