شر اور فتنہ کو دبانے اور ختم کرنے کی کوشش:
سخت مزاج کا ایک طالب علم حضرت کے پاس کمرہ میں ایک پھٹی ہوئی چادر اورساتھ میں بکری کو پکڑ کر لایا اورکہاکہ دیکھئے حضرت یہ میرا نیاشال ہے اس بکری نے کھاڈالا۔پورا شال پھٹ گیا، بڑی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے غصہ میں اس لڑکے نے شکایت کی ۔ حضرت نے اس کو تسلی دیتے اور ٹھنڈا کرتے ہوئے فرمایا :جو نقصان ہونا تھا ہوگیا ۔ اب بات بڑھانے سے کوئی فائدہ نہیں بلا وجہ بات بڑھے گی۔بکری نے نقصان کیا اس کا تم کو ثواب ملے گا ، جو تمہارا نقصان ہوا ہے ہم تم کو اس کے پیسے دے دیں گے ۔وہ لڑکا خوشی خوشی درجہ میں چلاگیا ورنہ درجہ میں سخت غصہ میں کہہ رہا تھا کہ میں اس بکری کو ماروں گا، ذبح کرڈالوں گا اور واقعی وہ ذبح کرنے پر آمادہ تھا ۔
دین کے کام کی حرص :
فرمایا ایک دکان دار تاجر اپنی دکان کی ترقی کی فکر کرتا ہے ۔ برابر اس کی کوشش میں رہتا ہے کہ دکان خوب بڑی ہوجائے ۔ ایک دکان ہے تو ایک سے دو دکان بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں بھی ہو، وہاں بھی ہو۔ ایک کانپور میں اور ایک لکھنوٴ میں۔ایک کار خانہ یہاں کھولا تو ایک کارخانہ کلکتہ میں ہونا چاہیے ۔بس ہر وقت یہی دھن اور یہی فکر سوار رہتی ہے یہ تو دنیا دار کا حال ہوا ۔
دین دار کو بھی دین کے معاملہ میں ایسا ہی ہونا چاہیے ۔ہروقت یہی فکر سوار ہو کہ دین کا کام خوب ہو، یہاں بھی ہو وہاں بھی ہو۔جہاں جائے وہاں دین کا کام کرے، جہاں رہے دین کا کام کرے ۔ صرف ایک ہی مدرسہ کھول کر نہ بیٹھ جائے ؛بل کہ جہاں ضرورت ہو اورجہاں موقع ملے ،اگرگنجائش ہو فوراً مدرسہ قائم کرے ، مدرسوں کا جال بچھا دے ، تھوڑے کام پر قناعت نہ کرے ، دنیا دار کی طرح دین کے حریص کا بھی یہی حال ہونا چاہیے ۔
دین کے خاطر دنیا داروں اور مالداروں سے ملاقات کرنا :
فرمایا: مجھے کیا پڑی ہے کہ کلکٹر ، ایس پی ، تھانے دار ، داروغہ ، ڈاکٹر اور انجینئر سے ملاقات کرتا پھروں؟ان کے پاس جاوٴں ؟لیکن صرف دین کے خاطر کبھی جانا پڑتا ہے ۔ اسی بہانے وہ لوگ کچھ دین ِاسلام سے قریب ہوتے ہیں۔ کل سارا کام چھوڑ کر فلاں ڈاکٹر صاحب کو دیکھنے گیا تھا، بہت نقصان ہورہا تھا، لیکن گیا اور فوراً ہی واپس آ گیا۔ اس میں میری ذاتی کوئی غرض نہیں تھی ۔صرف دین کے واسطے لوگوں سے ملاقات کرتا ہوں۔لوگوں کو جوڑے رہتا ہوں، اسی وجہ سے لوگوں کی شادیوں میں بھی شرکت کرتا ہوں ورنہ مجھے شادیوں میں شرکت کی کہاں فرصت؟ اس میں تو واقعی بڑا نقصان ہوتا ہے ، لیکن اسی بہانہ کچھ لوگ دین سے قریب ہوتے ہیں اس لیے برداشت کرلیتا ہوں ۔