حذیفہ وستانوی
(مدیر ماہنامہ شاہراہ علم و ناظم جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا)
اللہ رب العزت نے ہمیں فتنوں کے اس تاریک دور میں اسلام اور ایمان جیسی عظیم نعمت عطا فرمائی، اس پر ہم اپنے خالق و مالک کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے، مگر افسوس کہ فتنہٴ دنیا میں ہم ایسے مبتلا ہو چکے ہیں کہ نہ ہمیں اپنے ایمان کی کوئی فکر ہے اور نہ ہی اپنی نسلوں کی۔ ہم نے اپنے آپ اور اپنی اولاد کو بھی طاغوتی طاقتوں کے مرتب کردہ نظام ِتعلیم، نظامِ معاشرت، نظامِ معیشت وسیاست ، فلموں، سیریلوں، کھیل کود، کارٹون، گیم ، میڈیا اور سوشل میڈیا کے حوالے کرکے شیطان کے چال اور جہنم کے جال میں پھنسا دیا ہے، جو ہمیں مقصدِ حیات سے غافل کر کے محض فانی لذت پرستی اور شہوت رانی کے دلدل میں پھنساتا چلا جا رہا ہے، جس سے ہم اس مثل ”نہ خدا ہی ملا نہ وصال ِصنم، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے“ کا مصداق ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
آئیے عہد کریں!
توآئیے ! ہم امام مالک کے اس قول پر عمل کرنے کاعہد کرتے ہیں، آپ نے فرمایا ہے:”لن یصلح اخر ہذہ الامة إلا بما صلح بہ أولہ“ اس امت کے اخری دور کے مسلمان کی صلاح و فلاح اسی طریقے سے ممکن ہو سکے گی، جس سے پہلے دور( یعنی دورِ نبوی میں صحابہ) کی اصلاح ہوئی۔
اصلاح ِصحابہ کا طریقہ کیا تھا ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک دعوتی زندگی کا اگر ہم جائزہ لیتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مرحلے میں اپنے گھر والوں سے آغاز کیا اور ﴿وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾ پر عمل کیا۔ اس لیے کہ آپ کو وہی لوگ خوب اچھی طرح جانتے تھے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی تھے اور ماشاء اللہ ام المومنین حضرت خدیجة الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سب سے پہلے دعوت کو قبول کیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیرینہ دوست سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے، اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے، اس کے بعد حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے، اس کے بعد حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا اور آپ کے قوتِ بازو بن گئے۔
دوسرے مرحلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کو اعلانیہ دعوت دی، بعض نے قبول کیا اور سردار قسم کے افراد نے محض اپنی سرداری کھونے کے خدشے سے قبول نہیں کیا، مگر جن صحابہ نے آپ کی اس دعوت توحید کو قبول کیا، وہ اسلام کے بے مثال داعی بنے ؛گرچہ دوسرے قبول نہ کرنے والے دشمن بن گئے اور ایذا رسانی پر اتر آئے۔