اسلامی عقائد کی اساس

 

 توحید، رسالت و ختم ِنبوت اور آخرت

افتخار احمد قاسمی بستوی

            صحابہٴ کرام نے جو دین اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا تھا اس کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دیا لیکن اس کے باوجود کچھ شرپسندلوگوں نے اس دین کے حلیے کو بدل دیا اور اس میں بدعا ت اور خرافات کو داخل کردیا- عبداللہ بن سبا یہودی نے حضرت عثمان کے دور میں اہلِ بیت کی محبت کا ڈھونگ رچا کر حضرت عثمان کے خلاف بغاوت کا ماحول پیدا کر دیا اور اس کی فتنہ انگیزی کا ہی نتیجہ تھا کہ حضرت عثمان کو شہید کیا گیا-یہ پہلا فتنہ تھا اور اس کے بعد فتنوں کا ایسا سیلاب آیا کہ فتنے پر فتنے پھوٹنے لگے اور رافضی، خارجی،جہمی،معتزلی اور دیگر عقائد میں گمراہ فرقوں نے جنم لیا-مصنف نے اپنی کتاب میں اہلِ سنت کے عقیدے کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کو بڑے اچھے انداز سے بیان کی ہے-مثلاً :یہ کہ مسلمان میں اطاعت اور اتباع کا جذبہ ہونا چاہیے،رسولوں پر ایمان،آسمانی کتابوں پر ایمان اور تمام برحق انبیاء پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو بلا تاویل اور تعطیل کے قبول کرنا اور ان صفات سے اللہ تعالیٰ کو متصف سمجھنا-مسلمان حکمرانوں کے خلاف بغاوت نہ کرنا،شریعت کی نافرمانی کی صورت میں کسی انسان کی بات کو قبول نہیں کیا جائے گا اور اسی طرح اس چیز کی وضاحت کی گئی ہے کہ کسی بھی مسلمان کواہلِ سنت والجماعت کے نزدیک دائرہ اسلام سے کب خارج تصور کیا جائے گا۔

            اہلِ سنت والجماعت سے مراد وہ جماعت اور طبقہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے والا، صحیح عقیدہ کا حامل اور صحابہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کرنے والا ہو جیسا کہ آپ علیہ الصلاة والسلام نے”ما انا علیہ واصحابی“ (جس راستہ پر میں اور میرے صحابہ ہیں) کہہ کر اہلِ سنت والجماعت کی تعریف اور ان کو پرکھنے کی کسوٹی متعین فرمادی ہے۔اور جو سنت اور صحابہ کے عقائد سے دور ہو اور اہل سنت ہونے کا دعوی کرے تو یہ دعوی نرا دعوی ہی ہوگا جو قابل اعتبار نہیں ہے۔اہل سنت والجماعت کے عقائد کے لیے مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ کی مرتب کردہ کتاب”المُہنَّد علی المُفنَّد“(عقائد اہل سنت والجماعت) کا مطالعہ فرمائیں۔واللہ اعلم!

وجودِ باری تعالیٰ اور توحید کا اثبات واقعاتی دلائل سے

            عقیدہٴ توحید کی اہمیت اور ضرورت کے متعلق حضرت مولانا مفتی محمد شفیع  کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

            ”عقیدہٴ توحید جو اسلام کا سب سے پہلا بنیادی عقیدہ ہے، یہ صر ف ایک نظر یہ نہیں، بل کہ انسان کو صحیح معنی میں انسان بنانے کا واحد ذریعہ ہے، جو انسان کی تمام مشکلات کا حل اور ہر حالت میں اس کی پناہ گاہ، اور ہر غم و فکر میں اس کا غمگسار ہے، کیونکہ عقیدہٴ توحید کا حاصل یہ ہے کہ: عناصر کے کون و فساد اور ان کے سارے تغیرات صرف ایک ہستی کی حیثیت کے تابع اور اس کی حکمت کے مظاہر ہیں:           

ہر تغیر ہے غیب کی آواز

ہر تجدُّد میں ہیں ہزاروں راز

            اس عقیدہ کا مالک ساری دنیا سے بے نیاز، ہر خوف و خطر سے بالاتر ہوکر زندگی گزارتا ہے۔“

(معارف القرآن، ص:۱۳۹)

مسئلہ توحید

            ہمارے اکابر اور اسلاف نے ہر دور میں مسئلہ توحید سمجھانے کے لیے روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سمجھانے کی پوری پوری کوشش فرمائی ہے۔ جب بھی اسلاف سے توحید کے متعلق سوالات کیے گئے، تو اللہ تبارک نے مخالفین کے حالات کے اعتبار سے ان کے دل میں ایسی مثالیں ڈالیں جو بیان کرنے کے بعد بہت ہی موٴثر ثابت ہوئیں اور ہدایت کا ذریعہ بنیں۔ اس طرح کے واقعات تو بہت زیادہ ہیں، لیکن ہم یہاں چند نمونے کے طور پر ذکر کر رہے ہیں، جن میں ابھی تک افادیت اور تاثیر کی خوشبو مہک رہی ہے:

            (۱)امام اعظم ابو حنیفہ  ایک دن اپنی مسجد میں تشریف فرما تھے، دہریوں کے خلاف آپ ننگی تلوار تھے،ا دھریہ لوگ آپ کو فرصت کا موقع پاکر قتل کرنے کے در پے رہتے تھے۔ ایک دن دہریہ لوگ تلوار یں تان کر جماعت کی شکل میں امام ابوحنیفہ کے پاس آدھمکے اور وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ: میں اس وقت ایک بڑی سوچ میں ہوں، لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ایک بہت بڑی کشتی جس میں طرح طرح کا تجارتی سامان ہے، مگر نہ کوئی اس کا نگہبان ہے نہ چلانے والا ہے، مگر اس کے باوجود برابر آ،جا رہی ہے اور بڑی بڑی موجوں کو خود بخود چیرتی، پھاڑتی گزر جاتی ہے، رُکنے کی جگہ پر رُک جاتی ہے اور چلنے کی جگہ پر چلنے لگتی ہے، نہ کوئی ملاح ہے، نہ منتظم۔

            سوال کرنے والے دہریوں نے کہا کہ: آپ کس سوچ میں پڑ گئے؟ کوئی عقلمند انسان ایسی بات کہہ سکتا ہے کہ اتنی بڑی کشتی نظام کے ساتھ طوفانی سمندر میں آئے جائے، اور کوئی اس کا نگران اور چلانے والا نہ ہو؟!

            حضرت امام صاحب  نے فرمایا کہ: افسوس تمہاری عقلوں پر کہ ایک کشتی تو بغیر چلانے والے کے نہ چل سکے، لیکن یہ ساری دنیا آسمان وزمین کی سب چیزیں ٹھیک اپنے اپنے کام پر لگی رہیں اور اس کا مالک حاکم اور خالق کوئی نہ ہو؟ یہ جواب سن کر وہ لاجواب ہو گئے اور حق معلوم کرکے اسلام لائے۔

(التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۳۔ تفسیر ابن کثیر، ج:۱، ص:۵۹۔ الخیرات الحسان، ص: ۷۹)

            (۲)امام مالک  سے ہارون رشید نے پوچھا کہ: اللہ تعالیٰ کے وجود پر کیا دلیل ہے؟ آپ نے فرمایا: زبانوں کا مختلف ہونا، آوازوں کا جدا ہونا، لب ولہجہ کا الگ ہونا، ثابت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہے۔

 (التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴۔ ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۸)

            (۳) امام شافعی  سے وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ تو آپ نے جواب دیا کہ: شہتوت درخت کے سب پتے ایک ہی جیسے ہیں، ایک ہی ذائقہ کے ہوتے ہیں، کیڑے اور شہد کی مکھی اور گائے، بکریاں اور ہرن وغیرہ سب اس کو چاٹتے ہیں، کھاتے ہیں، چگتے ہیں، چرتے ہیں، اسی کو کھا کر کیڑے میں سے ریشم نکلتا ہے، شہد کی مکھی شہد دیتی ہے، ہرن میں مشک پیدا ہوتا ہے، گائے، بکریاں اسے کھا کر مینگنیاں دیتی ہیں، کیا یہ اس امر کی صاف دلیل نہیں کہ ایک ہی پتے میں مختلف خواص پیدا کرنے والا کوئی ہے؟ اور اسی کو ہم اللہ تبارک تعالیٰ کہتے ہیں، وہ ہی موجد اور صانع ہے۔ (التفسیر الکبیر، ج:۱، ص:۳۳۳۔ ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۷)

            (۴)امام احمد بن حنبل  سے ایک بار وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ: سنو! یہاں ایک نہایت مضبوط قلعہ ہے، جس میں کوئی دروازہ نہیں، نہ کوئی راستہ ہے، بل کہ سوراخ تک نہیں، باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے اور اوپر نیچے، دائیں بائیں چاروں طرف سے بالکل بند ہے۔ ہوا تک اس میں نہیں جا سکتی ہے، اچانک اس کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں والا، کانوں والا بولتا چلتا، خوبصورت شکل والا، پیاری بولی والا، چلتا پھرتا نکل آتا ہے۔ بتاؤ! اس بند اور محفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں؟ اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالا تر اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو جو ہر طرف سے بند ہے، پھر اس کی سفید زردی سے پروردگار خالق یکتا جاندار بچہ پیدا کر دیتا ہے، یہ ہی دلیل ہے خدا کے وجود پر اور اس کی توحید پر۔

(التفسیرالکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴۔ ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۹)

            (۵)عالمِ اسلام اور اہلِ بیت کی مشہور شخصیت حضرت جعفر صادق رحمة اللہ علیہ کے پاس ایک زندیق ملحد آیا اور صانع و خالق کا انکار کرنے لگا۔ امام نے اس کو سمجھانے کی غرض سے سوال کیا کہ: تم نے کبھی سمندر کا سفر کشتی پر کیا ہے؟ اس نے جواباً کہا: جی ہاں! پھر امام نے پوچھا کہ: کیاتونے سمندر کے خوفناک حالات کابھی کبھی مشاہدہ کیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! پھر امام نے فرمایا: کیسے؟ ذرا تفصیل تو بتائیں؟ اس شخص نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ: ایک دن سمندری سفر کے دوران سخت خوف زدہ طوفانی ہوا چل پڑی، جس کے نتیجہ میں کشتی بھی ٹوٹ گئی اور ملاح بھی ڈوب کر مرگئے۔ میں نے ٹوٹی ہوئی کشتی میں سے ایک تختہ کو پکڑا، لیکن بالآخر سمندری موجوں کی وجہ سے وہ تختہ بھی مجھ سے چھوٹ گیا، بالآخر سمندری موجوں نے مجھے کنارے تک پہنچا دیا۔ یہ سن کر حضرت جعفر صادق رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ: پہلے تو سمندری سفر کے دوران سمندری پانی سے گزرنے کے لیے کشتی پر اعتماد کرکے سوار ہوا اور ساتھ ساتھ ملاحوں پر بھی اعتماد کیا، لیکن جب یہ دو نوں ختم ہو گئے تو کشتی کے ایک تختہ پر اعتماد کرکے اپنے آپ کو بچانے کے لیے تو نے اس پراعتماد کیا، جب یہ سارے سہارے ختم ہوئے تو تونے اپنے آپ کو ہلاکت کے لیے تیار کرلیا۔ اس پر حضرت جعفر صادق رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ: کیا تونے اس کے بعد سلامتی کی تمنا کی؟ کہا کہ: جی ہاں! حضرت جعفر صادق رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ: اس درد ناک حالت میں سلامتی کی امید کس سے رکھی؟ وہ شخص خاموش ہوگیا۔ اس پر حضرت جعفر رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ: اس خوفناک حالت میں تونے جس سے سلامتی کی اُمید رکھی، یہی تو صانع وخالق ہے، جس نے تجھے غرق ہونے سے بچایا۔ یہ سن کر وہ آپ  کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا۔ واہ کیا ہی سمجھانے کا انداز ہے۔ (التفسیر الکبیر، ج: ۱، ص: ۳۳۳)

            (۶)امام اعظم ابو حنیفہ  سے ایک بار وجودِ باری تعالیٰ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ: تم نے یہ نہیں دیکھا کہ والدین کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ لڑکا پیدا ہو، لیکن اس کے برعکس لڑکی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بعض اوقات والدین کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ لڑکی پیدا ہو، لیکن اس کے برعکس لڑکا پیدا ہو جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی ایسی ذات ہے جو والدین کی خواہش کی تکمیل میں مانع ہے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہ وہی ذات ہے جس کو ہم اللہ تبارک تعالیٰ کہتے ہیں۔ (التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۳)

            (۷)شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: جس دہریہ سے چاہیں پوچھ کردیکھیے کہ تمہاری کتنی عمر ہے؟ وہ ضرور بیس، تیس، چالیس، پچاس کوئی عدد یقینی یا تخمینی بیان کرے گا، جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم کو موجود ہوئے اتنے برس ہوئے ہیں۔ اب اس سے پوچھئے کہ آیا آپ خود بخود پیدا ہو گئے یا کسی نے تم کو پیدا کیا ہے؟ اور پھر وہ پید ا کرنے والا ممکن ہے یا واجب؟ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ خود بخود پیدا نہیں ہوا، ورنہ واجب الوجود ہو جاتا،ا ور ہمیشہ پایا جاتاا ور پھر معدوم نہ ہوتا۔ جس کا وجود اپنا ہو، وہ ہمیشہ رہتا ہے۔ یہ بد یہی بات ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا ممکن نہیں، ورنہ تسلسل لازم آئے گا، اور پھر اس ممکن کے پیدا کرنے والے اور پھر اس کے پیدا کرنے میں کلام کیا جائے اور یہ سلسلہ کسی واجب الوجود کی طرف منتہی مانا جائے گا، جس نے ہم کو اس خوبی اور محبوب کی شان میں پیدا کیا ہے، وہ رب ہے، جس کا ہر زمان میں ایک جدا نام ہے اور جب وہ خالق ہے، تو اس میں علم، قدرت، حیات، ارادہ وغیرہ عمدہ صفات بھی ہیں، خواہ وہ عین ذات ہو یا غیر، خواہ لاعین ولاغیر۔ (تفسیر حقانی، ج:۱، ص: ۱۱۲)

            (۸) کسی بدوی دیہاتی سے وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سو ال کیا گیا تو اس نے کہا کہ:”یَا سُبْحَانَ اللّٰہِ اِنَّ البَعْرَةَ تَدُلُّ عَلَی الْبَعِیْرِ“ زمین پر پڑی ہوئی مینگنیاں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہاں سے اونٹ گزر گیا ہے۔”وَإِنَّ اَثَرَ الاََ قْدَامِ یَدُ لُّ عَلَی المَسِیْرِ“ زمین پر پاؤں کے نشانات سے کسی آدمی کے گزرنے کا پتہ چلتا ہے۔”وَالْرَّوْثُ عَلَی الْحَمِیْر“ لید سے گدھے کا پتہ چلتا ہے۔”فَسَمَاءٌ ذَاتِ الْأَبْرَاجِ وَأَرْضٌ ذَاتُ فِجَاجِ وَبحَارٌ ذَاتُ الْأَمْوَاجِ، أَلاَ یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ؟“ تو کیا برجوں والا آسمان، اور راستوں والی زمین، اور موج مارنے والے سمندر، اللہ تعالیٰ باریک بین اور خبردار کے وجود پر اور توحید پر دلیل نہیں بن سکتے؟۔ (التفسیر الکبیر، ج: ۱، ص: ۳۳۴۔ تفسیر ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۹)

            (۹)ایک حکیم سے وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آپ نے اپنے رب کو کیسے پہچانا؟ تو فرمایا کہ: ”ہڑ اگر خشک استعمال کی جائے تو اسہال کر دیتی ہے اور اگر تر گیلی نرم کھا ئی جائے تو اسہال کو روک دیتی ہے۔“ (التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴)

            (۱۰)ایک حکیم سے سوال کیا گیا کہ آپ نے اپنے رب کو کیسے پہچانا؟ تو فرمایا کہ: شہد کی مکھی کے ذریعہ، وہ اس طرح کہ شہد کی مکھی کی دو طرف ہوتی ہیں: ان میں سے ایک طرف سے تو شہد دیتی ہے اور دوسری طرف سے ڈنگ مارتی ہے اور یہ شہد حقیقت میں اس ڈنگ کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے:

            ”عرفتہ بنحلة بأحد طرفیھا تعسل والآخر تلسع والعسل مقلوب اللسع۔“

(التفسیرالکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴)

            (۱۱)ابن المعتز کا قول ہے کہ افسوس اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی ذات کے جھٹلانے پر لوگ کیسی دلیری کرجاتے ہیں، حالاں کہ ہر چیز اس پر وردگار کی ہستی اور وحدہ لاشریک ہونے پر گواہ ہے:

فیا عجباً کیف یعص الإلٰہ

أم کیف یجحدہ الجاحد

و فی کل شیء لہ آیة

تدل علی أنہ واحد

 (تفسیر ابن کثیر، ج: ۷، ص: ۵۹)

یہود ونصاریٰ ارو آخرت:

            یہود اور نصاریٰ کا آخرت سے متعلق عقیدہ یہ ہے کہ قیامت آئے گی اور سزا و جزا بھی ہو گی، لیکن اُن دونوں میں سے ہر ایک اپنے آپ کو جنت کا مستحق سمجھتا ہے اور دوسرے کو گم راہ سمجھتا ہے، یہود و نصاریٰ کا آخرت سے متعلق جو عقیدہ ہے وہ اللہ تعالیٰ نے خود صراحةً قرآن پاک میں ذکر فرمایا ہے اور اُس کی تردید فرمائی ہے کہ یہ ان کے اپنے خیالات ہیں اور یہ لوگ اللہ سے امیدیں باندھے ہوئے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور فرمایا کہ جنت میں تو وہ جائے گا جو اپنا دین اللہ کے لیے خالص کرے۔

جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

            ”وَقالُوا لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَنْ کانَ ہُوداً أَوْ نَصاریٰ تِلْکَ أَمانِیُّہُمْ قُلْ ہاتُوا بُرْہانَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ صادِقِینَ“۔(البقرة: 111)

صفوة التفاسیر (1/ 78):

            ”وَقَالُواْ لَن یَدْخُلَ الجنة إِلاَّ مَن کَانَ ہُوداً أَوْ نصاری} أی قال الیہود: لن یدخل الجنة إلا من کان یہودیاً، وقال النصاری: لن یدخل الجنة إِلا من کان نصرانیاً، {تِلْکَ أَمَانِیُّہُمْ} أی تلک خیالاتہم وأحلامہم“.مختصر تفسیر البغوی المسمی بمعالم التنزیل

(1/ 46):

            ”وقالوا لن یدخل الجنة إلا من کان ہودا(البقرة: 111) (أی یہودیاً)(أونصاری)(البقرة: 111) وذلک أن الیہود قالوا: لن یدخل الجنة إلا من کان ہوداً ولا دین إلا دین الیہودیة، وقالت النصاری: لن یدخل الجنة إلا من کان نصرانیاً ولا دین إلا دین النصرانیة قال اللہ تعالیٰ:(تلک أمانیہم)(البقرة:111) أی: شہواتہم الباطلة التی تمنوہا علی اللہ بغیر الحق،(قل)(البقرة: 111) یا محمد (ہاتوا)(البقرة: 111) أصلہ آتوا (برہانکم)(البقرة: 111) حجتکم علی ما زعمتم، (إن کنتم صادقین)(البقرة: 111)ثم قال رداً علیہم:(112)(بلی من أسلم وجہہ)(البقرة: 112) أی: لیس کما قالوا، بل الحکم للإسلام، وإنما یدخل الجنة من أسلم وجہہ(للہ) (البقرة: 112) أی: أخلص دینہ للہ“.

            لہٰذا یہود و نصاریٰ نفسِ آخرت کے منکر نہیں ہیں، بل کہ قیامت کے آنے کا عقیدہ تو رکھتے ہیں، لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لائے ہوئے دین و شریعت کو نہ ماننے کی وجہ سے گم راہ ہو گئے۔ فقط واللہ اعلم

عقیدہٴ آخرت اور اس کی اہمیت

            اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہٴ آخرت ہے۔ انسانی زندگی میں بھی اس عقیدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جیسا عقیدہ ہوتا ہے ویسا ہی انسان اور اس کے اعمال ہوتے ہیں۔ کوئی آدمی عقیدے میں پختہ ہو یا کمزور، یہ ضمنی بحثیں ہیں، لیکن اصلاً جس عقیدے کا حامل جو شخص ہوتا ہے اس کے اعمال، افعال، رویے اور کردار پر لازماً اس کا گہرا اثر اور چھاپ ہوتی ہے۔

            عقیدہٴ آخرت اس یقین کا نام ہے کہ یہ دنیا اور یہ زندگی فانی ہے۔ اس عالم کے بعد ایک دوسرا عالم وجود میں آنا ہے۔ جس طرح سے عالم دو ہیں، اسی طرح سے زندگیاں بھی دو ہیں۔ اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اصلاً زندگی تو ایک ہی ہے، جس چیز کا نام ہم نے موت رکھا ہوا ہے، اس کی آمد سے وقتی اور عارضی طور پر محض زندگی کا مرحلہ بدل جاتا ہے مگر زندگی اور اس کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ اس (موجودہ) زندگی کو ہم عارضی یا ناپائیدار زندگی کہتے ہیں، اور وہ زندگی جو موت کے دروازہ سے گزر کر شروع ہوتی ہے، پائیدار، باقی رہنے والی، دائمی اور ہمیشہ کی زندگی ہے۔ قرآن میں جابجا اس حوالے سے جوابدہی کا احساس اور آخرت کا حوالہ موجود ہے:

            ”اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔“ (البقرہ:۴)

            ”کیا اِنسان یہ خیال کرتا ہے کہ اُسے بے کار (بغیر حساب و کتاب کے) چھوڑ دیا جائے گا؟“ (القیامة: ۳۶)

            تمام اعمال کی جواب دہی اسی عقیدہٴ آخرت کی بنیاد پر ہے۔ محاسبہٴ اعمال کی تفصیل قرآن پاک کے اوراق کے اندر بکھری ہوئی ہے۔ سورئہ واقعہ، سورئہ معارج، سورئہ حاقہ، سورئہ قیامہ، سورئہ تکویر اور سورئہ نبا، یہ وہ سورتیں ہیں کہ جن میں قیامت اور آخرت کی ہولناکیوں اور مجرمین پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب کا تذکرہ ہے، نیز روزِ محشر کی تفصیلات ہیں۔ سورج کا لپیٹ دیا جانا اور ستاروں کا بے نور ہو جانا، اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے اورانسان جو کچھ لے کر آیا ہے اس کو اپنا کیا دھرا سب معلوم ہوجائے گا، جب آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے اور جب دریا ایک دوسرے سے مل کر بہہ نکلیں گے، جس دن صور پھونکا جائے گا اور یکایک قبروں سے لوگ اُٹھ کھڑے ہوں گے۔

رسالت اور ختم ِنبوت کا عقیدہ:

            اللہ رب العزت نے سلسلہٴ نبوت کی ابتدا سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائی اور اس کی انتہا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر فرمائی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور کو نبی نہیں بنایا جائے گا۔ ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے، جو اسلام کے بنیادی اصول اور ضروریاتِ دین میں شمار کیے گئے ہیں، اور عہدِ نبوت سے لے کر اس وقت تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بلا کسی تاویل و تخصیص کے خاتم النبیین ہیں۔ قرآن کریم کی تقریباً سو کے قریب آیاتِ مبارکہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسو کے قریب فرامین (احادیث مبارکہ) سے ہمیں یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ امتِ محمدیہ کی نجات فلا ح اور کامیابی اسی میں ہے کہ پوری امت کا یہ عقیدہ ہو کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بلا تاویل وتخصیص اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور خاتم الرسل ہیں، اس میں کسی قسم کی تاویل اور شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے، اس کے بعد بھی اگر کوئی جھوٹا مدعیٴ نبوت، نبوت کا دعویٰ کرے تو وہ زندیق، مرتد اور واجب القتل ہے۔ حدیث شریف میں ہے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:

             میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالاں کہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں عقیدہ ختم ِنبوت جو ایمان کا جز ہے، جس کے بغیر بندہ مسلمان نہیں رہ سکتا اس کی نزاکت اور اساسیت کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

            قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

            ”مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمًا“(سورة الاحزاب: 40)

            ترجمہ: ”محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) باپ نہیں کسی کے تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اللہ کے، اور مہر سب نبیوں پر اور ہے اللہ سب چیزوں کو جاننے والا۔“

            حدیث شریف میں ہے:

            ”حدثنا قتیبة قال: حدثنا حماد بن زید، عن أیوب، عن أبی قلابة، عن أبی أسماء الرحبی، عن ثوبان قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا تقوم الساعة حتی تلحق قبائل من أمتی بالمشرکین، وحتی یعبدوا الأوثان، وإنہ سیکون فی أمتی ثلاثون کذابون کلہم یزعم أنہ نبی وأنا خاتم النبیین لا نبی بعدی: ہذا حدیث صحیح.“

(سنن ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعة حتی یخرج کذابون،4/ 499، رقم الحدیث: 2219)

ختم نبوت تکمیل ِانعامِ خداوندی ہے:

            ”الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الإسْلامَ دِینًا“

(المائدة: ۳)

            ترجمہ: ”آج میں نے تمہارادین مکمل کردیا،اپنی نعمت تم پرتمام کردی اورتمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔“

            عربی زبان میں کمال اورتمام دونوں لفظ نقصان (کمی) کے مقابل میں استعما ل ہوتے ہیں،ان میں فرق یہ ہے خارجی اوصاف کے نقصان(کمی بیشی) کی تکمیل کو کمال کہاجاتاہے اور اجزاء کے اعتبار سے نقصان اورکمی کی تکمیل کو تمام کہاجاتاہے۔

            اس آیت میں دنوں لفظ جمع کردیے گئے ہیں اوربتایاگیا کہ دین اسلام اب ہرپہلوسے کامل ومکمل ہوچکا ہے،اللہ کی نعمت پور ی ہوچکی ہے،دین اسلام نہ اجزاء کے اعتبارسے ناقص ہے نہ اوصاف کے اعتبارسے ناقص ہے۔

 یہ آیت کریمہ اس امت کی اس عظیم الشان خصوصی فضیلت کو بیا ن کررہی ہے جوباقرارِاہل کتاب اس امت سے پہلے کسی کونہیں ملی،یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنا دینِ مقبول اس امت لیے ایساکامل فرمادیاکہ قیامت تک اس میں ترمیم کی ضرور ت نہیں رہی، عقائد،عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاق، سیاست وحکومت شخصی واجتماعی آداب، مستحبات ومکروہات،واجبات وفرائض اورحلال وحرام کے جملہ قوانین اورقیامت تک لیے تمام معاش ومعاد کے ضروری وبنیادی اصول خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبہ سے متعلق ہوں؛ امت کے لیے اس طرح واضح کردئے گئے ہیں کہ اب یہ امت تاقیام قیامت کسی نئے دین یانئے نبی کی شریعت کی محتاج نہیں رہی،اس خیرامت کے نبی اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اپنی امت کے لیے ایک ایسی صاف وسیدھی اورروشن شاہراہ تیارفرماکرگئے کہ جس پر چلنے والے کو دن ورات میں کوئی خطرہ مانع نہیں۔

 ”قدترکتُکم علی البیضاء لیلُھا کنھارِھا“(ابن ماجہ: رقم:۴۳ص:۵)

 میں نے تمہیں ایک ایسے صاف روشن اورسیدھے راستے پرچھوڑ اہے کہ جس کا رات ودن برابر ہے،(حق وباطل واضح رہیں گے) لہٰذایہ امت کسی نئے دین اورنئے نبی کی محتاج نہیں ہے۔

            اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اسلام کے اساسی عقائد کی دلوں میں ترسیخ فرمائیں!

آمین یارب العالمین

وصلی اللہ علی النبی الکریم

افتخار احمد قاسمی بستوی اکل کوا مہاراشٹر

۲۷/رجب المرجب۱۴۴۶ھ/۲۸/جنوری۲۰۲۵ء سہ شنبہ