ضلالت: ضلالت وگمراہی کا مطلب راہِ مستقیم سے ہٹ جانا ہے۔ یہ ہدایت کے برعکس ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:مَنِ اہْتَدَی فَإِنَّمَا یَہْتَدِی لِنَفْسِہِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا۔(الاسراء: 15)
”جو کوئی راہِ راست اختیار کرے اس کی راست روی اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو کوئی گمراہ ہو اُس کی گمراہی کا وبال اُسی پر ہے۔“
لفظ ضلالت متعدد معانی کے لیے بولا جاتا ہے۔ جیسے:
۱۔ کبھی کفر کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ یَکْفُرْ بِاللَّہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِیدًا۔ (النساء:136)
”جس نے بھی اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس کے رسولوں کا اور روزِ آخرت کا کفر کیا وہ ضلالت وگمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا۔“
۲۔ کبھی لفظ ِضلالت شرک کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
وَمَنْ یُشْرِکْ بِاللَّہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِیدًا۔(النساء: 116)
”جس نے بھی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔“
۳۔ لفظ ضلالت کبھی دین کی مخالفت کے لیے بھی مستعمل ہوتا ہے، اگرچہ وہ مخالفت کفر سے کم درجے کی ہو؛ جیسے کہا جاتا ہے ”فِرق ضَالہ“ گمراہ فرقے اور گروہ۔ یہاں گمراہی سے مقصود مخالفت کرنا ہے۔
۴۔ لفظ ضلالت کبھی خطا کے لیے بھی بولا جاتا ہے؛ جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول ہے:
قَالَ فَعَلْتُہَا إِذًا وَأَنَا مِنَ الضَّالِّین۔(الشعراء: 20)
”موسیٰ نے جواب دیا، اُس وقت وہ کام مجھ سے نادانستگی سے ہوا تھا۔“
۵۔ لفظ ضلالت کبھی بمعنی بھول بھی استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاہُمَا فَتُذَکِّرَ إِحْدَاہُمَا الْأُخْرَی۔(البقرة: 282)
”اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے۔“
۶۔ لفظ ضلالت کبھی ضائع اور غیب ہونے کا مفہوم بھی ادا کرتا ہے؛ جیسے کہ گم شدہ اونٹ کے لیے لفظ ”ضالة الابل“ مستعمل ہوتا ہے۔ (الراغب الاصفہانی، المفردات فی القرآن،ص:297، 298)