آخری قسط:
مولانا ناظم ملی /استاذ جامعہ اکل کوا
نئی تہذیب سے ہوشیار یہ تاریک اجالا ہے:
مغربی تہذیب کی تمام تررعنائیاں اور جمال آرائیاں حکومتوں کی وسعتیں اور اقتدار کی ہما ہمی اس کے لیے وبال ہیں ۔اور بے چینی و اضطراب اس کامقدر بن چکا ہے ۔ ظاہری روشنیوں کے باوجود اس کی فکری راہ روشن نہیں تاریک ہے ۔اور اس کی نظر باریک لیکن روح تاریک ہے، جہاں خالص محبت اورخالص خداپرستی کانام نہیں اوراس کی نظر میں صنف نازک سب سے زیادہ ذلیل وخوارہے۔
اسلام رحمت کی برکھا :
دنیا میں برائیوں کادور شباب زمانہ جاہلیت کو کہا جاتاہے۔ جہاں ہر برائی اپنے شباب کی جوہر دکھلاتی تھی۔کسی نے اس دور کی عکاسی کرتے ہوئے کہا ہے
علم وہنر کے پتلے قبر میں سورہے تھے
انسانیت کے جوہرکونوں میں رو رہے تھے
زمیں کہہ رہی تھی کہ میںآ سماں ہوں
آسماں کہہ رہاتھاکہ میں لامکاں ہوں
عورتوں کے سلسلے میں زمانہ جاہلیت میں ایک بڑی بری رسم رائج تھی کہ مرد خود اپنی بیوی کواعلیٰ نسل کے پیدائش کے لیے کسی دوسرے مرد کے پاس بھیج دیتاتھااور یہ کوئی برائی متصور نہیں تھی ۔ مگر جب اسلام کا ابر نیساں رحمت بن کر برسااور اس نے دنیا سے ضلالت گمراہی اور برائیوں کا سدِباب کیا۔معا ًاسی کے ساتھ اس قبیح رسم پر بھی ضرب کاری لگائی اور اس کویک لخت ختم کردیا۔ بخاری کتاب النکاح میں سیدہ عائشہ صدیقہ کابیان موجود ہے:
”فلما بعث محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالحق ہدم نکاح الجاہلیة کلہ الا نکاح الناس نکاح الیوم ۔“
ترجمہ:جب حضور ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کی حق کے ساتھ آمد سعید ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے تمام نکاحوں کی بنیاد ہی ختم فرما دی۔بجز اس نکاح کے جو آج کل جاری ہے۔جس طرح حضور ساقی کوثر کا وجود باوجود اورورود مسعود ہر ایک کے لیے باعث رونق باعث تازگی وشادابی بنا۔اور دنیا نے شب دیجور اور اس کی تاریکی سے نجات پائی اور ایک پاکیزہ انقلاب کی خوشبوئیں فضاوٴں میں مشکبار ہوئیں۔ تو کیسے ممکن تھا کہ معاشرہ میں اس غلیظ رسم و رواج کو باقی رکھا جاتا ۔ چناں چہ ایسے تمام طریقے حرام اور بے بنیاد قرار دیے گئے،جس سے صنف نازک کا وقار مجروح ہوتا ہے۔اس کی عصمت و عفت تار تار ہوتی ہے۔ جس سے خاندان کا شیرازہ منتشر ہو کر چوں چوں کا مربہّ بن جاتا ہوہے ۔جس کے ذریعہ نسلیں مشکوک اور ورثہ و میراث بھی مخدوش ہو جاتی ہے ۔ اور قرابت و رشتہ داری کی شہ رگ ہی کٹ جاتی ہے ۔ قرآن مجید نے جس کو اپنی تعبیر میں زنا کہہ کر روک لگادی ہے اور ایسے تمام افعال واقوال اور کردار واعمال پر روک لگادی جس سے زنا کو تقویت ملتی ہو ۔ چناں چہ ارشا د ہے:
﴿ولاتقربوا الزنیٰ انہ کان فاحشة وساء سبیلا ﴾
آیت کا انداز بتلا رہا ہے کہ زنا کس قدر قبیح اور گھناوٴنا فعل اور براکرتوت ہے ۔ زنا کی بات تو دور اس کے قریب تک مت جانا ۔ یعنی لوازمات زنا ہی سے اجتناب ہو۔ ایسے تمام طریقے جو زانی کو زانیہ سے ملانے کے لیے ممد ومعاون ہوسکتے ہوں ان تمام سے مکمل احتراز کرنا کہ
مگس کو باغ میں جانے نہ دینا
غور کیجیے توقرآن مجید کے ان اجمالی لفظوں میں معانی اور مطالب کا ایک بحر ذخار اور عمیق دریا موجزن ہے ۔
لفظ” فاحشةً“سے اشارہ کیا جارہا ہے کہ اس گھناوٴنے کرتوت (زنا) کی شناعت ونحوست ایسی ہے جس کو انسانی فطرت وشرست کبھی گوارہ نہیں کرسکتی ہے اس کے ساتھ ساء سبیلا کی گہار بھی سنائی جارہی ہے یعنی فاحشة بے حیائی کا ۔ اور﴿ ساء سبیلا﴾ برا راستہ ہے کہ حیا انسانی شرست کا خاصہ ولازمہ ہے۔اور اسی حیا کی بنیادپر انسان دیگر مخلوق سے ممتاز بھی ہے۔ورنہ تو مشہور ہے کہ” توبے حیا باش وہرچہ خواہی کن“اور حکیموں کے حکیم اور داناوٴں کے دانا اور سب سے بڑے دانشور حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بڑی حکیمانہ گفتگو فرمائی:
”اذالم تستحی فاصنع ماشئت“ کہ جب تو حیا دار نہ رہے تو پھر جو چاہے کر۔
حیاتو انسانیت کا زیور ہے:
شرم و حیاہی انسانیت کا زیور اور اس کا حسن و جمال ہے۔ اور یہ ایسی اعلیٰ وبالا او ر نفیس صنف ہے۔جو انسان کو اس کے پھسلنے،بہکنے اور لغزش و خطا کے وقت سنبھالا و سہارا دیتی ہے۔اسی فطری جذبہ کا اثر ہوتا ہے کہ انسانی سرشت و طبیعت اس کے بدن کے تمام حصوں اور اعضاکومستورکرنے ،چھپانے اورپوشیدہ رکھنے کے جذبے کو ابھارتی ہے۔ اور سترپوشی کا خیال بھی اسی شرم و حیاپرمنحصرہے۔ آج مغرب کے ناقص لباس کی لعنت کی وجہ سے عریانیت اپنی حدود کوبھی پار کر گئی ہے۔ اور یہ لعنت بھی ہمارے ملک کا شعار اور تہذیب بنتی جارہی ہے۔ جو کسی بڑے فتنہ کا غماص ہے۔ اس لئے نصابی کتابیں اور آرٹ اب ایسے آنا چاہیے جس میں مغرب کے پھوہڑ پن کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ مشرقی تہذیب وروایات کو فروغ دیا جارہا ہو ۔ اس ضمن میں اسلامی تعلیمات بہت زیادہ موٴثر اور معنی خیز ہے کہ اسلام نے روز اول ہی سے اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دی ہے ۔ کروڑوں رحمتوں کا نزول ہو حضور شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم پر ؛جنہوں نے دنیامیں شرم و حیا کی تعلیم اور اس کے قانون کا نفاذ کرتے ہوئے انسانیت کو شرم و حیا کے زیور سے مرصع ومزین فرمایا ۔ ارشاد عالی ہے : ” الحیاء لا تاتی الا بخیر “ کہ حیا تو موجب خیر ہی ہے ۔ اور فرمایا: ” الحیاء من الا یمان “ کہ حیا ایمان کا جز ہے ۔
شرعی اصطلاح میں حیا اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو ان تمام چیزوں کے چھوڑنے پر مجبور کردیں جس کی شریعت میں ممانعت ہے ۔ بلا سے یہ جذبہ شرم و حیا اعمال وافعال میں اخلاق واقوال میں نہ ہو تو انسان کی گمراہی کا اندیشہ ہے۔ اور اس سے صرف دنیا ہی نہیں بگڑے گی عاقبت بھی برباد ہوجائے گی ۔ اس لیے شارع علیہ السلام فرماتے ہیں:
”الحیاء من الایمان والایمان فی الجنة والبذاء من الجفاء والجفاء من النار“(مشکوة)
کہ شرم وحیا ایمان کا جز ہے اور ایمان ہی دخول ِجنت کا باعث ہے اوربے حیائی جفا ہے اور جفا ہی باعث دخول نارہے۔
بے حیائی اور اس کے مضرات :
یہ بات محقق ہے کہ بے حیائی سے فروغ پانے والی تہذیب انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لے جائے گی ۔ اور سب سے براتعفن اس سے جو پھیلے گا وہ ہے زنا،زنا بے حیائی ہی کا شاخسانہ ہے۔جو بڑی بڑی برائیوں کو جنم دیتا ہے۔اس کے ہوتے ہوئے نسب محفوظ نہیں رہ سکتا۔ انساب میں اختلاط پیداہوجائے گا ۔جس کا براہِ راست اثر میراث اور مسائل حرمت اور حقوق کی بربادی پر پڑے گا۔اور نہ جانے یہ سلسلہ کتنا دراز ہوگا۔ اور کتنی ہی برائیوں کے در یچے وا ہوجائیں گے ۔امام رازی صاحباس آیت کے پس منظر میں زنا کی قباحتوں اور مفسدات کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:
(۱) زنا سے نسب مختلط اور مشتبہ ہوجاتاہے،آدمی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ بچہ کس کاہے ۔جس کا نتیجہ اس کی پرورش اورتربیت کا آپڑتا ہے ۔ اس کا کوئی سرپر ست نہ ہونے کی وجہ سے وہ برباد ہوجاتاہے،جو عالم کی ویرانی اور انقطاع نسل کا باعث ہوتاہے۔
(۲) زانیہ پر دسترس شرعی قانون میں کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی ۔کیوں کہ اسی کے ساتھ اس نے باضابطہ نکاح نہیں کیا۔چناں چہ ہر آدمی اس پر قبضہ کر نے کی کوشس کرے گا اور وجہ ترجیح کسی کو بھی حاصل نہ ہوگی پھر اس راہ میں تباہیوں اور بربادیوں کے جوطوفان اٹھتے رہتے ہیں۔معاشقہ اورآوارگی کی تاریخوں میں اس کا مطالعہ کیا جا سکتاہے۔
(۳)جب زنا کادروازہ کھل گیا تو مستقل کوئی قا عدہ و قا نو ن با قی ہی نہ ر ہاتو پھر کسی خا ص مر د کو کسی خا ص عو ر ت سے کو ئی لگا وٴ با قی نہ رہے گا۔ جس کو جہا ں مو قع مل گیا ۔اور جس نے جہاں چاہا ا ور دونوں جہاں مل گئے ۔ بس اپنی تسکین کر لی۔ اور یہی حال حیوا نات کا ہے ۔ پھر انسا ن او رحیوانا ت میں فرق ہی کہا ں رہ جائے گا ۔
(۴)عو رت سے صرف اتنا مقصد نہیں ہے کہ اس کے پا س پہنچ کر جنسی تقا ضوں کی تکمیل کر لی جا ئے ۔ ہوس کی آگ بجھا ئی جا ئے۔نہیں! بل کہ مقصد یہ بھی ہے کہ دو جان مل کر ایک قا لب میں ڈھل کر ایک دوسر ے کے رفیق اور شریک سفر ہو کر کھا نے سے اور بچوں کی تعلیم وتربیت میں اور دیگر ضروریات زندگی میں خوشی میں بد حا لی اور خوش حالی میں شر یک رہے ۔اور یہ سا ری با تیں اسی وقت ممکن ہے جب کہ عورت کسی ایک کی ہو کر رہے ۔اور کبھی وہ ا س سے اور کبھی اس سے منسلک ہو تی رہے تو راستہ بڑا کٹھن اور پر پیچ ہو جائے گا ۔خاندانی نظام کے بخیے ادھڑ جائیں گے ۔ پوری انسا نیت ایک کا نٹوں بھرا جنگل نظر آئے گا،اسی لیے حکمت بھری اس کتاب نے ان کانٹوں کو بڑی حکمت سے نکال پھینکا ہے،کہ نکاح کو حلال اور زنا کو قطعاحرام قرار دیاہے اور نکاح وازدواج کے قانونی دائرہ میں عورت مردکے تعلقات محدود کردیا،مگر افسوس کہ ان نئے مداریوں کو یہ قدیم داروئے شفا راس نہیںآ رہی ہے۔
عہد حاضر کا المیہ ہے:
عہد حاضر میں جب دنیا کے مختلف ممالک اور وہاں کے آزاد خیال عناصر بشمول مرد وعورت اور ان کے مزعومہ خیالات تفکرات پر غور کرتے ہیں جو اس بات پر مصر ہیں،بل کہ اس کے لیے قانون سازی میں مصروف ہیں کہ عورت قیدمیں نہ رہے ۔ ” الدجاجة المخلاة “کسی کھلی ہوئی مرغی کی طرح وہ بھی بغیر قید و بندش کے گھومتی پھرے،کسی سے بھی ملے، محبت کی پینگیں بڑھائیں اور کسی سے بھی تعلقات بحال کریں ۔اور مردوں کو بھی اصرار ہے کہ وہ کتوں اور گدھوں ،گھوڑوں اور بیلوں کی طرح آزادانہ کہیں بھی منھ مارتے پھریں۔ نر مادہ جہاں مل جائیں وہاں اپنی تسکین ایک دوسرے سے مل کر کرلیں ۔تو ان کی اس لچر سوچ اور بچکانہ حرکت پر افسوس بھی ہوتا ہے اور احساس بھی کہ اس قدر پست تفکرات اور دناء ت پسندانہ سوچ کیوں کر دامن گیر ہو رہی ہیں ۔اس لیے حساس طبائع اور ثاقب اذہان افرا د اوردردمند اور فکر مند دلو ں کو وقت کی اس پکار پرکان دھرنے کی ضرورت ہے اور وقت کے اس المیے کو سمحھنا ضروری ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ معاشرہ اور سماج ان دریدہ ذہن عناصر کی پست خیالی کا شکار نہ ہوجائے ۔
ہر زمانے میں دنیا کی ہر قوم نے اس پر سخت نوٹس لیا ہے ۔اور اس بے راہ روی کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا ہے ۔مذاہب عالم کا مطالعہ کرنے والا آدمی اس کو جاننا چاہتا ہے کہ کسی دھرم اور اس کے بانی نے زنا اور لوازمات زنا کو کبھی کوئی جائز ہی نہیں کہا اور اس ضمن میں شریعت نے تو اس قدر سخت رویہ اپنایا ہے جس کو اگر واقعی اختیار کر لیا جائے تو آج دنیا سے اس قباحت کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے ۔
اسلا می سزائیں اور ان کا حسن:
اسلام میں جو سزا ئیں مقررہیں وہ عین عقل کے مطابق ہیں اور سماج ومعاشرہ کو صاف ستھرا بنانے کے لیے دیے ہیں۔اگر چہ کسی ناسمجھ کی سمجھ میں نہ آئے یا کسی کی عقل وہاں تک رسائی نہ کرے ۔اگر کوئی آسمان کی بلندی تک رسائی نہ کرے تو اس کا انکار نہیں کر سکتا ۔ایسے ہی اسلامی سزاوٴں کا معاملہ ہے ۔اس کو ہم اپنی عقل نارسا کی وجہ سے غلط نہیں ٹھہرا سکتے ۔اگر ایسا کریں گے تویہ ہما شما کی کم عقلی کی دلیل ہو گی ۔اسلامی سزاوٴں کی ایک حقیقت اور معنویت ہے اور جو خالق ارض وسما کی مقرر کر دہ ہے ۔
شارع علیہ السلام نے صرف ۳/درہم کی چوری پر قطع الید کا حکم فرمایا۔ قزاق یاراہزن کا پاوٴں کاٹ دینے کا حکم دیا۔ شارب الخمر پر کوڑے بر سائے جانے کا حکم دیا،زانی کو رجم اور لوطی فاعل و مفعول دونوں کے قتل کا حکم دیا ۔ ارتداد اور تارک صلوٰة پر گردن زدنی کا حکم لگا یا ۔اسی قبیل کی جتنی اسلامی سزائیں ہیں جو قرآن وحدیث سے موید ہیں۔عین قرینِ قیاس ہیں اور سماج ومعاشرہ کے حق میں انتہائی سود مند اور نفع بخش ہیں اور حکمت ومصلحت پر مبنی ہے ؛مگر انہیں کے لیے جوصالح طبیعت اور صحیح سالم عقل رکھتے ہیں۔
زنا شرک کے بعد سب سے بڑاگناہ ہے:
زنا کی قباحت کے بعد اس کی شناعت اور گھناوٴ نے پن کو قرآن وحدیث میں مختلف پیرائے اور جدا گانہ انداز میں پیش کیا گیاہے تاکہ انسانی معاشرہ اس لعنت سے دور ومحفوظ رہے اس سے قبل آیت میں﴿انہ کان فاحشة وساء سبیلا﴾ تھا اور اس آیت میں ساتھ ساتھ لفظ” مقتا “کوبھی لایا گیا یعنی بے حیائی تو ہے ہی انتہا ئی نفرت کی بات ۔ یعنی زنا کائنات کی مرکزی طاقت سے متصادم ہے ۔ اندازہ کیجیے کہ زنا کا اثر کتنا گہراہے ۔اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات ِ مبارکہ میں عورتو ں سے جن چند باتو ں پر بیعت لیتے اس میں سرِ فہرست زنا سے اجتناب ہے ،جس کو قرآن پاک یوں بیان کر تا ہے:
﴿ ولایزنین ولایقتلن اولادہن ولایأتین ببہتانٍ یفترینہ بین ایدیہن وارجلہن﴾ (ممتحنہ )
یہ حقیقت ہے کہ زنا سے پھوٹنے والا تعفن انتہائی خطر ناک ہوتا ہے اور برائیوں کا ایک طوفان بلاخیز ہوتا ہے جو شرم وحیا کی تمام دیواروں کومنہدم کردیتا ہے ۔اسی سے سماج و معاشرہ میں قتل و غارت گری کے واقعات رونما ہوتے ہیں ۔ فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتاہے ۔اورمعاشرہ سے اعمال واخلاق کا جنازہ ہی نکل جاتاہے اور زنا کار قوموں کوپنپنے نہیں دیا جاتا۔اس قوم کی تمام تر شو خیاں اور تا بانیا ں سب تہ ِخاک کر دی جاتی ہیں ۔ اور وہ نت نئی بیماریوں میں مبتلا کر دئے جاتے ہیں ۔”ایڈز“،”ابیولا“ اور” ہاگ“ جیسی مہلک بیماریاں ان کا تعاقب کر تی رہتی ہیں ۔
آج دنیاکے متمدن سمجھے جانے والے ممالک جہاں زنا اور ہم جنس پرستی اور ان کوبڑ ھاوا دینے والے اعمال کی کثرت ہیں وہاں زندگیاں داوٴ پر لگ چکی ہیں ۔اضطراب اور بے چینی ان کا مقدر بن چکی ہیں ۔ دوشیزائیں بلاوٴں میں سانسیں لے رہی ہیں اور جوانان ِ قوم اپنے آپ کا مرثیہ پڑھنے پر مجبور ہیں
تمہاری تہذیب خوداپنے خنجرسے خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پر آشیاں بنے گا نا پائیدار ہوگا
اسی لیے شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ زنا کو قرار دیا ۔
”مامن ذنب بعد الشرک اعظم عنداللہ من نطفةٍ وضعہارجل فی رحم لایحل لہ (ابن کثیر )شرک کے بعد بڑاگناہ وہی ہے ،جس کو مرد کسی ایسے رحم میں رکھے جو اس کے لیے حلال نہ تھا ۔ اور ایک جگہ ارشاد ہے : ” لایزنی الزانی حین یزنی وہو مومن …ایاکم ایاکم “ زناکار جس وقت زنا کرتا ہے اس وقت وہ مومن نہیں رہتا ۔ بچو بچو!
صحابی رسول عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں :﴿ ماظہر الربا والزنا فی قریة الا اذن اللہ ﴾ اس بستی کو ہلاکت کی اجازت فرمادیتے ہیں ۔ حضور ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد گوش گزار کرلیں :
” ما بین قوم یظہر فیہم الزنا الا اخذو بالسنة وما من قوم یظہر فیہم الرثا الا اخذوا بالرعب “ (مشکوة کتاب الحدود )
جب کسی قوم میں زنا پھیل جاتا ہے تو اس کو قحط سالی میں مبتلا کردیا جاتا ہے اور رشوت خوری کی گرم بازاری جڑ پکڑ لیتی ہے تو اس پر خوف طاری کردیا جاتا ہے ۔
بہر حال زنا اوربربادیوں کو ساتھ لانا ہے ۔ کہاوت مشہور ہے ۔ جہاں زنا وہاں فنا ۔
اسلامی نقطہٴ نظر:
اسلامی نقطہ نظر یہ ہے کہ آدم کی اولاد دنیا میں اپنی حیات مستعار کو امن وامان سے گزارے۔ اسی لیے اس نے انسان کے ذمہ چند امور ایسے رکھے ہیں ،جن کو کرنا ضروری ہے اور چند ایسے ہیں جس سے بچنا ضروری ہے ۔ ان میں سرفہرست زنا اور اس کے لوازمات ہیں ۔ جس میں بدنظری کا جدا گانہ کردار ہے جو ام الخبائث کی حیثیت رکھتی اور فواحشات کی جڑ وبنیاد ہے ۔ عقلی طور پر سنجیدگی سے غور کیجیے تو پتہ چلے گا کہ آنکھوں میں ایک ایسا زہر پوشیدہ ہے جو موقع پاکر انسان کے دل ودماغ میں تیزی سے سرایت کرنے کی پیہم کوشش کرتا ہے۔ اور جب سرایت کرجاتا ہے تو پھر دل و دماغ کو ماوٴف کرلیتا ہے اور دبی چنگاری شعلے اور انگارہ میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور پھر زنا بالجبر اور ریپ جیسے واقعات بھی رونما ہونے لگتے ہیں ۔
دل کا نہیں قصور آنکھیں ہیں ظالم:
بد نظری کو ام الخبائث کہا گیا ہے۔ کیوں کہ یہی خواہشات اور منکرات کا تالا کھلواتی ہے۔کہنے والے نے کہا اور بہت ہی خوب کہا ۔محبت ایک نا دیدہ شئی ہے ،جوآنکھوں کے راستے دل میں اترتی ہے ۔بعض علما نے لکھا ہے کہ نگاہ شہوت کی قاصد اور اس کی پیامبر ہے دل کو زخمی کرنے میں آ نکھوں کا بڑا قصورہے ۔
دل کا نہیں قصور آنکھیں ہیں ظالم
یہ جا کر نہ لڑتی وہ گرفتار نہ ہوتا
اسی لیے اسلام نے سب سے پہلے اس درواز ے کو مقفل کیا: ﴿قل للموٴمنین یغضوامن ابصارہم ویحفظوا فروجہم ذلک ازکی لہم ان اللہ خبیر بما یصنعون﴾
مومنوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔اسی میں ان کے لیے پاکیزگی ہے۔اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبرہے۔حیا سوز، کردار سوز،اور اخلاق سوز، فتنوں کا سوتہ جہاں سے ابلتا ہے شریعت مطہرہ نے اسی پر قد غن لگادیا۔کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
حجةالاسلام امام غزالی لکھتے ہیں: ”ثم علیک وفقک اللہ وایانا بحفظ العین فانہا سبب کل فتنة وآفة“آنکھوں کے فتنہ سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے ۔کہ واقعی یہ آفتوں اور مصیبتوں کا سرچشمہ ہے۔آگے اپنی شاہ کار تصنیف” منہاج العابدین“ میں تحریر فرماتے ہیں کہ قل للموٴمنین میں تین چیزیں بیان فرمائی ہیں۔
تادیب،تہدید اور تنبیہ ۔آیت کے پہلے حصے میں تادیب ہے یعنی جس کی طرف دیکھنا جائزنہ ہو دیکھنے کی ہمت نہ کرے، دوسرے حصے ازکی لہم میں تنبیہ ہے کہ غض بصرکا فائدہ یہ ہوگا کہ قلب میں طہارت آئے گی اور طاعت وبندگی میں مزہ آے گا اور نظرادھر ادھر بھٹکتی رہی تو کسی نہ کسی فتنہ کا اندیشہ ہے ،جس سے دل کا قرار و سکون جاتا رہے گا اور وساوس کی فرود گاہ بن جائے گا ﴿ ان اللہ خبیر بما یصنعون﴾سے تنبیہ فرمائی کہ بندہ غفلت میں رہا اوراس کی پرواہ نہ کیا تو پھر اللہ کو سب کچھ خبر ہے جس کو تم کر رہے ہو یہی پیغام عورتوں کوبھی دیا : ﴿قل للمومنت یغضضن من ابصا رہن ویحفظن فروجہن ولا یبدین زینتہن الا ما ظہر منہا ﴾
یہ ہے انسانیت کے لیے سود مند قوانین ، جو معاشرہ کو صاف ستھرا بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ لہٰذا ہم مسلمانوں پر بہ حیثیت مسلمان ہونے کے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ موجودہ دونوں فیصلوں کی طرف توجہ دینے کے ساتھ ہی اپنے قول وعمل کے ذریعے اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کو مضبوطی سے تھام لیں ۔ اپنے خاندان اور معاشرہ میں اس حوالہ سے شعور پیدا کریں اور ایک صالح انقلاب کے وجو د میں لانے کا ذریعہ بنیں ۔