اغیارکی روش باعثِ ہلاکت

بہ قلم: مفتی عبدالقیوم صاحب مالیگاوٴں/استاذجامعہ اکل کوا

یتیم وبے سہارانہیں چھوڑا:  

            اسلام ایک کامل ومکمل دین اورمذہب ہے ۔اِس کاکوئی شعبہ تشنہ اورناقص نہیں ہے ۔اسی آفاقیت اور جامعیت نے اس کوبین المذاہب آفاقی اورخیرالادیان بنادیاہے ۔ جس کی تکمیل کااعلان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان فیضِ ترجمان سے حجة الوداع کے موقع پر اُس تاریخی دن میں﴿ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ و َاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾کے ذریعہ کردیاگیاتھا ۔آیتِ مبارکہ میں تکمیلِ دین ایمان کے ساتھ یہ بھی واضح کردیاگیاکہ میں نے تمھارے لیے بہ حیثیتِ دین اورمذہب کے؛ اسلام کوپسندکیاہے اور میں اِسی سے راضی اورخوش رہوں گا۔اس کے علاوہ کوئی دین ومذہب مجھے گوارا نہیں۔اوردوسری جگہ پراللہ تعالیٰ نے ﴿ وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَالْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ﴾فرماکر اِس کی بھی وضاحت کردی ہے ۔ یعنی اسلام کے علاوہ جوبھی دین ہوغیرمقبول ہے ،اس پرکام یابی کی سندیاضمانت نہیں،بل کہ اسے اختیارکرنے والاآخرت میں خسارہ والاہوگا۔

ہرشعبہٴ زندگی کی رہ نمائی:

            ہمیں اورتمام اہل ایمان کواللہ کی اِس نعمتِ عظیمہ پر فرمان خداوندی﴿لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ﴾ کے مطابق بے حد شکراداکرناچاہیے کہ اُس نے ہم کوایمان عطا کیا۔ اسلام جیسامنصف اورآفاقی مذہب عنایت کیا۔جس نے زندگی کے کسی گوشہ اورشعبہ میں ہمیں بے سہارااور یتیم نہیں چھوڑا،بل کہ ہرموقع اورہرشعبے کی رہبری اوررہ نمائی بدرجہ اتم کردی۔

چاردن کی چاندنی پھراندھیری رات ہے:

            لیکن کوئی کیاکرے گردشِ زمانہ اوروقت کی رفتارکا،براہودنیاکی چمک دمک اوراُس کی ریل پیل کا، ہر سو دولت کی بھرمارکا، جس نے ہماری آنکھوں کو خیرہ،چکاچوند اورقلب ودماغ کوماوٴف کردیا۔دوسری قوموں کے (Life Standard)معیارِ زندگی سے متاثر ہو کر یا دنیااوراس کی رنگینی سے مرعوب ہوکر آخرت کے عواقب اوراس کے انعامات سے غافل بن کر تھوڑے مزے ،جزوقتی بہاراورچند روزہ عیش کے لیے سِرے سے دینِ اسلام ہی کودورسے سلام پیش کرتے ہوئے الوداع اورخیربادکہہ رہے ہیں۔یہ سب کچھ اپنی جگہ؛لیکن اِس کی حقیقت کوبھی یادرکھناچاہیے کہ ”چاردن کی چاندنی ،پھراندھیری رات“سے زیادہ نہیں ہے۔ گذشتہ ماہ یکم اکتوبر کو ”باغپت“ مغربی یوپی کے اس گاوٴں میں ہونے والادلخراش اوردل دوزحادثہ ہماری اِس بات کوسمجھنے کے لیے کافی ہے۔علاوہ ازیں ملک میں چل رہی ارتداد کی سونامی دخترانِ ملت اورمسلم بچیوں کے غیرمسلم لڑکوں کے ساتھ ناجائز تعلقات ، پھراس کے بعددین اسلام کا سودا کرتے ہوئے اُن سے بیاہ اورشادی کرنابھی اِس کی بڑی دلیل ہے ۔ جیساکہ اس طرح کے واقعات کو بڑی تفصیل کے ساتھ مولاناالیاس صاحب ندوی#،بھٹکلی مدظلہ نے تحریرفرمایاہے ۔ اوراب تویہ واقعات روز کامعمول ہی بن چکے ہیں،جونہ صرف اہل اسلام کے لیے ذلت ورسوائی کاباعث ؛بل کہ اسلام کی جگ ہنسائی کابھی ذریعہ ہے ۔اِس کے اسباب وعوامل پر غورکرنے سے صاف طورپر یہی معلوم ہوتاہے کہ امت کے بنیادی طور پر دو طبقات ہیں۔

امت کے طبقات:

            پہلاطبقہ: جاہلوں،ناخواندہ اوراَن پڑھ لوگوں کاہے۔

            دوسراطبقہ: تعلیم یافتہ ،گریجویشن اورپڑھے لکھے لوگوں کاہے ۔

اُن کوپسندہی نہیں: 

            اول الذکر تواپنی جہالت اورناواقفیت کی وجہ سے عقائدکے فساداورغیرشرعی رسوم ورواج کی بھینٹ چڑھاہواہے ،بل کہ اپنے اعمال وحرکات سے شرک کی گندگی میں مبتلاہے۔ثانی الذکرطبقہ میں پھردوقسم ہے۔پہلی قسم اُن تعلیم یافتہ لوگوں کی ہے ،جودین کی بنیادی اورضروری باتوں سے بھی نابلداورناواقف ہیں ۔اُنھیں ایمان، توحید ،نماز،روزہ اورحج کے متعلق ضروری اورفرض کابھی پتانہیں۔دوسری قسم اُن تعلیم یافتہ نسلِ نوکی ہیں،جودین اسلام اوراس کی تعلیمات سے بے زارہیں۔وہ اسلام کی تعلیمات اوراُس کی شاہراہ پرنہ چلناچاہتے ہیں،بل کہ اس کوناپسندہی کررہے ہیں۔وہ اپنے رشتہ کواسلام سے جوڑنے اوراس کے مطابق زندگی گذارنے میں عار،شرم اور ہلکاپن محسوس کررہے ہیں۔یعنی پہلی جماعت دین سے ناواقفوں کی ہے تودوسری دین سے بے زاروں کی۔پہلی جماعت کوجہالت اورعقیدے کی خرابی نے مشرک بناکرتباہی کے غارمیں پہنچادیاتودوسری کودین بے زاری نے ارتدادکے بہت قریب کردیا۔ اورہلاکت تودونوں کی یقینی ہے ۔اب ہم اِس صورتِ حال کے اسباب ومحرکات پر نظرڈالتے ہیں توپتاچلتاہے کہ اِس کے تین اسباب ہیں۔

            پہلاسبب: والدین اورسرپرستوں کااپنی اولاداوراپنے ماتحتوں کودین کی بنیادی تعلیم اورضروری باتوں سے دوررکھنااورگھرمیں انھیں دینی ماحول نہ دیناہے ۔جب اپنا گھرہی دینی ماحول اوراسلامی باتوں سے خالی ہوگا، بل کہ اس کے لیے پیاساہوگا،جب دین واسلام کوگھرمیں جگہ نہیں ملے گی توخودہی فیصلہ کریں کہ اُس گھراورماحول میں پنپنے والی نسل اسلام اوراس کی تعلیمات کوکیسے اورکہاں جاکر جانے گی اور سمجھے گی ؟بل کہ اجنبیت کی وجہ سے اس سے اورنفرت اور بے زاری کا اظہار کرے گی۔

            دوسراسبب: مخلوط نظام تعلیم ہے ۔ہمارے بچے اوربچیاں جن اسکولوں،کالجوں اوریونی ورسٹیوں میں تعلیم لینے جاتے ہیں،اُس میں نہ اللہ اوررسول کی بات ہوتی ہے ،نہ دین واسلام کی ۔وہاں توکم لباسی ،نیم عریاں لباس اورفحاشی کے علاوہ لبِ سڑک بے دھڑک ایک دوسرے کے ساتھ نظربازی ،پھرکھلے عام ایک دوسرے کے ساتھ گھومناپھرناگرل فرینڈاوربوائے فرینڈ ، جیسی جدید اصطلاحات کے سہارے زندگی کے ناجائز مزے لوٹنے کے سوااورکیاہیں؟کیایہ سچ نہیں ہے کہ

ہوتی ہے محبت کی دنیا کو خبر پہلے

دل بعد کو ملتا ہے ، ملتی ہے نظر پہلے

            یہاں کسی منکرپرنکیرکاسوال ہی جنم نہیں لیتاہے ۔بل کہ سچ تویہ ہے کہ منکرکومنکرہی نہیں سمجھاجاتاہے ۔ستم بالائے ستم یہ کہ تربیت وتعلیم کادیوتا ؛یعنی معلم وٹیچرہی کسی میڈم یاحسین وجمیل گرل کاعاشق نامرادبن کرتہذیب کی دھجیاں اڑاتااورعفت وعصمت کی چادرپھاڑ کرپھینک دیتاہے ۔اب تویہی کہاجاسکتاہے کہ ”اس گھرکوآگ لگ گئی گھرکے چراغ سے“

            تیسراسبب: غیروں کی نقالی،اُن کی دولت وثروت اورمعیارِ زندگی سے متاثرہونا۔پھراپنے (Life Standard)یعنی معیارزندگی کوبڑھانے اورچمکانے کے لیے حلال وحرام اورجائز وناجائز کی تمام حدوں کوپار کر جانااورمن چاہی خواہشات کے لیے ہراُس راستہ سے گذرنا،جس پرتہذیب وحیاسے عاری ،مذہب کی بندشوں سے آزادقومیں چل رہی ہیں۔حاصل یہ کہ اس وقت پوری دنیامیں لوگوں نے تین چیزوں کوخدابناکراُس کے سامنے جھکے ہی نہیں،بل کہ اوندھے منہ گرے پڑے ہیں۔(۱)عزت(۲)شہرت اور(۳)دولت۔جب کہ تینوں ہی چیزیں انسان کے اپنے اختیارکی نہیں ہیں،بل کہ اللہ رب العالمین جس کوجودیناچاہے اورجب دینا چاہے ۔ اور جب جس سے تینوں چیزیں چھیننا چاہے، وہ قادرمطلق ہے ۔

آسانی سے ہونے والے شکار:

            حدیثِ پاک کی معتبرومستندبات ہے کہ جس طرح ریوڑ سے بچھڑنے والی بکری کوبھیڑیابہت آسانی سے شکارکرلیتاہے،اسی طرح دین سے ناواقف اوردینی ماحول سے دورنوجوان لڑکے اورلڑکیوں کے لیے ذہین اورہوشیارصیادکے جال میں پھنسنا،بل کہ اُن کے کھودے ہوئے کنویں میں گرنابہت آسان ہوجاتاہے ۔اُس وقت اُنھیں احساس بھی نہیں ہوتاکہ وہ اپنی سب سے قیمتی متاع؛یعنی ایمان کومحبت نام کی جس کوڑی کے عوض بیچ رہے ہیں،چنددنوں کے بعداُنھیں وہ کوڑی بھی ہاتھ نہیںآ ئے گی۔بل کہ اُن کوجس ذہنی اورنفسیاتی تکلیف سے گلے ملناپڑ ے گااُس کااندازہ بھی اُن کونہیں ہے ۔اُن کاحال توضیاء القاسمی# کے بہ قول

مجھ کو خدا ملا نہ صنم ہی ملا ضیاء

دونوں کے درمیان میں الٹا لٹک گیا

والا ہوگا۔یعنی”نہ گھرکے نہ گھاٹ کے“

ایم ڈی آسیہ کاواقعہ:

            چناں چہ ابھی ”ارمغان“ کے تازہ شمارہ میں”دخترانِ ملت ارتدادکے دہانے پر“اِس عنوان کے تحت مضمون نگارنے اپنے علاقہ کاتازہ واقعہ قلمبندکیاہے ۔کہ نلگنڈہ کے تیرتی مقام کی ایم ڈی آسیہ اسی مقام سے تعلق رکھنے والے غیرمسلم سری نواس کے درمیان عاشقی چل رہی تھی۔نکاح سے انکارپرآسیہ نے سری نواس کے گھرکے پاس احتجاج کاآغازکیا۔دوسرے دن اُسی مقام کے ذی اثرافرادنے اس کی حمایت کرتے ہوئے پولیس میں شکایت درج کرا دی۔پولیس اسٹیشن طلب کرتے ہوئے مقامی عوام کی موجودگی میں چھ ماہ قبل شادی کرادی۔چھ ماہ کے اندرآسیہ حاملہ ہوگئی ، جس پرشوہرنے فوری حمل ضائع کرنے پرزوردیا،لیکن بیوی نے انکارکیا ۔جس کی وجہ سے شوہر نے جان سے مارنے کی دھمکی دی۔بیوی آسیہ انکارکرتے ہوئے والدین کے گھر”ملی واڑی گوڈم“نامی مقام پرچلی گئی۔۱۹/ اگست کی شام کو مکان میں تنہادیکھ کرسری نواس نے چاقوسے حملہ کرکے اُس کاگلاکاٹ دیا۔کچھ ہی دیرمیں خون سے لت پت ہو کر ڈھیر ہو گئی۔ چند لمحوں میں آسیہ کی کہانی توختم ہوگئی،لیکن اُس نے ملت اسلامیہ کے سرکو شرم سے جھکادیا۔

ذمہ داری کس پرہے؟:

            لہٰذااِن شرم ناک؛ بل کہ ہوش رباحالات میں اسباب وعوامل کے تناظرمیں بڑی ذمہ داری،تیقظ اور بے دار مغزی کے ساتھ خودوالدین اورسرپرستوں کواورقوم کے ذمہ دار،بااثراورحضراتِ علمائے کرام کواپنی ذمہ داری نبھاناہوگا۔کیوں کہ اب وقت کنویں کوخودپیاسے کے پاس جانے کاآگیاہے ۔اولاً نسل نوکودین کی ضروری اوربنیادی باتوں سے واقف کرانا۔خصوصاًعقائدِ حقہ سے روشناس کرانا۔اورزیادہ سے زیادہ اُنھیں دینی ماحول فراہم کرنے کی پوری کوشش کرنا۔اِس کے لیے علماکی خدمات حاصل کرکے ایک فرصت کے وقت اُن کی کلاس لی جائے۔ اورلڑکیوں کے لیے معلمات اورنیک سیرت عالمات کوبلواکرجگہ جگہ بیانات کاسلسلہ جاری کیاجائے ۔ ساتھ ہی گھروں میں کسی دینی کتاب؛مثلاً” بہشتی زیور“ کی تعلیم جاری کی جائے ۔اسی کے ساتھ جن کے لڑکے اور لڑکیاں مخلوط عصری تعلیم گاہوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں،انھیں ایسے کالجوں اوراداروں سے علاحدہ کرکے غیر مخلوط نظام تعلیم سے جوڑنا۔

نئی نسل کاخیال:

            اورجولڑکیاں اِس طرح کے ماحول سے متاثرہوچکی ہیں،اُن کی ذہن سازی کے لیے ضروری ہے کہ اُنھیں کی دین داراورنیک صفت سہیلیاں اورہم جولیاں ان کودین وایمان اوراسلام کی قیمت و عظمت سمجھائیں اور اسلام کی بنیادی ضروری باتوں سے واقف کرائے،تاکہ گم راہ ہونے سے بچ جائے۔ کیوں کہ نسل نوکوبڑوں کی باتیں فرسودہ اورفضول بکواس معلوم ہوتی ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ ﴿اِنْ ھٰذَآ اِلَّا ٓ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ﴾یعنی یہ سب دقیانوسیت کی کتابیں، پرانے ڈھکوسلے اورکہانیاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ﴿ بَلْ وَجَدْنَآ اٰبَآءَ نَا کَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ ﴾کی پٹری سے ایک انچ بھی ہٹنا نہیں چاہتے ۔

یہ اصل ٹھکانانہیں ہے:

            مذکورہ بالا محنتوں کے ساتھ ہی یہ بات ہم سب بالکل نہ بھولیں کہ ہم ایمان والے ہیں اورایمان والوں کے لیے راحت وآسائش کاٹھکانا آخرت ہے نہ کہ دنیا۔صاف اورواضح طورپرسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”الدنیاسجن للمومن وجنة الکافر“یعنی دنیااہل ایمان کے لیے قیدخانہ ہے اورقیدخانہ تکالیف کی جگہ ہے نہ کہ راحت کی ۔اوریہ بات سب کومعلوم ہے کہ قیدخانے میں کُٹائی پسائی ہوتی ہے،وہاں پاوٴں پجائی نہیں ہوتی۔اس کے باوجوداس میں کچھ راحت وآرام مل بھی جائے تویہ عارضی ،وقتی ،چندلمحوں کی مہمان اورغنیمت ہے۔لیکن دنیاکی سرسبزی اور شادابی پررال ٹپکانا،اسی میں ڈُبکی لگانااوراس کے چندروزہ عیش کے لیے اسلام کی ابدی راحت اورکام یابی سے ہاتھ دھو لینابڑے گھاٹے کاسوداہے ۔جوابھی تونہیں،لیکن دنیاکی آنکھ بندہونے کے بعدسمجھ میں آئے گا۔ جیساکہ کسی عربی شاعر نے کہاہے کہ

فسوف تریٰ اذاً نکشف الغبار

أ فرش تحت رجلک ام حمار

کہ دنیامیں گھوڑسواری کررہے تھے یاگدھاسواری؛فیصلہ آخرت میں ہوجائے گا۔بس تھوڑاساانتظارکرلیجیے۔

آرام گاہ یاامتحان گاہ؟:

            یہ دنیاتوہمارے لیے ایک امتحان گاہ ہے نہ کہ آرام گاہ یادائمی قیام گاہ۔اوریقینابڑی سرسبز وشاداب اور آنکھوں کو چکا چوند کرنے والی،دلوں کولبھانے والی،اپنے عشق میں پھنسانے والی،گم راہی کے دَلدل میں لے جانے والی اور اپنے دام فریب میں پھانسنے کے لیے بڑی ہی تیزرفتار اورہوشیارہے ۔اِس بات کوحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے اورجامع الفاظ کوکس خوب صورت اورسبق آموز اندازمیں بیان کیاہے وہ آپ بھی دیکھ لیں۔”إن الدنیاحلوة خضرة وأن اللّٰہ مستخلفکم فیہا فناظرة بماتعملون “کہ یہ دنیامیٹھی اورہری بھری ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمھیں اِس میں جانشین بنایاہے۔اوراب وہ تمھیں دیکھناچاہتا ہے کہ تم یہاں پر رہ کرکیسے اعمال کرتے ہو؟ اچھے اورنیک اعمال کرکے جنت کے وارث بنتے ہویااپنی بدعملی کاثبوت پیش کرکے جہنم کا(Air Condition) خریدتے ہو۔

یہ دنیافناکے گھاٹ اترجائے گی:

            اورخودخالقِ دنیاوالآخرةنے اِس دنیاکولہوولعب سے تعبیرفرماکرہمیں اس کی حقارت،بے ثباتی اور ناپائیداری خوب اچھی طرح سمجھادی ہے ۔پارہ ۲۱/ میں ارشادفرمایاگیاہے:﴿ وَمَا ھٰذِہِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَھْو’‘ وَّلَعِب’‘وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ لَوْکَانُوْا یَعْلَمُوْنَ﴾ اورآخرت کاگھرہی تمام باشندگانِ کائنات کا اصل ٹھکانااور ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے ۔اس لیے دانائی اورعقل مندی بھی یہی ہے کہ فانی کوحاصل کرنے کے لیے باقی کو نظر انداز نہ کیاجائے ۔کیوں کہ فانی کاملنایقینی نہیں اوراگرمل بھی جائے تو اُسے باقی رہنا نہیں ہے۔ جب کہ باقی کاملنابھی یقینی ہے اوربقابھی اسے لازم ہے ۔ ”اللہ کرے اترجائے تیرے دل میں میری بات“

ایک بات کا رونا ہو تو رو کر صبر آئے

سو بات کے رونے کو کہاں سے جگر لائے