مرکز الاقتصادالاسلامی وانمباڑی:

            ۲۰/ نومبر۲۰۲۴ء حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی مہاراشٹر کے الیکشن میں رائے دہی کے بعد بذیعہٴ کار”اکل کوا “ سے ”سورت ایئرپورٹ“ پہنچے۔ ”سورت“ سے ۱۱/ بجے رات” بنگلور“ کے لیے آپ کی فلائٹ تھی، جس سے آپ ۱/ بجے کے قریب ”بنگلور“ پہنچ گئے اور وہاں سے مزید آگے ”وانمباڑی“ تامل ناڈو، کے لیے بذریعہٴ کار روانہ ہوئے تقریباً ۴/ بجے صبح وانمباڑی بعافیت پہنچ گئے۔

” مرکز الاقتصاد الاسلامی“ کا مختصر تعارف:

             قارئین کو بتا دیں کہ حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی نے” مرکز الاقتصاد الاسلامی“ کے نام سے تامل ناڈو کے ایک مشہور شہر ”وانمباڑی“ میں سالِ گزشتہ ایک ادارہ شروع کیا ہے، جو ہندوستان میں اسلامی اقتصادیات پر پہلا ادارہ ہے۔ اس ادارہ کے روحِ رواں ”مفتی سلمان صاحب مظاہری“ ہیں، جنہوں نے ملیشیا سے اقتصادیات پر ڈاکٹریٹ کیا ہے اور اپنے فن میں بڑی مہارت رکھتے ہیں اور اس ادارے کا تعلیمی نظام عالمی اقتصادی ماہرین کے مشورے اور نگرانی میں چلاتے ہیں۔ اس ادارے میں سہ روزہ ورکشاپ ” اسٹاکس شیئرز کی شریعہ اسکریننگ کا تکنیکی و شرعی طریقہٴ کار“ کے عنوان سے منعقد کیا گیا تھا، اس کے فائنل پروگرام کے موقع پر حضرت مولانا وہاں تشریف لے گئے تھے۔

طلبہ کا تعلیمی جائزہ اور فکر انگیز نصیحت:

            آپ ۸/ بجے ادارے میں پہنچ گئے، ورک شاپ کی آخری نشست میں شرکت کی، طلبہ کا تعلیمی جائزہ لیا، ان کی درسیات اور فتاویٰ و مقالہ جات کی کاپیاں جانچی اور ایک گھنٹے سے زائد طلبہ کو” اقتصادیات کی اہمیت اور ہندوستان میں اس کی ضرورت“ پر موٹیویٹ اور ذہن سازی کی اور میدانِ اقتصادیات و جدید مسائل کے اس دور میں امت کی پیاس بجھانے کی اپنی فکر کو ان کے سامنے رکھا اور ایک مضبوط ٹیم کا اولین حصہ بن کر امت کی اس لائن میں رہنمائی کرنے پر زور دیا اور اہمیت دلاتے ہوئے بتایا کہ آپ کے لیے کئی میدان تیار ہیں، بس آپ کو تیار ہو کر آنا ہے۔

اسکول کی ویزٹ:

            وہاں سے فارغ ہو کر میزبان کے اصرار پر ان کے اسکول تشریف لے گئے، اسکول کے معائنے کے بعد معلّمین و معلّمات کے درمیان افراد سازی میں اساتذہ کے کردار پر بڑی اچھی بات کی اور خصوصاً چھوٹے بچوں کی تعلیم کے دوران ان کی اسلامی تربیت کی اہمیت کو جتلایا، جس پر اساتذہ اور اسکول کے منتظمین نے مولانا کا خوب شکریہ ادا کیا۔ اسکول کے معائنہ کے بعد میزبان کے یہاں کھانا تناول کیا اور نمازِ ظہر ادا کرنے کے بعد لیلولہ سے محروم جسم کو صرف قیلولہ پر ہی اکتفا کرنے کے لیے راضی کرلیا۔

وانمباڑی سے اکل کوا واپسی:

             مغرب کی نماز کے بعد کچھ اہم مشورہ کیا عشائیہ اور نماز عشاء سے فارغ ہو کر ۱۰/ بجے چنئی ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہو گئے، دو بجے کے قریب ایئرپورٹ پہنچے اور جانچ کے مراحل سے گزر کر فلائٹ کے مقام پر پہنچے، ابھی چوں کہ فلائٹ میں ڈیڑھ گھنٹے کا وقت باقی تھا، تو اپنی عادت بل کہ طبیعت کے مطابق مطالعے میں لگ گئے طویل رات اور تھکے جسم کے لیے رات کا یہ وقت انتظار میں کاٹنا کس قدر مشکل ہوتا ہے، لیکن کتاب دوست شخص کے لیے یہ وقت اس تیزی سے گزرتا ہے کہ انہیں میٹھی نیند کا ایک جھوکا معلوم ہوتا ہے ۔خیر چار بجے فلائٹ نے زمین کو الوداع کہا اور آسمان کے سینے پر اپنی اڑان کے نقوش ثبت کردیے ،جیسے شاہین اپنی منزل کی طرف محو سفر ہو، دو گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد چھ بجے حضرت اپنے رفقاء کے ہمراہ احمد آباد ایئرپورٹ پہنچے۔ جامعہ کے وی ، سے ڈاکٹر عقیل صاحب ہم سے رخصت لیتے ہوئے گاندھی نگر کے لیے روانہ ہو گئے اور ہم ائیر پورٹ کے بیرونی دروازے کی طرف لپکے ۔دروازے کے باہر حضرت کے ڈرائیور سعید بھائی گاڑی لے کر موجود تھے، حضرت اور آپ کے رفقائے سفر احقر، C.A نور سر اورحنیف بھائی عرف صوفی صاحب فوری طور پر نمازِ فجر کے لیے ایئرپورٹ سے قریب مسجد پہنچے، الحمدللہ! باجماعت نماز مل گئی اور وہاں سے ”اکل کوا“ کے لیے روانہ ہوئے، نو بجے کے قریب انکلیشور پہنچے، صوفی صاحب چوں کہ انکلیشور کے ہی مقیم ہیں، تو آپ کو وہاں ڈراپ بھی کرنا تھا اور ناشتہ کاوقت بھی ہوچلاتھا تو سب نے”آشرواد ہوٹل انکلیشور“ میں ناشتہ بھی کرلیا۔ ناشتہ کے بعدمسلسل چلے اورسوا سو کیلومیٹر کی بقیہ مسافت طے کرتے ہوئے تقریباً ساڑھے بارہ بجے جمعہ سے پہلے جامعہ پہنچ گئے۔ الحمدللہ علی ذلک!