مولانا حذیفہ وستانوی
اللہ رب العزت نے اس دنیا کو تغیرات اور انقلابات کا گہوارہ بنایا ہے، یہاں کی ہر چیز ہر لمحہ تغیر پذیر ہے، اور انسان چوں کہ مقصودِ تخلیق کا ئنات ہے، لہٰذا اس کی زندگی بھی تغیرات و انقلابات سے عبارت ہے، اللہ رب العزت نے پہلے انسان ابوالبشر سید نا وابو نا حضرت آدم صفی اللہ علیہ السلام کو مٹی سے اپنی قدرتِ کاملہ کے ذریعہ بنایا، اس کے بعد انہیں اپنے وطنِ اصلی جنت میں سکونت عطا فرمائی، اور اپنی قدرت ِکاملہ و حکمت ِبالغہ کے ساتھ ماں حضرت حوا علیہا السلام کو ان کی بائیں پسلی سے وجود بخشا، پھر شیطان نے وسوسہ ڈال کر دونوں کو دھو کہ دیکر غلطی پر آمادہ کیا، اور بالآخر اللہ رب العزت کے حکم سے دونوں زمین پر اتار دیے گئے، پھر اللہ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ سے ان دونوں کے ذریعہ نسل ِانسانی کو آگے بڑھایا، تاکہ وہ اپنی عقل و فکر کی حیرت انگیز صلاحیت کو استعمال کر کے امارت و عمارت ارضی دونوں کی ذمہ داری ادا کرے اور تسخیر کائنات کی برکت سے اللہ کی قدرت و عظمت کو جان کر اس سے ٹوٹ کر خوب محبت کرے، اس کے عشق میں دیوانہ و مستانہ ہر لمحہٴ حیات مصروف عمل رہے۔
جہاں پہلے انسان ”حضرت آدم علی نبینا علیہ الصلاة والسلام “ مرحلہ وار تغیرات ِاحوال سے گزارے گئے ،وہیں آپ کی نسل کا ہر فردِ بشر اس زمین پر آنے اور یہاں زندگی بسر کرنے کے لئے مختلف ادوار گزارتا ہے۔ پہلے نطفہ، پھر جنین کی صورت میں ایک عرصہ تک ماں کے پیٹ میں رہتا ہے، پھر دنیا میں وجود پذیر ہو کر بچپن کے سہانے دور سے گزرتا ہے اور اس کے بعد جوانی کے اہم ترین دور میں داخل ہو جاتا ہے؛ ٹھیک ویسے ہی جیسے سورج طلوع ہوتا ہے اور پھر کچھ دیر کے بعد اپنے شباب پر پہنچ کر افق ِعالم کو روشن کرتا ہے، یقینا انسانی زندگی کا بھی یہی دور سب سے زیادہ قیمتی دور ہوتا ہے، اور جس شخص کی بچپن میں اچھی تربیت ہو جائے اور اس کی جوانی کار آمد گزر جائے وہ کامیاب انسان ہوتا ہے، مگر افسوس کہ مادیت اور ٹیکنالوجی کے عروج کے اس دور میں پوری دنیا کے انسان کربناک حالات سے گزر رہے ہیں، مادی ترقی کی ہمہ ہمی نے بچوں سے بچپن کا لطف اور مزہ چھین لیا ہے، تو جوانوں سے جوانی کو کارآمد بنانے کا جذبہ ہی سلب کر لیا ہے، یہاں تک کے بوڑھوں کے لیے بڑھاپے کو بھی اجیرن بنا دیا ہے، یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کیوں کہ انسان، مقصد ِحیات کی فکر کو بھول گیا ہے، اور افسوس کہ وہ اشرف الخلائق ہو کر بھی جانوروں کی طرح صرف کھانے، پینے، موج مستی اور وقت گزاری ہی کو اپنی زندگی سمجھ بیٹھا ہے۔ وإلی اللہ المشتکی!
جوانوں کے نام اہم ترین پیغام:
سو میرا یہ پیغام ہے، امت کے جوانوں کے نام، تاکہ وہ اپنی جوانی میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ طاقت اور صلاحیت کو درست سمت میں استعمال کریں۔ یہ جانیں کہ اپنی زندگی کو بامقصد اور کامیاب بنانے کے لیے کیا کرنا ہو گا، اور کس طرح خود کو ایک ذمہ دار اور کامیاب نوجوان بنایا جا سکتا ہے۔
نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو بے مقصد ضائع کرنے کے بجائے ایسی راہ اختیار کریں، جو نہ صرف ان کے مسائل، مشکلات، پریشانیوں، الجھنوں اور ڈپریشن سے نجات دلائے، بلکہ دنیا و آخرت کی کامیابی کے راستے پر گامزن کرے۔
دس انقلابی صفات:
اسی مناسبت سے بندہ یہاں، عربی زبان کی ایک مختصر تحریر بہ عنوان:
” مواصفات الفرد المسلم التی یجب أن یتحلی بہا حتی یصنع نہضة لأمتہ و عزہا وکرامتہا “ سے کچھ مفید باتیں سپرد قرطاس کر رہا ہے، جس کا عنوان ہے ”وہ اوصاف جنہیں اختیار کر کے مسلمان اسلامی معاشرے کے عروج ،اس کی عزت و کرامت کو چار چاند لگا سکتا ہے“۔
تو آئیے !جانتے ہیں ایسے دس اوصاف، جنہیں اپنے اندر پیدا کرنے سے انسان نہ صرف اپنے مقصد ِحیات کو پا سکتا ہے؛ بلکہ دنیا کو بھی امن و خوشحالی کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں فراست و بصیرت عطا فرمائے، خیر کے انقلاب میں حصہ لینے کی توفیق مرحمت فرمائے، اور ہم سب کو دونوں جہانوں میں کامیاب فرمائے۔آمین یا رب العالمین۔
صفات ِعشرہ
۱- أن یکون سلیم العقیدة:
عقیدہ کا مکمل طور پر صحیح و سالم ہونا۔یعنی ایک سچا اور پکا مسلمان ہونے کے لیے سب سے پہلے اپنے عقیدہ کی صحیح و درست معرفت ضروری ہے، عقیدہ کی درستگی کے لیے دو باتیں ضروری ہیں:
1- ایسی معتبر کتاب کا مطالعہ جس میں صاف ستھرے انداز میں قرآن و حدیث سے ماخوذ عقائد جمع ہوں، اس بابت عربی جاننے والے حضرات کے لیے ” العقیدة الطحاویة “ کا متن بہترین ہے، اس کے معتبر ہونے پر پوری امت کا اجماع ہے اور اردو داں حضرات کے لئے بھی کئی کتابیں ہیں ،جن کے نام ذیل میں درج کردیے گئے ہیں۔
2- دوسری بات :ہر فرد مسلم کم از کم عقیدہٴ طحاوی کو اپنے پاس ضرور رکھے اور اسے کسی معتبر عالم سے سمجھ لے؛ تاکہ کسی قسم کے تردد (confusion) میں مبتلا نہ ہونے پائے، نیز دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں اس کا ترجمہ موجود ہے۔ میں مسلمان عوام سے اور علما سے بھی عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ عقیدہٴ طحاویہ کے متن کو سمجھنے، سمجھانے کا کام ہر شخص اپنی ذمہ داری سمجھ کر اپنے گھر، مسجد، اسکول، کالج، یونیورسٹی اور اپنے اہل محلہ، دوستوں اور رشتہ داروں میں فوری شروع کر دیں۔ ان شاء اللہ ایمان میں رسوخ پیدا ہو گا اور فتنوں کے اس دور میں اللہ پاک ہر قسم کے فکری و اعتقادی فتنوں سے حفاظت فرمائیں گے۔ ہم عنقریب مختلف زبانوں میں اس کے تراجم جتنے پی ڈی ایف میں مل سکتے ہیں جمع کر کے ایک ڈیجیٹل لائبریری کی صورت میں نشر کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ! اور فہم عقائد سینٹر کا ہیلپ نمبر بھی جاری کریں گے اور اس کے دروس پریزینٹیشن کے ساتھ اپنے میڈیا چینل پر بھی شروع کرنے کی کوشش کریں گے، اللہ تعالی ہمیں اخلاص کے ساتھ اس کام کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے لیے آسانی پیدا فرمائے۔ آمین!
عقائد پر اردو میں لکھی گئیں معتبر کتا ہیں مندرجہ ذیل ہیں:
1- ”عقائد ِاسلام “ – مؤلف: مولانا طاہر قاسمی رحمہ اللہ۔
2- ”اسلام کے بنیادی عقائد“ – مؤلف: علامہ شبیر احمد عثمانی نور اللہ مرقدہ۔
3- ”علم الکلام“ – مؤلف: علامہ ادریس کاندھلوی نور اللہ مرقدہ۔
4- ”عقائد الاسلام “- مؤلف: علامہ ادریس کاندھلوی نور اللہ مرقدہ۔
5- ”عقائد اسلام“ – مؤلف: مولانا عبد الحق دہلوی نور اللہ مرقدہ۔
-6”اسلامی عقائد“ – مؤلف: مفتی عبد الواحد نور اللہ مرقدہ ۔
7- ” تعلیم الدین“ – مؤلف: حکیم الامت مجدد ملت حضرت اقدس مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ
-8 ”مفصل و مدلل عقائد اہل سنت و الجماعت “ – مؤلف: مولانا عزیز الرحمن حقانی دامت بر کاتم۔
-9 ”عقائد اہل سنت و الجماعت“ – مؤلف: مفتی طاہر مسعود دامت برکاتم۔
10- اہل سنت و الجماعت کے متفقہ اصول عقائد۔ مؤلف: (ناچیز) حذیفہ وستانوی۔
خلاصہ:
خلاصہ یہ کہ عقیدے کی درستگی ہمارا ترجیحی کام ہونا چاہیے؛ تاکہ کفر و شرک، نفاق، فسق و فجور سے اللہ پاک ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین یارب العالمین!
۲- أن یکون صحیح العبادة:
عبادت کا سنت کے مطابق ہونا۔ہماری عبادتیں سنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہوں، اس کے لیے فقہ اسلامی کی تعلیم ضروری ہے، مگر افسوس کہ ہمارا معاشرہ اس سے بھی غفلت کا شکار ہے، کم از کم ایک مسلمان کے لیے طہارت، نماز، روزہ، زکوة، حج، نکاح یعنی معاشرت و معاملات کے ضروری احکام کا بنیادی علم ہو نا ضروری ہے، کیوں کہ یہ ہر مسلمان پر فرض عین ہے، اس پر بھی خوب علمی کام ہوا ہے، لہذا معتبر علما کی کتابیں معتبر علمائسے سمجھنے کی بھر پور کوشش کی جانی چاہیے۔
اس باب میں مفتی ابو لبابہ صاحب کی ”خواتین کا دینی معلم“، ”مردوں کا دینی معلم“ اسی طرح ہمارے دار الافتا جامعہ اکل کوا کی ”مسائل مہمہ“ وغیرہ عوام و خواص کے لیے بے حد مفید ہیں۔ نیز ہر عاقل و بالغ مسلمان اس بات کا مکمل اہتمام کرے کہ جس کام کو بھی انجام دینا ہو پہلے اس کے بارے میں معتبر علما سے حکم ِشرعی معلوم کرے، جو شخص جس میدان (Field) میں ہے، تو وہ اس میدان (Field) سے متعلق شرعی احکام، تفصیل کے ساتھ سیکھنے کی بھر پور کوشش کرے، یقیناً فرمان باری تعالی: ”ادخلو فی السلم کافة“(بقرہ:۲۰۸) یعنی اسلام میں پورے طور پر داخل ہو جاؤ کا یہی تقاضہ ہے۔
۳- أن یکون متین الخلق:
اخلاق فاضلہ کا حامل ہونا۔یعنی تواضع، انکساری، ادب و احترام، سلیقہ، صفائی، خدمت خلق، شکر، صبر کا عادی ہونا وغیرہ جیسے اخلاق عظیمہ اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ اس کے لیے نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں، تزکیہ و سلوک پر لکھی گئی کتابیں پڑھنے کی کوشش کریں، اس باب میں حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ کی ”دل کی دنیا“ قابل قدر ہے۔
۴- أن یکون حریصا علی وقتہ:
وقت کا مکمل پابند ہونا۔ مسلمان زندگی کے ایک ایک سیکنڈ کو دنیا و آخرت کے کسی نہ کسی مفید کام میں لگائے، کیوں کہ آج کا سب سے بڑا فتنہ وقت کا ضیاع ہے، ہر شخص موبائل پر بیکار اور لغو کاموں میں اپنا وقت صرف کر رہا ہے، جبکہ اسے زندگی کے ہر لمحہ کا جواب دینا ہے، آج ہمارے معاشرے کے نوجوانوں اور بڑی عمر کے افراد کا زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر اور بچوں کا گیم اور کارٹون وغیرہ پر گزرتا ہے، نہ دین کا کوئی فائدہ نہ دنیا کا، جب تک ہم اپنے وقت کی قیمت نہیں جانیں گے اور اسے صحیح استعمال نہیں کریں گے، اس وقت تک ہم نہ دنیا کی کوئی ترقی حاصل کر سکیں گے اور نہ آخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں گے، واقعی یہ بہت بڑا المیہ ہے۔
۵-أن یکون نافعا لغیرہ:
ہر کسی کے لئے نافع ہونا۔ ہمار ا مزاج دوسروں کو نفع پہنچانے کا ہونا چاہیے، آج کا انسان مغربی مادی ذہنیت اور سرمایہ دارانہ نظام کے زیر اثر ہر وقت صرف اپنا ذاتی مفاد دیکھتا ہے، اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتا ہے ،جو انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے، ”خیر الناس أنفعہم للناس“(طبرانی) لوگوں میں سب سے بہترین انسان وہ ہے جو انہیں سب سے زیادہ نفع پہنچانے والا ہو۔
۶-أن یکون قویا فی بدنہ:
بدنی اعتبار سے مضبوط اور تندرست ہونا۔ مومن قوی اور طاقتور ہو، تاکہ وہ کمزوروں کے کام آئے، اپنے اوپر آئی مصیبت کا اچھی طرح دفاع کرنے پر قادر ہو، اور دین ِاسلام کی سربلندی کے لئے وقت کے تقاضہ کو پوری قوت کے ساتھ پورا کر سکے۔
آج ہم سب آرام دہ زندگی کے عادی ہو گئے ہیں، نہ چہل قدمی کی عادت، نہ ورزش، کبھی کوئی ناگہانی آفت آپڑے تو اپنے دفاع سے بھی عاجز، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”المؤمن القوی خیر وأحب الی اللّٰہ من المؤمن الضعیف“(مسلم شریف) طاقتور اور مضبوط مؤمن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کو پسند ہے، لہٰذا اپنے آپ کو ہار ڈاور مشکل کام کا عادی بنانا چاہیے۔
۷-أن یکون قادرا علی الکسب:
کسب ِحلال یعنی حلال روزی کمانے کی صلاحیت رکھنا۔ مختلف اسکلس، مہارتیں اور ہنر جانتا ہو اور محنت و جفا کشی کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو؛تا کہ کسی بھی حال میں لوگوں کا محتاج نہ رہے اور خوب اچھی طرح عزت سے روزی کما سکے، یقینا یہ بھی عبادت ہے۔”طلب کسب الحلال فریضة بعد الفریضة “
(مشکاة المصابیح من 1342 کتاب البیوع الفصل الثالث)
۸-أن یکون منظما فی شئونہ:
منظم اور مرتب زندگی کا عادی ہونا۔ دن رات کے۲۴/گھنٹے منظم ہوں، ہر وقت کے لئے ایک کام اور ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر ہو۔
۹-أن یکون مثقفا فی فکرہ:
علمی بنیادوں پر فکر و نظر کا حامل ہونا۔ یعنی ہر قسم کی ضروری معلومات اور حالات سے واقفیت کی بنیاد پر اپنی ایک مضبوط فکر رکھتا ہو۔
۱۰-أن یکون مجاہدا لنفسہ:
اپنے نفس کے خلاف مجاہدہ کا عادی ہونا۔ یعنی ایسا نہیں کہ جب بھی جو جی میں آیا کر لیا،بل کہ ہر موقع پر نفس کی مخالفت کر کے اتباع ِشریعت کے لیے تیار رہے اور اللہ کی رضامندی کے خاطر جان، مال، عزت، وقت اور نیند سب کی قربانی کے لیے آمادہ رہے۔
یہ وہ دس صفتیں ہیں، جنہیں آج کا نوجوان اگر اپنے اندر لانے کی عملی فکر کرلے تو وہ اس سسکتی، بلکتی اور گناہوں کے دلدل میں ڈوبتی ہوئی دنیا میں ایک صالح انقلاب بر پا کر سکتا ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں اخلاص کے ساتھ ان صفات ِحمیدہ کا حامل بنائے اور اس کے لیے عملی اقدام کی راہیں ہموار فرمائے۔آمین یا رب العالمین