معارفِ باندوی

آلات ِعلم قلم، کا غذ کا ادب :

            فرمایا: جس طرح کتابوں کا ادب کرنا چاہیے، اسی طرح آلاتِ علم، قلم، کا غذ وغیرہ کا بھی ادب کرنا چاہیے۔ راستہ میں جہاں کہیں کاغذ پڑا ہو (خصوصاً احاطہٴ مدرسہ میں اور بالخصوص جب کہ: اُس میں کچھ لکھا ہوا ہو۔) اُس کو اُٹھا لینا چاہیے، لیکن عجیب بات ہے کہ: اتنی تنبیہ کرنے کے بعد بھی کسی کو اس کے اہتمام کی توفیق نہیں ہوتی، درسگاہ اور مسجد کے راستے سے گزرتے چلے جاتے ہیں، راستہ میں کاغذ پڑا ہے، اینٹ پڑی ہے، کوڑا پڑا ہوا ہے اور کچھ فکر نہیں۔ صفائی ستھرائی تو مؤمن کے اوصاف میں سے ہے، نہ معلوم یہ گندگی کیسے اچھی معلوم ہوتی ہے؟ حدیث شریف میں آیا ہے کہ: بہت سے لوگوں کی بخشش صرف اس وجہ سے ہو جائے گی کہ راستہ سے انہوں نے تکلیف دہ چیز ہٹا دی تھی۔ اور ایذا صرف اس سے نہیں ہوتی کہ راستہ میں کانٹا پڑا ہے، روڑا پڑا ہے، بل کہ ہر وہ چیزیں جس سے دوسرے کو تکلیف ہو سب اس میں داخل ہیں، راستہ میں گندگی دیکھ کر مؤمن کو ایذا ہوتی ہے وہ بھی اس میں داخل ہے، اگر تم کو خود کوڑا اٹھانے کی توفیق نہیں ہوتی تو کم از کم ذمہ داروں ہی کو اطلاع کر دو، یہ تو ادنیٰ درجہ کی بات ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ: ایک شخص کی مغفرت صرف اس بنا پر ہوئی کہ: اس نے زمین میں ایک کاغذ پڑا ہوا دیکھا، جس پر اللہ کا نام لکھا ہوا تھا، اُس شخص نے وہ کاغذ ادب و عظمت سے اُٹھایا اور اُس کو چوما اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اُس کی مغفرت فرمادی۔

            (البدایة والنہایة،ثم دخلت سنة سبع عشرین ومائتین، وفیہا بشر الحافی الزاہد المشہور: ج۱۰/۴۹۸،طبع دار الفکر، بیروت)

            اِس کے بعد بھی اگر ہم کو کاغذ اٹھانے کی توفیق نہ ہو تو تعجب ہے۔ کیا یہ ثواب کا کام نہیں ہے؟

            کیا اس سے جنت نہیں ملتی؟

            کیا اس سے مغفرت نہیں ہوتی؟

            پھر آخر کیوں یہ کام نہیں کرتے؟!!

             اصل بات یہ ہے کہ: بے فکری کا مرض عام ہوتا جا رہا ہے، آخرت کی فکر نہیں، جنت کی طلب نہیں ورنہ ایسے کام کیے جاتے جن سے جنت ملے۔

            حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایسے شخص پر لعنت ہوتی ہے، جو راستے میں ایذا پہنچانے والی چیز ڈال دے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: باب الخاء ، بابو عقیل عامر بن واثل عن حذیفہ بن اسید: ج/۳/۱۷۹، ضع ابن تیمیہ، القاہرہ)

بلاو ضو کتا بیں نہیں چھونی چاہیے، ناظم صاحب کی معیت میں تھانہ بھون جانے کا واقعہ:

            فرمایا: کتابوں کا بہت احترام کرنا چاہیے۔ تفسیر، حدیث، فقہ کی کتابوں کو بلاو ضو نہیں چھونا چاہیے، کوشش کی جائے تو کوئی مشکل نہیں۔

            ایک مرتبہ حضرت ناظم صاحب کے ساتھ ششماہی امتحان کے بعد تھانہ بھون جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے امتحان کے پرچے ساتھ لے لیے کہ راستہ میں دیکھتا رہوں گا، احقر نے پرچوں کی گڈّی پر کپڑے رکھ دیے، حضرت ناظم صاحب  نے ٹو کا اور فرمایا: اس طرح نہیں کیا کرتے؟ یہ ادب کے خلاف ہے۔ میں نے عرض کیا: حضرت! یہ کتاب تو ہے نہیں!پرچے ہیں۔ فرمایا: کتاب تو نہیں ہے لیکن پرچے تو کتاب ہی کے ہیں؟!! اُس وقت مجھے بہت ندامت ہوئی۔ بسا اوقات کسی ایک جانب التفات نہیں ہوتا، لیکن التفات ہو جانے کے بعد تو احتیاط کرنی چاہیے۔ کتاب بمعنی مکتوب کے ہے۔ ہر وہ چیز جو کاپی کاغذ میں یا کتاب میں لکھی ہوئی ہو اُس کا ادب کرنا چاہیے، اُس پر دوات وغیرہ بھی نہیں رکھنی چاہیے۔

            تفسیر کی کتاب سب سے اوپر، پھر حدیث کی، پھر فقہ کی کتابیں ہونی چاہئیں اور سب سے بہتر یہ ہے کہ: کتا بیں کھڑی کھڑی رکھی جائیں؛ تا کہ کوئی کتاب کسی کے او پر نہ ہو۔

ادب سے ترقی ہوتی ہے:

            فرمایا: ایک بزرگ کے سامنے امام احمد بن حنبل  کا نام لیا گیا، تو لیٹے ہوئے تھے اٹھ کر بیٹھ گئے۔ ان میں اتنا ادب تھا اور یہاں (بلا عذر ) لیٹ کر کتابیں دیکھا کرتے ہیں، بڑوں کی بے ادبی کرتے ہیں، علم آئے تو کیسے آئے؟ ادب سیکھو! یہی وہ باتیں ہیں جن سے انسان ترقی کرتا ہے۔

امام شافعی کا ادب :

            حضرت امام ابو حنیفہ جس مقام پر مدفون ہیں ایک مرتبہ امام شافعی اس مسجد میں تشریف لے گئے، نماز پڑھنے کی حالت میں بجائے سینہ پر ہاتھ باندھنے کے ناف کے نیچے ہاتھ باند ھے اور رفعِ یدین بھی نہیں کیا، حالاں کہ ان کے مسلک میں سینہ پر ہاتھ باندھنا اور رفعِ یدین کرنا ہے، لیکن صرف امام صاحب  کے علم کے ادب اور احترام کی وجہ سے آپ نے ایسا کیا؛حالاں کہ امام صاحب مر چکے تھے ،مدفون تھے۔ جب یہ باتیں انسان میں پائی جاتی ہیں تب وہ کہیں سے کہیں پہنچتا ہے۔

ادب کی وجہ سے مغفرت:

            ایک مرتبہ ایک شخص نہرپر بیٹھے وضو کر رہا تھا۔ اتنے میں امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ تشریف لے آئے اور نیچے کی جانب بیٹھ کر وضو فرمانے لگے۔ اُس شخص نے خیال کیا کہ: یہ اتنے بڑے امام ہیں اور میں اُن سے اُوپر کی جانب بیٹھا ہوں میرا اِستعمال کیا ہوا پانی ان کی طرف بہہ کر جا رہا ہے۔ صرف اس خیال سے ادب کی وجہ سے وہاں سے اُٹھ کر دوسری جانب بیٹھ گیا۔ جب اُس کا انتقال ہوا کسی نے اُس کو خواب میں دیکھا، حال دریافت کیا؟ اُس نے کہا کہ: اس عمل کی وجہ سے اللہ نے مغفرت فرمادی۔ واقعی ادب بڑی چیز ہے آدمی اس سے ترقی کرتا ہے۔

ادب واحترام کی کمی محرومی کا باعث ہے:

            فرمایا: اس کی کیا وجہ ہے کہ: جو نصاب اور جو کتا بیں پہلے پڑھائی جاتی تھیں اب بھی داخلِ درس ہیں لیکن اب کتابوں کو پڑھ کر ایسے افراد تیار نہیں ہوتے، جس طرح ان ہی کتابوں کو پڑھ کر پہلے تیار ہوا کرتے تھے؟ نہ تو اُن میں علمی پختگی اور استعداد ہوتی ہے اور نہ ان کی عملی زندگی درست ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ بالکل نکمّے کسی کام کے نہیں رہتے۔

            جہاں اس کے بہت سے اسباب ہیں ایک بڑا سبب اس کا یہ بھی ہے کہ: لوگ اساتذہ کا ادب و احترام نہیں کرتے، اس کی وجہ سے محروم کے محروم رہتے ہیں۔ لوگ ان باتوں کو معمولی سمجھتے ہیں حالاں کہ ان ہی جیسے اعمال سے لوگ نہ معلوم کہاں سے کہاں پہنچ گئے؟!! سب کچھ ”ہدایہ“ اور” جلالین“ ہی سے نہیں ہوتا، کتابوں کی طرح ایک اہم سبق اساتذہ کا ادب اور ان کی خدمت بھی تو ہے۔

            علم کی طرح دیگر فضائل و کمالات مثلاً ”حُسنِ اخلاق“ وغیرہ حاصل ہونا بھی تو ضروری ہے، جو بزرگوں کی خدمت میں رہ کر حاصل ہوتے ہیں۔ جب یہ باتیں بھی ضروری ہیں تو پھر آخر کیوں ان سب چیزوں کے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی؟ کیوں اُس طرف سے غفلت اور بے توجہی برتی جاتی ہے؟

(افاداتِ صدیق :۱/ ۱۶۹-۱۷۳)