مغربی تہذیب کا ورلڈ ویو (World View)

            مغربی فکر و تہذیب کے بنیادی نظریات کے مطالعہ کے بعد اب ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ یہ جان سکیں کہ ان نظریات پر مبنی فکر سے کیسا ورلڈ ویو وجود میں آتا ہے۔ ورلڈ ویو مغرب کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس فکر و تہذیب کی رو سے اہل مغرب کا تصورِ الٰہ، تصورِ انسان، تصورِ کا ئنات، اور تصورِ علم کیا ہے؟

تصورِ الٰہ:

            جیسا کہ ہم نے ہیومنزم کے بارے میں دیکھا کہ نشاةِ ثانیہ کی تحریک نے اور بعد میں تحریک تنویر نے اُس وقت کے مذہب (عیسائیت) کوردّ کر دیا؛ کیونکہ وہ مذہب بادشاہت اور جاگیرداروں کے ساتھ مل کر عوام کا استحصال کر رہا تھا۔ نیز حضرت عیسیٰ کی اصل تعلیمات میں انحرافات اور یونان کے وقتی سائنسی نظریات کے اُس میں ادخال کے سبب جدید سائنسی اکتشافات کے خلاف ثابت ہورہا تھا؛ لہٰذا ان دو وجوہ کی بنا پر ابھرتی ہوئی مغربی تہذیب کے قائدین نے، اصلاً عیسائی ہونے کے باوجود، مذہب کو ردّ کر دیا اور عیسائیت کونوں کھدروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئی۔ جب مذہب رد ہو گیا تو تصورِ الٰہ یا تصورِ خدا جو مذہب کی جان ہے منطقی طور پر وہ بھی رد ہو گیا۔ اور اگر ہم یہ پیشِ نظر رکھیں کہ عیسائیت کا تصورِ الٰہ یعنی تثلیث ویسے بھی غیر فطری، غیر سائنسی، غیر عقلی اور مذہب کی حقیقی تعلیمات کے خلاف تھا، لہٰذا جدید مغربی تہذیب کا اُس کورد کرنا قابل فہم محسوس ہوتا ہے۔

             مغرب کے اس تصورِ خدا کا ملحدانہ اور کافرانہ ہونا اتنا واضح ہے کہ اس کے لیے دلائل دینے کی بھی ضرورت نہیں اور ایک عام مسلمان بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ ہیومنزم کفر صریح ہے اور ایک مسلمان ہرگز اس کو نہیں مان سکتا، خواہ اس کو انسانیت کا خوبصورت لبادہ پہنانے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کی جائے!

 تصورِ انسان:

             جیسا کہ ہم نے سطور ِبالا میں دیکھا ہے کہ مغربی تہذیب کا تصورِ انسان، جس کی ابتدا تحریکِ نشاةِ ثانیہ میں انسان کی تکریم اور اُسے کائنات میں مرکزی حیثیت دینے سے ہوئی تھی، اُس نے بالآخر مغربی تہذیب میں آسمانی خدا کے انکار اور خود انسان کے اپنا خدا خود ہونے کے تصور کو مستحکم کر دیا؛ جیسا کہ ہم نے سارتر، ولیم جیمز اور نطشے وغیرہ کے اقوال میں دیکھا ہے۔ یوں مغربی تہذیب خدا مرکز (Centric God-) ہونے کی بجائے انسان مرکز (Human-Centric) بن گئی۔

            ظاہر ہے یہ تصورِ انسان اسلام کے تصورِ انسان کے بالکل برعکس ہے کیوں کہ اسلام میں انسان اللہ کا عبد ہے(۱) اور اس کا کام ہر حالت میں اور انفرادی اور اجتماعی زندگی دونوں میں بلا شروط وحدود اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت کرنا ہے۔

(۱)وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ )الذاریات:۵۶)

تصورِ کائنات:

            جب خدا کا تصور نہ رہا اور نہ رسولوں کا تو پھر آخرت کا تصور کہاں سے آتا؟ چوں کہ میٹریل ازم یا مادہ پرستی میں یقین رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ زندگی صرف اس دنیا کی مادی زندگی ہے اور آخرت کوئی چیز نہیں۔ اسی طرح کیپٹل ازم کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی ہی سب کچھ ہے اور یہی ہمارا ہدف اور مقصود ہے اور اس میں دولت اور آسائشوں اور راحتوں کا حصول ہی انسان کا مقصدِزندگی ہے، خواہ وہ جس قیمت پر بھی ہو۔

             مغربی تہذیب آخرت کا انکار اس لحاظ سے بھی کرتی ہے کہ عقل اور حسی علوم کی بنیاد پر آخرت کا اثبات نہیں کیا جا سکتا؛ کیوں کہ ظاہر ہے کہ آخرت نہ نظر آتی ہے اور نہ اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام آخرت پر مبنی دین ہے اور اس میں آخرت کو دنیا کی زندگی پر ہر حالت میں ترجیح حاصل ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے آخرت پر دنیا تو قربان کی جاسکتی ہے، لیکن آخرت کو دنیا کے لیے برباد نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے کہ ”دنیا آخرت کی کھیتی ہے“(۱) اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر دنیا کی اہمیت اللہ کی نظر میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالیٰ یہ کافروں کو نہ دیتا(۲)۔

 تصورِ علم:

            جیسا کہ ہم نے ایمپریسزم میں دیکھا کہ علم کا منبع یا تو عقل ہے یا حسی علم یعنی تجربہ اور مشاہدہ۔اس کو مغربی دانشور یوں بھی کہتے ہیں کہ حتمی اور یقینی علم وہ ہے جو قابل تصدیق (Verifiable) ہو۔ اس کا صاف مطلب ہے وحی اور منزل من اللہ ہدایت کی نفی اور رسولوں کی تعلیمات کا انکار۔ ظاہر ہے کہ مغربی تہذیب کا یہ تصورِ علم اسلام کے تصورِ علم کے سو فیصد خلاف ہے؛ کیوں کہ اسلام میں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا وہ حق ہے اور حرفِ آخر ہے؛ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ﴿الْعِلْمُ عِنْدَ اللہِ﴾(الملک:۲۶) اور ﴿قُلْ إِنَّ ہُدَی اللَّہِ ہُوَ الْہُدَی وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَہْوَائَہُمْ بَعْدَ الَّذِی جَآءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَ اللَّہِ مِنْ ولِیٍ وَلَا نَصِیرٍ﴾(البقرة:۱۲۰)کہہ دو کہ خدا کی ہدایت (یعنی دین اسلام) ہی ہدایت ہے۔ اور (اے پیغمبر) اگر تم اپنے پاس علم (یعنی وحی خدا) کے آجانے پر بھی ان کی خواہشوں پر چلو گے تو تم کو (عذاب) خدا سے (بچانے والا) نہ کوئی دوست ہو گا اور نہ کوئی مددگار۔

(۱)(اسے مستدرک حاکم اور مسند الفردوس میں حدیث کہا گیا ہے اگر چہ اکثر محدثین نے اسے ضعیف اور موضوع قرار دیا ہے۔)

(۲)جامع ترمذی، رقم الحدیث: ۲۳۲

            اسی طرح اللہ کا رسول اور نمائندہ ہونے کی حیثیت سے پیغمبر جو بات کہے وہ بھی حق ہے اور حتمی طور پر سچی ہوتی ہے؛ کیوں کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ ﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَیِ إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحَی﴾(النجم:۳،۴)”اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں یہ (قرآن) تو حکم خدا ہے جو(ان کی طرف) بھیجا جاتا ہے۔“

            اور یہ کہ﴿وَمَا اٰتٰکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا﴾(الحشر:۷)” سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو۔ اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔“ بلا شبہ اسلام میں عقل کا کردار بھی ہے؛ جسے اجتہاد کی صورت میں دین نے ہمیشہ کے لیے شریعت میں اہم جگہ دی ہے، لیکن یہ کردار ضمنی، جزوی اور نصوص کے ماتحت (Subordinate) ہے نہ کہ ان پر حاوی یا ان کے مساوی۔

            اس وقت تک ہم نے مغربی تہذیب کے بنیادی افکار پیش کرنے کے بعد ان پر جو تبصرہ کیا ہے اُس سے واضح ہے کہ مغربی تہذیب کے اساسی افکار خلافِ اسلام ہیں۔ اسی طرح مغرب کا ورلڈو یو اسلامی ورلڈ ویو کے بالکل برعکس ہے۔ یہ بات اگر چہ سطور سابقہ سے واضح ہے لیکن ہم اسے مزید واضح کرنے کی خاطر ایک جدول کی صورت میں پیش کر رہے ہیں؛ تاکہ وہ ایک نظر میں قارئین کے سامنے آجائے اور مزید واضح ہو جائے:

مغربی تہذیب کے بنیادی نظریات

 اسلام کے بنیادی نظریات

(ا) ہیومنزم:

 خدا کا انکار، انسان کا خود مختار اور قادر مطلق ہونا۔ لَا إِلٰہَ إِلَّا الْإِنْسَانَ کا شعار

خدا ہی اس کا ئنات کی بنیادی حقیقت ہے۔ انسان اس کا عبد ہے۔ لا إلہَ إِلَّا اللہ کا شعار۔

(۲)سیکولرزم:

خدا اور مذہب کو انسان کے اجتماعی معاملات (معاشرہ اور ریاست) میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ ہاں اگر فرد چاہے تو اپنی ذاتی اور پرائیویٹ زندگی میں خدا کو مان سکتا ہے۔

عبد کے لیے ضروری ہے کہ پورے کا پورا دین میں داخل ہو جائے۔ اسے اجازت نہیں کہ وہ اپنی مرضی چلائے اور رب کی کچھ باتوں کو مانے اور کچھ کو ماننے سے انکار کردے۔

(۳)لبرل ازم

انسان چوں کہ خود مختار ہے بلکہ مختار مطلق ہے، لہٰذا اسے حق ہے کہ جو چاہے سوچے اور جو چاہے کرے۔ وہ مادر پدر آزاد ہے۔ کوئی اس کی آزادی کو محدود نہیں کر سکتا۔

انسان خود مختار نہیں اللہ کا عبد ہے لہٰذا اللہ کے مقابلے میں وہ اپنی مرضی نہیں چلا سکتا۔ وہ مادر پدر آزاد نہیں بلکہ اس کی لگام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ جتنی آزادی اسے دیتا ہے وہ لمبی رسی سے بندھے گھوڑے کی طرح اتنا ہی آزاد ہے؛ جہاں اس کی لمبائی ختم ہوئی اس کی آزادی بھی ختم ہو گئی۔

(۴)کیپٹل ازم / میٹریل ازم

انسان مادہ پرست ہے، وہ دنیا پرست اور مال پرست ہے۔ دنیا کی زندگی ہی اس کے لیے سب کچھ ہے یہاں کی عیش سہولتوں اور آسائشوں کا حصول ہی انسان کا آخری ہدف ہے۔ آخرت کس نے دیکھی ہے؟ لہٰذا راتوں رات امیر بننا چاہئے، مال کمانے اور خرچ کرنے میں حلال وحرام کی کوئی تمیز نہیں۔ زیادہ سے زیادہ کمانے، دنیا میں آگے بڑھنے معیارِ زندگی بلند کرنے کی دوڑ میں آگے بڑھنے کا جذبہ ہر آدمی میں ہونا چاہیے۔

اسلام ایک آخرت مرکز (Akhirat Oriented)دین ہے جس میں عبادت اور اخلاقی بلندی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا کی زندگی آخرت کی کھیتی ہے۔ یہ دارالامتحان ہے۔ یہاں کامیابی اس امر میں ہے کہ دنیا کی زندگی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق گزاری جائے اور اس کے نتیجے میں اخروی زندگی میں اللہ کی رضا اور جنت کی توقع رکھی جائے۔ اسلام میں غنا، مال و دولت کی کثرت میں نہیں، تو کل اور قناعت میں ہے۔

(۵) ایمپریزم

مغربی تہذیب کا فلسفہٴ علم یہ ہے کہ حق کا منبع عقل اور حسی علم (انسانی تجربہ و مشاہدہ) ہے۔ اور مذہبی روایات محض تو ہمات ہیں کیوں کہ وہ قابل تصدیق (verifibale) نہیں ہیں اور اللہ، فرشتے نظر نہیں آتے، لہٰذا آسمانی وحی سے نازل ہونے والا علم ہی نہیں ہے، یہ محض غیر مصدقہ معلومات کا پلندہ ہے، جو عقیدے کے تحکم (dogma) پر مبنی ہے نہ کہ علم حقیقی پر۔

 علم کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے؛ کیوں کہ وہی علم کا خالق ہے اور انسان و کائنات کا بھی۔ اور مخلوق کو خالق سے بڑھ کر کون جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا علم ہدایت فرشتے کے ذریعے پیغمبر کو بھجواتا ہے اور پیغمبر اس کی تشریح و تفسیر کرتا اور اس پر عمل کر کے دکھاتا ہے؛ لہٰذا اسلام میں علم کا منبع وحی یا قرآن وسنت ہے۔ عقل کا بھی اس میں کردار ہے لیکن ذیلی اور ماتحت یعنی عقل اور حواس سے حاصل ہونے والا علم بھی صحیح ہے اگر وہ وحی کے مطابق ہو اور اس کے خلاف نہ ہو۔

مغرب کا ورلڈ ویو

اسلام کا ورلڈ ویو

(۱) تصور الٰہ

کوئی خدا، کوئی بالا تر ہستی ایسی نہیں ہے ،جسے انسان پر غلبہ و قدرت حاصل ہو اور جس کی عبادت و اطاعت انسان پر فرض ہو۔

(۱)تصورِ الٰہ

ایک اللہ تعالیٰ انسان، کا ئنات اور ساری مخلوق کا خالق، مالک، رازق اور ہادی ہے۔ وہ اس کے نفع و نقصان، غم اور خوشی اور زندگی وموت پر قادر ہے۔ وہی معبود اور مطاع ہے۔

مغرب کا ورلڈ ویو

 اسلام کا ورلڈ ویو

(۲) تصورِ انسان

انسان اپنا خدا خود ہے۔ وہ خود مختار اور مختار مطلق ہے، وہ اپنی مرضی کا آپ مالک ہے۔ جو چاہے سوچے اور جو چاہے کرے۔ وہ کسی الٰہ کا عبد اور مطیع نہیں ہے، جس کے احکام کو ماننا اس کے لیے ضروری ہو۔

(۲) تصور انسان

انسان اللہ تعالیٰ کا عبد ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی عبادت واطاعت ہی زیبا ہے۔ اور وہ اللہ کا خلیفہ بھی ہے۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں تصرف کا اور حق کے ردّو قبول کا جو اختیار دیا ہے، انسان اس کا استعمال اللہ کی مرضی کے مطابق کرتا ہے، نہ کہ اس کے احکام کی مخالفت کر کے۔

(۳)تصورِ کائنات

زندگی بس اسی دنیا کی زندگی ہے؛ لہٰذااس دنیا کی کامیابی اور اس میں سہولتوں اور آسائشوں کا حصول ہی انسان کا مقصدِ زندگی اور ہدفِ زندگی ہونا چاہیے؛ جہاں تک اس زندگی کے بعد کسی اور آنے والی زندگی کا تعلق ہے تو عقل اور سائنس سے اس کا ثبوت نہیں ملتا؛ لہٰذا مغربی تہذیب اس سے اعتناء نہیں کرتی۔

(۳)تصورِ کائنات

 موجودہ زندگی عارضی ہے۔ یہ دار الامتحان ہے۔ انسان کا امتحان اس میں ہے کہ وہ زندگی یہاں اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق گزارے؛ تا کہ آخرت میں وہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور اس کی نعمتوں سے متمتع ہو۔ آخرت کی زندگی چوں کہ دائمی ہے اور نتیجہ کی جگہ ہے، لہٰذا آخرت کو دنیا کی زندگی پر ترجیح حاصل ہے۔

            اسلام اور مغربی تہذیب کے بنیادی افکار اور ان دونوں کے ورلڈ ویو کے تقابلی مطالعے سے بالکل شیشے کی طرح عیاں ہے کہ یہ دونوں تہذیبیں اور ان کے بنیادی افکار نہ صرف ایک دوسرے سے مختلف ہیں؛ بلکہ یہ ایک دوسرے سے متضاد ہیں، ایک دوسرے کے برعکس ہیں، ان میں کوئی تقارب نہیں بلکہ ان میں بُعداور دوری ہے؛ بلکہ کہنا چاہیے کہ بعد المشرقین ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے متوازی طرزِ حیات ہیں، جن کا آپس میں ملنا نا ممکن ہے۔

            اس بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی تہذیب کے اساسی افکار اور اس کا ورلڈ ویو کفر و الحاد پر مبنی ہے۔ اور جب یہ نظریات کفر والحاد پر مبنی ہیں تو منطقی طور پر اس کے ماننے والے ملحد اور کافر ہیں اور شرعی لحاظ سے مغربی تہذیب کو کفر اور اس میں یقین رکھنے والوں کو کافر سمجھنا اورکہنا اور ان سے کفار جیسا سلوک کرنا ایک شرعی تقاضا ہے۔

(اسلام اور رد مغرب:ص/۱۵ تا ۳۹)

کیا نظریہٴ حیات ایک نیا تصور ہے؟

            لفظ ”ورلڈ ویو“ یا”پیراڈائم“ اپنے استعمال میں شاید نیا نظر آتا ہو مگر اس کا مفہوم اور تصور انسانی تاریخ جتنا پرانا ہے۔ اسلامی نقطہٴ نظر سے تو یہ ہر مخلوق کے لیے ہمیشہ سے موجود رہا ہے، کیوں کہ ہر مخلوق اپنی تخلیق کے ساتھ خالق کی اطاعت اور زندگی کے مقصد کا ادراک رکھتی ہے۔ اسلامی روایت میں اس مضمون کو ”علم العقائد“،”علم التوحید“ یا”علم الکلام“ کے نام سے جانا جاتا ہے، جو ان اہم بحثوں کا احاطہ کرتا ہے۔

            اس موضوع پر ہر دور میں ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں امام ابو حنیفہ سے منسوب”فقہ الاکبر“، امام طحاوی کی”عقیدہ الطحاویہ“، امام غزالی کی ”الاقتصاد فی الاعتقاد“، امام نورالدین صابونی کی ”اصول الدین“، امام النسفی کی”شرح عقائد النسفی“ اورشاہ ولی اللہ دہلوی( رحمة اللہ علیہِم)کی”حجة اللہ البالغہ“ شامل ہیں۔ یہ تمام کتابیں اس بات کی غماز ہیں کہ نظریہٴ حیات کا تصور اور اس کے مختلف پہلو ہر دور میں علمی و فکری تحقیق کا حصہ رہے ہیں اوران کی تفصیلات نے اسلامی علم و فکر کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔