مسلمانو!!! ”یہ زمانہٴ صبر ہے“کمر بستہ ہوجاؤ!!

انوار نبوی ا                                                                                   آٹھویں قسط:

محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمی

صبر کے مددگار اسباب:     

            عَنْ أَبِي سَعِیدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ: ” إِنَّ أُ نَاسًا مِنْ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاہُمْ ، ثُمَّ سَأَلُوہُ فَأَعْطَاہُمْ ثُمَّ سَأَلُوہُ فَأَعْطَاہُمْ حَتَّیٰ نَفِدَ مَا عِنْدَہُ، فَقَالَ: ”مَایَکُونُ عِنْدِي مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَہُ عَنْکُمْ، وَمَنْ یَسْتَعْفِفْ یُعِفَّہُ اللَّہُ، وَمَنْ یَسْتَغْنِ یُغْنِہِ اللَّہُ، وَمَنْ یَتَصَبَّرْ یُصَبِّرْہُ اللَّہُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَیْرًا وَأَوْسَعَ مِنْ الصَّبْرِ).

(بخاری:باب الاستعفاف عن المسئلة)

            ترجمہ: چند انصار نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عطا فرمایا ، انہوں نے پھر مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دیا۔ انہوں نے پھر مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ نہ رہا ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میرے پاس جو کچھ ہوگا میں اس کو تم سے بچاکر نہیں رکھوں گا اور جوشخص مانگنے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو بچادیتے ہیں ، یعنی ایسے اسباب پیدا فرمادیتے ہیں کہ وہ مانگنے سے بچ جاتا ہے ۔اورجو بے نیاز بننے کی کوشش کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کو بے نیاز کردیتے ہیں ۔ اور جو شخص ہمت سے کام لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو صبر شعار بنادیتے ہیں ۔اور کسی کو کوئی نعمت نہیں دی گئی صبر سے بہتر اور کشادہ ۔

(تحفة القاری)

شرح حدیث:

            جو شخص اپنے نفس سے عفة عن السوال طلب کرتا ہے یعنی سوال سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے نفس کو اس پر آمادہ کرتا ہے، اور یا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالی سے عفة عن السوال طلب کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ وہ اس کو سوال سے بچالے،”یعفہ اللہ “توپھر واقعی اللہ تعالی اس کو بچالیتے ہیں۔

            اور اس سے اگلے جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنا غنیٰ ظاہر کرتا ہے(لوگوں سے استغنا برت کے)تو پھر اللہ تعالی اس کو فی الواقع غنی بنا دیتے ہیں،مال کے ذریعہ یا غنیٰ القلب کے ذریعہ۔

            وَمَنْ یَتَصَبَّرْ یُصَبِّرْہُ اللَّہُ،جو شخص اللہ تعالیٰ سے توفیق ِصبر طلب کرتا ہے یاجو شخص اپنے آپ کو صبر پرآمادہ کرتا ہے اور بتکلف اس کو اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو خصلةِ صبر عطا فرماہی دیتے ہیں، جس سے اس کو صبر کرنا آسان ہوجاتا ہے ۔

             وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَیْرًا وَأَوْسَعَ مِنْ الصَّبْرِ۔یعنی صبر سے زیادہ وسیع کوئی دولت کبھی کسی کو عطا نہیں ہوئی (اس لیے کہ اس سے زیادہ وسیع کوئی خصلت ہے ہی نہیں )کیوں کہ صبر ایک ایسی خصلت ہے جس کی ضرورت زندگی کے شعبوں میں سے ہر ایک شعبہ میں پیش آتی ہے ۔ اس لیے کہ انسان کو منازلِ حیات میں سے ہر ایک منزل میں کوئی نہ کوئی ناگوار بات پیش آتی ہی ہے اور اس کا بہتر ین علاج اور حل صبر ہے ۔ تو گویا صبر آدمی کے قدم قدم پر کام آنے والی شئ ہے اسی لیے اس کو اوسع العطایا فرمارہے ہیں ۔ صبر کا خلاصہ رضا بقضا ہے کہ جو ناگوار بات پیش آئی ہے وہ منجانب اللہ اور تقدیر الٰہی سے ہے ،جس میں نہ معلوم کتنی مصالح ہوں گی ۔

بحوالہ در منضود:والحدیث اخرجہ ایضا البخاری ومسلم والنسائی والترمذی (منہل )

صبر وہبی ہے یا کسبی:

            بہت سارے لوگوں کو مصیبتوں اور پریشانیوں کی حالت میں جزع فزع کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے، وہ مصائب کا تاب نہ لاتے ہوئے واویلا مچاتے ، سینہ کوبی کرتے ، مایوسی کا شکار ہوکر آپاکھودیتے ہیں اور خود اپنی اور دوسروں کی مصیبتوں میں اس نامناسب اور منافیٴ اسلام رویے سے اضافہ کیے جاتے ہیں ۔ اس حال میں جب کوئی انہیں صبر کی تلقین کرتا ہے تو وہ بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیتے ہیں کہ اللہ نے مجھ میں مصیبت پر صبر کی طاقت نہیں رکھی ۔ یہ تو مصیبت کے وقت صبر کی بات ہوئی ۔

            اسی طرح جب انہیں کسی طاعت وعبادت کی ہدایت کی جاتی ہے ، تو وہ سمجھتے ہیں یہ ان کے بس کی بات نہیں۔ وہ اس پر استقامت نہیں کرسکیں گے ، یہ ان کی طاقت سے باہر عمل ہے ۔

            کیوں کہ ان کے زعم میں یہ بات ہے کہ صبر عطیہ ٴخداوندی ہے ۔ یہ وہبی شئ ہے ، اللہ جسے عطا کرتے ہیں اسی کے اندر طاعت پر صبر کا مادہ ہوتا ہے۔ مصیبت پر بھی وہی لوگ صبر کرسکتے ہیں اور معصیت سے بھی یہی لوگ اپنے کو روک سکتے ہیں ، انسان از خود مجاہدہ اور کسب و محنت کے ذریعہ قوتِ صبر پیدا نہیں کرسکتا ۔

            اگرواقعہ ایسا ہی ہوتا کہ صبر کسبی شئ نہ ہوتی ،اور انسان مجاہدہ اورمشق کے ذریعہ اپنے نفس کو اس کا عادی نہ بنا سکتا ،تو پھر انسان صبر سے متعلق متعدد نصوص؛ جس میں صبر کو زیور اور شیوہ بنانے کی تلقین کی گئی ہے، اس سے عاجز ہوتا اور ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ۔ اور تکلیف مالا یطاق لازم آتا ؛ لیکن مسئلہ ایسا نہیں ہے۔ مذکورہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات روزِ روشن کی طرح صادق آگئی ہے کہ صبر وہ خُلقِ حسن ہے ،جس کا حصول صرف ممکن ہی نہیں؛ بل کہ جو انسان معمولی سی مشقت ،تھوڑی سی کوشش اور مجاہدہٴ نفس سے اسِ خصلت حمیدہ سے خود کوآراستہ کرنے پرآمادہ ہو جاتا ہے اور ابتدامیں بتکلف اس کا عادی بنتا ہے،اللہ اس کو اس خصلتِ حمیدہ سے نواز دیتے ہیں ۔ اسی کو آقائے نامدار ،محبوبِ کل، ختمِ رسل صلی اللہ علیہ وسلم نے بایں الفاظ کہا ہے: ”ومن یتصبر یصبرہ اللہ“ جوشخص ہمت سے کام لیتا ہے،بتکلف صبر کرتا ہے،تو اللہ تعالی اس کو صبر شعار بنا دیتے ہیں۔

            ہاں مگر! ہم اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ بعضِ انسان خلقتاً اور جبلتاً ہی دوسروں کے بہ نسبت صبر وتحمل میں زیادہ قدرت اور قوت رکھتے ہیں ۔

            خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ صبر ایک قلبی عمل ہے، جسے انسان توفیقِ خداوندی کے بعد ریاضتِ نفسیہ اور مجاہدہٴ قلبیہ کے ذریعہ ان اسباب کو اختیار کرتے ہوئے ،جواس کے لیے معاون ومدد گار ہیں ۔ بہ آسانی حاصل کرکے اللہ کے اولو العزم بندوں میں شامل ہوسکتا ہے۔

صبر کے مدد گار اسبا ب کیا ہیں ؟

            معاون علی الصبر اسباب جنہیں انسان سمجھ لے، اختیار کرلے اور ان پر یقین کرلے اور خود کو ان کا عادی بنالے ،تو صبر آسان ہوجائے،وہ یہ ہیں:

            (۱) حیات دنیوی اور اس کی حقیقت کی پہچان۔ (۲) ساری دنیاکا ملکِ خداوندی ہونے کا یقین۔ (۳) اس صبر پر ملنے والے جزا ، ثواب اور انعامات کی معرفت۔ (۴) صبرکی نیت۔ (۵) صبرِ مصائب کے بعد پریشانی کے دور ہونے اور آسانی کے پیدا ہونے کا یقین ۔(۶) اللہ سے قوتِ صبر پر تعاون کی دعا۔ (۷) قضا و قدر پر ایمان۔ (۸) نزدیکاں را بیش بود حیرانی ۔یعنی اس بات کی معرفت کہ؛ جو جس قدر نیک ہوتا ہے ،اللہ اسے اتناہی آزماتے ہیں ۔ (۹) صابرین کے قصوں کا مطالعہ اوران کے حالات پرغور وخوض ۔ وغیرہ

            آئندہ قسطوں میں ترتیب وار ان پر روشنی ڈالی جائے گی ۔ ان شاء اللہ !          (جاری…)