ہوئے ناموربے نشاں کیسے کیسے!

            مولانامسعودعالم مظاہری/ جامعہ اکل کوا

اعینی جودا و تجمدا

الا تبکیان لصخر الندی

الا تبکیان الجری الجمیل

الا تبکیان الفتی السیدا

طویل النجاد عظیم الرماد

وساد عشیرتہ امردا

            ترجمہ:اے میری آنکھو!خوب آنسو بہاؤ اور آنسو بہا بہا کر خشک ہو جاؤ ،کیا تم صخر جیسے سخی پر نہیں رووٴگی !کیا تم اس شخص پر نہ رووٴگی جو جری،بہادر اور جمیل و خوب صورت تھا۔کیا تم ایک جوان مرد سردار پر نہیں روؤ گی جس کا سرو قد اونچا اور دراز تھا ،جو کمسنی ہی میں اپنے قبیلہ کا سردار بن گیا۔

            یہ اشعارنجد کی رہنے والی مشہور صحابیہ جن کااصل نام ”تماضر“اور اُن کالقب یا تخلص”خنساء“ تھا۔ مذکورہ اشعار خنساء بنت عمرو رضی اللہ عنہا کے ہیں،جو انہوں نے اپنے بھائی صخر کی موت پربہ طور مرثیہ کہے تھے۔ حضرت خَنساء رضی اللہ عنہا کو اپنے بھائی صخر سے بہت محبت اوربڑاپیارتھا۔وہ اپنے بھائی کے مرنے کے بعد اس کی جدائی میں روتی تھیں۔انہوں نے بڑے درد بھرے اشعار اپنے بھائی کے لیے کہے۔اسی وجہ سے”ارثی العرب“ (عرب کی سب سے بڑی مرثیہ گو)کے لقب سے مشہور ہوئیں۔اُن کے اشعار کی فصاحت و بلاغت کا ہمعصر شعراء بھی لوہا مانتے تھے ۔

دل رورہاہے:

            میری نظر جب اِن اشعار پر پڑی تومیرے دل نے فوراً ہی یہ شہادت دی کہ حضرت خنساء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ اشعار ہماری طرف سے ہمارے محبوب ،ہمارے مخدوم ،غریبوں یتیموں کے سہارا ،کانگریس کے ہر دل عزیز لیڈر،قوم کے سچے مسیحا ،امت کے غم خوار حضرت مولانا اسرار الحق صاحب رکن شوریٰ دار العلوم دیوبند اور ممبر آف پارلیمنٹ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔مذکورہ اشعار میں کون سی خوبیاں ایسی ہیں ،جو مولانا مرحوم کے اندر نہیں پائی جاتی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ اُن کی جدائی کا غم کسی طرح کم نہیں ہوتا اور یہ اتنا آسان بھی نہیں لگتا۔ کون سا لمحہ ایساہے ، جب حضرت مولاناکی یاد نہ ستاتی ہو! کون سا موقع ایساہے جہاں حضرت مولانا اسرار الحق صاحبکا تذکرہ آتے ہی آنکھوں سے بے تابانہ آنسو نہ بہتے ہوں!بل کہ حال یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کے فراق میں آنکھیں روتی ہیں لیکن حضرت مولانا مرحوم کے فراق میں مرغ بسمل کی طرح دل تڑپتا ہوا رو رہا ہے۔

صداقتِ اشعار؛برمولانااسرار:

            حضرت خنساء رضی اللہ تعالیٰ عنہا تو اپنے بھائی کی صفات شمار کر کے روتی ہیں۔ اور ان کی سخاوت، بہادری، سرداری اور خو ب صورتی کا تذکرہ کرتی ہیں۔لیکن اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت مولانا اسرار الحق صاحبواقعتا سخی تھے، بہادر تھے،وہ دارز قد بھی تھے اور سردار بھی تھے، خوب صورت بھی تھے اور جوان رعنا بھی؛ حضرت مولانا اسرار الحق صاحب تو بلا مبالغہ جوانی ہی میں سیمانچل حلقہ اور اپنے خاندان میں سرداری کے منصب پر فائز ہو گئے تھے ، لیکن اس سرداری کے باوجودو ہ”من تواضع للّٰہ رفعہ اللّٰہ“ کے مطابق تواضع اور اخلاص و وفا کی چلتی پھرتی اور جیتی جاگتی تصویر تھے۔اور وہ ایسا سورج تھے جو دن کی طرح رات میں بھی اپنی روشنی بکھیرتے تھے ،وہ امت کے لیے فرمان خداوندی﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا﴾ کے مطابق اتحادو اتفاق کی ایک علامت تھے ،وہ ملک و ملت کے ہر درد کے درماں سمجھے جاتے تھے، دنیا کے کسی کونے میں بھی مسلمانوں پر کوئی آزمائش یامصیبت آئے ”خنجر چلے کسی پر تڑپتے ہیں ہم امیر“ کے مطابق مولانا مرحوم بے قرار، بے چین اور پریشان ہو جاتے تھے،ان کی نیند حرام ہو جاتی تھی۔ایسے وقت میں آپ پر لوگوں کی نگاہیں ہوتیں اور واقعی وہ اپنی بے تابانہ، جرأت فرزانہ ،تدبیر حکیمانہ اورقیادت سردارانہ کے ذریعہ اس مشکل کی عقدہ کشائی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے ۔انہوں نے زندگی بھر سرداری کے بجائے وصف خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر ہمیشہ خادمِ ملک وقوم بننا ہی پسند کیا،تو بھلا ایسے مخلص،دیانت دار،ایمان دار،بے باک اوربے لوث خادم ملک وملت پر کیوں نہ رویا جائے؟ قارئین ہی فیصلہ کریں کہ اگر رویا نہ جائے تو پھر کیا کیا جائے؟لیکن ہمارے لیے بہتر یہ ہے کہ رونے کے بجائے ہم موصوف مرحوم کی خوبیوں کو اپنے اندر اپنانے کی فکر کریں اور موصوف کی طرح ملک و ملت کا خادم بن کر چمکیں۔

آپ کی پیدائش:

            آپ کی پیدائش ایسے وقت میں ہوئی ،جب کہ ہندستان پر انگریزی حکومت کا سورج چمک رہا تھا۔آپ کی پیدائش ۱۵/فروری ۱۹۴۲ء کو ضلع کشن گنج کے ”ٹپو گاؤں تاراباری چوک“میں ہوئی۔آپ کے والد کا نام منشی عمیدعلی تھا۔

علمی سفر:

            ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مختلف مدارس کا سفر کیا۔اس کے بعد ایشیاکی مشہور و معروف درس گاہ ام المدارس دار العلوم دیوبند کا رخ اختیار کیا۔وہاں تعلیم میں مشغول ہوئے اور مادر علمی میں رہ کراساتذہٴ علم و فن سے کسب فیض کیا۔اور آپ نے ۱۹۶۴ء میں سند فراغت حاصل کی۔

بیعت و خلافت:

            آپ نے بیعت و سلوک کے سفرکے لیے سہارن پور کا رخ کیا ۔اور وہاں پہنچ کر سب سے پہلے حضرت مولانا مفتی شاہ مظفر حسین صاحب مظاہری# سے اپنا تعلق جوڑا ۔اور اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کو ان کے نقشے قدم پر چلاتے رہے۔ان کے اس دنیا سے روپوش ہو جانے کے بعد آپ نے بقیة السلف حضرت مولانا قمر الزماں صاحب الہٰ آبادی مد ظلہ العالی کے دست مبارک پر تجدید بیعت کی اور خلافت سے سرفراز فرمائے گئے۔

شادی اوراولادیں:

            ۱۶/مئی۱۹۶۵ء اتوار کے دن آپ ازدواجی زندگی سے آمنہ خاتون کے ساتھ منسلک ہو گئے۔جن سے آپ کی پانچ اولادیں ہوئیں۔تین لڑکے جن کے نام :جناب سہیل اسرار،مولانا سعود اسرار ندوی ازہری،جناب فہد اسرار۔ اور دو لڑکیاں ہوئیں ۔

علمی کارنامے :

            آپ نے درجنوں کتابیں تحریر فرمائی ہیں،جن میں سے چند کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ۔(۱)سلگتے مسائل (۲)ہندستانی مسلمان:مسائل اور مزاحمتیں(۳)دعا؛عبادت بھی اور حل مشکلات بھی(۴)دین فطرت (۵) اسلام اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں(۶)ہندستانی مسلمان اور ان کی ذمہ داریاں(۷)خطبات لیسٹر(۸)عورت اور مسلم معاشرہ(۹)حقیقت نما(۱۰)انسانی اقتدار اور سیرت کا پیغام۔

سماجی و رفاہی کارنامے:

            امت مسلمہ کے لیے بالعموم اور سیمانچل حلقہ کے لیے بالخصوص رفاہی و سماجی کارنامے انجام دیے۔منجملہ ان کارناموں کے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی شاخ سیمانچل میں قائم کروایا۔ آپ نے خاص کر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ”ملی گرلز اسکول“ٹپو کشن گنج میں قائم کیا ۔اس ادارے میں سیکڑوں لڑکیاں اسلامی ماحول میں عمدہ تعلیم و تربیت حاصل کر رہی ہیں۔ اس اسکول میں دار الاقامہ کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی عصری تعلیمی سہولیات بھی موجود ہیں ۔ یہ اسکول اس علاقے میں اپنی نوعیت کا واحد اسکول ہے،جوقوم وملت کی لڑکیوں کو زیور علم سے آراستہ کر نے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

تنظیموں سے وابستگی:

            آپ نے۱۹۹۰ء کی دہائی کے اواخر میں ایک تنظیم بنام”آل انڈیا ملی و تعلیمی فاؤنڈیشن “کی بنیاد ڈالی اور تا حیات اس کے صدررہے ۔اس ضمن میں مولانا نے ایک عرصہ تک کام کرنے کے بعد آل انڈیا ملی کونسل کو خیر باد کہہ دیا۔اب ان کی توجہ پوری طرح اپنی تنظیم پر لگ گئی ۔ انہوں نے ذاکر نگر دہلی میں ہی اس کا دفتر قائم کیا اور بہت ہی خستہ حالی میں کام کرنا شروع کیا۔مولانا چھو ٹے چھوٹے مکاتب پر کا م کرنا چاہتے تھے،ان کا خیال تھا کہ اگر دین اسلام کو بچوں کی رگ رگ میں داخل کرنا ہے تو پھرمکاتب کا قیام بہت ضروری ہے ۔انہوں نے اس خدشہ کا بھی اظہار کیا تھا کہ آئندہ چل کر مجموعی حالات ایسے بننے والے ہیں کہ مسلمان اپنی مادی ترقی کی خاطر دین کے بنیادی احکام و مسائل کی اہمیت کا احساس ہی کھو دیں گے۔مولانا اسرارالحق مرحوم نے اس سلسلہ میں بیرون ملک کے بھی کئی دشوار گزار سفر کئے اور بہت جلد انہوں نے ۱۶۰/سے زیادہ مکاتب قائم کر دیے۔انہوں نے دہلی اور یوپی کی سرحد پر لونی میں ایک مدرسہ” الفلاح“ بھی قائم کیاجودن بہ دن ترقی کی طرف گامزن ہے ۔

ملکی و ملی کارنامے:

            ۱۹۶۴ء میں دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد اولا ًمدرسہ رحیمیہ مدھے پورہ میں خدمت انجام دی پھر ۱۹۶۸ء میں مدرسہ بدر الاسلام ضلع بیگو سرائے میں منسلک ہوئے اور تقریباً پانچ سال تک بیش بہا خدمات انجام دیا ،لیکن آپ کی طبیعت مدرسہ کی چہار دیواری میں قید ہو کر رہنا نہیں چاہتی تھی،اس لیے ترک ملازمت کرلی۔

جمعیةعلماسے وابستگی:

            آپ سماجی اور ملکی حالات پر گہر ی نظر رکھتے اور اس کے حل کے لیے پیش پیش رہتے ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت ہی قلیل مدت میں آپ کی خدمات کو دیکھتے ہوئے اکابر جمعیة علمائے ہند نے جمعیة کے پلیٹ فارم سے خدمات انجام دینے کے لیے آپ کو۱۹۷۳ء میں منتخب رکن کیا اور۱۹۸۱ء سے جنرل سکریٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔چناں چہ اس پلیٹ فارم سے آپ کو قومی وملکی سطح پر سماج کے ہر فرد اور طبقے تک پہنچنے کا موقع ملا۔ جمعیة کے پلیٹ فارم سے ملکی وملی حالات جاننے کے لیے ہندستان کے گوشے گوشے میں جاکران کے حالات سے آگاہی حاصل کی اورمسائل کے حل کے لیے موٴثرقدم اٹھایا۔جمعیة علماکی تاریخ میں شایدہی کوئی ایساہو،جس نے اتنے دورے کیے ہوں گے۔ آپ نے اپنی مفوضہ ذمہ داری کو اس حسن خوبی کے ساتھ انجام دیاکہ تاریخی اوراق میں ہمیشہ یادرکھے جائیں گے ۔

وفات /جنازہ و تدفین:

            قوم وملت کانگہ بان،بہترین ادیب وقلم کار،کانگریس کامحبوب لیڈر ، غریبوں اور لاچاروں کاسہارا، ہر ایک کی مصیبت میں کام آنے والا،حق کا داعی اورزندگی بھرکا تھکا مسافربالآخر ﴿کل نفس ذائقة الموت﴾ کے مطابق ۷/دسمبر۲۰۱۸ء کی رات تقریباًصبح کے ۳/ بج کر۳۰/ منٹ پر دل کا ایسازبردست دورہ پڑا، جو جان لیوا ہی ثابت ہوا ۔اوراس طرح ۷۶/سال کی عمر پا کرملک وملت کے علاوہ اپنے محبین ومخلصین اوراہل سیمانچل کو روتا بلکتااورسسکتاچھوڑ کراِس دنیاسے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوا۔اناللہ واناالیہ راجعون)

آخر وقت تک موصوف مرحوم دین ہی کے کاموں میں مشغول رہے۔ بل کہ موت کی رات بھی آپ نے سیرت کے جلسہ میں شرکت فرماکر تقریر فرمائی۔”آسماں ان کی لحدپرشبنم افشانی کرے“

            جمعہ کے دن سہ پہر۳/بجے ”ملی گرلس اسکول“تاراباری ضلع کشن گنج کے احاطہ میں نماز جنازہ عالم ربانی حضرت مولانا انوار عالم کی امامت میں ادا کی گئی۔جب مولانامرحوم کے وفات کی خبر بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے سنی تو انہوں نے سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کا حکم جاری کیا۔ لیکن حضرت نے وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد سادگی کے ساتھ دفنا دینا ،مجھے کسی طرح کا کوئی اعزاز نہیں چاہیے۔اس لیے مولانا کی لاش کو سرکاری اعزاز کے مطابق ترنگے میں نہیں لپیٹا گیا ۔دو ڈھائی لاکھ لوگوں نے مولانا اسرار الحق صاحب قاسمی کے جسد مبارک کو آپ کی وصیت کے مطابق سادگی کے ساتھ سپرد خاک کر دیا ۔

             اللہ سے دعا ہے کہ رب العالمین ہمیں ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اورپس ماندگان کوصبرجمیل عطا فرمائے۔آخر میں ہم اِن اشعار پر اپنا قلم روکنے جارہے ہیں

رنج کتنا بھی کریں اُن کا زمانے والے

جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے

جانے والے تیرے مرقد پہ کھڑا سوچتا ہوں

خواب ہی ہو گئے تعبیر بتانے والے