ضروریاتِ دین پر ایمان۔وہ تمام چیزیں، جو نبیٴ کریم ا سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہیں، انہیں ضروریات دین کہا جاتا ہے۔
مومن کے لیے ان تمام ضروریات دین پر ایمان لانا ضروری ہے :
ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کے انکار سے آدمی دائرہ ٴاسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ ضروریاتِ دین بہت ساری ہیں، مثلاً: اللہ کی توحید اور اس کی صفات پر ایمان لانا، فرشتوں، آسمانی کتابوں، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسولوں، قیامت، تقدیر، موت کے بعد زندہ اٹھائے جانے پر ایمان لانا، نماز، روزہ، زکوٰة، حج، جہاد وغیرہ ارکان اسلام کی فرضیت کا قائل ہونا، سود، زنا، جھوٹ اور فرائض ِاسلام کی عدم ِادائیگی کی حرمت کا قائل ہونا وغیرہ۔
ضروریاتِ دین بعض تفصیل کے ساتھ بتلائی گئی ہیں اور بعض اجمالاً۔جو ضروریاتِ دین تفصیلاً بتلائی گئی ہیں ان پر تفصیلاً ایمان لانا ضروری ہے، مثلاً نماز پر اس کے متعلق بتلائی گئی ہیئت وکیفیت سمیت ایمان لانا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص نماز کی فرضیت کا تو قائل ہے، لیکن اس تفصیل کے ساتھ قائل نہیں، جو بتلائی گئی ہے تو وہ مومن نہیں۔ اور جو ضروریات اجمالاً بتلائی گئی ہیں، مثلاً: فرشتوں پر ایمان لانا، سابقہ آسمانی کتابوں پر ایمان لانا وغیرہ تو ان پر اجمالاً ایمان لانا کافی ہے۔ (شرح المقاصد،ج:۳،ص:۴۲۰)
اسلام کی تعریف
اسلام کے معنیٰ لغةً سپرد کرنے کے ہیں، جبکہ اصطلاح میں اپنے آپ کو شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کرنے کا نام اسلام ہے۔
ایمان کے مقابلہ میں جب اسلام کا لفظ استعمال ہو تو اس سے مراد ظاہری اعمال (مثلاً زبان سے شہادتین کا اقرار، نماز، روزہ، زکاة، حج اور دیگر مالی و بدنی عبادات) ہوتے ہیں یعنی رسول اللہ ا جتنی تعلیمات لے کر آئے ہیں، ان تعلیمات پر عمل کرنا اور ان کے اظہار کرنے کو اسلام کہا جاتا ہے۔
پھر لفظ اسلام اس دین پر بولا جانے لگا ہے، جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں۔
(معجم متن اللغة (3/ 201)
الإسلام: إظہار الانقیاد والخضوع لما جاء بہ النبی محمد بن عبد اللہ القرشی الہامشی ﷺ والالتزام بہ، ثم صار اسمًا لدینہ الذی جاء بہ ودعا إلیہ، فإن وافقہ اعتقاد فی الجنان وعمل بالارکان فہو الإیمان.
ایمان و اسلام میں فرق ہے؟
ایمان واسلام میں کوئی فرق نہیں، لیکن اس کے باوجود ایمان سے عموماً تصدیق قلبی واحوال باطنی مراد ہوتے ہیں اور اسلام سے اکثر وبیشتر ظاہری اطاعت اور فرما نبرداری مراد لی جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: ﴿”قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَا﴾۔ (الحجرات:۱۴)
ترجمہ:”اور کہتے ہیں گنوار کہ ہم ایمان لائے، تو کہہ کہ تم ایمان نہیں لائے، لیکن تم کہو کہ ہم مسلمان ہوئے“۔
مذکورہ بالا آیت کریمہ سے یہی حقیقت سامنے آتی ہے، جو اوپر بیان ہوئی۔ حاصل اس تفصیل کا یہ ہے کہ جو مسلمان ہے وہ مومن بھی ہے اورجو مؤمن ہے وہ مسلمان بھی ہے۔ ان دونوں میں کوئی مغایرت واختلاف نہیں۔ علامہ کشمیری لکھتے ہیں کہ: تصدیق ِقلبی جب پھوٹ کر جوارح پر نمودار ہوجائے، تو اس کا نام اسلام ہے اور اسلام جب دل میں اتر جائے تو ایمان کے نام سے موسوم ہوجاتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ایک ہی حقیقت ہے، لیکن اختلافِ مواطن سے اس کے نام مختلف ہوگئے اور اگر ایمان صرف قلب ہی میں ہو اور اسلام محض اعضاء پر نمایاں ہو تو یہ مغایر حقیقتیں ہیں، اب ان میں اتحاد نہ ہوگا۔
(فیض الباری، ج:۱،ص:۶۹)
ایمان کا تعلق ان چیزوں سے ہے جن کی تصدیق کی جاتی ہے، یعنی اعتقادات سے۔ اسلام کا تعلق ان چیزوں سے ہے جنہیں عملی طور پر بجالایا جاتا ہے، یعنی اعمالِ ظاہرہ: نماز، روزہ، وغیرہ سے؛ لیکن قرآن وحدیث میں ان کا آپس میں ایک دوسرے پر اطلاق بھی کیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعاً دونوں کا مصداق تقریباً ایک ہی ہے یا دونوں ایک دوسرے کو لازم وملزوم ہیں کہ ایک کے بغیر دوسرا نامکمل یا غیر معتبر ہے:
”قال أہل السنة والجماعة الإیمان لاینفصل عن الإسلام والإسلام من الإیمان۔ من کان مؤمناً کان مسلماً ومن کان مسلماً کان مؤمناً، وإن کان الإیمان غیر الإسلام لغةً کالبطن لایتصور بدون الظہروالظہر بدون البطن وإن کانا غیرین فإن الإیمان ہو التصدیق والإسلام ہو الانقیاد، فمن کان مصدقاً تعالیٰ ولرسولہ کان مسلماً ومن کان منقاداً لہ ولرسولہ کان مؤمناً۔ وعند المعتزلة والروافض ینفصل أحدہما عن الآخر“۔
(اصول الدین للبزدوی، ص:۵۴)
ترجمہ:”اہل سنت والجماعت کہتے ہیں کہ ایمان اسلام سے الگ نہیں ہے، اور اسلام ایمان میں سے ہے، جو مؤمن ہوگا وہ مسلمان بھی ہوگا اور جو مسلمان ہوگا وہ مومن بھی ہوگا، اگرچہ لغةً ایمان اسلام کا غیر ہے، جیسے پیٹ پیٹھ کے بغیر متصور نہیں ہے اور پیٹھ پیٹ کے بغیر متصور نہیں ہے، اگرچہ وہ دونوں ایک دوسرے کے غیر ہیں۔ پس ایمان تصدیق کا نام ہے اور اسلام اتباع کا نام ہے، جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ا کی تصدیق کرنے والا ہے وہ مسلم ہے اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا تابع دار ہے وہ مومن ہے۔ اور معتزلہ اور روافض کے نزدیک یہ دونوں الگ الگ ہیں“۔
آج کے مسلمانوں کے لیے عقائد کا تفصیلی علم ضروری ہے :
پچھلے وقتوں کے سیدھے سادھے ایمان والے جو بہت تھوڑی معلومات مگر بہت راسخ ایمان رکھتے تھے آج کی دنیا میں نہیں جی سکتے؛ جہاں ہر لمحہ ان پر بے اعتقادی اور کفر کے دلائل کی چاند ماری ہوتی رہتی ہو۔ آج سیلابِ زمانہ کے سامنے اپنے عقائد پر جمے رہنے کے لیے اعتقادات کا نظری علم لازم ہو گیا ہے۔ہم میں سے بیشتر کا عقائد اور فقہ کا علم ادھر ادھر کی چند سنی سنائی غیر مستند باتوں سے زیادہ نہیں ہوتا، اکثر گھرانوں میں بچوں کو نہ تو عقائد کا علم دیا جاتا ہے، نہ فقہ سکھائی جاتی ہے، صرف ایک جذباتی فضا کا اہتمام ہوتا ہے۔ علماء یا صالحین کی صحبت میں بھجوانے کا ذکرہی کیا!! نتیجہ یہ کہ جب اسی قلیل سرمایہٴ علم کو لے کروہ دنیائے جدید میں نکلتے ہیں تو مخالفت درپیش ہونے پر صرف ہیجان اپنے اندر پاتے ہیں،اس سے گھٹن پیدا ہوتی ہے یا تلخی، جو اکثر تشکیک میں ڈھل جاتی ہے، اگر ان کو ضرورت بھر علم ِنظری حاصل ہو تو یہ ساری چاند ماری ان کے لیے بے اثر ہو جائے، جدید فکر میں تمام شور و غوغا کے باوجود اتنا بھی دم نہیں کہ قدیم علمِ کلام کا ایک بھی وار سَہ سکے، جن لوگوں کو ان دونوں کے موازنہ کا موقع ملا ہے وہ جانتے ہیں کہ قدیم علمِ کلام و فلسفہ میں جدید فکر کی اصلاح کے لیے کتنی ٹھوس بنیادیں موجود ہیں۔آج سے دو سو برس پیشتر ایک آدمی اچھا مسلمان ہو سکتا تھا اور رہ سکتا تھا ،خواہ اس نے کبھی امام غزالی اور ابن عربی کا نام بھی نہ سنا ہوتا، اس وقت نرا ایمان کافی تھا؛ کیوں کہ اس کی حفاظت ہوتی رہتی تھی۔
آج کا مسلمان اگر ان عقائد کے بارے میں تفصیلی اور نظری علم نہیں رکھتا، جن پر اس کا ایمان ہے تو اس کے ایمان کی سلامتی ہر دم خطرے میں ہے۔ ہاں کسی شخص کو فطرتاً سادگی کا ایک ناقابلِ تسخیر حصار میسر ہو تو اور بات ہے۔
بدترین ماحول :
بات صرف مخالفانہ دلائل کی دھمکیوں اور ان کے جواب تک ہی محدود نہیں ہے۔ ایک اور چیز، جس کی تعریف اور جس کا تعین گو مشکل ہے، زیادہ قوی ہے اور چھائی ہوئی ہے۔ وہ ہے ایک عمومی خیال، ایک رائے عامہ؛ بل کہ ایک خاموش اتفاقِ رائے؛ جیسا کہ شیخ عیسیٰ نور الدین احمد نے کہا ہے کہ:
جب لوگ خدایا عالمِ قدس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، تو اس کا منطقی طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ایسی فضا اور ماحول پیدا کرنا شروع کر دیا جاتا ہے، جس میں روحانی چیزیں اوپری اور اَن ِمل معلوم ہونے لگتی ہیں۔ خدا کے غیر حقیقی ہونے کے اعلان میں کامیاب ہونے کے لیے انہیں انسان کے گرد ایک جعلی حقیقت تعمیر کرنا ہوتی ہے، ایسی حقیقت جو لازماً غیر انسانی ہوتی ہے؛ کیوں کہ صرف غیر انسانی حقیقت ہی خدا کو خارج کر سکتی ہے۔ اس کام میں تخیل کی جعل سازی اور نتیجتاً اس کی تباہی کا بھی عمل دخل ہے۔
(.شیخ عیسیٰ نورالدین Understanding Islam, F. Schuon p. 37.)
خارجی برے نظام کا انسان کے داخلی نظام پر اثر :
جس طرح ہر عہد میں اس کے مفروضوں کے اپنے مخصوص سانچے اور نمونے ہوتے ہیں، اسی طرح ہر عہد میں کچھ نظریات اپنی ماہیت کے اعتبار سے ، اس عہد والوں کے لیے بظاہر مستبعد ہو جاتے ہیں، ان کے استبعاد Improbability کو کسی دلیل سے ثابت نہیں کیا جاتا، پھر چوں کہ ہرعہد کی پیداوار، اس کا ادب اور فن تعمیر، انسانی ماحول یعنی انسانوں کے اعمال اور مصنوعات دونوں معاصر مفروضوں کے پرتو بھی ہوتے ہیں اور ان کو تقویت بھی دیتے ہیں؛ لہٰذا یہ مستبعد جلد ہی ناممکن الخیال بن جاتے ہیں،اس کے بعد ماضی کی چند یادگاروں اور طبعی ماحول nature کے علاوہ ہر چیز ان مفروضوں کی تائید کرنے لگتی ہے اور تشکیک تو دور کی بات ہے، ان مفروضوں کے بارے میں ناقدانہ اندازِ فکر اختیار کرنے کے لیے بھی جبری شعوری کاوش کرناپڑتی ہے۔ گویا کہ انسانوں اور ان کے ماحول immediate surroundings کے مابین ایک باہمی عمل نفوذ __ osmosis واقع ہو گیا ہو، جس میں خارج اپنے داخل (انسان) کو منعکس کرے اور اس کے زیر ِاثر متشکل ہو ،جب کہ داخل اپنے خارج (ماحول) کے قالب میں ڈھل جائے۔
معاشرے میں نور ِقدسی کا فقدان
مذہبی نقطہ نظر اپنے تمام متلازمات اور اطلاقات سمیت، جس میں احترام و رعبِ ماورا اور شعورِ قدس sense of the sacred بھی شامل ہے، ایک عام آدمی کے لیے طبعاً صرف اس وقت ممکن ہے، جب وہ ایک ایسے ماحول میں رہتا ہو جس میں نورِ قدسی، برا بھلا ہی سہی مگر منعکس ضرور ہوتا ہو اور اس کے نور کی ایک آدھ کرن اس کے حواس کو بھی میسر ہوتی ہے۔ ایک مکمل طور پر دھندلے ماحول میں عام آدمی کے لیے ہمارے بلبلے کے باہر کے منظر کا تصور کرنا ناممکن ہو جاتا ہے اور وجودِ باری خود استبعادِ عظیم Great Improbability بن جاتا ہے۔
حقائق کا دلائل کے باوجود انکار کا مزاج :
ہمارے ہاں کے وہ نیک مسلمان جن کو ابھی جدیدیت کی ہوا نہیں لگی، ان کو ”نہ ماننے والوں“ (کفارِ زمانہٴ حاضر) کو سمجھنے اور ان کو اپنے جیسی فطرت رکھنے والا گرداننے میں جو دشواری خاص طور پر درپیش رہتی ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان مسلمانوں کے لیے اپنے دین کی صداقت (توحید الٰہی اور اس کے تمام اطلاقات و مضمرات) ایسے حاوی انداز میں بدیہی اور اپنا ثبوت آپ ہیں کہ ان کے نزدیک اس کا انکار ایسا ہی ہے؛ جیسا کوئی شخص تپتے صحرا میں سورج کے وجود سے اس کی تمازت میں کھڑا ہو کر انکار کر دے۔ ان ”نہ ماننے والوں“ کے خیالات کے کسی طرح کے احترام کا خیال ان کو احمقانہ بل کہ فاسقانہ معلوم ہوگا۔
دوسری طرف دنیائے جدید میں اکثر لوگوں کو اس ”ایمانِ قاہر“ (شیخ عیسیٰ نور الدین احمد کے الفاظ میں Terrifying faith)کو سمجھنے میں جس دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ روز مرہ زندگی کی حاوی اور بلا شرکت غیر حقیقت ان کو اتنی ہی بدیہی اور ناقابل اعتراض لگتی ہے جتنی مسلمانوں کو توحید۔ دونوں جگہ ہی ایسی سامنے کی بات میں شک و شبہ تقریباً ناممکن ہے۔ اس سے آپ ایک خاص رائے سے پیدا شدہ فضا اور ماحول کی تاثیر اور قوت کا اندازہ کر لیجیے۔
مطلق اور اعتبار میں تمییز کا خاتمہ:
شاید کسی کو یہ اعتراض سوجھے کہ مغربی یورپ اور امریکہ تو اب بھی عمومی طور پر (عیسائی) کہلاتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قدیم عیسائی یعنی عیسوی سنِ تاریخ کی پہلی پندرہ صدیوں کے لوگ اگر آج ہوتے، تو کیا ان کو عیسائی مان لیتے؟ اس لیے کہ پرانے عیسائیوں اور روایتی مسلمانوں اور کسی حد تک آج کے بدھوں اور ہندوؤں کے لیے بھی انسانی زندگی میں بعض چیزیں ایسی ہیں جو دوسری ہر چیز پر ترجیح رکھتی ہیں اور مقدم ہیں۔ پھر ان ترجیحات میں سے ایک سب سے افضل ہے۔ ایک طرف ”المطلق“ Absolute ہے اور دوسری طرف انسانی اور اعتباری Relative۔ بلحاظِ اہمیت اعتباری کو مطلق سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ اس قسم کا کوئی شعورِ ترجیحات ہمارے زمانے کی اناسیت پرست اخلاقیات Humanistic Morality کے پاس رہنمائی کے لیے موجود نہیں۔ یہی نہیں بل کہ ہمارے ان معاصرین کی فکرِ عالی بھی اس خیال سے، کبھی متصادم نہیں ہوتی جو ایک مبہم سا اعتقاد ایک آرام دہ حیاتِ بعد الموت میں رکھتے ہیں، جو ہر اس شخص کو حاصل ہوگی جو شائستگیِ آداب کا حامل ہو۔
ایمان اور کفر کے درمیان حد فاصل دھندلی ہوچکی ہے :
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا آج کل دو متبائن اور منافی رویوں یعنی کفر و ایمان کے درمیان حدفاصل دھندلی ہوگئی ہے۔ ارتیاب اور ایمان یا کفر اور ایمان دونوں کو ان کے منطقی نتائج تک لے جانے کا حوصلہ کسی میں نہیں، اس وقت ہمارے ہاں ایک اعتقادی جھٹ پٹے کا سماں ہے۔ لوگ بس زمانے کی رو میں بہے چلے جارہے ہیں، انہیں یہ تو خیال ہے کہ اس صورتِ حال کے بعد بھی ”کچھ“ ہے ضرور، مگر انہیں شک ہے کہ کسی کو بھی اس ”کچھ“ کافی الحقیقت علم نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ان عظیم آوازوں سے بھی بے خبر ہیں، جن کا سننا آج بھی ممکن ہے اور جو ان کو اس ”کچھ“ کا ہُو بہُو حال بتا رہی ہیں اور ان سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ ان کی بات اس طرح سنیں، جس طرح ایک مہلک خطرے کاشکار، موت کے پنجے میں گرفتار آدمی اپنے نجات دہندہ کی سنتا ہے۔ یہ نیمے دروں نیمے بروں لوگ ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں، جس کی ماہیت ظلمت ہے اور جس میں ان کے چھوٹے سے نور کے ہالے کے سوا سب کچھ غیر حقیقی لگتا ہے، اگر یہ کبھی حقیقتِ الٰہیہ کے بارے میں سوچتے بھی ہیں تو وہ ان کو خیالی، وحشت انگیز اور گھاٹے کا سودا معلوم ہوتا ہے۔ آفتاب ِ صحرائی کا جھلسانا اور چندھیاناختم ہو چکا ہے۔
اس صورت ِحال کے پیش نظر ہمارے لیے یہ بات ذرا بھی حیران کن نہیں کہ مذہب اس دشمن ماحول میں باقی نہ رہ سکے اور جو بچا کچا رہ بھی جائے وہ بھی اپنی عمودی جہت سے محروم و منقطع، دنیاویت میں گھرا ہوا۔ یہاں دنیاویت کا مطلب وہ نہیں جو عموماً سننے میں آتا ہے یعنی عورت، شراب اور موسیقی، (یا ان کے مترادفات اور متبادلات)کیوں کہ یقینِ مذہبی کے سامنے ان تینوں چیزوں کی کبھی کوئی خاص قوت نہیں رہی۔ دنیاویت سے ہماری مراد اس دنیا کی چیزوں سے ایسا لگاؤ اور تعلق ہے، جو کسی اور شی کی گنجائش نہ رہنے دے۔
چیست دنیا از خدا غافل شدن
نے قماش و نقرہ و فرزند و زن
یہ تعلق اس لیے بھی زیادہ مرغوب ہوگیا ہے کہ اسے مقصدِ حیات اور شایانِ حصول بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ سرچشمہٴ خیر حبِ الٰہی ہے مگر ان کا یہ مطلب تو نہیں کہ ایک ”سماجی شعور“ یا ”سماج کا ضمیر“ اس محبت کا مناسب متبادل ہو سکتا ہے۔
سر سیّد کے بعد سے لوگوں نے کہنا شروع کر دیاتھا کہ عقائد ہیں تو درست، مگر چوں کہ لوگ سننا پسند نہیں کرتے اس لیے ان پر زور نہ دیا جائے۔ پھر مغرب سے نظریات درآمد ہونے لگے اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے دامن میں ایک ”نرم و خوش گوار“ عقائد سے عاری دین رہ گیا، جو اپنے آپ کو معاصر مغربی تہذیب کے سانچے میں ڈھال چکا تھا۔ وہ تہذیب جس کے تمام مفروضوں، ساری اقدار اور منطق کے سارے مآخذ سرے سے غیر قدسی اور دنیوی Profane تھے، ان مآخذ میں سر فہرست اناسیت پرستی Humanism ،فکر پرستی Rationalism نشاة ثانیہ کے دور کا تطاول Self-assertion اور جعلی بلند بانگ خود اعتمادی تھی۔ یا اگر اور پیچھے جائیے تو دو قدیم تہذیبوں یونان وروم کے وہ گھٹیا ترین اوصاف جو انہوں نے کلاسیکی ورثے کی شکل میں اس وقت مغرب کے حوالے کیے ،جب وہ دونوں انسانیت کے معیار Norm اور دوسری تہذیبوں کے حوالے سے خود ہی زوال پذیر اور انحطاط کا شکار ہو چکی تھیں، اس کلاسیکی ورثہ پر عیسائیت بھی صرف عارضی طور پر ہی غالب آ سکی تھی۔
عدم ایمان کا جڑ پکڑنا :
موجودہ زمانے میں چوں کہ تقریباً ہر قول و فکر کی تَہ میں عدمِ ایمان کام کر رہا ہے؛ لہٰذا دنیائے جدید پر ایک ایمان والے کی تنقید لازماً انتہائی ہوگی۔کوڑھی کی آرائشِ حسن کوئی نہیں کیا کرتا، مگر انتہا پسند تنقید کا بھی کوئی مقصد ہونا چاہیے اور چوں کہ دنیا کی تقدیر ہمارے کسی بھی اقدام سے نہیں بدل سکتی اور نہ ہی دورِ ایمان وقت کے اختتام سے قبل واپس آ سکتا ہے(وقت ان معنوں میں جو ہم اس سے سمجھتے ہیں) یہ سوال خاصا معقول ہوتا ہے کہ اس صورتِ حال میں اس کارِعبث کا فائدہ؟ سیلاب سے مقاومت کیوں کی جائے؟ پچھلے زمانوں کے عظیم لوگ اور اہلِ دانش ایک غافل دنیا یا واصل بہ جہنم معاشرے سے فوراً کنارہ کش ہو جاتے تھے۔
اس سے منہ موڑ کر وہ ان چند نفوس کے لیے مثال قائم کر دیتے تھے ،جو ان کے اتباع کے لیے تیار ہوں۔ یہ گمان انہوں نے کبھی نہیں کیا تھا کہ لوگوں کی اکثریت کو کسی دوسرے راستے پر گامزن ہونے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ آج بھی اگر ان لوگوں کے لیے کوئی راہِ سکون ہوتی، جو ان نظریات اور رائے عامہ کے ڈھانچے کو قبول کرنے پر تیار نہیں، جس پر موجود ہ معاشروں کی بنیاد رکھی ہوئی ہے، تو وہ یقینا اسی کو اختیار کرتے اور نہ ماننے والوں کو راہِ سفر میں پا کوبی کرتا چھوڑ کر خود علیٰحدہ ہو جاتے۔
ہمارے پاس آج اگر اس کے برعکس منہاج اپنانے اور مناظرہ و مباحثہ کی گرد اڑانے کو کوئی جواز ہے تو وہ ہمارے موجودہ دور کی صورتِ حال ہے ،جس کی کوئی اور مثال ملنی نا ممکن ہے۔ اس دور کی خاص بات وہ کوششیں ہیں جو لادین معاشروں نے اپنے افراد کو مکمل طور پر، جسم و روح سمیت، اپنے عمل میں جذب کرنے کے لیے شروع کر رکھی ہیں۔ پرانے لوگوں کے برعکس ہمارے پاس ان معاشروں کو ترک کرنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں، ہمیں جوابی جنگ پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ ہم میں سے جو اس زمانے کے مفروضوں، اس کی ترجیحات، مقدم چیزوں اور اس کے اخلاقی لوازم کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ان کو واقعی یلغار کر کے ایک کونے میں گھسنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بعض تہذیبیں اور معاشرے دوسرے معاشروں سے بدرجہا افضل و برتر ہیں، مگر ہم مجبور ہو چکے ہیں کہ تہذیبوں کے اعتباری یا نسبتی کمال اور موازنے کو چھوڑ کر یہ دیکھیں کہ انہوں نے اپنے باشندوں کو کس حد تک جکڑ کر محبوس و مغلوب کر رکھا ہے۔
جدید لادین معاشروں کا واضح رجحان یہ ہے کہ انسان پر راہِ خروج بند کر دی جائے اور اس کی ساری رفعتیں ہموار کرکے اسے صرف اس کی ارضی جہت و منہاج تک محدود کر دیا جائے۔ اس انسان کو جو صورتِ الٰہی پر تخلیق ہوا اور عظمت کے تمام امکانات کا حامل ہے، صرف سماجی حیوان اور فاعلِ اقتصادی بنا دیا جائے۔ اس رجحان کا مقابلہ اس کی اپنی سطح پر نہیں کیا جا سکتا ؛کیوں کہ اس سطح پر اس قبیل کے رجحانات میں کچھ ایسی ناگزیر قوت ہوتی ہے، جو فطرت کی قوتوں سے منسوب کی جاتی ہے۔ صرف مذہبی نقطہ نظر ہی میں اس رجحان کی مزاحمت و مقاومت کی پختہ بنیاد کی تلاش کی جا سکتی ہے، مگر یہ واضح رہے کہ مذہب وہ ہونا چاہیے، جس کی جڑیں ماورا میں پیوست ہوں ،نہ کہ انفعالی مذہبیت اور فرسودہ اقوال۔ صرف اسی بنیاد پر ان لوگوں کی مدد کرنا ممکن ہے، جنہوں نے دباؤ میں آ کر اس دور کی اجتماعی اخلاقیات کے خلاف سپر تو ڈال دی ہے، مگر تشکیک اور بے یقینی سے۔صرف اسی نقطہٴ استدلال سے انہیں یہ یقین دلانا ممکن ہے کہ ان کے شکوک ایک صحیح اور صحت مند وجدان سے پھوٹے ہیں اور ان کو انسانی روایت کی پوری تائید حاصل ہے۔
(مستفاد از کتاب حرف بہ حرف، ڈاکٹر سہیل عمر)