الحادِ جدید اور اس کی قسمیں

            عصر ِحاضر میں الحاد کا لفظ عموماً لادینیت اور وجود خدا کے عدم ِیقین کے معنوں میں بولا جاتا ہے- یعنی ایسا شخص جو مطلقاً مذہب کی ضرورت کا انکار یا وجودِ نبوت و رسالت اور آخرت میں سے کسی ایک کا یا تینوں کا انکار کرے وہ ملحد ہے- زمانہٴ قدیم سے ہی بعض لوگ الحاد کے کسی نہ کسی شکل میں قائل تھے- لیکن اس معنی میں خدا کے وجود کا انکار بہت ہی کم کیا گیا ہے- بڑے بڑے مذاہب میں صرف بدھ مت ہی ایسا مذہب ہے جس میں کسی خدا کا تصور نہیں ملتا- اسی طرح ہندو مذہب کے بعض فرقے جیسے جین مت میں خدا کا تصور نہیں ملتا- اس کے علاوہ دنیا بھر میں صرف چند ہی فلسفی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے خدا کا انکار کیا- عوام الناس کی اکثریت ایک یا کئی خداؤں کے وجود کی بہر حال قائل رہی ہے- نبوت و رسالت کا اصولی حیثیت سے انکار کرنے والے بھی کم ہی رہے- ہاں ضرور ہوا کہ جب کوئی نبی یا رسول ان کے پاس خدا کا پیغام لے کر آیا تو اپنے مفادات یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے انہوں نے اس مخصوص نبی یا رسول کا انکار کیا ہو- حضور نبی کریم(ﷺ) کے دور کے مشرکین کے بارے میں بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ خدا کے منکر تو نہ تھے، لیکن ان میں آخرت پر یقین نہ رکھنے والوں کی کمی نہ تھی۔

(”الحاد ایک تعارف“ص:29- 28)

            عصر حاضر میں الحاد کا لفظ عموماً انکار ِمذہب یا وجود ِخدا کے عدم یقین پر بولا جاتا ہے؛ لیکن وسیع مفہوم کے تناظر میں دیکھا جائے تو دور حاضر میں الحاد کی 3 بڑی قسمیں ہیں-جنہیں مروجہ اصلاحات میں الحادِ مطلق (Gnosticism) لا ادریت (Agnosticism) ڈیزم (Deism) کہا جاتا ہے۔

1-الحاد مطلق (Gnosticism)

            Gnosticism سے مراد معرفت یا علم رکھنا ہے- یہ ملحدین خدا کے انکار کے معاملے میں شدت کا رویہ رکھتے ہیں- یہ لوگ روح، دیوتا، فرشتے، جنت، دوزخ اور مذہب سے متعلقہ روحانی اموار اور مابعدالطبیعاتی (metaphysical) امور کو کسی بھی صورت تسلیم نہیں کرتے-ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اس بات کا اچھی طرح علم رکھتے ہیں کہ انسان اور کائنات کی تخلیق میں کسی خالق کا کمال نہیں ہے – بلکہ یہ خود بخود وجود میں آئی ہے اور فطری قوانین (laws of nature) کے تحت چل رہی ہے- اس نقطہ نظر کے حاصل لوگوں کو ”Gnostic Atheist“ کہا جاتا ہے- عام طور پر جب ملحدین یعنی ایتھی ایسٹ کا ذکر ہوتا ہے تو ملحدین سے مراد یہی طبقہ ہے۔

لاادریت(Agnosticism):

            لاادریت کی اصطلاح انیسویں صدی کے اواخر میں ایک انگریز ماہر ِحیاتیات ٹی. ایچ. ہکسلے نے رقم کی تھی- یہ اصطلاح متعارف کرنے کا مقصد ان لوگوں سے مخاطب ہونا تھا، جن کی پسندیدگی اپنی ذات ہوتی ہے اور وہ مابعد الطبیعات اور دینیات کے تناظر میں الجھی بحثوں سے خود کو دور رکھتے ہیں- (1984ء) یعنی اختصار سے کہا جائے تو یہ نظریہ کہ خدا ہے یا خدا نہیں ہے، اس بحث میں الجھنے سے گریز کرنا- بالفاظِ دیگر theismاورatheismکے جھگڑے سے ماورا یہ ایک ایسی اصطلاح ہے، جس کے حامل لوگ خدا کے وجود کی بحث میں الجھنے سے گریز کرتے ہیں۔

ڈی ایزم (Deism):

            اس کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ اگرچہ خدا ہی نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے، لیکن اس کے بعد وہ اس سے بے نیاز ہو گیا ہے- اب یہ کائنات خود بخود چل رہی ہے- دوسرے لفظوں میں اس تحریک کا ہدف رسالت اور آخرت کا انکار تھا- اس تحریک کو فروغ” ڈیوڈ ہیوم“ اور” مڈلٹن “کے علاوہ مشہور ماہر ِمعاشیات ”ایڈم سمتھ“ کی تحریروں سے بھی ملا- بنیادی طور پر یہی تین نظریے کے حامل ملحدین عصر حاضر میں موجود ہیں۔

 

 مغرب کے ملحدانہ نظریات:

            فکر ِمغرب کے اجزا وہ مشہور نظریات ہیں جو بیسویں صدی کے چوتھے عشرے تک سامنے آ کر مغربی معاشرے میں سرایت کر چکے تھے، بلکہ معاشرہ،زندگی کے ہر میدان میں اپنے آپ کو ان کے حوالے کر چکا تھا؛ کہیں کوئی مخالفت بیسویں صدی کے آغاز میں موجود تھی بھی؛تو وہ بیسویں صدی کا نصف حصہ گزرتے گزرتے دم توڑ چکی تھی۔

            #ڈارون کا نظریہ ٴارتقا۔

            #…میڈو گل کا نظریہ ٴجبلت۔

            #…سگمنڈ فرائڈ کا نظریہٴ جنس ۔

            #…کارل مارکس کا نظریہ ٴدولت۔

            #…ایڈلر کا نظریہٴ حب ِتفوق۔

            مغربی فکر وفلسفہ کے بڑے بڑے امام ڈارون، میڈو گل، فرائڈ، ایڈلر، کارل مارکس اور میکاولی ہیں۔ ڈارون کی طرف ارتقا کا نظریہ منسوب ہے؛ میکڈو گل نے جبلت کا نظریہ پیش کیا ہے؛ فرائڈ اور ایڈلر نے لاشعور کے نظریات پیش کیے ہیں؛ کارل مارکس کی طرف سوشلزم کا نظریہ منسوب ہے، اور میکاولی نیشنلزم کی موجودہ شکل کا مبلغ سمجھا جاتا ہے۔

            یہ پانچ تو وہ ہیں جو زیادہ زور پکڑ سکے ہیں اور جنہوں نے موجودہ الحاد کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے، ورنہ صرف یہ پا نچ نظریات نہیں ظاہر ہوئے، بلکہ جناب سید محمد سلیم نے ”مغربی فلسفہ تعلیم ایک تنقیدی مطالعہ“میں تقریباً ایسے سو ملحدانہ افکار کا ذکر کیا ہے؛(مغربی فلسفہ کی وجہ سے دین کے بارے میں ایک سو پچاس سے زائد گم راہیوں کو پروفیسر حسن عسکری صاحب نے مرتب کیا ہے) اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغرب میں الحاد نے کیسا سر اٹھایا ہوگا!!!

            لا دینی تحریک پر سید محمد سلیم تحریر فرماتے ہیں:

لا دینی تحریک

            غیرمحسوس اور غیرمادّی حقائق کا برملا انکار کرنے کے بعد مذہب بیزاری Theophobia جدید نظام فکر کا اہم عنصر پایا۔ مغرب میں اب صرف وہ علم معتبر ہے؛جس سے لا دینی فکر کو تقویت ملتی ہو؛ سائنس کا ہر ہم سفر شعوری یا غیر شعوری طور پر مذہب بیزاری کے جذبے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ مغرب کے حکما اور فلاسفہ کی اس ذہنیت کو ”لادینیت“ Secularism کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ یہ لاادریت Agnosticism سے بالکل مختلف نظریہ ہے۔ یونان کے ”لا ادریہ“ فلسفی لاعلمی کے مدعی تھے؛لیکن جدید دور کے حکماء اور فلاسفہ مذہب دشمنی کے عَلَم بردار ہیں۔ خدا کے تصور کو حذف کرنا اور مادیت کے ذریعہ کائنات کی ہرشی کی تشریح کرنا اب سائنس کا منتہائے مقصود بن گیا ہے؛ اس کا واضح ثبوت فرانس کے سائنس داں ”لاپلاس“ Laplace کے جواب سے ملتا ہے؛ اس نے اپنی طبیعاتی تصنیف نپولین (1804ء تا 1814ء) کو پیش کی۔ نپولین نے لاپلاس سے دریافت کیا؛ میں نے آٹھ سو صفحات کی کتاب میں خدا کا لفظ کہیں نہیں پڑھا؛ اس کی کیا وجہ ہے؟ لاپلاس نے جواب دیا: ”آقا! اب اس فارمولے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔“

(مغربی فلسفہٴ تعلیم کا تنقیدی جا ئزہ، ص:32)

 مغرب کے ملحدانہ نظریات:

            فکر ِمغرب کے اجزا وہ مشہور نظریات ہیں جو بیسویں صدی کے چوتھے عشرے تک سامنے آ کر مغربی معاشرے میں سرایت کر چکے تھے، بلکہ معاشرہ،زندگی کے ہر میدان میں اپنے آپ کو ان کے حوالے کر چکا تھا؛ کہیں کوئی مخالفت بیسویں صدی کے آغاز میں موجود تھی بھی؛تو وہ بیسویں صدی کا نصف حصہ گزرتے گزرتے دم توڑ چکی تھی۔

  •         ڈارون کا نظریہ ٴارتقا۔
  •   میڈو گل کا نظریہ ٴجبلت۔
  •            سگمنڈ فرائڈ کا نظریہٴ جنس ۔
  •         کارل مارکس کا نظریہ ٴدولت۔
  •            ایڈلر کا نظریہٴ حب ِتفوق۔

            مغربی فکر وفلسفہ کے بڑے بڑے امام ڈارون، میڈو گل، فرائڈ، ایڈلر، کارل مارکس اور میکاولی ہیں۔ ڈارون کی طرف ارتقا کا نظریہ منسوب ہے؛ میکڈو گل نے جبلت کا نظریہ پیش کیا ہے؛ فرائڈ اور ایڈلر نے لاشعور کے نظریات پیش کیے ہیں؛ کارل مارکس کی طرف سوشلزم کا نظریہ منسوب ہے، اور میکاولی نیشنلزم کی موجودہ شکل کا مبلغ سمجھا جاتا ہے۔

            یہ پانچ تو وہ ہیں جو زیادہ زور پکڑ سکے ہیں اور جنہوں نے موجودہ الحاد کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے، ورنہ صرف یہ پا نچ نظریات نہیں ظاہر ہوئے، بلکہ جناب سید محمد سلیم نے ”مغربی فلسفہ تعلیم ایک تنقیدی مطالعہ“میں تقریباً ایسے سو ملحدانہ افکار کا ذکر کیا ہے؛(مغربی فلسفہ کی وجہ سے دین کے بارے میں ایک سو پچاس سے زائد گم راہیوں کو پروفیسر حسن عسکری صاحب نے مرتب کیا ہے) اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغرب میں الحاد نے کیسا سر اٹھایا ہوگا!!!

            لا دینی تحریک پر سید محمد سلیم تحریر فرماتے ہیں:

لا دینی تحریک

            غیرمحسوس اور غیرمادّی حقائق کا برملا انکار کرنے کے بعد مذہب بیزاری Theophobia جدید نظام فکر کا اہم عنصر پایا۔ مغرب میں اب صرف وہ علم معتبر ہے؛جس سے لا دینی فکر کو تقویت ملتی ہو؛ سائنس کا ہر ہم سفر شعوری یا غیر شعوری طور پر مذہب بیزاری کے جذبے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ مغرب کے حکما اور فلاسفہ کی اس ذہنیت کو ”لادینیت“ Secularism کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ یہ لاادریت Agnosticism سے بالکل مختلف نظریہ ہے۔ یونان کے ”لا ادریہ“ فلسفی لاعلمی کے مدعی تھے؛لیکن جدید دور کے حکماء اور فلاسفہ مذہب دشمنی کے عَلَم بردار ہیں۔ خدا کے تصور کو حذف کرنا اور مادیت کے ذریعہ کائنات کی ہرشی کی تشریح کرنا اب سائنس کا منتہائے مقصود بن گیا ہے؛ اس کا واضح ثبوت فرانس کے سائنس داں ”لاپلاس“ Laplace کے جواب سے ملتا ہے؛ اس نے اپنی طبیعاتی تصنیف نپولین (1804ء تا 1814ء) کو پیش کی۔ نپولین نے لاپلاس سے دریافت کیا؛ میں نے آٹھ سو صفحات کی کتاب میں خدا کا لفظ کہیں نہیں پڑھا؛ اس کی کیا وجہ ہے؟ لاپلاس نے جواب دیا: ”آقا! اب اس فارمولے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔“

(مغربی فلسفہٴ تعلیم کا تنقیدی جا ئزہ، ص:32)

 مغرب کے ملحدانہ نظریات:

            فکر ِمغرب کے اجزا وہ مشہور نظریات ہیں جو بیسویں صدی کے چوتھے عشرے تک سامنے آ کر مغربی معاشرے میں سرایت کر چکے تھے، بلکہ معاشرہ،زندگی کے ہر میدان میں اپنے آپ کو ان کے حوالے کر چکا تھا؛ کہیں کوئی مخالفت بیسویں صدی کے آغاز میں موجود تھی بھی؛تو وہ بیسویں صدی کا نصف حصہ گزرتے گزرتے دم توڑ چکی تھی۔

  •             ڈارون کا نظریہ ٴارتقا۔
  •            میڈو گل کا نظریہ ٴجبلت۔
  •             سگمنڈ فرائڈ کا نظریہٴ جنس ۔
  •            کارل مارکس کا نظریہ ٴدولت۔
  • ایڈلر کا نظریہٴ حب ِتفوق۔

            مغربی فکر وفلسفہ کے بڑے بڑے امام ڈارون، میڈو گل، فرائڈ، ایڈلر، کارل مارکس اور میکاولی ہیں۔ ڈارون کی طرف ارتقا کا نظریہ منسوب ہے؛ میکڈو گل نے جبلت کا نظریہ پیش کیا ہے؛ فرائڈ اور ایڈلر نے لاشعور کے نظریات پیش کیے ہیں؛ کارل مارکس کی طرف سوشلزم کا نظریہ منسوب ہے، اور میکاولی نیشنلزم کی موجودہ شکل کا مبلغ سمجھا جاتا ہے۔

            یہ پانچ تو وہ ہیں جو زیادہ زور پکڑ سکے ہیں اور جنہوں نے موجودہ الحاد کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے، ورنہ صرف یہ پا نچ نظریات نہیں ظاہر ہوئے، بلکہ جناب سید محمد سلیم نے ”مغربی فلسفہ تعلیم ایک تنقیدی مطالعہ“میں تقریباً ایسے سو ملحدانہ افکار کا ذکر کیا ہے؛(مغربی فلسفہ کی وجہ سے دین کے بارے میں ایک سو پچاس سے زائد گم راہیوں کو پروفیسر حسن عسکری صاحب نے مرتب کیا ہے) اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغرب میں الحاد نے کیسا سر اٹھایا ہوگا!!!

            لا دینی تحریک پر سید محمد سلیم تحریر فرماتے ہیں:

لا دینی تحریک

            غیرمحسوس اور غیرمادّی حقائق کا برملا انکار کرنے کے بعد مذہب بیزاری Theophobia جدید نظام فکر کا اہم عنصر پایا۔ مغرب میں اب صرف وہ علم معتبر ہے؛جس سے لا دینی فکر کو تقویت ملتی ہو؛ سائنس کا ہر ہم سفر شعوری یا غیر شعوری طور پر مذہب بیزاری کے جذبے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ مغرب کے حکما اور فلاسفہ کی اس ذہنیت کو ”لادینیت“ Secularism کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ یہ لاادریت Agnosticism سے بالکل مختلف نظریہ ہے۔ یونان کے ”لا ادریہ“ فلسفی لاعلمی کے مدعی تھے؛لیکن جدید دور کے حکماء اور فلاسفہ مذہب دشمنی کے عَلَم بردار ہیں۔ خدا کے تصور کو حذف کرنا اور مادیت کے ذریعہ کائنات کی ہرشی کی تشریح کرنا اب سائنس کا منتہائے مقصود بن گیا ہے؛ اس کا واضح ثبوت فرانس کے سائنس داں ”لاپلاس“ Laplace کے جواب سے ملتا ہے؛ اس نے اپنی طبیعاتی تصنیف نپولین (1804ء تا 1814ء) کو پیش کی۔ نپولین نے لاپلاس سے دریافت کیا؛ میں نے آٹھ سو صفحات کی کتاب میں خدا کا لفظ کہیں نہیں پڑھا؛ اس کی کیا وجہ ہے؟ لاپلاس نے جواب دیا: ”آقا! اب اس فارمولے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔“

(مغربی فلسفہٴ تعلیم کا تنقیدی جا ئزہ، ص:32)