بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

مولانا افتخار احمد قاسمی بستوی (استاذ جامعہ اکل کوا)

            اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کی ہدایت و اصلاح کی خاطر کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو دنیا میں بھیجا اور نئی کتاب و نئی شریعت کے ساتھ ۳۱۵/ رسولوں کو مبعوث فرمایا اور سب سے آخر میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام رسولوں کا سردار ،اور دنیا جہاں والوں کے لیے رحمتِ مجسم بنا کر ارسال فرمایا۔اللہ رب العزت نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا:

            ﴿ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّیْنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ o وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمِ﴾۔

 (سورة الجمعة:۶۲ )

            مفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہ(ولادت: ۵/ اکتوبر۱۹۴۳ء) آسان ترجمہٴ قرآنِ کریم میں ترجمہ کرتے ہیں:

            ”وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا، جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں اور ان کو پاکیزہ بنائیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیں، جب کہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے اور( یہ رسول جن کی طرف بھیجے گئے ہیں) ان میں سے کچھ اور بھی ہیں جو ابھی ان کے ساتھ آکر نہیں ملے، اور وہ بڑے اقتدار والا، بڑی حکمت والا ہے۔“

            مفتی محمد تقی صاحب مدظلہ(ولادت: ۵/ اکتوبر۱۹۴۳ء) تفسیر کرتے ہوئے نمبر (۲) کے تحت لکھتے ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم صرف ان عربوں کے لیے رسول بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے ،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے، بل کہ آپ تو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجے گئے ہیں، چاہے وہ کسی نسل سے تعلق رکھتے ہوں۔

            علامہ شبیر احمد عثمانی (متوفی:۱۳/دسمبر۱۹۴۹ء۔ ولادت: ۱۱/ اکتوبر ۱۸۸۷ء) مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے منصبِ نبوت پر روشنی ڈالتے ہیں اور” اُمِّیِّیْن“ کے تحت تحریر فرماتے ہیں کہ” اُمِّیِّیْن (ان پڑھ) اہلِ عرب کو کہا، جن میں علم و ہنر کچھ نہ تھا، نہ کوئی آسمانی کتاب تھی، معمولی لکھنا پڑھنا بھی بہت کم آدمی جانتے تھے، ان کی جہالت و وحشت ضرب المثل تھی، خدا کو بالکل بھولے ہوئے تھے، بت پرستی ،او ہام پرستی اور فسق و فجور کا نام ”ملتِ ابراہیم“ رکھ چھوڑا تھا، اور تقریباً ساری قوم صریح گمراہی میں پڑی بھٹک رہی تھی، ناگہاں! اللہ تعالیٰ نے اسی قوم میں ایک رسول کو اٹھایا، جس کا امتیازی لقب ”نبی اُمی“ ہے، لیکن باوجود اُمی ہونے کے اپنی قوم کو اللہ کی سب سے زیادہ عظیم الشان کتاب پڑھ کر سناتا اور عجیب و غریب علوم و معارف اور حکمت و دانائی کی باتیں سکھلاکر ایسا حکیم اور شائستہ بناتا ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے حکیم و دانا اور عالم و عارف اس کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتے ہیں۔“

            فائدہ نمبر (۷) کے تحت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمة اللہ علیہ(متوفی:۱۳/دسمبر۱۹۴۹ء۔ ولادت: ۱۱/ اکتوبر ۱۸۸۷ء) لکھتے ہیں: ” یعنی یہی رسول دوسرے آنے والے لوگوں کے واسطے بھی ہیں ،جن کو مبدأ و معاد اور شرائع سماویہ کا پورا اور صحیح علم نہ رکھنے کی وجہ سے” ان پڑھ“ ہی کہنا چاہیے، مثلاً فارس( ایران)، روم، چین اور ہندوستان وغیرہ کی قومیں جو بعد کو ”امیین“ کے دین اور اسلامی برادری میں شامل ہو کر انہی سے ہو گئیں۔“

             حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی  (۱۷۰۳ء-۱۷۶۲ء) لکھتے ہیں کہ: حق تعالی نے اول عرب پیدا کیے، اس دین کو تھامنے والے، پیچھے عجم میں ایسے کامل لوگ اٹھے“ حدیث میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے﴿ وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمِ﴾(۳/۶۳/جمعہ) والی آیت کی نسبت سوال کیا گیا تو سلمان فارسی کے شانے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر علم یا دین ثریا پر جا کر پہنچے گا ، تو اس کی قوم فارس کا مرد وہاں سے بھی لے آئے گا)

             شیخ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ(۸۴۹ھ-۹۱۱ھ مطابق ۱۴۴۵ء – ۱۵۰۵ء ) وغیرہ نے تسلیم کیا ہے کہ اس پیشین گوئی کے بڑے مصداق حضرت امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت (۸۰ھ-۱۵۰ھ مطابق ۶۹۹ء-۷۶۷ء)ہیں۔سورة الاحزاب پارہ ۲۱/ سورت ۳۳/ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ ﴾(آیت:۶)حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی (۱۲۶۷ھ-۱۳۳۹ھ، ۷۱/ سال عمر) آیت کا ترجمہ کرتے ہیں:” نبی سے لگاؤ ہے ایمان والوں کو زیادہ اپنی جان سے اور اس کی عورتیں (۶) ان کی مائیں ہیں (۷)اور قرابت والے ایک دوسرے سے لگاؤ رکھتے ہیں اللہ کے حکموں میں زیادہ سب ایمان والوں اور ہجرت کرنے والوں سے ، مگر یہ کہ کرنا چاہو اپنے رفیقوں سے احسان(۸) یہ ہے کہ کتاب میں لکھا ہوا۔ (۹)

            حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی (متوفی:۱۳/دسمبر۱۹۴۹ء۔ ولادت: ۱۱/ اکتوبر ۱۸۸۷ء)فائدہ نمبر (۶)کے تحت رقم طراز ہیں:

            ”مومن کا ایمان اگر غور سے دیکھا جائے تو ایک شعاع ہے اس نور ِاعظم کی جو آفتابِ نبوت سے پھیلتا ہے، آفتابِ نبوت پیغمبر( صلی اللہ علیہ وسلم) ہوئے، بنا بریں مومن( من حیث المومن) اگر اپنی حقیقت سمجھنے کے لیے حرکتِ فکری شروع کرے تو اپنی ایمانی ہستی سے پیشتر اس کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کی معرفت حاصل کرنی پڑے گی۔ اس اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ نبی کا وجودِ مسعود خود ہماری ہستی سے بھی زیادہ ہم سے نزدیک ہے اور اگر اس روحانی تعلق کی بنا پر کہہ دیا جائے کہ مومنین کے حق میں نبی بمنزلہ باپ کے، بل کہ اس سے بھی بمراتب بڑھ کر ہے تو بالکل بجا ہوگا، چناں چہ سنن ابی داؤد میں”انما أنا لکم بمنزلة الوالد الخ“ اور ابی بن کعب  وغیرہ کی قرأت میں آیت﴿النبی اولیٰ بالمومنین الخ﴾ کے ساتھ”وہو أب لہم “ کا جملہ اسی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے ، باپ بیٹے کے تعلق میں غور کرو تو اس کا حاصل یہی نکلے گا کہ بیٹے کا جسمانی وجود باپ کے جسم سے نکلا ہے اور باپ کی تربیت و شفقتِ طبعی اوروں سے بڑھ کر ہے، لیکن نبی اور امتی کا تعلق کیا اس سے کم ہے؟ یقینا امتی کا ایمان اور روحانی وجود نبی کی روحانیتِ کبریٰ کا ایک پر تو اور ظل ہوتا ہے اور شفقت و تربیت نبی کی طرف سے ظہور پذیر ہوتی ہے، ماں باپ تو کیا تمام مخلوق میں اس کا نمونہ نہیں مل سکتا، باپ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے ہم کو دنیا کی عارضی حیات عطا فرمائی تھی، لیکن نبی کے طفیل ابدی اور دائمی حیات ملتی ہے۔

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری وہ ہمدردی اور خیر خواہانہ شفقت و تربیت فرماتے ہیں ،جو خود ہمارا نفس بھی اپنی نہیں کر سکتا، اس لیے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری جان و مال میں تصرف کرنے کا وہ حق پہنچتا ہے، جو دنیا میں کسی کو حاصل نہیں۔

             حضرت شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ”نبی نائب ہے اللہ کا، اپنی جان و مال میں اپنا تصرف نہیں چلتا جتنا نبی کا چلتا ہے، اپنی جان دہکتی آگ میں ڈالنا روانہیں، اور اگر نبی حکم دے دے تو فرض ہو جائے۔“ انہی حقائق پر نظر کرتے ہوئے احادیث میں فرمایا: کہ تم میں سے کوئی آدمی مومن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک باپ بیٹے اور سب آدمیوں سے بل کہ اس کی جان سے بھی بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔

(متفق علیہ)

            حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی (۱۲۸۰ھ-۱۳۶۲ھ مطابق ۱۸۶۳ء-۱۹۴۳ء)بیان القرآن جلد سوم میں ص:۱۶۵/ پر﴿النبی اولیٰ بالمومنین﴾ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ ” نوعِ اول اجلالِ رسول بیان اولیت مع بعض احکام توارث“ یہ حضرت تھانوی علیہ الرحمہ نے عنوان لگایا ہے، جس کے تحت لکھتے ہیں کہ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم مومنین کے ساتھ خود ان کے نفس (اور ذات) سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں، (کیوں کہ نفس اگر برا ہے تب تو ظاہر ہی ہے کہ وہ بد خواہ ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم خیر خواہ ہیں اور اگر نفس اچھا ہے تو تب بھی بعض مصالح و منافع اس سے مخفی رہتے ہیں، ان مصالح کا مشورہ وہ نفس نہیں دے سکتا۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جمیع مصالحِ ضروریہ کا علم عطا فرمایا ہے اور آپ نے ان کی تعلیم فرمائی ہے، بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نفع ہی نفع ہے اور پھر ہر نوع کا نفع پہنچتا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی جان سے بھی زیادہ حق ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت مطلقًا اور تعظیم بدرجہٴ کمال واجب ہے،( اور اس میں تمام احکام و معاملات آگئے) اور( اس اولویتِ مذکورہ کی جو ابوّتِ معنویہ ہے فرع یہ بھی ہے کہ) آپ کی بیبیاں ان( مومنین) کی مائیں ہیں( وجوبِ تعظیم میں) اور یہ ابوّت چوں کہ معنوی ہے، اس لیے اس کے لوازم میں سے مومنین کی اخوت صوریہ نہیں ہے کہ توارث اس کے لیے لازم ہو،بل کہ تعلق ایمان و ہجرت سے توارث بعض مصالح سے ایک وقت محدود تک جاری رکھا گیا اور اب تغیرِ مصالح سے اس کو منسوخ کر کے یہ حکم لگایا گیا) کہ رشتہ دار کتاب اللہ یعنی حکمِ شرعی) میں ایک دوسرے سے ( میراث کا) زیادہ تعلق رکھتے ہیں بہ نسبت دوسرے مومنین اور مہاجرین کے، مگر یہ کہ تم اپنے (ان) دوستوں سے( بطور وصیت کے) کچھ سلوک کرنا چاہو تو وہ جائز ہے، یہ بات لوح محفوظ میں لکھی جا چکی تھی( کہ اخیر حکم شریعت کا توارث بالأ رحام ہوجائے گا۔)

            یہاں حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی فائدہ کے عنوان کے تحت رقم طراز ہیں:

            ”ازواج کا امہات ہونا باعتبار تعظیم کے ہے اور تعظیم کی ایک نوع تحریم بھی ہے، اس لیے تحریم بھی واقع ہوئی، قال اللہ تعالیٰ﴿وَلَا اَنْ تَنْکِحُوْا اَزْوَاجَہُ مِنْ بَعْدِہ اَبَدًا﴾(پ:۲۲/ احزاب) اور بے حجابی کا تعظیم سے کوئی تعلق نہیں، بل کہ احتجاب اقرب الی التعظیم ہے، اس لیے پہلے ان احکام یعنی جوازِ خلوت و نظر و مس وامثالہا میں امومیت ثابت نہیں اور جب امومیت کی اصل حقیقت تعظیم ہے تو ازواجِ مطہرات ام المومنات بھی ہیں، چناں چہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا( ۹۰/ سال کی عمر میں انتقال ہوا)”انا أم الرجال منکم والنساء“اخرجہ في الروح عن ابن سعد اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا(متوفی:۵۷ھ) سے جو منقول ہے”انا أم رجالکم لا أم نساء کم“اخرجہ في الروح أیضا عن ابن سعد و سنن البیہقي۔ وہ با عتبار مجموعہ اصل وفرع کے جو انتفاء فرع یعنی حرمتِ نکاح سے مرتفع ہے، کیوں کہ حرمتِ نکاح موقوف ہے قابلیتِ نکاح پر اور وہ نساء میں نساء کے ساتھ مفقود ہے اور ابوتِ معنویہ باصلہا المذکور تمام انبیا علیہم السلام کے لیے ثابت ہے۔ اسی لیے لوط علیہ الصلوة والسلام(ولادت: ۱۸۰۰ ق۔م) نے ارشاد فرمایا:﴿ہٰولاء بناتی﴾(الحجر:۳۱) چناں چہ روح میں مجاہد(ولادت: ۲۱/ ھ-وفات:۱۰۴ھ) سے منقول ہے کہ” کل نبی أب لامتہ “ البتہ اس اصل کی فرع یعنی تحریمِ نکاح ازواجِ انبیاعلیہم السلام اس پر کوئی دلیل نفیًا یا اثباتاًکافی نہیں، البتہ روح میں مواہب سے اس کی خصوصیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونا نقل کیا ہے۔ واللّٰہ أعلم۔

 (سورة الاحزاب: ۳۳/ پارہ :۲۱/ ص: ۱۶۶/ بیان القرآن جلد سوم)

            یہ بات قابلِ لحاظ ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تبجیل اور منصوریت و محبوبیت اور عظمت ِشانِ نبوی کو بیان کرنے کے لیے پوری سورہٴ احزاب اتاری ہے۔ جیسا کہ حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی (۱۲۸۰ھ-۱۳۶۲ھ مطابق ۱۸۶۳ء-۱۹۴۳ء)سورة الاحزاب کے شروع ہی میں ربط کے عنوان سے رقم طراز ہیں:

            ”مضامینِ سورت میں ما بہ الاشتراک دلالت ہے جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی منصوریت و محبوبیت و خصوصیت و اکرامیت عند اللہ بوجوہ مختلفہ اور آپ کے وجوب ِ تعظیم منکر و حرمت ایذا بانواع متشتتہ علی الناس پر باقی مضامین یا اس کے مقدمات ہیں یا متمہات، چناں چہ تامل سے اجما لاً اور میرے رسالہ” سبق الغایات“ میں دیکھنے سے اور اس سے زیادہ تفسیر ہذا میں تمہیدات آیاتِ سورت کے دیکھنے سے تفصیلاً معلوم ہو سکتا ہے اور سورتِ سابقہ کا اختتام بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی پر تھا کہ وہ بھی دلیل ہے محبوبیت کی اور چوں کہ ایذائے رسول بطورِ کلی مشکک کے شامل ہے، چند اقسامِ ایذا کو ”بعضاً أشد و بعضاً أخف“ چناں چہ اوپر اس کی طرف اشارہ بھی ہوا ہے، سو ان میں سے ایک ایذا کفار کی طرف سے قولی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کرتے تھے کہ نعوذ باللہ ! آپ دعوتِ اسلام سے باز رہیں اور یہ آپ کو اتنا مال دیں گے اور بعض نے قتل کی دھمکی دی۔ کذا فی الدر للسیوطی، اس پر آپ کو رنج ہوا، چناں چہ سورت اسی کے متعلق مضمون سے شروع کی گئی ہے۔

(بیان القرآن جلد :۳/۱۶۳)

            ان مذکور الصدر معروضات سے پتہ چلا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ اللہ رب العزت کی نظر میں اتنا زیادہ ہے کہ بیان بھی نہیں کر سکتے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ (۱۷۴۶ء-۱۸۲۴ء) یا بعض کہتے ہیں کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی(۹۵۹ھ-۱۰۵۲ھ) کا یہ نعتیہ قطعہ زبانِ زد خاص و عام ہے، جس کے تین مصرعے عربی زبان میں ہیں اور ایک مصرع فارسی زبان میں ہے۔ شعر یہ ہے

یا صاحب الجمال ویا سید البشر

من وجہک المنیر لقد نور القمر

لا یمکن الثناء کما کان حقہ

بعد از خدا بزرگ تو ئی قصہ مختصر

            کفار و مشرکین آپ کی حیاتِ مبارکہ میں بھی اور آپ کے بعد بھی آپ کے مقام و بلند مرتبے کو نہ پہچان سکے یا پہچان کر بھی تعصب و ضد پر اڑے رہے، اڑے رہنے کا انجام دنیا میں بھی دیکھ لیا اور آخرت کی سزا تو یقینی ہے۔

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں آپ کے چچا ابو لہب(۵۴۹ء-۶۲۴ء) نے آپ کی عظمتِ شان کو نہ پہچانا اور سخت توہین کا ارتکاب کیا۔ نضر بن حارث (موت:۶۲۴ء)بھی ان بد قماش کافروں میں تھا، جس نے بار بار نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی، عقبہ بن ابی معیط(م:۶۲۴ء) بھی آپ کا بدترین دشمن اور سخت توہین کنندگان میں شامل ہے، کعب بن اشرف(م:۶۲۴ء) یہودی بنو نظیر قبیلے کا یہودی شاعر تھا، آپ کی شان ارفع و اعلیٰ میں توہین آمیز اشعار کہتا رہتا تھا، اللہ رب العزت نے ان تمام بدخصلت اور بدقماش کافروں کو دنیا ہی میں ان کا انجامِ بد دکھا دیا۔

            ابو لہب کے بارے میں تو پوری سورت” سورہٴ ابی لہب“ یا ”سورہٴ مسد“ اتار دی ۔(بیان القرآن جلد: ۳/۱۹۴)پرحکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ”خسارہٴ مضاد رسول “کے عنوان کے تحت تحریر فرماتے ہیں:

            ” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“﴿تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَہَبٍ وَّ تَبَّ مَا اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہ وَمَا کَسَبَ سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ وَّامْرَاَتُہ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ فِیْ جِیْدِہَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ﴾

            سبب نزول اس کا صحیحین وغیرہ میں یہ آیا ہے کہ جب﴿ وَاَنْذِرْعَشِیْرَتَکَ اْلاَقْرَبِیْنَ﴾ (الشعراء:۲۱۴) نازل ہوئی اور آپ نے کوہِ صفا چڑھ کر پکار کر سب کو جمع کر کے دعوتِ اسلام کی تو ابو لہب بن عبدالمطلب نے گستاخانہ کہا: ” تبا لک سائر الیوم ألہذا جمعتنا “اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ” تو برباد ہوجائے کیا ہم کو اسی بات کے لیے جمع کیا تھا ۔“ اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور اس ابو لہب کی ایک بیوی تھی خاردار لکڑیاں جمع کر کے لاتی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں بچھاتی۔ کذا في الدر المنثور للسیوطي عن البیہقی وغیرہ۔ اس سورت میں اس کی مذمت ہے اور وجہِ مشترک دونوں کی مذمت کی عداوت مع الرسول ہے، پس ارشاد ہے کہ” ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ برباد ہو جاوے( چنانچہ واقعہ بدر کے سات روز بعد اس کے طاعون کا دانہ جس کو” عدسہ“ کہتے ہیں نکلا اور مرض لگ جانے کے خوف سے سب گھر والوں نے اس کو الگ ڈال دیا، یہاں تک کہ اسی حالت میں مر گیا اور تین روز تک لاش یوں ہی پڑی رہی، جب سڑنے لگا تب مزدوروں سے اٹھوا کر دبوایا، انہوں نے ایک گڑھا کھودکر اس کو ایک لکڑی سے اندر ڈھلکا کر اوپر سے پتھر بھر دیے۔ کذا فی الروح۔ اس تکلیف اور ذلت سے زیادہ دنیا کی کیا بربادی ہوگی اور دونوں ہاتھوں سے کنایہ ذات سے ہوتا ہے، بس اس تقدیر پر کلام مبنی ہوگا تاکید پر اور یا یوں کہا جاوے کہ اکثر اعمال ہاتھوں سے ہوتے ہیں بس اس سے ہلاک ِ اعمال اور دوسرے جملے سے ہلاکِ ذات مراد ہوگا اور حاصل یہ ہوگا کہ وہ اس طرح ہلاک ہوگا کہ اس کی تدبیریں سب کے سب بیکار ہو جائیں گی اور ہر حال میں اس بددعا سے مراد اخبار عن الہلاک ہے بطور پیشین گوئی کے۔ اور تعبیر میں ہاتھوں کی تخصیص کا یہ نکتہ ہو سکتا ہے کہ وہ ہاتھوں سے آپ کو تکلیف پہنچاتا تھا، چناں چہ روح المعانی میں بحوالہ مجمع طارق سے روایت ہے کہ میں نے ایک بار دیکھا کہ سوق ذی المجاز میں آپ آگے آگے دعوتِ اسلام کرتے ہوئے چلے جارہے ہیں اور پیچھے پیچھے ابولہب پتھر مارتا ہوا آرہا ہے، جس سے آپ کے ساق اور قدم لہولہان ہوگیا ہے، اور روح میں بحوالہ بیہقی حضرت ابن عباس (۶۱۹ء-۶۸۷ء) سے روایت ہے کہ ایک بار لوگوں سے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد فلاں امور ہوں گے، پھر ہاتھوں کے طرف اشارہ کرکے کہنے لگا کہ ان امور میں سے ان ہاتھوں میں تو کوئی چیز نہیں آئی، پھر دونوں ہاتھوں سے خطاب کرکے کہا : ”تبا لکما ما أری فیکما شیئا مما یقول محمد“(صلی اللہ علیہ وسلم) اس لیے ہاتھوں کی طرف تباب کی نسبت فرمائی اور مادہ تباب کا اختیار کرنا، اس لیے ہے کہ اس نے بھی اپنے کلام میں اسی مادہ کا استعمال کیا تھا اور چوں کہ بد دعا سے مقصود خبر عن الایقاع ہے اس لیے کلام مذکور اس قول میں ہوا کہ وہ ہلاک ہوگا جس پر وہ یہ شبہ کرسکتا ہے کہ میں اپنے مال و تدبیر کی بدولت بچ جاوٴں گا اس لیے آگے ارشاد ہے کہ ) نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی (مال سے مراد سرمایہ اور ”ما کسب“ سے مراد اس سرمایہ کا ربح اور نفع یعنی کسی قسم کا مال اس کو ہلاکت سے نہ بچا وے گا اور اس ماضی سے مراد مستقبل ہے۔ یہ حالت تو اس کی دنیا میں ہوئی اور آخرت میں وہ عنقریب (مرنے کے متصل) ایک شعلہ زن آگ میں داخل ہوگا اور اس کی بیوی بھی جو لکڑیاں لاد کر لاتی تھی(مراد خاردار لکڑیاں ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے اور دوزخ میں پہنچ کر ) اس کے گلے میں دوزخ کی زنجیر اور طوق ہوگا، کقولہ تعالیٰ: ﴿اِذِ الْاَغَلاَ لُ فِی اَعْنَاقِہِمْ وَالسَّلَاسِلُ ﴾(المومن: ۷۱) کہ گویا وہ ایک رسی ہوگی خوب بٹی ہوئی (تشبیہ شدت اور استحکام میں ہے اور ہر چند کہ مشبہ اس صفت میں زیادہ معروف ہے لیکن اس اعتبار سے مشبہ بہ زیادہ معروف ہے ”حما لة الحطب“ کے معنی سے ”حبل من مسد“ کے طرف ذہن منتقل ہوتا ہے۔

 (بیان القرآن جلد :۳/۲۹۵)

            اس سے پتہ چلا کہ اللہ رب العزت اپنے مقبولین کے لیے انتقام لیتا ہے۔ آج کے حالات میں لوگوں کو ڈرنا چاہیے، نہیں تو خدا کے انتقام کا انتظار کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔ آمین !

وصلی اللّٰہ علی النبی الکریم۔