مفتی محمد جعفر صاحب ملی رحمانی
صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا
مسئلہ: بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر نماز کی حالت میں جمائی آجائے تو اسے روکنا ضروری ہے، نہ روکنے کی صورت میں نماز فاسد ہو جاتی ہے، یہ بات صحیح نہیں ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اگر نماز کی حالت میں جمائی آجائے تو جتنا ہوسکے اسے روکنے کی کوشش کریں(۱)، جس کا طریقہ علامہ شامی رحمہ الله نے یہ نقل فرمایا ہے کہ نچلے ہونٹ کوثنایا علیایعنی سامنے کے اوپری دانتوں سے دبا لے، اس کے باوجود اگر جمائی قابو میں نہ آئے تو قیام کی حالت میں داہنے ہاتھ کے اندرونی حصہ سے منہ ڈھک لے، اور اگر جمائی قیام کے علاوہ کسی اور رکن میں آئے تو پھر بائیں ہاتھ کے پشت کے حصہ سے منہ کو ڈھکے، اور اِس دوران قرآن و تسبیح وغیرہ نہ پڑھے بلکہ خاموش ہو جائے نیز کسی قسم کی دوسری آواز بھی نہ نکالے۔ واضح رہے کہ اِس طریقہ پر جمائی لینا نماز کو فاسد نہیں کرتا(۲)۔
الحجّة علی ما قلنا:
(۱) ما فی ” جامع الترمذی “ : عن أبی ہریرة أن النبیﷺ قال التثاوٴب فی الصلاة من الشیطن فاذا تثاوٴب أحدکم فلیکظم ما استطاع․ (۱/۸۵/ أبواب الصلاة، باب ماجاء فی کراہیة التثاوٴب فی الصلاة)
ما فی ” بدائع الصنائع “ : مواقع الضرورة مستثناة من قواعدالشرع، ولایتمطی ولایتثاء ب فی الصلاة لأنہ إستراحة فی الصلاة فتکرہ، کالاتّکاء علی شیء، ولأنہ مخلّ بالخشوع، وإذا عرض لہ شیء من ذلک کظم مااستطاع، فإن غلب علیہ التثاوٴب جعل یدہ علی فیہ، لما روي عن النبیﷺأنہ قال: (إذاتثاء ب أحدکم (فی صلاتہ) فلیکظم مااستطاع، فإن لم یستطع فلیضع یدہ علی فیہ) ویکرہ أن یغطی فاہ فی الصلاة لأن النبیﷺ نہی عن ذلک ولأن فی التغطیة منعاً من قراء ة الأذکارالمشروعة، ولأنہ لوغطی بیدہ فقد ترک سنة الید وقد قالﷺ: (کفّوا أیدیکم فی الصلاة) ولوغطاہ بثوب فقد تشبہ بالمجوس، لأنہم یتلثمون فی عبادتہم النار، والنبیﷺ نہی عن التلثم فی الصلاة، إلا إذا کانت التغطیة لدفع التثاوٴب فلا بأس بہ، لمامر (من أن مواقع الضرورة مستثناة من قواعدالشرع)۔ (۲/۷۷/کتاب الصلاة، باب ما یکرہ فی الصلاة وما یستحب)
ما في ” البحرالرائق شرح کنزالدقائق “ : (قولہ وکظم فمہ عند التثاؤب) أی إمساک فمہ، والمراد بہ سدہ لقولہ علیہ الصلاة والسلام التثاؤب فی الصلاة من الشیطان فإذا تثاء ب أحدکم فلیکظم ما استطاع، وفی الظہیریة، فإن لم یقدر غطاہ بیدہ أوکمہ للحدیث۔ (۱/۵۳۱/کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، سنن الصلاة)
(۲) ما في ” ردالمحتارعلی الدرالمختار “ : (قولہ: والتثاؤب) فی المصباح التثاؤب بالمد وبالواوعامی وفی مختار الصحاح: تثائبت بالمد ولاتقل تثاوبت وہو کما فی الحلیة والبحر التنفس الذی ینفتح منہ الفم لدفع البخارات المنفخة فی عضلات الفلک وہو ینشأ من امتلاء المعدة وثقل البدن اہ قلت: ولہذا السبب کان من الشیطان کما فی حدیث الصحیحین أنہ قال: التثاؤب من الشیطان فإذا تثاء ب أحدکم فلیکظم ما ستطاع، وفی روایة لمسلم: فلیمسک بیدہ علی فیہ فإن الشیطان یدخلہ، وألحق بالید الکم، وہذا إذا لم یمکنہ کظمہ أی ردہ وحبسہ فقد صرح فی الخلاصة بأنہ إن أمکنہ عند التثاؤب أن یأخذ شفتہ بسنہ فلم یفعل وغطی فاہ بیدہ أو بثوبہ یکرہ، کذا روی عن أبی حنیفة قال فی البحر: ووجہہ أن تغطیة الفم منہی عنہا کما رواہ أبو داود وغیرہ وإنما أبیحت للضرورة ولا ضرورة إذا أمکنہ الدفع، ثم فی المجتبی یغطی فاہ بیمینہ وقیل بیمینہ فی القیام وفی غیرہ بیسارہ اہ قلت: ووجہ القیل أظہر؛ لأنہ لدفع الشیطان کما مر فہو کإزالة الخبث وہی بالیسار أولی لکن فی حالة القیام لما کان یلزم من دفعہ بالیسارکثرة العمل بتحریک الیدین کانت الیمنی أولی۔ (۲/۴۱۲/کتاب الصلاة، باب ما یفسد الصلاة ومایکرہ فیہا، فرع : لا بأس بتکلیم المصلی وإجابتہ برأسہ، مطلب : إذا تردد الحکم بین سنة وبدعة، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت)
(مستفاد : آن لائن دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن، فتوی نمبر: 144106200068)