تہجد کی اہمیت:استاذ تہجد میں اٹھتے ہیں تو ظاہر بات ہے کہ استاذ کی خدمت کرنے والا طالب علم بھی تہجد کا عادی بنتا ہے ۔ قرآن کہتا ہے : ﴿ فتہجد بہ نافلة لک عسیٰ ان یبعثک ربک مقاماً محموداً﴾ کہ تہجد کی عادت ڈالو عنقریب ہے کہ تم مقام محمود تک پہنچ جاوٴ۔
مقام محمود اُن کو میسر ہوتا ہے ،جو تہجد کے عادی بنتے ہیں ۔ ایک دوسرے ساتھی کو کہہ دینا چاہیے کہ بھئی تو اگر رات کو اٹھ جائے تو مجھے بھی جگا دیا کر۔ اگر آپ یہ کہہ کر سوگئے اور نہیں اٹھ سکے، تب بھی آپ کو تہجد کا ثواب مل گیا۔ کیوں کہ ”نیة الموٴمن خیرمن عملہ“ مومن کا کسی کار خیر میں نیت کرنا اس کے عمل سے بڑھ جاتا ہے ۔
رونے والے بنو! طالب علم کو رونے والا بننا چاہیے ۔جو جتنے رونے والے بنیں گے اتنے ہی وہ اللہ کے یہاں کام یاب وکامران ہوں گے ۔ قرآن کریم کہتا ہے : ﴿فلیضحکوا قلیلا ولیبکوا کثیراً ﴾ ہنسنا کم کرو اور زیادہ رووٴ۔ رونا اللہ کو بہت پسند ہے ۔ میں ایک قصہ سنایا کرتا ہوں کہ ایک اللہ والے تھے ، ان کے ذمے بہت قرض ہوگیا تھا ،اتفاق کہ ایک ہی دن سارے قرض خواہ آگئے۔جو آیا، بیٹھ جاوٴ ۔ بھئی یہاں بیٹھ جاوٴ۔ ایک دوسرے کویوں ہی بٹھاتے رہے ، بھئی کیسے آئے ہیں ؟پیسے پیسے!! چاروں طرف قرض خواہ موجودہیں اوروہ بزرگ تو خراٹے مار کرسورہے ہیں ۔ اتنے میں ایک حلوہ بیچنے والا بچہ آیا ۔ حلوہ لو ! حلوہ لو! دیہاتوں میںآ پ نے دیکھا ہے نا چھوٹے چھوٹے بچے چھوٹی چھوٹی پلیٹیں حلوے کی بیچنے آتے ہیں ۔ تو بزرگ نے بچہ کو آواز دی اے بچے ! ادھر آوٴ کیا ہے ؟ بولتا ہے حلوہ ہے ۔ کتنا ہے ؟ توبچہ خوش ہوگیا کہ آج تو ایک ساتھ ہی بک گیا، سارا مال بک گیا ۔ کہا: سب کو کھلادو ! سب نے حلوہ کھالیا ۔ بچے نے کہا پیسے؟ کہا کہ تم بھی بیٹھ جاوٴ ۔بچے نے کہا: پیسے۔ کہا بیٹھ جاوٴ ! ادھر یہ سبھی مانگنے والے ہیں ۔ تو اُس نے رونا شروع کیا کہ میری ماں مارے گی ، میں کیا کروں گا ؟ میرے پیسے لاوٴ، میرے پیسے لاوٴ ۔ بچہ نے زور زور سے رونا چالو کردیا ۔ رو رہا ہے ، رورہا ہے ، تھوڑی دیرہوئی کہ اللہ کی رحمت جوش میں آئی۔ایک گھوڑسوار آئے اور ایک تھیلی بھر کر کوئی چیز ان کے پاس تھی۔ کہا حضرت کہاں ہیں؟ تو سب نے کہا یہ سوئے ہوئے ہیں تمہارے حضرت ! تو کہا کہ جگاوٴان کو ، تو جگایا گیا ۔تو کہتا ہے کہ حضرت فلاں صاحب نے آپ کے لیے ہدیہ بھیجا ہے ۔ اچھا بھائی جزاک اللہ ! پھر وہ بزرگ کھڑے ہوئے اور کہا بھائی مانگنے والے تو بہت تھے،لیکن کوئی رونے والا نہیں تھا ۔ یہ بچہ رونے والا آگیا اس نے رونا شروع کیاتو اللہ کی رحمت جوش میں آئی۔ اللہ نے اس کے دل میں بات ڈالی کہ جاوٴ اس بندے کی مدد کرو ۔ چلو کتنے ہیں؟ دس پندرہ ، پچیس ، تیس ، چالیس، پچاس؛سب کے قرض ادا کیے اور اس بچہ کو ڈبل پیسے دے دیے کہ بھاگو یہاں سے تم بھی جاوٴ۔
یہ قصہ ہم نے بارہا اپنے حضرت شیخ زکریا سے سنا ہے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا قطب الاقطاب تھے۔ اپنے زمانے کے بڑے محدث ؛جن کی کتاب” فضائل اعمال“ اوربہت سی کتابیں ہیں ۔ میں نے ان کی خدمت کی ،ان کو میں نے تیل لگا یا ہے ۔اہل اللہ کی نگاہ پڑی ہے اس فقیر کے اوپر وہ بہت بڑی شخصیت تھی ، جس پر نگاہ پڑجاتی تھی وہ ہیرا بن جاتا تھا ۔