”قرآن“ کا تعارف !

            ایمان، ضروریاتِ دین، اسلام کی تعریفات کے بعد اب قرآن کی تعریف سے واقف ہوتے ہیں :

”قرآن“ کی تعریف :

            راجح قول کے مطابق ”قرآن“ اصل میں قَرَأَ یَقْرَأُباب فتح سے نکلا ہے، جس کے لغوی معنی ہیں:” پڑھنا“۔

             اور اصطلاحی معنی ہے:”اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جو محمد رسول اللہ ا پر نازل ہوا، مصاحف میں لکھا گیا اور آپ ا سے بغیر کسی شبہ کے تواتراً منقول ہے“۔

            مباحث فی علوم القرآن لمناع القطان میں ہے:

            ”قرأ“: تأتی بمعنی الجمع والضم، والقرائة: ضم الحروف والکلمات بعضہا إلی بعض فی الترتیل، والقرآن فی الأصل کالقرائة: مصدر قرأ قرائة وقرآنًا. قال تعالی: ﴿إنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وقَرُآنَہُ، فَإِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ﴾ أی قرائتہ، فہو مصدر علی وزن ”فُعلان“ بالضم۔

(تعریف القرآن، ص15، ط:مکتبة المعارف)

بعض حضرات نے قرآن مجید کی تعریف یوں کی ہے:

            ((ہُوَ کَلَامُ اللّٰہِ تَعَالَی الْمُنَزَّلُ عَلٰی مُحَمَّدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بِوَاسِطَةِ جِبْرِیْلَ علیہ السلام اَلْمَبْدُوْءُ بِسُوْرَةِ الْفَاتِحَةِ وَالْمَخْتُوْمُ بِسُوْرَةِ النَّاسِ وَالْمَکْتُوْبُ فِی الْمَصَاحِفِ وَالْمُتَعَبَّدُ بِتِلَاوَتِہ۔))

            ترجمہ: ”قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے، جو جبریل علیہ السلام کے واسطے سے پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، جس کی ابتدا سورہٴ فاتحہ سے ہوتی ہے اور انتہا سورہٴ ناس پر ہوتی ہے جوکہ (12 ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجماع سے) مصاحف میں (سات حروف پر مشتمل) لکھا گیا اور اس کی تلاوت کرنا عبادت ہے۔ “

            چناں چہ جب ہم نے کلام اللہ (اللہ کی کلام) کہا تو اس سے پتہ چلا کہ یہ جن و انس اور فرشتوں کا کلام نہیں بل کہ یہ صرف اللہ جل شانہ کا کلام حقیقی ہے اور جب ہم نے اَلْمُنَزَّلُ (نازل شدہ) کہا تو اس سے اللہ تعالیٰ کا وہ کلام مراد ہوا جو نازل کیا گیا ہے (محمد ا پر) نہ کہ وہ کلام مراد ہے جو فرشتوں کے ساتھ کیا گیا یا جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے اور جب ہم نے علٰی محمد (اپر) کہا تو پتہ چلا کہ یہ وہ اللہ تعالیٰ کاکلام ہے جو محمد رسول اللہا پر نازل کیا گیا نہ کہ جو موسیٰ علیہ السلام پر تورات کی شکل میں اور عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل کی شکل میں اور داؤد علیہ السلام پر زَبور کی صورت میں اوراِبراہیم علیہ السلام پر صحائف کی صورت میں اور جب ہم نے بواسطہ جبریل علیہ السلام (جبریل علیہ السلام کے واسطے سے) کہا تو پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ کلام جبریل علیہ السلام کے واسطے سے نبی تک پہنچا (جیسا کہ قرآن مجید میں وضاحت ہے:

             ﴿نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ.عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ﴾ (الشعراء: 193۔194)

            ”اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے آپ کے دل پر اُترا ہے کہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ “

            نہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (نعوذ باللہ!) اپنے پاس سے گھڑا ہے نہ سابقہ کتب سے اقتباس کیا ہے اورنہ ہی کسی بشر سے اس کو سیکھاہے؛ جیسا کہ بعض مستشرقین کا تخیل ہے اور جب اَلْمَبْدُوْءُ بِسُوْرَةِ الْفَاتِحَةِ وَالْمَخْتُوْمُ بِسُوْرَةِ النَّاسِ کہا (کہ یہ فاتحہ سے شروع ہو کر الناس پر ختم ہوتا ہے) تو پتہ چلا کہ یہی ترتیب ومقدار صحابہ رضی اللہ عنہم کو یاد تھی، اس میں کمی نہیں کی گئی اور یہ کہنا بہتان ہے کہ اس قرآن کی 17000 آیتیں تھیں اور جب اَلْمَکْتُوْبُ فِی الْمَصَاحِفِ (مصاحف میں لکھا جا چکا ہے) کہا تو پتہ چلا جہاں صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کو یاد کیا، وہاں اس کو مصاحف میں لکھا وہ مصاحف جن کو مصاحف عثمانیہ کے نام سے مسلمان یاد کرتے ہیں اورجب ہم نے اَلْمُتَعَبَّدُ بِتِلَاوَتِہ (اس کی تلاوت کرنا عبادت ہے) کہا تو پتہ چلا کہ کائنات میں کوئی ایسی کتاب نہیں جس کی تلاوت عبادت متصور کی جائے اور اس کو نماز میں پڑھا جائے سوائے اس قرآن مجید کے جس کا ایک حرف پڑھنے سے انسان کو دس نیکیاں ملتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے۔(آمین!)

            (البرھان فی علوم القرآن 1/278، والاتقان 1/87، والنہایة فی غریب الحدیث والاثر 4/30، والمعجم الوسیط 1،2/722،730، 731 ودراسات فی علوم القرآن الکریم 18۔22 والمنجد 788،789،798،799۔)

”قرآن“ کیا ہے؟

            ”قرآن کریم“ اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے، جو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انس وجن کی رہنمائی کے لیے آخری نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعہ نازل فرمایا۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، مخلوق نہیں۔ قرآن کریم لوحِ محفوظ میں ہمیشہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جو فیصلے ملا اعلیٰ یعنی آسمانوں کے اوپر تحریرہیں، وہ کسی بھی تبدیلی سے محفوظ ہونے کے ساتھ شیاطین کے شر سے بھی محفوظ ہیں، اس لیے اس کو لوحِ محفوظ کہا جاتا ہے۔ اس کی شکل وصورت وحجم کیا ہے؟ ہم نہیں جانتے، مگر قرآن وحدیث کی روشنی میں ہم اس پر ایمان لائے ہیں۔

            واقعی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن کریم ہے، جسے بغیر سمجھے بھی لاکھوں لوگ ہر وقت تلاوت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہوں پر اپنے پاک کلام کے لیے قرآن کا لفظ استعمال کیا ہے: ﴿إِنَّہ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ﴾ (الواقعہ:۷۷)۔ اسی طرح فرمایا: ﴿بَلْ ہُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ﴾ (البروج:۲۱)

            ”قرآنِ کریم“ عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ”ہم نے اس کو ایسا قرآن بناکر اُتارا ہے جو عربی زبان میں ہے، تاکہ تم سمجھ سکو۔“ (یوسف: ۲)

             اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کو قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے، مگر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہی اس کتاب سے فائدہ اُٹھاتے ہیں، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد سورة البقرة آیت: ۲ اور سورہ آل عمران آیت: ۸۳۱ میں موجود ہے۔

نزولِ قرآن:

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مختلف طریقوں سے وحی نازل ہوتی تھی:

            ۱:- گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی اور آواز نے جو کچھ کہا ہوتا، وہ حضور ِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد ہوجاتا؛ جب اس طریقہ پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادہ بوجھ پڑتا تھا۔

            ۲:- فرشتہ کسی انسانی شکل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا اور اللہ تعالیٰ کا پیغام آپ کو پہنچادیتا۔ ایسے مواقع پر عموماً حضرت جبرئیل علیہ السلام مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے۔

            ۳:- حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنی اصل صورت میں تشریف لاتے تھے۔

            ۴:- بلاواسطہ اللہ تعالیٰ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم کلامی ہوئی۔ یہ صرف ایک بار معراج کے موقع پر ہوا۔ نماز کی فرضیت اسی موقع پر ہوئی۔

            ۵:- حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر کوئی بات القا فرمادیتے تھے۔

تاریخ نزولِ قرآن:

            ماہِ رمضان کی ایک بابرکت رات” لیلة القدر“ میں اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسبِ ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً ۲۳/ سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔ قرآن کریم کا تدریجی نزول اُس وقت شروع ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک چالیس سال تھی۔

            ” قرآنِ کریم“ کی سب سے پہلی جو آیتیں غارِ حرا میں اُتریں، وہ سورہٴ” عَلَق “کی ابتدائی آیات ہیں۔ اس پہلی وحی کے نزول کے بعد تین سال تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا۔ تین سال کے بعد وہی فرشتہ جو غارِ حرا میں آیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سورة المدثر کی ابتدائی چند آیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائیں۔ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک وحی کے نزول کا تدریجی سلسلہ جاری رہا۔ غرض تقریباً ۲۳/ سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔

حفاظتِ قرآن:

            جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ قرآن کریم ایک ہی دفعہ میں نازل نہیں ہوا، بل کہ ضرورت اورحالات کے اعتبار سے مختلف آیات نازل ہوتی رہیں۔ قرآن کریم کی حفاظت کے لیے سب سے پہلے حفظِ قرآن پر زور دیا گیا، چناں چہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم الفاظ کو اسی وقت دہرانے لگتے تھے، تاکہ وہ اچھی طرح یاد ہوجائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی نازل ہوئی کہ عین نزولِ وحی کے وقت جلدی جلدی الفاظ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے، بل کہ اللہ تعالیٰ خود آپ میں ایسا حافظہ پیدا فرمادے گا کہ ایک مرتبہ نزولِ وحی کے بعد آپ اسے بھول نہیں سکیں گے۔ اس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے حافظ قرآن ہیں، چناں چہ ہر سال ماہِ رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور فرمایا کرتے تھے۔ جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا، اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآن کے معانی کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے، بل کہ انہیں اس کے الفاظ بھی یاد کراتے تھے۔ خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآن کریم یاد کرنے کا اتنا شوق تھا کہ ہر شخص ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتا تھا؛ چناں چہ ہمیشہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک اچھی خاصی جماعت ایسی رہتی جو نازل شدہ قرآن کی آیات کو یاد کرلیتی اور راتوں کو نماز میں دہراتی تھی۔ غرضیکہ قرآن کی حفاظت کے لیے سب سے پہلے حفظِ قرآ ن پر زور دیا گیا اور اُس وقت کے لحاظ سے یہی طریقہ زیادہ محفوظ اور قابلِ اعتماد تھا۔

            قرآن کریم کی حفاظت کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو لکھوانے کا بھی خاص اہتمام فرمایا، چناں چہ نزولِ وحی کے بعد آپ کاتبینِ وحی کو لکھوادیا کرتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن ِکریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ کاتبِ وحی کو یہ ہدایت بھی فرماتے تھے کہ: اسے فلاں سورت میں فلاں فلاں آیات کے بعد لکھا جائے۔ اس زمانہ میں کاغذ دستیاب نہیں تھا، اس لیے یہ قرآنی آیات زیادہ تر پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں، بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانور کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں۔ کاتبینِ وحی میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام خاص طور پر ذکر کیے جاتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جتنے قرآن کریم کے نسخے لکھے گئے تھے، وہ عموماً متفرق اشیاء پر لکھے ہوئے تھے۔

            حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں جب جنگِ یمامہ کے دوران حفاظِ قرآن کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قرآن کریم ایک جگہ جمع کروانے کا مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ابتداء میں اس کام کے لیے تیار نہیں تھے، لیکن شرح صدر کے بعد وہ بھی اس عظیم کام کے لیے تیار ہوگئے اور کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اس اہم وعظیم عمل کا ذمہ دار بنایا۔ اس طرح قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کرنے کا اہم کام شروع ہوگیا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ خود کاتبِ وحی ہونے کے ساتھ پورے قرآن کریم کے حافظ تھے۔وہ اپنی یادداشت سے بھی پورا قرآن لکھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ اُس وقت سینکڑوں حفاظِ قرآن موجود تھے، مگر انہوں نے احتیاط کے پیشِ نظر صرف ایک طریقہ پر بس نہیں کیا، بل کہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لے کر اُس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفے میں درج نہیں کی، جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں۔ اس کے علاوہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں، وہ مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس محفوظ تھیں، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے انہیں یکجا فرمایا، تاکہ نیا نسخہ ان ہی سے نقل کیا جائے۔ اس طرح خلیفہٴ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں قرآن کریم ایک جگہ جمع کردیا گیا۔ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو اسلام عرب سے نکل کر دور دراز عجمی علاقوں تک پھیل گیا تھا۔ ہر نئے علاقہ کے لوگ ان صحابہ وتابعین سے قرآن سیکھتے، جن کی بدولت انہیں اسلام کی نعمت حاصل ہوئی تھی۔

             صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف قراء توں کے مطابق سیکھا تھا، اس لیے ہر صحابی نے اپنے شاگردوں کو اسی قراء ت کے مطابق قرآن پڑھایا، جس کے مطابق خود انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھا تھا۔ اس طرح قراء توں کا یہ اختلاف دور دراز ممالک تک پہنچ گیا۔ لوگوں نے اپنی قراء ت کو حق اور دوسری قرا توں کو غلط سمجھنا شروع کردیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اجازت ہے کہ مختلف قراء توں میں قرآن کریم پڑھا جائے۔

            حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ کے پاس پیغام بھیجا کہ اُن کے پاس (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے تیار کرائے ہوئے) جوصحیفے موجود ہیں، وہ ہمارے پاس بھیج دیں؛ چناں چہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سرپرستی میں ایک کمیٹی تشکیل دے کر ان کو مکلف کیا گیا کہ وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صحیفہ سے نقل کرکے قرآن کریم کے چند ایسے نسخے تیار کریں، جن میں سورتیں بھی مرتب ہوں، چناں چہ قرآن کریم کے چند نسخے تیار ہوئے اور ان کو مختلف جگہوں پر ارسال کردیا گیا، تاکہ اسی کے مطابق نسخے تیار کرکے تقسیم کردئیے جائیں۔

            اس طرح اُمتِ مسلمہ میں اختلاف باقی نہ رہا اور پوری اُمتِ مسلمہ اسی نسخہ کے مطابق قرآن کریم پڑھنے لگی۔ بعد میں لوگوں کی سہولت کے لیے قرآن کریم پر نقطے وحرکات (یعنی زبر، زیر اور پیش) بھی لگائے گئے، نیز بچوں کو پڑھانے کی سہولت کے مدِنظر قرآن کریم کو تیس پاروں میں تقسیم کیا گیا۔ نماز میں تلاوتِ قرآن کی سہولت کے لیے رکوع کی ترتیب بھی رکھی گئی۔

فضائلِ قرآن:

            حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قرآن کا ماہر جس کو خوب یاد ہو، خوب پڑھتا ہو، اُس کا حشر فرشتوں کے ساتھ قیامت کے دن ہوگا۔“ (بخاری)

             حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”قیامت کے دن صاحبِ قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ، جیسا کہ تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتا تھا، پس تیرا مرتبہ وہی ہے جہاں آخری آیت پر پہنچے۔“

(مسلم)

             رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے اس کے والدین کو قیامت کے دن ایک تاج پہنایا جائے گا، جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ ہوگی۔ اگر وہ آفتاب تمہارے گھروں میں ہو تو کیاگمان ہے تمہارا اُس شخص کے بارے میں جو خود اس پر عمل پیرا ہو؟!۔“

(ابوداوٴد)

 فہمِ قرآن:

            اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں تدبر و تفکُّر کرنے کا حکم دیا ہے، مگر یہ تدبُّر و تفکُّر مفسرِ اول حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں ہی ہونا چاہیے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہی نے ارشاد فرمایا ہے:

             ”یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اُتاری ہے، تاکہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں۔“ (النحل:۴۴)

             ”یہ کتاب ہم نے آپ پر اس لیے اُتاری ہے، تاکہ آپ ان کے لیے ہر اس چیز کو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں۔“ (النحل: ۶۴)

             اللہ تعالیٰ نے ان دونوں آیات میں واضح طور پر بیان فرمادیا کہ قرآن کریم کے مفسرِ اول حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُمتِ مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریں۔ اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقوال وافعال کے ذریعہ قرآن کریم کے احکام ومسائل بیان کرنے کی ذمہ داری بحسن وخوبی انجام دی۔ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے ذریعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال یعنی حدیثِ نبوی کے ذخیرہ سے قرآن کریم کی پہلی اہم اور بنیادی تفسیر انتہائی قابلِ اعتماد ذرائع سے اُمتِ مسلمہ کوپہنچی ہے، لہٰذا قرآن فہمی حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔

مضامینِ قرآن:

            علمائے کرام نے قرآن کریم کے مضامین کی مختلف قسمیں ذکر فرمائی ہیں، تفصیلات سے قطع نظر ان مضامین کی بنیادی تقسیم اس طرح ہے:

            ۱:- عقائد ۲:- احکام           ۳:- قصص۔

            قرآن کریم میں عمومی طور پر صرف اُصول ذکر کیے گئے ہیں، لہٰذا عقائد واحکام کی تفصیل احادیثِ نبویہ میں ہی ملتی ہے، یعنی قرآن کریم کے مضامین کو ہم احادیثِ نبویہ کے بغیر نہیں سمجھ سکتے ہیں۔

قرآن اور ہماری ذمہ داری:

            یہ کتابِ مقدس حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر رہتی دنیا تک مشعلِ راہ بنی رہے گی، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو اتنا جامع اور مانع بنایا ہے کہ ایمانیات، عبادات، معاملات، سماجیات، معاشیات واقتصادیات کے اصول قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ ہاں! ان کی تفصیلات احادیثِ نبویہ میں موجود ہیں،مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا تعلق اس کتاب سے روز بروز منقطع ہوتا جارہا ہے۔ یہ کتاب ہماری مسجدوں اور گھروں میں جزدانوں میں قید ہوکر رہ گئی ہے، نہ تلاوت ہے نہ تدبر ہے اور نہ ہی اس کے احکام پر عمل، آج کا مسلمان دنیا کی دوڑ میں اس طرح گم ہوگیا ہے کہ قرآنِ کریم کے احکام ومسائل کو سمجھنا تو درکنار اس کی تلاوت کے لیے بھی وقت نہیں ہے۔ علامہ اقبال  نے اپنے دور کے مسلمانوں کے حال پر رونا روتے ہوئے اسلاف سے اس وقت کے مسلمان کا مقارنہ ان الفاظ میں کیا تھا:

وہ زمانہ میں معزز تھے مسلماں ہوکر

اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

            آج ہم اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کے بارے میں سوچتے ہیں، انہیں عصری علوم کی تعلیم دینے پر اپنی تمام محنت وتوجہ صرف کرتے ہیں اور ہماری نظر صرف اور صرف اس عارضی دنیا اور اس کے آرام وآسائش پر ہوتی ہے اور اُس ابدی ولافانی دنیا کے لیے کوئی خاص جدوجہد نہیں کرتے، الا ما شاء اللہ؛ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا اور اپنے بچوں کا تعلق وشغف قرآن وحدیث سے جوڑیں، اس کی تلاوت کا اہتمام کریں، علما کی سرپرستی میں قرآن وحدیث کے احکام سمجھ کر ان پر عمل کریں اور اس بات کی کوشش وفکر کریں کہ ہمارے ساتھ، ہمارے بچے، گھر والے، پڑوسی، دوست واحباب ومتعلقین بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے طریقہ پر زندگی گزارنے والے بن جائیں۔ آج عصری تعلیم کو اس قدر فوقیت واہمیت دی جارہی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو قرآنِ کریم ناظرہ کی بھی تعلیم نہیں دی جارہی ہے، کیوں کہ ان کو اسکول جانا ہے، ہوم ورک کرنا ہے، پروجیکٹ تیار کرنا ہے، امتحانات کی تیاری کرنی ہے، وغیرہ وغیرہ، یعنی دنیاوی زندگی کی تعلیم کے لیے ہر طرح کی جان ومال اوروقت کی قربانی دینا آسان ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے کلام کو سیکھنے میں ہمیں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ غور فرمائیں کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس نے ہماری رہنمائی کے لیے نازل فرمایا ہے اور اس کے پڑھنے پر اللہ تعالیٰ نے بڑا اَجر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے والا اور قرآن وحدیث کے احکام پر عمل کرنے والا بنائے، آمین۔ (نجیب سنبھلی)

            سابقہ کتب کے علوم و فنون و ثمرات کو جمع کرنے والی اگر کوئی اس وقت کتاب ہے تو وہ قرآن مجید ہے جیساکہ ﴿وَ تَفْصِیْلَ کُلِّ شَیْءٍ، وَتِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ﴾ کے اوصاف اس بات کی غمازی کرتے ہیں یا پھر قرآن کو قرآن اس لیے کہتے ہیں کہ فی زَمانہ انحائے عالم اور اقطار الارض میں پھیلی تمام مخلوق کو اگر ایک اسٹیج ایک مَحَطَّةپر جمع کرنے والی اگر کوئی کتاب ہے تو وہ قرآن مجید ہے ،کیوں کہ قرآن مجید میں کسی مسلمان کا اختلاف نہیں ہو سکتا اورجو قرآن مجید میں اختلاف کرتا ہے تو ہمیں اس کا ایمان بھی مختلف فیہ نظر آنا چاہیے۔

            اے اسلام کے دعویدار! کبھی تم نے سوچا کہ کائنات کا ہر کام تو کرتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کبھی تونے قرآن مجید کو بھی کھولا اور تو جانتا ہے کہ ایک حرف کے بدلے دس نیکیاں اور اگر قیامت کو ایک نیکی کی ضرورت پڑ گئی تو کون دے گا؟ اس دن تو ﴿یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِo وَاُمِّہِ وَاَبِیہِ، وَصَاحِبَتِہ وَبَنِیْہِ﴾ (عبس:۳۴۔۳۶) ”بھائی بھائی سے بھاگ جائے گا اور ماں اور باپ بھاگ جائیں گے اور بیوی بھاگ جائے گی اور بیٹے بھاگ جائیں گے۔“ یعنی ایک نیکی دینا بھائی کے بس کی بات نہیں ہوگی ساری زندگی اس بھائی کے پیچھے جان دینے والے امی امی اور ابو ابو کہنے والے اور بیوی جس کے پیچھے لگ کر والدین کو ناراض اللہ تعالیٰ کو ناراض اولاد کے لیے سود خوری ڈاکے اور کیا کیا پاپڑ بیلتا ہے، جب اس انسان کو نیکی کی ضرورت پڑی تو سارے ہی انکار کر دیں گے اور بھاگ جائیں گے پھر اے مسلمان تو کہا ں جائے گا؟ اس لیے آج وقت ہے جنت ونیکیوں کا بازار انتہائی سستا ہے۔ اُٹھ اور قرآن مجید کو پکڑ اور نیکیوں کے انبار لگا شاید کہ بقیہ زندگی ان نیکیوں سے بھر جائے اور سابقہ زندگی کی برائیاں بھی دھل جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے (آمین!)

قرآن مجید کے حقوق :

پہلا حق:…قرآن مجید پر ایمان لایا جائے:

            #… قرآن مجید پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے اس کا اِقرار کیا جائے کہ یہ اللہ جل شانہ کا کلام ہے جوجبریل علیہ السلام کے واسطے سے آخری پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریباً ۲۳/ سال میں نازل ہوا جس کو اصطلاحی زبان میں إِقرارٌ بِاللسان (زبان سے اقرار کرنا) کہتے ہیں۔ زبان کے اقرار کے بعد پھر اسی چیز کا اقرار دل سے کروانا یعنی قلبی تصدیق کرنا کہ واقعی یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو جبریل علیہ السلام کے ذریعے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا، جس کو اصطلاحی زبا ن میں تَصْدِیْقٌ بِالْجِنَانِ (دل سے تصدیق کرنا) کہتے ہیں۔ زبان کا اقرار اور دلی تصدیق کر لینا قرآن مجید پر ایمان لانے کے لیے کافی نہیں؛ بل کہ اس قولی اقرار و قلبی تصدیق کو عملی جامہ پہنانا اور جسم کے تمام اعضاء پر نافذ کرنا اور سر سے پاؤں تک اس اقرار کے تابع عمل کروانا عین ایمان ہے، جس کو اصطلاحی زبان میں عَمَلٌ بِالْاَرْکَانِ (اَعضاء جسم، ارکان جسم کے ساتھ عملی نمونہ پیش کرنا) کہتے ہیں؛ چناں چہ ایمان سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم (جن کو مومنوں کی صفت سے متصف کیا گیا ہے) نے قبول اور تسلیم کیا جیسا کہ رب ذوالجلال خود اسی قرآن مجید میں فرماتے ہیں:

            ﴿اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہ وَ الْمُوْمِنُوْنَ ﴾ (البقرة:285)

            ”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایمان لائے اس چیز (وحی کتاب، قرآن مجید) پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی اور مومن بھی (اس چیز پر) ایمان لائے۔“

            یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ایمان لائے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی ایمان لائے تو ایمان کی دولت پالینے کے بعد اللہ جل شانہ نے ان کومومنوں کے لقب سے نواز دیا چناں چہ اُنھوں نے اس لقب کی اتنی قدر کی کہ اپنا اُٹھنا بیٹھنا اس قرآن مجید کے مطابق کر لیا اور پوری کائنات کے لیے آئیڈیل بن گئے اور آج اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت مطہرہ کے بعد کسی ہستی سے اسلام و قرآن مجید کی اصل روح و ساخت سامنے آتی ہے تو وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ہستی ہے جس کو شاعر یوں بیان کرتا ہے:

یہ راز کسی کو معلوم نہیں کہ مومن

قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

            یعنی دیکھنے میں تو قاری ہے لیکن اقرارِ زبان اور تصدیقِ قلب کے ساتھ اس نے اپنے آپ کو قرآن مجید کی استوار کر دہ راہوں پر چلایا ہے، جس سے ہر شخص قرآن مجید کی عملی تفسیر کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ لیکن آج کا مسلمان زبان سے اقرار تو کرتا ہے اور بعض بدبخت اقرار بھی جزوی کرتے ہیں یا پھر اِقرار شک کے ساتھ ہوتا ہے کہ قرآن مجید کا فلاں ایشو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ نہیں ہے؛ بل کہ حوادث زمانہ اور مرورزمن کے ساتھ چند اشخاص نے اس میں کمی و زیادتی کی ہے ،لیکن قرآن مجید ایسے زعامیم باطلہ سے مبرا ہے اور انہی کی بابت گواہی دیتا ہے:

            ﴿ وَاِِنَّ الَّذِیْنَ اُوْرِثُوا الْکِتٰبَ مِنْ بَعْدِہِمْ لَفِیْ شَکٍّ مِنْہُ مُرِیبٍ﴾(الشوریٰ:14)

            ”اور بے شک وہ لوگ جو ان کے بعد کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اس کے بارے میں الجھن والے شک میں پڑے ہیں (شکوک و شبہات میں پڑے ہیں) “۔

            اور یہی شک ہی ایسا غلیظ عنصر ہے کہ جو نہ تو ہمارے دلوں میں قرآن مجید کی کوئی عظمت بیٹھنے دیتا ہے اور نہ ہی پھر طبیعت آمادہ ہوتی ہے کہ اس کو پڑھا جائے اور غور و فکر کیا جائے اور اسے زندگی کا لائحہ عمل اور نصب العین بنایا جائے اور رشد و ہدایت کے لیے اسے منبع و مصدر و مشعل راہ بنایا جائے ؛بل کہ یہ عنصر ہماری ذہنی ساخت کو اس طرح کچل چکا ہے اور مسخ کر چکا ہے کہ آج ہم قرآن مجید کو صرف ایک متوارث مذہبی عقیدے (Dogma) کی بنا پر ایک مقدس کتاب تصور کرتے ہیں ،جو صرف نزع کے وقت سورہٴ یس پڑھنے یا پھر ”قرآن خوانی “ جسکی مروجہ شکل غیر شرعی ہونے کے ساتھ ساتھ ”برائے نام خوانی “ بھی ہے کے لیے ایک ریشمی غلاف میں بند کرکے صندوق یا اونچے طاق میں رکھ دیتے ہیں کہ بوقت ضرورت کام آئے گی۔

            ہائے افسوس! مسلمان کے قرآن مجید کے ساتھ اس حقیر تعامل و معاملہ پر جس نے اس کو ایک وقتی ضرورت سمجھا تو قرآن مجید بھی اپنی تمام خوشیوں کو فضیلتوں کو اور بلندیو ں کی پٹاری کو لپیٹ کر ہم سے دور رخصت ہو گیا اور ہم فلسفہ و غلیظ زبانوں کے پجاری بن گئے اور ذلیل و رسوا ہو گئے اور قرآن مجید جو بڑی شان و عظمت سے نازل ہوا اور مومن کانصب العین قرار پایا وہ گمنام ہوگیا۔ بقول شاعر:

جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن پر

دیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے

اور جو بلندیاں قرآن کی بدولت ملتی تھیں ہم نے تجدد اور فلسفہ سے لینی چاہیں تو شاعر بول اُٹھا:

اپنی تو جیب میں دال کا اک دانہ بھی نہ تھا

گھومتے پھرتے رہے مصر کے بازاروں میں

            قرآن یقینا رب العالمین کی طرف سے ایک امانتدار فرشتہ جبریل علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے کر آئے جس کو قرآن نے ﴿نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الاَمِینُ﴾ کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔ چناں چہ آج بھی مستشرقین جو خبیث آرا پھیلا رہے ہیں کہ یہ قرآن مجید اصل نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سابقہ کتب سے اقتباس کیا ہے اور وہ نبی نہیں تھے (نعوذ باللہ) بل کہ اُنہوں نے نبوت و رسالت کا دعویٰ کیا تھا اور بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ وہ مصحف نہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا بل کہ یہ تو وہ مصحف ہے جس کو عثمان رضی اللہ عنہ نے جمع کروایا تھا اور جوچاہا اس سے حذف کر دیا بل کہ تقریباً 500 حروف حذف کر دیے گئے اور بعض نے تو باقاعدہ قرآن مجید میں تشکیک پیدا کرنے کے لیے کتابیں لکھیں ،جن میں سے حسین النوری الطبرسی الرافضی الخبیث ہے اس نے اپنی کتاب کا نام ”فَصْلُ الْخِطَابِ فِی إِثْبَاتِ تَحْرِیْفِ کِتَابِ رَبِّ الْاَرْبَابِ“ رکھا اور آیات کو بدلا اور بعض زَنادِقہ نے تو یہ بھی کہا کہ قرآنی آیت: ﴿وَلَقَدْنَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ (بِسَیْفِ عَلِیٍّ) وَاَنْتُمْ اَذِلَّةٌ﴾ (القرطبی: 1/82) ہے (والعیاذ باللّٰہ)

             الغرض مومن کا ایمان محکم ہونا چاہیے کہ قرآن مجید جہاں اللہ تعالیٰ کا کلام ہے وہاں یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیا اور یہ رہتی دنیا تک رشد وہدایت کا منبع و مصدر و مشعل راہ ہے۔

خلاصہ کلام:

            خلاصہ کلام یہ کہ قرآن مجید پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ زبان و قلب سے اقرار و تصدیق کی جائے کہ یہ ہر اعتبار سے مِنْ وَ عَنْ جیسا کہ نازل ہوا تھا ہمارے پاس موجود ہے اس میں کسی قسم کی کوئی تحریف کوئی تغیر و تبدل اور کمی و زیادتی نہ مدعا میں واقع ہوئی ہے اور نہ ہی اس کے متن میں بل کہ یہ بالکل مصون ومحفوظ ہے اور قیامت تک اسی وصف کے ساتھ رہے گا۔ ان شاء اللہ!

             تو قرآن مجید کے اس پہلے حق کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ زبان سے اقرار کرے اور دل سے تصدیق کرے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلامِ حقیقی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جبریل علیہ السلام کے ذریعے اترا تھا اور جس طرح سات حروف (قراء ت عشرہ) میں اترا تھا، اسی طرح من و عن محفوظ و مصون ہے اور ہم تک پہنچا ہے اس میں کسی قسم کا شک نہیں ۔

            یہی وہ ایمانِ محکم تھا (جس کا تذکرہ ابھی ہوا ہے) جس کااقرار سلف صالحین نے کیا اور پھر زبان سے صرف اقرار نہیں کیا، بل کہ دل میں اس کو جگہ دی اور تصدیق کی اور پھر اس کے مطابق عملِ پیہم کی مہریں ثبت کیں تو چشم فلک نے دیکھا کہ پوری کائنات پر ان کا رعب ودبدبہ جم گیا اور اُنہوں نے پوری کائنات کو Enthral (گرویدہ) کیا اور یہ ساری زندگی کی حلاوتیں اور لذتیں اور ثروت و حکومت اور بادشاہت و خلافت ان کو کیوں نہ ملتی، کیوں کہ اُنہوں نے اسلام کے مل جانے کے بعد اس قرآن مجید پر ایمان اس طرح قائم کیا کہ قلبی تصدیق کو کافی نہ سمجھا؛ بل کہ اس کو پورے کے پورے کو دل میں اور سینے میں اتار لیا تو ان کے باطن جب منور ہوئے تو پھر اسی قرآن مجید کی روشنی کے ذریعے اُنھوں نے پوری کائنات کو منور و روشن کیا۔ بقول شاعر:

کیوں نہ ممتاز ہوتا اسلام دنیا بھر کے دینوں میں

وہاں مذہب کتابوں میں یہاں قرآن سینوں میں

            لیکن آج ہم اس ایمان سے خالی ہیں کوئی کلام اللہ کے حقیقی ہونے کا اقرار کرتا ہے کوئی اس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جادو وطلسم اور سابقہ کتب کا خلاصہ تصور کرتا ہے اور کوئی فرمان باری تعالیٰ ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہ لَحَافِظُوْنَ﴾کے چیلنج کو قبول کرکے کہتا ہے کہ قرآن مجید نازل تو ہوا تھا سات حروف میں، اب ایک باقی رہ گیا ہے؛الغرض جتنے منہ اتنی باتیں یہی وجہ ہے کہ جب ایمان ایسا ہو تو پھر اس کے ثمرات کیسے مل سکتے ہیں؟

دوسرا حق:…قرآن مجید کو پڑھاجائے :

            مسلمان ہونے کے ناطے سے ہم پر جو دوسرا حق عائد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کو پڑھیں اور اسے بار بار اور اس طرح پڑھا جائے کہ جس طرح اس کے پڑھنے کا حق ہے؛ چناں چہ خود باری تعالیٰ حکم فرماتے ہیں:

            ﴿وَ اتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہ وَ لَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِہ مُلْتَحَدًا﴾ (الکہف:27)

            ”تیری جانب (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!) جو تیرے رب کی کتاب (قرآن مجید) وحی کی گئی ہے اسے پڑھتا رہ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں تو اس کے سوا ہر گز ہر گز کوئی پناہ کی جگہ نہ پائے گا۔ “

اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

            ﴿اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ﴾ (العنکبوت:45)

            ”جو کتاب (قرآن مجید) آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھیے اور نماز قائم کریں۔“

            توان دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی تلاوت مسلسل کرنا ضروری ہے اور یہ مومن کی روح کی غذا ہے اور اس کے ایمان کو تروتازہ اور سرسبز و شاداب رکھنے اور مشکلات و موانع کے مقابلے کے لیے سب سے موثر ہتھیار اور اہم ترین ذریعہ ہے۔ قرآن مجید کو ایک بار پڑھ کر کافی سمجھنا، مذکورہ آیات اس کا رد کرتی ہیں کیوں کہ اگر یہ ایک بار ہی پڑھنے کی چیز ہوتی تو کم ازکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اس کے بار بار پڑھنے کی حاجت نہ تھی، لیکن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو بار بار پڑھنے کی تاکید ہوئی ہے؛ حتیٰ کہ ابتدائی ایام میں تو انتہائی تاکیدی حکم تھا کہ رات کا اکثر حصہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو کر قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے ہوئے بسر کرو اور خصوصاً جب مشکلات و مصائب کا زور ہوتا تھا اور صبر و استقامت کی خصوصی ضرورت ہوتی تھی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاوت ِقرآن مجید کا حکم دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت فرماتے اور تما م مصائب دور ہو جاتے۔ تر و تازگی اور خوشیاں لہلہانے لگتیں اور مصائب کا قلع قمع ہو جاتا، چناں چہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور شادابیوں سے اور فرحتوں سے ہمکنار ہوتے، چناں چہ اللہ تعالیٰ ان قدردانوں کی کیفیت کو یوں بیان فرماتے ہیں:

            ﴿اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہ حَقَّ تِلَاوَتِہ اُولٰٓئِکَ یُوْمِنُوْنَ بِہ﴾ (البقرة: 121)

            ”وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب (قرآن مجید) عطا کی ہے وہ اس کی تلاوت اس طرح کرتے ہیں کہ جس طرح کرنے کا حق ہے یہی لوگ ا س کے ساتھ (قرآن مجید کے ساتھ) ایمان رکھتے ہیں۔ “

            مذکورہ تینوں آیات میں لفظ ِتلاوت استعمال کیا گیا ہے، جس کے معنی پیچھے چلنے اور پڑھنے کے آتے ہیں جو کہ تَلَا یَتْلُوْ تِلَاوَةً وَتلوّا سے اور تَالَاہ بھی اسی سے ہے جس کا معنی تابعداری کرنا اور موافقت کرنا ہے، چناں چہ احترام و تعظیم کے ساتھ قرآن مجید کو ایک مقدس آسمانی کتاب سمجھتے ہوئے انابت ، خشوع و خضوع کے ساتھ حصول برکت و نصیحت کی غرض سے اپنے آپ کو اس کے حوالے کرکے پڑھنے کو تلاوت کہتے ہیں اور یہی چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ آیتوں میں مقصود تھی، جس کو اُنہوں نے پورا فرمایا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی پورا کیا جس کو اللہ تعالیٰ نے ﴿حَقَّ تِلَاوَتِہ﴾”جس طرح حق ہے “…سے تعبیر کیا اگرچہ قرآن مجید کو پڑھنے کے لیے قراء ت کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے اور وہ لفظ عمومی ہے ہر چیز کے پڑھنے پر اس کا اطلاق کیا جاتا ہے۔

            خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن مجید کا مسلمان ہونے کے ناطے سے ہر ایک پر حق یہ ہے کہ اس کی تلاوت اس طرح کرے، جس طرح کرنے کا حق ہے تو اس حق کے حصول کو مندرجہ ذیل آداب کو ملحوظ رکھنے سے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

1:قرآن مجید کو ترتیل سے پڑھا جائے:

            قرآن مجید کی تلاوت کا حق ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو ترتیل کے ساتھ پڑھا جائے اور ترتیل باب تفعیل سے مصدر ہے، چناں چہ رَتَّلَ فُلَانٌ کَلَامَہ کا مطلب لغت عرب میں یہ لیاجاتا ہے کہ فلاں نے کلام کو ٹھہر ٹھہر کر اچھی طرح سمجھ کر بغیر تیزی کے کیا اور ترتیب کے ساتھ کیا اور خوش اسلوبی سے کیا۔ اسی لیے خوبصورت ہموار دانتوں کو عربی میں ثغر رتل کہتے ہیں۔ الغرض ترتیل کا لغوی معنی یہ نکلا کہ قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر خوش اسلوبی و خوش الحانی و حسن ادائیگی و ترتیب کے ساتھ پڑھنا۔

            چناں چہ اسی ترتیل کی تفسیر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے یوں کی:

            ((اَلتَّرْتِیْلُ ہُوَ تَجْوِیْدُ الْحُرُوْفِ وَمَعْرِفَةُ الْوُقُوْفِ۔))

            (النشر:1/209 وشرح طیبة النشر:35 والطائف الإشارات:1/220 وشرح الجزریة لابن یالوشة ص: 19۔20 ونہایة قول المقید،ص: 7 ومنار الہدیٰ فی الوقف والإبتداء،ص: 5 وشرح الجزریة لملا علی، ص: 20 وعمدة البیان:21۔)

            ” ترتیل کا معنی ہے حروف کی تجوید (حروف کو شناخت کے ساتھ ان کے مخارج و صفات کے ساتھ ادا کرنا) اور وقوف کی معرفت حاصل کرنا۔“

            اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی (جو کہ خود ترتیل کے ساتھ پڑھا کرتے تھے) لوگوں کو یہی حکم دیا:

((جَوِّدُوْا الْقُرْآنَ زَیِّنُوْہ بِاَحْسَنِ الْاَصْوَاتِ۔)) (النشر:1/210 والجیز للقرطبی:88)

            ”قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھو اور اس کو اچھی آوازوں کے ساتھ مزین کرو۔ “

گویا کہ یہ ان کا قول” ترتیل“ کی تفسیر ہی ہے اور پھر فعلاً اس کو اپنے شاگردوں کو بھی پڑھایا جیسا کہ موسیٰ بن یزید الکندی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔

            ”اُمت اسلامیہ کا تجوید کے وجوب پر اجماع ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک اور کسی نے بھی اس میں اختلاف نہیں کیا اور یہ تمام دلائل سے قوی حجت ہے۔ “یعنی تجوید(جوکہ ترتیل ہے) کے وجوب پر۔

            اے میرے مسلمان بھائی! یہ تھی قرآن مجید کے دوسرے حق کی پہلی شرط کہ ہم قرآن کو اس طرح پڑھیں جس طرح پڑھنے کا حق ہے اور حق اس وقت تک ادا نہیں ہو سکتا جب تک ترتیل و حروف کی شناخت و پہچان اور ان کی ادائیگی کی صلاحیت حاصل نہ کی جائے، جس کے بارے میں ہم براہین پیش کیے ہیں۔

2: قرآن مجید کو خوش الحانی سے پڑھا جائے:

            کسی بھی زبان کا مقام عروج (Climex) بولنے سے جلوہ فگن ہوتا ہے اور حسن سماعت کا ذوق تقریباً ہر انسان میں ودیعت کیا گیا ہے اور اچھی آواز ہر شخص کو بھاتی ہے، اس لیے قرآن مجید کو خوش الحانی سے پڑھنا ضروری ہے اور چوں کہ اسلام ایک دین فطرت ہے اور وہ مخلوق ربانی کے فطری جذبوں کو یکسر ختم نہیں کرتا ؛بل کہ ان تمام دواعی کو صحیح راستوں پر ڈال دیتا ہے؛ چناں چہ حسن نظر اور حسن سماعت انسان کے قدرتی داعیات میں سے ہے؛ اسی لیے قرآن مجید کو خوش اسلوبی اور خوش آوازی میں پڑھنے کا باقاعدہ حکم دیا گیا؛ چناں چہ برا بن عازب اور ابن عباس و ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            ((زَیِّنُوْا الْقُرْآنَ بِاَصْوَاتِکُمْ۔)) (صحیح الجامع: 3580 وابن ماجہ: 1342 والنسائی: 1014 )

            ”قرآن مجید کو اپنی آوازوں کے ساتھ زینت دو۔ “

            اور پھر اس کی توجیہ بھی بیان کی کہ اچھی آواز سے کیوں پڑھنا ہے؛ چناں چہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            ((حُسْنُ الصَّوْتِ زِیْنَةُ الْقُرْآنِ۔)) ( صحیح الجامع: 3144 والصحیحة: 1815۔)

            ”اچھی آواز قرآن مجید کی زینت ہے۔ “

            اور براء بن عاذب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            ((زَیِّنُوا الْقُرْآنَ بِاَصْوَاتِکُمْ فَإِنَّ الصَّوْتَ الْحُسْنَ یَزِیْدُ الْقُرْآنَ حُسْنًا۔))

(صحیح الجامع: 3581 و الصحیحة: 771۔ )

            ”قرآن مجید کو اپنی آوازوں کے ساتھ زینت دو کیوں کہ اچھی آواز قرآن کریم کے حسن کو اور زیادہ کر دیتی ہے۔ “

3: قرآن مجید کو یاد کیا جائے اور روزانہ کامعمول بنایا جائے:

            قرآن مجید کے حفظ کا سلسلہ نہایت ہی مبارک اور حفاظت ِقرآن کی ربانی تدابیر میں سے ایک تدبیر ہے جس کی طرف توجہ و انہماک کی اشد ضرورت ہے ایک وقت تھا کہ ایک ایک گھر میں کئی کئی حافظ تھے اور وہ گھرانا منحوس سمجھا جاتا تھا، جس میں کوئی ایک شخص بھی حافظ قرآن نہ ہو۔ آج بھی اگرچہ قرآن مجید کے لاکھوں حافظ ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ حفظ ایک رواج بن گیا ہے۔ قرآن مجید تو اس لیے حفظ کرنا تھا کہ اس سے زیادہ سے زیادہ ہدایت لے سکیں اور رات کی تاریکیوں میں اس سے محظوظ ہو سکیں، لیکن نتیجہ پھر اس رواج کا یہ نکلتا ہے کہ جو دکھاوے و ریاکاری کے لیے یاد کیا ہوتا ہے یاد کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے، پھر وہ اس کے لیے مصیبت بن جاتا ہے اور دین کیا سمجھنا و ہ داڑھی کو بھی کٹوا دیتا ہے، لیکن ہے حافظ۔ دُنیا کا اِمام کیا اس نے بننا ہے وہ باجماعت کا مقتدی بھی نہیں رہ جاتا؛ بل کہ نمازیں بھی چھوڑ دیتا ہے؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن مجید یاد کیا جاتا اور جس نے حفظ کیا ہوتا اس کو مقدم کیا جاتا تھا ؛چناں چہ جب مہاجرین ہجرت کرکے مدینہ گئے اور قبا کی جگہ ٹھہرے ان لوگوں کو سالم مولیٰ ابی حذیفہ جو کہ ابوحذیفہ کے غلام تھے نمازپڑھاتے ،جس کی وجہ یہ تھی کہ ((کَانَ اَکْثَرُہُمْ قُرْآنًا)) (البخاری: 692۔ )”اس نے قرآن مجید باقی ساتھیوں سے زیادہ یاد کیا ہوا تھا…“۔

            اے میرے مسلمان بھائی! سوچو تم کون سی حدیث پر عمل کر تے ہو اگر چالیس کا عدد بھی تجاوز کر چکے ہو تو فورًا قرآن کی طرف لوٹ آؤ اور جوانمردی کے ساتھ فانی دنیا اور اس کے مال و متاع وکاروبار کو چھوڑ کر شاعر کا قول سنو!

یَامَنْ بِدُنْیَاہ اشْتَغَلْ وَغَرُّہ طُوْلُ الْاَمَلْ

اَلْمَوْتُ یَاْتِیْ بَغْتَةً وَالْقَبْرُ صَنْدُوْقُ الْعَمَلْ

            ”اے وہ شخص جو دنیا میں مشغول ہے اور لمبی اُمیدوں نے اس کو دھوکے میں ڈالا ہوا ہے یاد رکھ موت اچانک آتی ہے اور قبر اعمال کا صندوق ہے۔ “

            قرآن مجید کی تلاوت کی مٹھاس اتنی ہے کہ جتنا بھی پڑھو انسان سیر نہیں ہوتا؛ بل کہ اور زیادہ لذت محسوس ہوتی ہے؛ جیسا کہ امام شاطبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

            ”وَخَیْرُ جَلِیْسٍ لَا یَمُلُّ حَدِیْثُہ وَتَرْ َدادُہ یَزْدَادُ فِیْہِ تَجَمُّلَا “

            ”قرآن مجید بہترین ساتھی ہے، جس کی تلاوت میں کبھی بھی اکتاہٹ نہیں ہوتی اور اس کا بار بار پڑھنا اس کے جمال میں اضافے کا سبب بنتاہے۔“

            لیکن جب تلک دل پسندی سے پڑھتے رہو تو ٹھیک ہے، جب اختلاف کی نو بت آئے تو اُٹھ جانا چاہیے ؛جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

            ((اِقْرَوُا الْقُرْآنَ مَا ائْتَلَفَتْ عَلَیْہِ قُلُوْبُکُمْ فَإِذَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ فَقُوْمُوْا۔))

            ”قرآن مجید کی تلاوت اس وقت تک کرو جب تلک دل اس پر مائل رہیں اور جب تم اس میں اختلاف کرو تو پھر اُٹھ جایا کرو۔ “

            کیوں کہ قرآن مجید میں جھگڑا کرنے سے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا:

            ((نَہٰی عَنِ الْجِدَالِ فِی الْقُرْآنِ۔))

            ”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید میں جدال سے منع فرمایا تھا۔ “

            کیوں کہ جھگڑا پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب قرآنی معاملات میں تجاہل برتا جائے۔ ایک شخص اُونچی پڑھتا ہے دوسرا آہستہ پڑھتا ہے تو ایک قراء ت سبعہ و عشرہ (سبعة احرف) میں پڑھتا ہے دوسرا جہالت کی بنیاد پر اختلاف و انکار کرتاہے۔

قرآن مجید کی تلاوت سے کسی کو بیزار نہ کریں اور نہ ہی رکوع وسجدہ میں پڑھیں:

            قرآن مجید ایک عظیم نعمت ہے اس لیے اس کی قدر کرنا اور کروانا ضروری ہے یہ نہیں کہ جن کے دل بند ہوں اور بیزاری کا اظہا رکریں تو ان کے پاس قرآن پڑھا جائے۔ نہیں ان کو پہلے اس پر قائل کیا جائے ان کو اس کی عظمت بیان کی جائے یہ نہ ہو کہ وہ اپنی جہالت کی بنا پر اس کا انکار کرے یا بے حرمتی کرے؛ جیسا کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:

            ((حَدِّثُوْا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْنَ اَتُحِبُّوْنَ اَنْ یُکَذِّبَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ۔)) (البخاری باب رقم:49۔)

            ”لوگوں کو وہی کچھ بیان کرو جو وہ جانتے پہچانتے ہیں کیا تم چاہتے ہو (ایسی چیز بیان کرکے جو وہ نہیں جانتے) کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا جائے۔“

            الغرض!قرآن مجید کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کو ترتیل کے ساتھ پڑھا جائے اور خوش الحانی سے پڑھا جائے اور یاد کرے اور بار بار دل لگی سے پڑھا جائے اس میں اختلاف نہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ان ساری چیزوں کی ہمیں توفیق عطاء فرمائے۔ آمین !

تیسرا حق:…قرآن مجید کو سمجھا جائے:

            قرآن مجید کا ہر مسلمان پر تیسرا حق یہ ہے کہ جس صدق نیت سے اس پر ایمان لایا تھا اور اس کو ترتیل کے ساتھ پڑھا تھا اسی جوش و جذبہ کے ساتھ اس کو سمجھے، لیکن یہ سمجھ بھی اسی طرح صد ق نیت سے ہو، جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و افعال و تقریرات کی روشنی میں سمجھا ،تب ہی یہ قرآن مجید کی سمجھ کامرانی و رضائے باری تعالیٰ کا موجب بن سکتی ہے؛ لیکن اگر فہم میں بھی عقل و دانش کے گھوڑے دوڑائے اور تاویلات سے کام لیا تو یہ فہم بھی اس کو عذاب جہنم سے نہیں بچا سکے گی۔ اور اکثر فرقے اسی لیے گمراہ ہوئے کہ اُنہوں نے علم و فہم لیا تو کسی خاص غرض کے لیے؛ جیسا کہ ابن الجوزی نے کہا تھا:

إِنِّیْ رَاَیْتُ النَّاسَ فِیْ دَھْرِنَا

لَا یَطْلُبُوْنَ الْعِلْمَ لِلْعِلْمِ

إِلَّا مَبَاہَاةً لِاَخْوَالِہِمْ

وَحُجَّةٌ لِلْخَصْمِ وَالظُّلْمِ

            ”میں نے اپنے زمانے کے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ علم (تعلیمات و عرفان و معرفت کے لیے نہیں) علم کے لیے نہیں طلب کرتے بل کہ اپنے (اخوال) رشتہ داروں کے فخر اور مخالفت کے لیے حجت و ظلم کے لیے طلب کرتے (سیکھتے) ہیں۔“

            حالاں کہ قرآن فہمی ایک ایسا عظیم اور انمول علم ہے کہ اس کے حاصل ہوجانے کے بعد انسان جہالتوں اور خرافات کی اتھاہ گہرائیوں سے نکل کر ایک روشن اور مشاہداتی زندگی میں آجاتا ہے اور پھر اس کا عقیدہ ٹھوس بنیادوں پر قائم ہو جاتا ہے، جس میں تزلزل نہیں آسکتا ہے۔

            تو اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کے نزول کا مقصد اعظم ایمان لانے کے بعد اس کو پڑھ کر سمجھنا ہے تاکہ عمل کے مدارج اور جملہ وادیاں طے کی جاسکیں ،لیکن اگر سمجھے گا ہی نہیں تو پھر عمل کیسے کرے گا؟ اسی لیے جو لوگ قرآن مجید میں اختلاف کرتے تھے ان کوڈانٹتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

            ﴿اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا﴾

(النساء: 82)

            ”کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے؟ اور اگر یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ نہ ہوتا تو اس میں وہ بڑااختلاف پاتے۔ “

            لیکن اختلاف کا نہ ہونا اس کی دلیل ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے اور کسی چیز کے اختلاف کا ادراک بغیر تدبر کے ممکن نہیں۔ اس لیے حقانیت کو پانے کے لیے تدبر کو جزوِلاینفک کی حیثیت دے کر عقل و خرد پر لگے تالے توڑنے کا حکم دیا گیاہے؛ چناں چہ ارشاد ربانی ہے:

            ﴿اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا﴾ (محمد:24)

            ”کیا یہ قرآن پر تدبر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر قفل (تالے) لگے ہوئے ہیں۔“

            صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول تھا کہ وہ دس آیتیں پڑھتے تو جب تک اس کے معانی نہ سمجھ لیتے آگے نہ بڑھتے؛ جیسا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

            ((کَانَ الرَّجُلُ مِنَّا إِذَا تَعَلَّمَ عَشْرَ آیَاتٍ لَمْ یُجَاوِزْہُنَّ حَتّٰی یَعْرِفَ مَعَانِیَہُنَّ وَالْعَمَلَ بِہِنَّ۔)) (تفسیر الطبری:1/80 بتحقیق احمد شاکر، وتحفة الاخیار: 5180،5179 والحاکم:1/557۔)

            ”ہم سے جو آدمی دس آیتیں سیکھتا تو جب تک اس کے معانی نہ جان لینا اور اس پر عمل نہ کرلیتا آگے نہ بڑھتا۔ (یعنی ان کو اچھی طرح سمجھتا اور عمل کرتا پھر اس کے بعد دوسری آیات سیکھتا)“

چوتھا حق:… قرآن مجید پر عمل کیا جائے :

            قرآن مجید کا اس پر ایمان لانے، اسے ترتیل سے پڑھنے اور اس میں تفکر و تدبر وتفقہ کرنے کے بعد ہر مسلمان پر یہ حق ہے کہ اس پر (یعنی اس کی تعلیمات پر) عمل پیرا ہو۔ کیوں کہ اس کا ماننا اور اس کی تلاوت کرنا اور اس کا فہم رکھنا حقیقت میں اس پر عمل کرنے کے لوازمات و مبادیات و اساسیات کا درجہ رکھتے ہیں۔ اصل مقصود مطلوب تو عمل ہوتا ہے مثال کے طور پر کسی فیکٹری کا مدیر یا مالک جب اپنے ورکرز (کام کرنے والوں) کے لیے کوئی لائحہ عمل اور شیڈول تیار کرتا ہے پھر اس کو ہر ہر فرد تک پہنچاتا ہے تو ہر ورکر کر پڑھنا اور اس کا فقط سمجھ لینا کافی نہیں ہوتا؛ بل کہ جب تلک اس میدان میں عملی کارکردگی ورکر نہیں دکھائے گا اس وقت تک اس لائحہ عمل کی حقیقت و روح سامنے نہیں آئے گی؛ اسی طرح قرآن مجید اللہ مالک الملک کی طرف سے ہماری زندگی کا خاکہ اور ڈھانچہ ہے اور اس کے تمام خدوخال کو بیان کرنے والا ہے اور اس کے ساتھ اس کے لیے نصب العین اور (Answerbook) جوابی کاپی ہے، اگر پڑھنے والا اس کے عمل کا منکر و انکاری ہے اور فرائض سر انجام نہیں دیتا تو وہ فائدہ کیا دین اسلام اور اس پر ایمان میں بھی جھوٹا ہے اور اس کا ایمان ہی معتبر نہیں تو فوائد کا حصول تو ایمان پر مبنی ہے اور ایمان کہتے ہیں ہی قول و عمل کو ہیں اور بعض قول و عمل اور نیت سے ایمان کی تعریف کرتے ہیں اور بعض قول وعمل و اتباع سنت سے تعبیر کرتے ہیں ؛کیوں کہ ایمان کی تعریف صرف یہ کرنا کہ انسان ایمان قولی لے آئے عقیدہ تسلیم کرلے، نعرے لگائے تو وہ مومن ہے، تو یہ ہی تو مرجیہ کا عقیدہ ہے جو عمل کو ضروری نہیں سمجھتے اس لیے اگر ایمان صرف قول کا نام ہے تو پھر تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا نے بھی کہا تھا:

وَلَقَدْ عَلِمْتُ بِاَنَّ دِیْنَ مُحَمَّدِ مِنْ خَیْرِ اَدْیَانِ الْبَرِیَّةِ دِیْنًا

لَوْلَا الْمُلَامَةُ اَوْ حِذْرًا مسبة لَوَ جَدتَّنِیْ سُمْحًا بِذَاکَ مُبِیْنًا

            ”اور تحقیق دین محمد تمام ادیان سے اچھا دین ہے اگر مجھے ملامت اور گالی کا ڈرنہ ہوتا تو میں واضح طور پر آپ کو اس کو قبول کرتا ہوا نظر آتا۔ “ (الإیمان: 137، 138۔)

            تو معلوم یہ ہوا کہ قرآن مجید کے ایمان ، تلاوت وتفقہ کا جوفکر ہے جب تک اس کو عمل کالبادہ نہیں پہنچایا جائے گا اس وقت تک تو اس شخص کا ایمان متحقق ہی نہیں ہوتا اس لیے قرآن مجید نے اس کے لیے ایک خاص اصطلاح ”حکم“ کے لفظ کے ساتھ استعمال کی ہے چناں چہ قرآن مجید میں ایک واضح فیصلہ ہے:

            ﴿ وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ﴾ (المائدة:44)

            ”جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے (قرآن مجید) اس کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو ایسے لوگ کافر ہیں۔“

            کوئی بھی خیال یا نظریہ جب انسانی فکر میں رچ بس جائے یعنی اس کی رائے اور رائے کے مطابق اس کے دل و دماغ کا فیصلہ (جن دونوں کے ملنے سے ایک حکم سامنے آتا ہے) حکم بن جائے تو اس کا عمل خود بخود اس کے تابع ہو جاتا ہے۔ مثلاً انسان ایک رائے قائم کرتا ہے کہ میں نے فلاں کے گھر شادی کرنی ہے اس رائے کو پھر دماغ میں جگہ دے کر کھنگا لتا ہے، جب دل و دماغ ا س رائے پر متفق ہو جائیں تووہ شخص مطلوبہ رشتہ لینے کے لیے بھاگتا دوڑتا ہے؛ اسی طرح قرآن مجید پر عمل ہو ہی اس وقت سکتا ہے، جب انسان کا فکر قرآن مجید کے تابع ہو جائے اور قرآن مجید کے بیان کردہ علوم و حقائق انسان کے دل و دماغ دونوں میں جاگزیں ہو جائیں؛ یہی وجہ تھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید پڑھتے تو اس پر عمل کا حتی المقدور اہتمام کرتے اور جب تک ان آیات کے تمام علم و عمل کو اپنے اندر جذب نہ کرلیتے (اور ان کا فکر قرآن کے تابع نہ ہو جاتا) اس وقت تک آگے قدم نہ بڑھاتے۔ گویا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں حفظ قرآن اور اس کی ترتیل و فہم کا مفہوم ومدعا یہ تھا کہ قرآن مجید ان کی پوری شخصیت میں رچ بس جائے اور اس کا نور ہدایت اور عنصر عملی ان کے رگ و پے حتیٰ کہ جسم کے ریشے ریشے اور گوشے گوشے میں سرایت کر جائے اور نتیجتاً اس قرآن مجید کے الفاظ ان کے حافظے میں اور اس کی ادا ان کی زبان اور فہم و فراست و تعلیمات ان کے اخلاق و عادات و سیرت و کردار میں محفوظ ہو جائیں اور قرآن مجید پر مکمل صحیح معنوں میں ایمان لانے کی تکمیلی اور اتمامی کیفیت سامنے آجائے اور یہی مفہوم اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا ؛جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سوال ہوا تو اُنہوں نے جواب دیا تھا:

            ((کَانَ خُلُقُہ الْقُرْآنَ۔)) (تحفة الاخیار:5197، وصحیح الجامع: 4811 و صحیح ابی داود:1213۔) ”آپ کی سیرت مطہرہ ومقدسہ تعلیمات ِ قرآنی کا مکمل عملی نمونہ تھی۔ “

            گویا کہ آپ مجسم قرآن تھے کیوں کہ اُنہوں نے حکم الٰہی کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا اور دامے، درمے، سخنے اس کو اپنا نصب العین بنایا اور قرآن مجید (حکمًا عربیاً) کے وصف کے ساتھ اترا اسی کے مطابق صحابہ رضی اللہ عنہم کو تعلیم دی۔ الغرض قرآن مجید کے ایمان و استفادے کی یہی صحیح صورت ہے کہ اس کا جتنا حصہ، جتنا علم و فہم کسی کے پاس آیا ہے، وہ ساتھ ساتھ اپنے اعمال و افعال وعادات و اطوار وسیرت و کردار کا جزو بناتا چلا جائے اور اس طرح قرآن مجید مسلسل اس کے خلق میں سرایت کرتا چلا جائے وگرنہ اگر وہ قرآن مجید کی حلال کردہ چیزوں کو حلال اور حرام کردہ چیزوں کو حرام نہیں سمجھتا اور اس کے اور امر کے مطابق بجا آوری نہیں کرتا اور نواہی سے نہیں بچتا تو اس کا ایمان قرآن مجید سے کوسوں دور ہے۔

پانچواں حق:…قرآن مجید کو آگے پہنچایا جائے :

            قرآن مجید کا پانچواں حق یہ ہے کہ اس پر ایمان لانے اور ترتیل سے پڑھنے اور اس کو سمجھنے اور عمل کرنے کے بعد دوسروں تک پہنچایا جائے جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایمان لانے اور نبی سے پڑھنے اورسمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر اور فردی طور پر اس کو آگے پہنچایا تھا کیوں کہ اللہ جل شانہ کا حکم مبارک ہے:

            ﴿یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہ﴾

(المائدة:67)

            ”اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے نازل کیاگیاہے اسے پہنچا دیجیے اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی رسالت ادا نہیں کی۔ “

            چناں چہ اس آیت مبارک میں پہنچانے کے لیے جو قرآنی اصطلاح استعمال ہوئی ہے وہ تبلیغ ہے اور قرآن مجید کے نزول کا مقصد بھی یہ تھا کہ یہ چار دانگ عالم میں پھیل جائے جس مقصد کی تعبیر قرآن مجید کچھ یوں کرتا ہے:           ﴿ھٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنْذَرُوْا بِہ ﴾ (إبراہیم: 52)

            ”یہ قرآن مجید تمام لوگوں کے لیے اطلاع نامہ ہے کہ اس کے ذریعے وہ ڈرائے جائیں۔“