انوار قرآنی پہلی قسط:
مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد(صاحب)وستانوی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ! رب العزت نے اپنے خصوصی فضل سے بندے کو قرآن کے ساتھ خاص شغف نصیب فرمایا ہے۔ فراغت کے بعد ؛ یعنی ۲۰۰۲ء سے اب تک مسلسل تدریس میں قرآن کا ترجمہ اور اب دوسال سے اس کی تفسیر جلالین ہے ۔ والد بزرگوار کی خاص دعا ،جو آپ نے طالب علمی کے دور میں بندے کو ایک دن تہجد کے وقت روتے ہوئے سر پر ہاتھ رکھ کر دی اور کہا :” اللٰہم علّمہ الکتاب وتاویلہ “ اس کا اثر ہے کہ منجانب اللہ جب قرآن پڑھتا ہوں اس کی تفسیر کرتا ہوں تو اسرار و لطائف کھلتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ محض تحدیث بالنعمة کے طور پر ذکر کررہا ہوں ۔ اللہ عجب ،کبر ، فخر اور ہر طرح کی برائی سے میری حفاظت فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین !
کافی عرصہ سے دل میں یہ بات آرہی تھی کہ عصری اسلوب اور تقاضے کے مطابق امت کو قرآن سمجھانا چاہیے؛اس لیے کہ یہ امت جب قرآن سے مربوط ہوگی تو اس کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے ۔ آخر کار یہ بات دل میں آئی کہ” شاہراہ علم“کے صفحات ہی سے اِس کارِ خیرکا آغاز کیا جائے اور قرآن کی تفسیر شروع کی جائے ۔ تو بندہ نے علما اور طلبہ کے لیے علمی تفسیر عربی میں لکھنے کا آغاز کیا اور عوام کے لیے اردو میں ،یہاں شاہراہ علم کے صفحات پر۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ عربی والی تفسیر کا اسلوب علمی ہے یعنی کلمات ِقرآن کی اشتقاقی ، نحوی، صرفی اور لغوی تحقیقات؛ جس میں الا شباہ و النظائر ، الفروق اللغویہ وغیرہ پر خصوصی توجہ ہے اور عوام کے لیے اردو میں صرف آسان انداز میں اختصار کے ساتھ عصری اسلوب میں معانی کو بیان کیا جائے گا ۔ دعا فرمائیں کہ اللہ قبول اور اپنی مدد شاملِ حال فرمائے اور کسی طرح کی کوئی رکاوٹ نہ پیش آئے ،ایسے اسباب پیدا فرمائے ،جس سے یہ کم مدت میں مکمل ہوجائے، اخلاص عطا فرمائے اور ریا کاری سے حفاظت فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین !
تو آئیے! اب ہم قرآنِ کریم کی تفسیر کا آغاز سورہٴ فاتحہ سے کرتے ہیں ۔
سورة الفاتحہ
سورہٴ فاتحہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ امامِ قرطبی فرماتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی سب سے جامع اگر کوئی سورت ہے تو وہ سورہٴ فاتحہ ہے ، جس کو خلاصة القرآن کہا جاسکتا ہے ۔اسی لیے اس کو ” ام القرآن “ بھی کہا جاتا ہے ۔ یعنی قرآن کا خلاصہ ،نچوڑ اور بنیاد ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سورہٴ مبارکہ کے بارے میں بے شمار فضائل منقول ہیں :
اس سورت ِمبارکہ کی افضلیت کے لیے یہی کافی ہے کہ اسلام کے سب سے اہم ترین رکن نماز کی ہر رکعت میں اس کی تلاوت کو اللہ نے واجب قرار دیا ہے،․
اس وقت” اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم “کی تفسیر کے ساتھ ہم اپنے اس مبارک سلسلے کا آغاز کرتے ہیں ۔
” اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم “
میں اللہ رب العزت کی پناہ میں آتا ہوں شیطانِ مردود سے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ تلاوت قرآن کے آغاز میں تعوذ کیوں مستحب ہے ؟
انسان کو اللہ رب العزت نے بعض صلاحیتیں انتہائی عظیم عطا کی ،مگر اسے اپنے فضل اور رحمت سے حد میں رکھنے کے لیے اس میں بعض صلاحیتیں کم رکھی ہیں؛ تاکہ وہ سرکشی پر نہ اتر آئے ۔جیسے عقل اور علم اسے وافر مقدار میں عطا کی اور بدنی طاقت اسے کم عطا کی تاکہ وہ اپنے آپ کو اللہ سے مستغنی تصور نہ کرے ۔
انسان کو راہ حق سے بہکانے والی دوطاقتیں ہیں : ایک خود انسان کا اپنا نفس اور دوسرا شیطان۔ اپنے نفس پر کنٹرول حاصل کرنا انسان کے بس میں ہے ؛البتہ اس کے لیے مجاہدہ کرنا اور خواہشات کو دبانا پڑتا ہے ، مگر شیطان چوں کہ غیر مرئی یعنی نظر نہ آنے والی شریر طاقت ہے اور اللہ نے اسے وسوسہ ڈالنے کی قدرت بھی دی اور انسان آسانی کے ساتھ اس کو مات نہیں دے سکتا ۔ اور جب بھی انسان نیکی کا ارادہ کرتا ہے،وہ اپنی پوری طاقت نیکی کرنے سے روکنے کے لیے صرف کردیتا ہے اور انسان کے پاس اس کے مقابلہ کے لیے سب سے طاقت ور ترین ہتھیار دعا ہے؛ جیسا کہ احادیثِ مبارکہ میں ہے : ” الدعاء سلاح المومن وعماد الدین و نور السمٰوات والارض “ (مستدرک ص۱۸۱۲)
دعا مومن کے لیے ظاہری و باطنی دشمنوں سے بچنے کا سب سے مضبوط ہتھیار ہے ۔ دعا دین کا ستون ہے اور زمین وآسمان کا نور ہے ۔
ایک اور روایت میں ہے : کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتلاوٴں جو تمہارے دشمن سے تمہیں نجات دے ؟ اور تمہارے رزق میں اضافہ کا باعث ہو ؟دن رات دعا کا اہتمام کرو اس لیے کہ دعا مومن کا بہترین ہتھیارہے ۔
(مسند ابو یعلی ص ۱۸۱۷)
مومن کا بہترین ہتھیار صبر اور دعا ہے ۔
(کنز العمال : ۶۵۰۵)
ایک موقع پرارشاد فرمایا : دعا ہر مصیبت اور بلا کو ٹالتی ہے چاہے وہ مقدر ہوچکی ہو یا نہ ہوئی ہو ۔
(ترمذی : ۳۵۴۸)
ایک اور موقع پر فرمایا : ” زکاة کے ذریعہ اپنے مال کو محفوظ کرو ، صدقہ کے ذریعہ بیماریوں کو دور کرو اور اللہ کے حضور گڑ گڑا کر دعا کے ذریعہ مصائب کے طوفان کو ٹال دو ۔ (ابو داوٴد)
مذکور ہ احادیث سے معلوم ہوا کہ دعا مومن کا سب سے طاقت ورموٴثر ترین ہتھیار ہے ۔ اب جب بندہ شیطان کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے تو تلاوتِ قرآن اعمال ِصالحہ میں اللہ کو سب سے پسندیدہ ہے ؛لہٰذا شیطان بندے کو اس سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کردیتا ہے ، مگر جب بندہ اعوذ باللہ پڑھ لیتا ہے تو اس کا بس نہیں چلتا اور بندہ اطمینان سے تلاوت کرسکتا ہے ۔
اس کو ہم اپنے زمانہ کی مثال کے ذریعہ یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اعوذ باللہ در حقیقت سیفٹی بیلٹ (Safety Belt ) ہے، جسے گاڑی یا ہوائی جہاز میں بیٹھنے کے بعد انسان باندھ لیتا ہے؛ تاکہ ناگہانی حادثہ سے بچا جاسکے ۔ تو اعوذ باللہ بھی تلاوت سے پہلے پڑھ لینے سے ،بندہ ہر طرح کے شیطانی اثرات سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسنون دعاوٴں میں بھی بہت سے تعوذات ہیں ،یعنی اعوذ باللہ سے شروع ہونے والی دعائیں ۔ مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک روز مخاطب کیا اور کہا : شرک تمہارے اندر انتہائی خاموشی کے ساتھ رینگتا ہے ، ایسے جیسے چیونٹی بدن پر رینگتی ہے اور احساس نہیں ہوتا۔ عنقریب میں تمہیں ایسی چیز سکھاوٴں گا، جس کی برکت سے ہر قسم کے شرک سے تم محفوظ ہوجاوٴگے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا تعلیم دی ۔
اللہم انی اعوذ بک من ان اشرک بک وانا اعلم واستغفرک لما لا اعلم۔
(صحیح الجامع )
ام المومنین عائشہ صدیقہ بنت الصدیق رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں: کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں بیدار ہوتے تو دس مرتبہ اللہ اکبر! الحمدللہ وبحمدہ کا ورد کرتے ۔ اس کے بعد دس مرتبہ سبحان الملک القدوس اور استغفراللہ اور لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے اور پھر اخیر میں اللہم انی اعوذبک من ضیق الدنیا وضیق یوم القیامة پڑھتے اور پھر نماز شروع کرتے۔ اور بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی چیزوں سے پناہ مانگنا ثابت ہے ۔ مثلاً وہ امور، جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے مندرجہ ذیل ہیں :
(۱ ) سستی (۲) بڑھاپا( ۳) گناہوں میں ابتلا (۴) مرض (۵) فقر (۶) عذابِ قبر (۷) قساوتِ قلبی (۸) غفلت (۹)ذلت (۱۰) کفر (۱۱) فسق (۱۲) اختلاف(۱۳)ریا کاری (۱۴) بیماری (۱۵) جنون (۱۶) اندھا پن (۱۷) بہرا پن (۱۸) عذابِ جہنم (۱۹) مالداری کے فتنے (۲۰)فتنہٴ دجال(۲۱)بزدلی (۲۲) غم اور پریشانی (۲۳)ظالم حکمراں (۲۴) علمِ ضار (۲۵) نہ ڈرنے والا قلب (۲۶) نفس کی شرارت (۲۷) ایسی دعا جو قبول نہ ہو (۲۸) ایسی آنکھیں جو نہ روئے (۲۹) دنیا کے ساز و سامان کا فتنہ (۳۰) ضلالت وگمراہی (۳۱) برے اعمال کے وبال سے (۳۲) نعمت کے چھن جانے سے (۳۳) عافیت کے ختم ہونے سے (۳۴)اچانک آنے والی گرفت سے (۳۵) اللہ کی ناراضگی سے (۳۶) ظلم کرنے سے (۳۷) ڈوب کر جل کر آنے والی موت سے (۳۸) کسی زہریلے جانور کے ڈسنے سے (۳۹) دشمن کے غلبہ سے (۴۰) جگ ہنسائی سے (۴۱)جنات کے شر سے (۴۲) بری نظر سے (۴۳) جادو سے (۴۴) برے اخلاق سے (۴۵) برے پڑوسی سے (۴۶) ہر طرح کے مکرو فریب سے (۴۹) تکبر اور فخر سے (۵۰) لالچ سے (۵۱)حسد سے ۔
دسیوں احادیث کو سامنے رکھ کر یہ فہرست تیار ہوئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کے فتنوں سے ہماری حفاظت فرمائے ۔
اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ آفت اور مصیبت و آزمائش سے ہمیں بچائے اور اپنی قدرت ِکاملہ سے ہماری حفاظت فرمائے ۔
فتنوں کے دور میں خاص طور پر ہم لوگوں کو مندرجہ ذیل دعاوٴں کو روزانہ کثرت سے پڑھنے کا عادی بننا چاہیے ۔ اللہم انی اعوذ بک من الفتن ما ظہر منہا و ما بطن ۔
غرض یہ کہ دعا اور اس میں بھی ہر طرح کے شرور وفتن سے پنا ہ مانگنا از حد ضروری ہے ۔ ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی اسی میں مضمر ہے ۔ اللہ ہمیں دعااور تعوذ کا عادی بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !
آئندہ ان شاء اللہ ”بسم اللہ“ کی تفسیر پیش کی جائے گی ۔(جاری………)