علمیات (Epistemology)

            علمیات ورلڈ ویو میں ایک نہایت اہم مقام رکھتا ہے، کیونکہ یہ علم کے متعلق بنیادی سوالات کے جوابات فراہم کرتا ہے۔ علمیات، علم کا ایک ایسا جامع فریم ورک ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ علم کیا ہے؟ ہم اسے کیسے حاصل کرتے ہیں؟اورکیا چیز ہمیں حاصل شدہ علم پراعتماد کرنے کی اجازت دیتی ہے؟

            تصور کریں کہ آپ کے پاس ایک پیچیدہ پہیلی ہے، جسے حل کرنے کے لیے آپ کوایک رہنمائی کی ضرورت ہے، علمیات ہی وہ رہنما ہے جوآپ کواس پہیلی کے ٹکڑوں کو جوڑنے اوراسے سلجھانے میں مدد دیتا ہے۔ ہم اوریہ کائنات بھی ایک پہیلی کی طرح ہیں، جس میں ہرلمحہ نئے سوالات اٹھتے ہیں، کبھی انفرادی سطح پراور کبھی اجتماعی سطح پر۔ علمیات ہی ہمیں ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے میں مدد کرتی ہے۔ لیکن کبھی کبھار یہ پہیلی سلجھنے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے اورانسان ایک ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ پہیلی کوحل کرنے کے لیے ایسی علمیات استعمال کرتا ہے جو پہلے سے موجود عقائد سے متصادم ہو، مثلاً جب کوئی مسلمان جدید مغربی علمیات کو استعمال کرتا ہے، تو نتیجہ اس کے بنیادی عقائد کے برعکس نکلتا ہے، جس سے وہ ذہنی اضطراب کا شکارہوجاتا ہے۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ علمیات کی صحیح تفہیم انسانی زندگی میں کتنی ضروری ہے۔

            علمیات میں علم کے متعلق بنیادی سوالات شامل ہوتے ہیں جیسے: علم حقیقتاً کیا ہے؟ ہم سچائی کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں؟ علم کو کن اصولوں پرپرکھا جاتا ہے؟ علم حاصل کرنے کے کون کون سے ذرائع ہیں؟ کیا علم بنیادی طور پر حسیات سے حاصل ہوتا ہے، یا عقل اس پرآخری حکم لگاتی ہے؟ کیا علم صرف تجربے سے حاصل ہوتا ہے، یا منطقی طورپربھی ممکن ہے؟ کیا وجدان بھی علم کا ذریعہ ہے؟ کیا خبراورگواہی سے علم حاصل کیا جا سکتا ہے؟ کیا کچھ ایسی چیزیں ہیں جو ہم جان یا سمجھ نہیں سکتے؟ کیا انسانی علم کی حدود ہیں؟ اگرہیں تو وہ کیا ہیں؟ کیا ہم ہمیشہ اپنے حواس یا عقل پربھروسہ کر سکتے ہیں؟ علم اورشک میں کیا فرق ہے؟ ہم صحیح اورغلط معلومات میں کیسے تفریق کرتے ہیں؟ ہمارے حواس (جیسے دیکھنا، سننا اورمحسوس کرنا) اور ہماری عقل کیسے ہمارے علمی بنیادوں کو متاثر کرتے ہیں؟

            جب ہم علمیات کو بڑے تناظر میں دیکھتے ہیں، جیسے کسی گروپ یا پورے معاشرے کے حوالے سے، تو ایسا لگتا ہے کہ ہر معاشرہ دنیا کو سمجھنے کے لیے مختلف رہنما کتابوں کا استعمال کررہا ہے۔ یہ رہنما کتابیں کسی معاشرے کو یہ سمجھنے میں مدد کرتی ہیں کہ کیا علم ہے اور کیا جہل ہے، نئی معلومات کیسے تلاش کی جاتی ہیں اورمخصوص علمیات سے پیدا ہونے والا علم لوگوں کو فیصلے کرنے، نئی چیزیں سیکھنے اورمسائل کو حل کرنے میں کس طرح مدد فراہم کرتا ہے۔

            اس لیے یہ واضح ہے کہ علم ایک رہنما کی مانند ہے جو ہمیں یہ جاننے میں مدد کرتا ہے کہ ہم کیا جانتے ہیں، ہم اسے کیسے جانتے ہیں اورہم کیوں سمجھتے ہیں کہ یہ سچ ہے۔

            قدیم اورجدید علمیات کے مابین ایک واضح فرق نظر آتا ہے، جو فکر اورتحقیق کے مختلف ادوار کا آئینہ دار ہے۔ جہاں قدیم فلسفہ معروضی حقیقت کی تلاش اورعلم کی یقینی بنیادوں پرزوردیتا ہے، وہیں جدید فلسفہ علم کی بنیادوں پر سوالات اٹھاتا ہے اورانسانی شعورکی حدود کو اجاگر کرتا ہے۔

قدیم علمیات

            قدیم علمیات میں دانشورانہ مباحث اورعلمی تحقیق کا مرکز و محور سچائی کی تلاش اورمعروضی حقیقت تک رسائی تھی۔ قدیم فلسفے کے چند بنیادی اصول درج ذیل ہیں:

            1.معروضی حقیقت کا ادراک: قدیم فلسفے میں علم کا مقصد حقیقت کی مکمل اورمعروضی تصویر پیش کرنا تھا۔ سقراط، افلاطون اورارسطو جیسے فلاسفہ نے اس بات پرزور دیا کہ حقیقی علم وہ ہے جو معروضی اور ناقابل تغییر حقائق پرمبنی ہو۔ افلاطون کے ” نظریہٴ امثال“ کے مطابق ہر شے کا ایک غیر مادی اور کامل نمونہ موجود ہے جو حقیقی علم کا محور ہے۔

            2. حقیقت کی تلاش: قدیم فلسفہ میں حقیقت کی تلاش کو بنیادی اہمیت دی گئی۔ ارسطو کی ”معقولات اولیٰ“ (Metaphysics) میں اس بات پرزوردیا گیا کہ علم کی بنیاد منطق اور تجربے پر ہونی چاہئے اور سچائی کا حصول ایک علمی اورمنطقی عمل ہے۔

            3. تجرباتی علم کی حدود: قدیم فلسفے کو اس بات کا بھی ادراک تھا کہ محسوساتی علم کے حدود ہیں اوراس کے ذریعے حقیقت تک مکمل رسائی ممکن نہیں۔ افلاطون کی”غار کی تمثیل“ اس حقیقت کواجاگر کرتی ہے کہ محسوساتی دنیا ایک سائے کی مانند ہے اورحقیقی علم اس سے ماورا ہے۔

جدید علمیات

            جدید علمیات میں فلسفیانہ تحقیق کا رخ بدل گیا ہے اورعلم کے ماخذات اورانسانی شعور کے کردارپرزیادہ توجہ دی گئی ہے۔ جدید علمیات کے چند اہم اصول درج ذیل ہیں:

            علم کی بنیادوں پرسوالات: جدید فلسفہ میں رینی ڈیکارٹ نے”شک کی طریقہٴ کار“ کو متعارف کرایا، جس میں علم کی بنیادوں کو شک کی کسوٹی پرپرکھا گیا۔ ڈیکارٹ کے نزدیک علم کا حتمی معیار وہ ہے جسے کسی صورت میں بھی مشکوک نہیں کیاجا سکتا، جس کا مظہر ان کا مشہور جملہ ”میں سوچتا ہوں، لہٰذا میں ہوں“ ہے۔

            تجربیّت اورعقلیت کی بحث: جدید علمیات میں جان لاک اورڈیوڈ ہیوم جیسے تجربیّت کے حامیوں اورکانٹ جیسے عقلیت پسندوں کے درمیان زبردست مباحثے ہوئے۔ لاک اورہیوم کے نزدیک علم کا ماخذ تجربہ ہے، جب کہ کانٹ نے علم کے حصول میں عقل اورتجربے دونوں کواہم قرار دیا۔

            علم کی محدودیت: جدید فلسفہ میں علم کی محدودیت کو بھی اجاگرکیاگیا۔ کانٹ نے اس بات پرروشنی ڈالی کہ انسان کا علم صرف ظاہری اشیاء تک محدود ہے اورحقیقت کی ماہیت کو مکمل طورپرسمجھنا ممکن نہیں۔(مبادیات مغربیت:۳۱تا۳۴)