کفر و شرک اور ارتداد کے بعد سب سے بڑا گناہ بدعت ہے، بدعت ان چیزوں کو کہتے ہیں جن کی اصل شریعت سے ثابت نہ ہو اور شرع کی چاروں دلیلوں یعنی کتاب اللہ، سنتِ رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اجماعِ امت اور قیاسِ مجتہدین سے ان کا ثبوت نہ ملے اور اس کو دین کا کام سمجھ کر کیا جائے یا چھوڑا جائے۔
علامہ ابن حجر عسقلانی شیخ الباری میں تحریر فرماتے ہیں:” والبدع اصلہا ما احدث علی غیر مثال سابق و تطلق فی الشرع فی مقابل السنة فتکون مذمومة۔“
( فتح الباری:۴/۲۱۹،کتاب صلوة التراویح)
بدعت اصل میں اس چیز کو کہا جاتا ہے جو بغیر کسی سابق مثال کے اور نمونہ کے ایجاد کی گئی ہو اور شریعت میں بدعت کا اطلاق سنت کے مقابلہ میں ہوتا ہے، لہٰذا وہ مذموم ہی ہوگی۔(فتاوی رحیمیہ: ۲/ ۱۶۵، دارالاشاعت کراچی)
بدعات و خرافات کے اہم اصول:
یہاں کچھ علامات ذکر کی جاتی ہیں جو اصولی حیثیت کی حامل ہیں اور ان کے ذریعہ کسی چیز کے بارے میں صحیح رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ (کہ آیا وہ چیز سنت ہے یا بدعت ہے)
۱- جو عبادتیں انفرادی طور پر ثابت ہوں ان کو اجتماعی طور پر انجام دینا جائز نہیں۔ (در المختار: ۲/۲۳۵)
۲- جو سنت خفا کے ساتھ ثابت ہو، اس کو آہستہ ہی پڑھنا چاہیے، زور سے پڑھنا بدعت ہے، اسی لیے فقہاء نے لکھا ہے: ”رفع الصوت بالذکر بدعة“۔ (بزاز یہ علی ہامش الہند یة: ۳/۳۷۵)
۳- شریعت میں کسی عمل کے لیے کوئی مخصوص وقت مقرر نہ ہو، اب اگر کسی وقتِ خاص ہی میں اس کو کیا جائے اور اس کو اہمیت دی جائے تو یہ بھی بدعت ہوگا، چناں چہ شاطبی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ پیدائش پر خصوصیت سے خوشیاں منانے کو بدعت قرار دیا ہے۔ (الاعتصام : ا/۳۹)
۴- کسی عمل کے لیے کوئی خاص کیفیت اور ہیئت ثابت نہ ہو اور اس کا التزام کیا جائے تو یہ بھی بدعت ہے، امام مالک کے زمانہ میں اسکندریہ کے لوگ ایک جگہ جمع ہو کر قرآن مجید کی ایک سورت کی اجتماعی قرأت کیا کرتے تھے، امام مالک نے اس کو بدعت قرار دیا۔ (الاعتصام :۲/۳)
۵- ایسا عمل جس سے دین کے کسی کام میں کمی یا اضافہ کا وہم ہو سکتا ہو یا نسبتاً کم اہم امر کے متعلق زیادہ اہمیت کا اظہار ہوتا ہو تو یہ بھی ممنوع ہے اور علما نے اس کو بھی بدعت میں شمار کیا ہے تا کہ یہ عام لوگوں کے لیے غلط فہمی کا موجب نہ بن جائے۔ (الاعتصام :۲/۳۲)
۶- دین میں جو چیز واجب نہ ہو اس کا اس درجہ التزام کہ اگر اسے نہ کیا جائے تو لوگ اسے مطعون کرنے لگیں اور اس کے ضروری ہونے کا وہم ہونے لگے، بدعت ہے۔
۷- جو عمل خیر کسی خاص کام کے لیے ثابت نہ ہو اس کا کرنا بھی بدعت سے خالی نہیں، چناں چہ ہشام بن عبد الملک نے عیدین کے لیے اذان واقامت کا سلسلہ جاری کیا تو علما نے اس کو بدعت اور مکروہ قراردیا (الاعتصام: ۲/۱۸) کہ اذان اس موقع خاص پر ثابت نہیں۔
۸- غیر مسلموں سے دینی امور میں تشبہ بھی بدعت ہے، مثلاً غیر مسلموں کے مختلف طبقات مخصوص رنگ کے لباس استعمال کرتے ہیں، اب بعض صوفیائے زور نے بھی مخصوص رنگ جیسے سبز یاز رد لباس کے استعمال کا خود کو پابند کر لیا ہے علما نے اس کو بھی بدعت قرار دیا ہے۔(حلال و حرام :۳ ۵ ، ۵۴-الا عتصام:۲/۱۸)
یہ چند اصول ذکر کر دیئے گئے جن سے بدعت کی شناخت میں سہولت ہو، آگے ا نہیں بدعات و خرافات کی تفصیل لکھی جاتی ہے جن کو پڑھ کر ہمیں پتہ چلے گا کہ وکون کونسی چیزیں ایسی ہیں جو بدعات و خرافات کے زمرے میں داخل ہیں تا کہ ان سے بچنا ہمارے لیے آسان ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ (مسلم: عن جابر بن عبد اللہ)
ایک روایت میں ہے کہ جو شخص کسی بدعت کو جنم دے یا بدعتی کو پناہ دے اس پر خدا، ملائکہ اور تمام انسانیت کی لعنت ہو۔ (بخاری شریف، باب حرم المدینہ)
صحابہ اور سلف صالحین نے بھی بدعت کے بارے میں ایسی ہی شدت برتی ہے۔ صوفیا جن کے نام پر بدعت کی جاتی ہے بدعت کے سخت مخالف تھے اور اس کی مذمت کیا کرتے تھے، حسن بصری فرمایا کرتے: بدعتی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نہ رکھو ، یہ دل کو بیمار کرتا ہے۔ فضیل بن عیاض فرماتے جو بدعتی کے ساتھ بیٹھے وہ حکمتِ دین سے محروم رہے گا۔ (الاعتصام ۱ /۸۹-۹۹)
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی اپنے خطبات میں بدعات سے بطور خاص منع فرماتے تھے۔(فیوض یز دانی:۵۰۷)
حضرت مجددالف ثانی بدعت سے پنا دما لگتے تھے۔(دفتر اول مکتوب:۱۸۹)
فقہا نے لکھا ہے کہ بدعتی کی اقتدا مکر وہ ہے۔(فتاوی عالمگیری:۴۳، بحوالہ حلال و حرام ص۲ ۵)
بدعات و خرافات جو ہمارے یہاں مروج اور ذہن نشین ہیں ان میں بعض تو اعتقادی بدعات ہیں جو درجہٴ کفر کو پہنچی ہوئی ہیں اور بعض عملی بدعات ہیں اور ان کا ارتکاب کبائر میں داخل ہے۔
(بحوالہ اپنے ایمان و اعمال کی حفاظت کیجیے:۱۲۱-۱۲۴)