نفاقکی تعریف اور قسمیں

            ”نفاق “ عربی زبان میں نَافَقَ کا مصدر ہے۔کہا جاتا ہے:نَافَقَ یُنَافِقُ نِفَاقًا وَمُنَافَقَةً۔جس کا معنی ہے چھپانا اور حقیقت پہ پردہ ڈالنا۔اور منافق کو ” منافق“ اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ اپنی حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔

            اور ‘ نفاق’ نافقاء سے ماخوذ ہے جو ‘یربوع’ یعنی ایک قسم کے جنگلی چوہے کے بل سے نکلنے کے راستے کو کہتے ہیں، کیونکہ بل میں داخل ہونے کے ، اس کا راستہ الگ ہوتا ہے اور خطرے کے وقت اس سے نکلنے کا راستہ دوسرا ہوتا ہے۔اور وہ نکلنے کے راستے پر پردہ ڈالے رکھتا ہے، جس کا باہر سے کسی کو پتہ نہیں چلتا،جب اسے بل کے ایک سوراخ سے تلاش کیا جاتا ہے تو وہ دوسرے خفیہ سوراخ سے بھاگ نکلتا ہے۔اسے ‘نفاق ‘اس لئے کہا گیا ہے کہ منافق اسلام میں ایک راستے سے داخل ہوتا ہے اور دوسرے راستے سے نکل جاتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ‘نفاق’ نَفَق سے مشتق ہے جس کا معنی ہے سرنگ، یا وہ سوراخ جس میں چھپنے والا چھپ جاتا ہے۔

(النھایة لإبن الأثیر:۵/۹۸)

            اور شرعی اصطلاح میں ‘نفاق ‘ کا معنی ہے:اسلام کو ظاہر کرنا اور کفر کو دل میں چھپانا۔ یا خیر کو ظاہر کرنا اور شرکو چھپانا۔ اور چوں کہ منافق اسلام کو ظاہر کرتا اور کفر کو دل میں چھپاتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا: اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ۔(التوبة:۶۷)

            ”بے شک منافق ہی فاسق لوگ ہیں۔ ”

             فاسقوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو دائرہ شریعت سے خارج ہیں۔

اور’نفاق ‘کی دو قسمیں ہیں:

            پہلی قسم:اعتقادی نفاق، جس کو نفاقِ اکبر بھی کہتے ہیں۔اس میں ایک منافق اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا ہے، لیکن اپنے اندر کفر چھپائے رکھتا ہے،اس قسم کے نفاق سے آدمی مکمل طور پر دین سے خارج ہوجاتا ہے اور جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں پہنچ جاتا ہے۔والعیاذ باللہ۔اِس طرح کے منافق ہر زمانے میں رہے ہیں، خاص طور پر اس وقت جب اسلام کی شان و شوکت بڑھ جاتی ہے اور یہ لوگ اس کا کھل کرمقابلہ نہیں کر سکتے تو یہ اسلام میں داخل ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں؛ تاکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کریں،پھر یہ مسلمانوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہوئے اپنی جان، عصمت اور اپنے مال کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور درپردہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اعتقادی نفاق کی کچھ اور صورتیں بھی ہیں مثلا:

            ۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے بعض حصے کو جھٹلانا۔

            ۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلی دشمنی رکھنایاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے بعض حصے سے بغض رکھنا۔

            ۳۔ امت مسلمہ کے زوال پر خوش ہونایا اس کے بر عکس جب دینِ اسلام کو دیگر ادیان پر غلبہ حاصل ہو اور مسلمان کافروں پر فتح حاصل کریں تو اس پر رنج والم میں مبتلا ہونا۔

            دوسری قسم: عملی نفاق، جس کو نفاق اصغر بھی کہتے ہیں۔اس سے مراد ہے:دل میں ایمان باقی رکھنالیکن اس کے ساتھ ساتھ منافقوں کے اعمال میں سے کسی عمل کا ارتکاب کرنا یا ان کی صفات میں سے کسی صفت کو اختیار کرنا۔مثلا ًبات بات میں جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، امانت میں خیانت کرنا وغیرہ۔اِس نفاق سے انسان دائرہٴ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔اُس میں کچھ اچھی اور کچھ بری خصلتیں ہوتی ہیں، کچھ ایمانی خصلتیں ہوتی ہیں اور کچھ کفر اور نفاق کی عادتیں ہوتی ہیں۔اور وہ اپنے اچھے اور برے عمل کے اعتبار سے ثواب یا عقاب کا مستحق ہوتا ہے۔

نفاقِ اکبر اور نفاقِ اصغر کے درمیان فرق:

            ۱۔نفاقِ اکبرسے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، جبکہ نفاقِ اصغر سے وہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔

            ۲۔نفاقِ اکبر ایک سچے مومن سے صادر نہیں ہوسکتا، جب کہ مومن سے نفاقِ اصغر کا صادر ہونا ممکن ہے۔

            ۳۔ نفاقِ اکبر کا مرتکب اگر اسی حالت میں مر جائے تو وہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہے؛جب کہ نفاقِ اصغر کا مرتکب اگر بغیر توبہ کے مر جائے تو قیامت کے روز اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ جیسے چاہے گا فیصلہ فرمائے گا۔ہو سکتا ہے کہ اسے عقیدہٴ توحید کی بنا پر اپنے فضل وکرم سے معاف کرکے جنت میں داخل کردے اور ہو سکتا ہے کہ اسے پہلے جہنم میں داخل کرکے اس کو اس کے گناہوں کی سزا دے؛ پھر اسے جنت میں داخل کرے۔

            ’نفاق ‘ نہایت ہی خطرناک مرض ہے،جو لوگ اِس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مرض میں اور اضافہ کردیتا ہے۔اس کا فرمان ہے:

             فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ ( البقرة:۱۰)

             ان کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے تو اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھادیا اور جو وہ جھوٹ بک رہے ہیں اس کے عوض ان کو قیامت کے دن دردناک عذاب ملے گا۔

            یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نفاق سے بہت زیادہ ڈرتے رہتے تھے۔

            ابن ابی ملیکة کہتے ہیں:(اَدْرَکْتُ ثَلَاثِیْنَ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کُلُّہُمْ یَخَافُ النِّفَاقَ عَلٰی نَفْسِہِ)

( البخاری۔کتاب الإیمان باب خوف المومن من ان یحبط عملہ وہو لا یشعر )

            ” میں نے تیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پایا جن میں سے ہر ایک کو اپنے اوپر نفاق کا خوف تھا۔”

            اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جناب حذیفة بن الیمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کرتے تھے کہ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام منافقوں میں لیا تھا؟ یہ کون ہیں؟ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ! جوجس راستے پر چلتے تھے تو شیطان بھی اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلا جاتا تھااور جنھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طور پر دعا کرکے اللہ تعالی سے طلب کیا تھا اور جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کر جنت کی بشارت سنائی تھی، وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام منافقوں میں تونہیں لیا تھا!

            اگر ان صحابہٴ کرام کو اپنے اوپرنفاق کا اِس قدر خوف تھا تو ہمیں تو اور زیادہ ڈرنا چاہئے کہ کہیں ہمارے اندر منافقت تو نہیں ہے!

            اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں منافقوں کا پردہ فاش کیا ہے، ان کے بھیدوں کو طشت از بام کیا ہے اور اپنے بندوں کو ان کے متعلق آگاہ کردیا ہے؛ تاکہ وہ نفاق اور منافقوں سے بچے رہیں۔

            اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں ایک مکمل سورت ان کے متعلق نازل کردی، جس کانام ہے سورة المنافقون؛ اسی سورت میں اللہ تعالی نے منافقوں کو مومنوں کا اصل دشمن قرار دیا اور فرمایا:

            ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ۔ ( المنافقون:۴)یہی دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہئے۔

            اس کے علاوہ اس نے سورہٴ بقرة کے شروع میں لوگوں کے تین گروہ یعنی مومنین، کفار اور منافقین کا تذکرہ کیا ہے۔ مومنوں کا تذکرہ چار آیتوں میں اور کافروں کا دو آیتوں میں کیا؛جبکہ منافقوں کا تذکرہ پورے ایک رکوع میں کیا ،جس میں تیرہ آیات ہیں۔ بھلے لوگو! ذرا سوچو اللہ تعالی نے ایسا کیوں کیا؟

            اس نے ایسا اس لئے کیا کہ منافقوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور لوگوں میں ان کے نفاق کے پھیلنے کا شدید اندیشہ تھا اور وہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایک عظیم فتنہ ثابت ہوسکتے تھے۔اس لئے اس نے ان کے متعلق تفصیل سے آگاہ کردیا۔

            اور اگر ہم تاریخِ اسلام کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان منافقوں کی دسیسہ کاریوں کی وجہ سے مسلمانوں کو بڑے بڑے مصائب جھیلنا پڑے، ان کی سازشوں کی وجہ سے مسلمانوں کو متعدد مرتبہ شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑا؛ کیوں کہ یہ لوگ اسلام کے سخت ترین دشمن ہونے کے باوجود مسلمان کہلائے جاتے تھے اور اسلام کے مددگار و حامی سمجھے جاتے تھے، لیکن انہوں نے اسلام اور مسلمانوں سے اپنی دشمنی اور بغض کی بنا پر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ بھی ضائع نہیں کیا۔یہ لوگ ہر دور میں اپنی چالوں اور سازشوں کے ذریعے عالم اسلام میں فتنے بپا کرتے رہے ہیں۔اور اب بھی کر رہے ہیں۔کفی اللّٰہُ المسلمین شرہم۔اللہ تعالی مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔

منافق کی نشانیاں:

             ویسے تو منافق کی نشانیاں بہت زیادہ ہیں، لیکن ہم یہاں چند اہم نشانیاں ذکر کرتے ہیں۔

1۔جھوٹ بولنا

            منافقوں کی بہت بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں اور ان کی زبان پر سچ کم ہی آتا ہے۔ان کے جھوٹا ہونے کی شہادت خود اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں متعدد مرتبہ دی ہے۔

            اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:اِِذَا جَآئَکَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُہ وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ (المنافقون:۱)

             جب آپ کے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ یقینا آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اور اللہ جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں۔اور اللہ یہ گواہی دیتا ہے کہ منافق سراسر جھوٹے ہیں۔

            اسی طرح اللہ تعالی فرماتا ہے: یَوْمَ یَبْعَثُہُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا فَیَحْلِفُوْنَ لَہ کَمَا یَحْلِفُوْنَ لَکُمْ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ عَلٰی شَیْءٍ اَلَآ اِِنَّہُمْ ہُمُ الْکٰذِبُوْنَ۔(المجادلة: ۱۸)

             جس دن اللہ ان سب(منافقوں)کو اٹھائے گا تو اس کے سامنے بھی ایسے ہی قسمیں کھائیں گے؛ جیسے تمہارے سامنے کھاتے ہیں اور یہ سمجھیں گے کہ ان کا کام بن جائے گا۔خبردار! یہی جھوٹے لوگ ہیں۔

            اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

             وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا ھُمْ بِمُومِنِیْنَ۔(البقرة:۸)

             اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ‘ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ‘ حالاں کہ وہ مومن نہیں ہیں۔

2۔مکرو فریب کرنا اور دھوکہ دینا:

            منافقوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ مکروفریب اور دھوکہ بازی کرتے ہیں؛حتی کہ وہ اللہ تعالی کو بھی دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ وہ ایسا کر نہیں کرسکتے۔

            اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ۔ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ۔(البقرة:۹،۱۰)

            یہ لوگ اللہ کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں؛حالانکہ(یہ لوگ)اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں اور سمجھ نہیں رہے ہیں۔ان کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے تو اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھادیا۔ اور جھوٹے ایمان کا اظہار کرنے کی وجہ سے ان کو قیامت کے دن دردناک عذاب ملے گا۔

3۔بزعم اصلاح زمین میں فساد پھیلانا :

            منافقوں کی ایک اور بہت بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ معاشرے میں ” اصلاح “ کا دعوی کرتے ہوئے فساد بپا کرتے ہیں۔

            اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ #اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لَکِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ۔(البقرة: ۱۱،۱۲)

            اور جب انہیں کہا جائے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں! خوب سن لو! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر وہ(یہ بات)سمجھتے نہیں۔

            ان آیات ِکریمہ میں اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے منافقوں کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ زمین میں فساد بپا کرتے تھے اور جب انہیں اس سے منع کیا جاتا تھا تووہ کہتے تھے کہ ہم ہی تو ہیں اصلاح کرنے والے!

            نہایت افسوس ہے کہ اِس طرح کے منافق آج بھی موجود ہیں جو ‘اصلاح ‘کا دعوی کرتے ہوئے زمین میں فساد پھیلا رہے ہیں۔مثلا جعلی پیر، نجومی، عامل اور جادو گر! جو سادہ لوح عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور معاشرے میں اِس قدر فساد بپا کر رہے ہیں کہ اللہ کی پناہ! ان لوگوں کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ ہم ہر مشکل دور کرتے ہیں، ہر مسئلے کا حل بتاتے ہیں اور ہر پریشانی کا علاج کرتے ہیں وغیرہ!!! جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ معاشرے میں مسلمانوں کی مشکلات اوران کی پریشانیوں میں اور اضافہ کرتے ہیں۔ان کے مسائل کو اور زیادہ الجھاتے ہیں؛چناں چہ انہی لوگوں کی وجہ سے:

  •              کئی گھر اجڑ گئے!
  •              کئی خاندان برباد ہو گئے!
  •              کئی لوگوں کی عزتیں لٹ گئیں!
  •              کئی پاک باز خواتین ان کی نفسانی خواہشات کی بھینٹ چڑھ گئیں!
  •              اور کئی کھاتے پیتے لوگ دیوالیہ ہو گئے!

            حقیقت یہ ہے کہ یہ اِس دور کے بہت بڑے منافق ہیں؛ جنھوں نے زمین میں فساد بپا کر رکھا ہے۔

            ان لوگوں کے ‘ ریپ ‘ کے واقعات اکثر وبیشتر میڈیا میں آتے رہتے ہیں، لیکن پھر بھی لوگ ان کے پاس جانے سے باز نہیں آتے، حالاں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:

            مَنْ اَتَی عَرَّافًا فَسَألَہُ عَنْ شَیْءٍ لَمْ تُقْبَلْ لَہُ صَلَاةُ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً۔( مسلم:۲۲۳۰)

             جو شخص کسی نجومی کے پاس جائے، پھر اس سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرے تو اس کی چالیس راتوں کی نمازیں قبول نہیں کی جاتیں۔

            عزیز بھائیو! ذرا سوچو! ان بد بختوں کے پاس جا کر کسی چیز کے بارے میں صرف سوال کرنے کی وجہ سے چالیس راتوں کی نمازیں رد کردی جاتی ہیں! اِس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس جانا کتنا بڑا گناہ ہے! اور جہاں تک ان کے پاس جا کر ان کی باتوں کی تصدیق کرنے کا تعلق ہے تو وہ کفر ہے؛جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: مَنْ أَتٰی عَرَّافًا أَوْ کَاہِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔( صحیح الجامع للألبانی:۵۹۳۹)

             جو شخص کسی کاہن(علمِ غیب کا دعویٰ کرنے والے کسی عامل)کے پاس جائے، پھر اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارے گئے دینِ الٰہی سے کفر کیا۔

4۔صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنا :

            منافقوں کی ایک اور بہت بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ ان شخصیات کو برا بھلا کہتے ہیں کہ جن کے ذریعے اللہ کا دین پوری دنیا تک پہنچا۔جن کے ذریعے ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت آپ کی امت تک پہنچی،جن کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایک ارشاد محفوظ ہوا۔یہ منافق ان حضرات کو گالی گلوج کرتے ہیں کہ جن کو اللہ تعالی نے اپنے پیارے رسول جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کے لیے منتخب فرمایا، جن سے اللہ تعالی نے راضی ہونے کا اعلان کیا اور جن سے ہمیشہ رہنے والی جنتوں کا وعدہ کیا۔

            اللہ تعالی منافقوں کی یہ نشانی ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُومِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَھَآءُ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَھَآءُ وَ لٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ۔ (البقرہ: ۱۳)

             اور جب انھیں کہا جائے کہ ایمان لاوٴ جیسے اور لوگ ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں:کیا ہم ایمان لائیں جیسے احمق لوگ ایمان لائے ہیں! خبردار! حقیقت میں یہی لوگ احمق ہیں ،مگر وہ(یہ بات)جانتے نہیں۔

            اِس آیت کریمہ میں(الناس)سے مراد صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم ہیں، جو اِس آیت کے نزول کے وقت ایمان لا چکے تھے۔اللہ تعالی نے منافقوں کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ وہ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کو بر ابھلا کہتے ہیں! اور ساتھ ہی آگاہ کیا ہے کہ جو لوگ ان حضرات کو برا بھلا کہتے ہیں، درحقیقت وہی احمق اور بے وقوف ہیں۔

            بڑے ہی افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ انہی منافقوں کے طرزِ عمل کو اختیار کرتے ہوئے اِس دور میں بھی بعض وہ لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں،ان صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی گلوچ کرتے اور انہیں برا بھلا کہتے ہیں۔بالکل اُسی طرح جیسا کہ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں منافق ان پر تہمتیں لگاتے تھے آج بھی کئی لوگ ان شاگردانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمتیں لگاتے ہیں۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر منافقوں نے ہی بہتان باندھا تھا اور آج بھی انہی جیسے منافق لوگ اِس پاکباز خاتون، مومنوں کی ماں صدیقہ، طاہرہ رضی اللہ عنہا پر تبرا بازی کرتے ہیں؛حالانکہ قرآن مجیدمیں ان کی براء ت کا اعلان ہو چکا، لیکن پھر بھی ان لوگوں کا بہتان بازی سے باز نہ آنا یقینا قرآن مجید کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔

5۔غداری کرنا

            منافقوں کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی سے عہد کرنے کے بعد غداری کرتے ہیں اور اپنے عہد کو توڑ دیتے ہیں۔

            اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَ مِنْھُمْ مَّنْ عٰھَدَ اللّٰہَ لَئِنْ اٰتٰنَا مِنْ فَضْلِہ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ# فَلَمَّآ اٰتٰھُمْ مِّن فَضْلِہ بَخِلُوْا بِہ وَ تَوَلَّوْا وَّ ھُمْ مُّعْرِضُوْنَ# فَاَعْقَبَھُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِھِمْ اِلٰی یَوْمِ یَلْقَوْنَہ بِمَآ اَخْلَفُوا اللّٰہَ مَا وَعَدُوْہُ وَ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْن ۔(التوبہ: ۷۵ تا ۷۷)

             اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں، جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ ہمیں اپنی مہربانی سے(مال ودولت)عطا کرے گا، تو ہم ضرورصدقہ کریں گے اور نیک بندے بن جائیں گے،پھر جب اللہ نے اپنی مہربانی سے انہیں مال عطا کردیا تو بخل کرنے لگے اور کمال بے اعتنائی سے(اپنے عہد سے)پھر گئے؛چنانچہ اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں اس دن تک کے لیے نفاق ڈال دیا، جس دن وہ اس سے ملیں گے؛ کیوں کہ انھوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا، اس کی خلاف ورزی کی اور اس لئے کہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے۔