بقاکاراز”اعلائے کلمة اللہ“
شفیع احمدقاسمی#اِجرا،مدھوبنی/استاذجامعہ اکل کوا
مشترکہ مرکزِعقیدت:
فلسطین دنیاکی تاریخ میں وہ اکلوتی سرزمین اورارض مقدسہ ہے،جسے انبیائے کرام کامدفن ہونے کا عظیم شرف حاصل ہے ،جس کے اردگِردبرکت ہی برکت کانزول ہے۔قرآن پاک کی آیت کریمہ﴿اَلَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہ۔﴾میں اسی بات کااشارہ دیاگیاہے ۔اس سرزمین سے بیک وقت ۳/مذاہب کی عقیدتوں کا تارجڑا ہوا ہے۔یہودی،عیسائی اور مسلمان۔ عیسائیوں کے محبت کی بنیاد اس لیے ہے کہ وہاں پر”ہیکل سلیمانی“ ہے۔ یہودیوں کے نزدیک تقدس کی وجہ ”قبة الصخرة“(Dome Of Rock)اور”دیوارِگریہ“ہے۔ اور مسلمانوں کے دلوں میں بسنے والے تقدس واحترام کی وجہ یہ ہے کہ یہیں کی مقدس سرزمین پر روئے زمین پربنائی جانے والی دوسری مسجد، مسلمانوں کاپہلاقبلہ”بیت المقدس“ اورنبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے امامتِ انبیا وجائے معراج ہے ،جس کا واقعہ ۲۷/رجب المرجب مطابق۹/مارچ ۶۲۰ء کوپیش آیاتھا۔( میدان محشربھی یہیں سے بپاہوگا۔)
یہ وہی ارضِ فلسطین ہے:
جی ہاں!وہی پُرعظمت وشوکت اورسرسبزوشاداب بقعہٴ ارضی پرزیتون کے درختوں سے آراستہ وپیراستہ اورلہلہاتے باغات سے مالامال ؛ جس کی اللہ رب العزت نے اپنی کتابِ لازوال؛ میں ﴿وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ۔﴾ فرما کر قسم کھائی ہے ۔ جہاں پر اسلام کی عظمتِ رفتہ کانشان ؛قبلہ اول کی صورت میں ابھی تک موجود ہے اوراِن شاء اللہ تا قیامِ قیامت باقی رہے گا۔اس کے فاتحِ اول ۲۲/لاکھ مربع میل پرپورے جاہ وجلال کے ساتھ اپنی خلافت کا پرچم لہرانے والے خلیفہٴ ثانی سیدنا حضرت عمرفاروق اعظم تھے،جنہوں نے۲۰/ اگست ۶۳۶ء میں فتح کا جھنڈا لہرایا تھا۔۱۰۹۹ء میں پہلی صلیبی جنگ ہوئی اور ۸۸/سال بعد۲۷/رجب المرجب ۵۸۳ھ مطابق ۱۲/ اکتوبر۱۱۸۷ء بروزجمعہ کوجس کے درودیوارنے دوبارہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی تکبیرسنی تھی۔
میدان سج گیاہے:
آج کا دردناک المیہ یہ ہے کہ فلسطین کی اسی پاک سرزمین پر۲۱/ربیع الاول ۱۴۴۵ھ مطابق ۷/ اکتوبر ۲۰۲۳ء بروزسنیچرسے ایک نومولود ریاست اسرائیل انسانی خون کی ہولی کھیل رہا ہے ۔اس مقام پرآج خیر کا نور پھیلانے والوں اورشرکی تاریکی میں اضافہ کرنے والوں کے درمیان عظیم معرکہ بپاہو چکاہے ۔ شیطانی لشکرپوری تیاری اورجاہ وجلال کے ساتھ خم ٹھونک کر نورِخداکوبجھانے کے لیے میدان میں اترپڑاہے۔اس لیے فلسطین میں طاغوتی قوتوں اورابلیسی ہتھکنڈوں کے زیرنگیں ”مغضوبین وضالین“کے زیرسایہ گزشتہ کئی عشروں سے یہ خوف ناک تصادم جاری ہے،جو رکنے کانام نہیں لے رہاہے ۔لیکن وہ اپنے ناپاک ارادے میں کبھی کام یاب نہیں ہوں گے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے:﴿یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَیَاْبَی اللّٰہُ اِلَّا ٓ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہ وَلَوْکَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ۔﴾پھردنیاکفروشرک کے اُن شیطانی لشکروں اور ایجنٹوں کوبہ زبانِ حال یہ کہتے ہوئے آنکھوں سے دیکھے گی اورکانوں سے سنے گی کہ
”دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے“
جنرل اورچرواہے کی کہانی:
یہ بات ۱۹۱۷ء کی ہے،جوکہ ڈاکٹرعلی الوردی کی کتاب”لمحات اجتماعیة من تاریخ العراق“ کے صفحات میں محفوظ ہے۔عراق کے پہاڑوں میں برطانوی جنرل”سٹانلی ماودے“کاایک چرواہے سے سامنا ہوا۔جنرل نے چرواہے کی طرف متوجہ ہوکراپنے مترجم سے کہا:ان سے کہہ دوکہ جنرل تمھیں ایک پاؤنڈ دے گا۔ اس کے بدلے میں تمھیں اپنے کتے کوذبح کرناہوگا۔کتاتوچرواہے کے لیے بہت اہم ہواکرتاہے ۔ کیوں کہ یہ کتا ہی اس کی بکریاں چراتاہے،دورگئے ہوئے ریوڑکوسمیٹ کرواپس لاتاہے،درندوں کے حملوں سے حفاظت کرتا ہے، لیکن پاؤنڈکی مالیت توآدھاریوڑسے بھی زیادہ بنتی ہے۔اس لیے چرواہے نے سوچااورپھراس کے چہرے پر لالچ کی مسکراہٹ پھیل گئی۔وہ کتاپکڑلایااورجنرل کے قدموں میں ذبح کردیا۔جنرل نے چرواہے سے کہاکہ اگر تم اس کی کھال بھی اتاردوتومیں تمھیں ایک پاؤنڈاوربھی دینے کوتیارہوں۔ چرواہے نے خوشی خوشی اس کی کھال بھی اتار دی۔اب جنرل بولاکہ میں مزیدایک اورپاؤنڈدینے کے لیے تیارہوں،اگرتم اس کی بوٹیاں بھی بنادو۔ چرواہے نے فوری طورپریہ پیشکش بھی قبولیت کی جھولی میں ڈال دی۔جنرل چرواہے کوتین پاؤنڈدے کروہاں سے چلتا بنا۔ جنرل صاحب چندہی قدم آگے گئے تھے کہ اسے پیچھے سے چرواہے کی آوازسنائی دی۔وہ اس کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا اور یہ کہہ رہاتھاکہ جنرل صاحب! اگرمیں کتے کاگوشت بھی کھالوں توکیاآپ مجھے ایک اورپاؤنڈ دیں گے؟ جنرل نے انکار میں سرہلا دیا اورکہا کہ میں صرف تمھاری نفسیات اوراوقات دیکھناچاہتاتھا۔تم نے صرف تین پاؤنڈ کی لالچ میں آکراپنے محافظ اوردوست کو ذبح کے گھاٹ اتاردیا،اس کی کھال بھی اتاردی ،اس کے ٹکڑے کردیے اور اب چوتھے پاؤنڈ کے لیے اسے کھانے کے لیے بھی تیارہواوریہی چیزمجھے یہاں چاہیے ۔ پھر جنرل اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا کہ اِس قوم کے لوگوں کی سوچ یہ ہے۔لہذاتمھیں کبھی ان سے خوف زدہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ۔
آج کے مسلم ملکوں کی حالت:
آج کل ٹھیک یہی حال مسلم ملکوں اورمعاشروں کابھی نظرآتاہے ۔اپنی کسی چھوٹی سی مصلحت کے خول میں چھپ کر اورضرورت کی قربان گاہ پر اپنی سب سے قیمتی اوراہم چیزکوبھی قربان کردیتے ہیں۔وہ بغیرسوچے سمجھے کرسی کے لیے آیة الکرسی بیچنے میں کسی بھی طرح کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔یہی وہ کارگرہتھیارہے، جسے ہر استعمار،ہرقابض اورہرشاطردشمن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام یابی کے ساتھ ہمیشہ سے استعمال کرتاچلا آ رہا ہے ۔اسی کے ذریعے سے اس نے حکومت کی گدی حاصل کی ہے اوردوسرے ملکوں کو لوٹا اورکسی نا کسی بہانہ سے تاراج بھی کیاہے ۔ آج کی تاریخ میں ہمارے درمیان کتنے ہی ایسے ناعاقبت اندیش چرواہے موجودہیں،جونہ صرف کتے کا گوشت کھانے کے لیے تیارہیں،بلکہ خوب مزے سے کھارہے ہیں اور چند کھوٹے اور کھنکھناتے سکوں کی جھنکار پر فن کاربن کر اپناوطن بیچ رہے ہیں اورشاعرمشرق علامہ اقبالکی روح سے معذرت کے ساتھ یہ بھی گنگنارہے ہیں کہ
بھگوان مِرے دل کو وہ زندہ تمنا دے
جو حرص کو بھڑکا دے اور جیب کو گرما دے
تھوڑی سی جو غیرت ہے وہ بھی نہ رہے باقی
احساسِ حمیت کو اِس دل سے نکلوا دے
مومن کی مثال:
بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:”تَرَی الْمُوْمِنِیْنَ فِیْ تَرَاحُمِہِمْ وَتَوَادِّہِمْ وَتَعَاطُفِہِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ اِذَااشْتَکیٰ عُضْوًا تَدَاعیٰ لَہ سَائِرُجَسَدِہ بِالسَّہَرِ وَالْحُمّٰی “ اہل ایمان کی شان وپہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ آپس میں محبت سے پیش آنے اور درگذر کرنے میں ایک جسم کی مانند ہوتے ہیں کہ جب بدن کے کسی بھی حصے میں تکلیف پہنچتی ہے تواس کاساراجسم اس کی حرارت اور بے چینی کو محسوس کرتا ہے۔(ج:۲/ص۸۸۹)
اسی طرح ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ”اَلْمُوْمِنُ لِلْمُوْمِنِ کَالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضُہ بَعْضًا“ مسلمان ایک دوسرے کے واسطے عمارت کی حیثیت رکھتے ہیں کہ وہ آپس میں باہم مربوط اورایک دوسرے کے لیے مددگارہوتے ہیں۔ (ج:۲/ص۸۹۰)
اب دوسری طرف دیکھ لیجیے:
مذکورہ حدیثوں کوذہن کے پردے پرسجاکررکھ لیجیے اورپھرحالاتِ حاضرہ کاجائزہ بھی لیجیے ۔اپنی کرنی کا سارابھرم کھل جائے گاکہ ہم خودکواس نبی کاامتی کہلانے کی بانسری بجاتے ہیں،لیکن جب زخم کھانے کا وقت آتا ہے تومصلحت کی آڑ میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ساری دنیاجانتی ہے کہ اس وقتجہادِ فلسطین جاری ہے۔فلسطینی مجاہدین ذوقِ شہادت سے سرشارہوکراپنی محبوب سرزمین کواپنے ہی خون سے لالہ زارکررہے ہیں اورراہ خدا میں اپنے جان کی بازی لگا کربارگاہ الٰہی میں بازی بھی ماررہے ہیں۔سیدالکل فی الکل نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ گرامی ”لَاتَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ اُمَّتِیْ یَقَاتِلُوْنَ عَلیٰ اَمْرِ اللّّٰہِ ، قَاہِرِیْنَ لِعُدُوِّہِمْ، لَایَضُرُّہُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ ، حَتیّٰ تَاْتِیَہُمُ السَّاعَةُ وَہُمْ عَلیٰ ذٰلِکَ“ کی کسوٹی پربلاشبہ پورے اترتے نظر آ رہے ہیں۔ (مسلم:ج۲/ص۱۴۴)
چنے کاحلوہ نہیں ہے:
ان کے شوق ِشہادت اورجذبہٴ ایمانی کودیکھ کرہمارے دلوں میں بدروحنین کی یادتازہ ہوتی ہے، ساتھ یہ بھی محسوس ہوتاہے کہ ان مجاہدین کی دلیری وشجاعت نے دشمنوں کی صفوں میں خوف وہراس کاڈیرہ ڈال رکھاہے ۔ فلسطینی مجاہدین کے چٹانی عزائم اور جوش وولولہ نے اسرائیلی افواج اوراس کی ناجائزپرورش کرنے والے امریکہ اوربرطانیہ کے حوصلوں پرپانی پھیررکھاہے۔اب انھیں بھی یہ لگنے لگاہے کہ ہم جنھیں اب تک چنے کا حلوہ سمجھنے کی غلطی کر رہے تھے،وہ تولوہے کاثابت ہوا،جسے نگل جانااتنا آسان نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اِس وقت دشمنان ِاسلام کے خیموں میں زلزلہ برپاہے۔
میری زندگی کامقصد:
ظاہرسی بات ہے کہ جن لوگوں نے کامرانی وکام یابی کی منزل صرف اللہ کی رضا اورراہ حق میں جان کا نذرانہ پیش کرنے کو سمجھ لیا ہے۔جنھوں نے اعلائے کلمة اللہ کواپنی زندگی کانصب العین بنالیاہے۔پرچم اسلام کو سرنگوں ہونے سے بچانے کی قسم اٹھارکھی ہے،جن کی دوربیں نگاہیں صرف رضائے خداوندی اور مرضیٴ مولیٰ پرٹکی ہوئی ہیں،جن کے دلوں میں فلطسین کی حفاظت اورمسجداقصیٰ کی حرمت پرمرمٹنے کاجذبہ سمندر کی تیز وتند لہروں کی مانند ٹھاٹھیں مارہاہے،ان جاں بازوں اورشیدایان حق کے لیے اپنی جانوں کانذرانہ دینااوردم واپسیں تک عَلم اسلام کو بلند کرنا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔درحقیقت موت بھی ان کے لیے لقائے ربانی کاایک انوکھاپیغام اور واسطہ ہواکرتی ہے جسے پانایاسمجھ لیناآسان نہیں ہے۔ روایت میں ہے ”اَلْمَوْتُ جَسَرٌ یُوْصِلُ الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ“کہ موت ایک پُل کی مانند ہے،جوایک دوست کودوسرے دوست سے ملانے کاکام کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کوجانی قربانی دے کربھی نہ دینے کااحساس ستاتاہے ۔ہم اُن سرفروشوں کے اسی احساس کوپیش کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ
میری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی
میں اِسی لیے مسلماں میں اِسی لیے نمازی
موجودہ حالات میں اہل فسادکے خیموں میں ایک آگ سی لگ گئی،اس لیے حماسی مجاہدین کے اس عملی اقدام کو غلطی اورناقابل معافی جرم کی سندسے نوازنے لگے۔خیریہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے،کیوں کہ یہ تواُن کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے،جس کااظہارکیاجارہاہے۔یہ تو کسی دن ہونا ہی تھا،جوآج ہوگیا۔ اس لیے کہ ایمانی شان اورپہچان رکھنے والے اس بات کوخوب جانتے ہیں کہ راہ ِحق میں ہماری قربانیاں ہی ہمیں کام یابی کی منزل تک پہنچاکرہمیں شادکام کریں گی۔کیوں کہ سچائی تویہی ہے ،جسے آج تاریخ کی آنکھوں نے دیکھاہے کہ ”اسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلاکے بعد“۔
تجزیہ نگاروں کے تجزیے:
کچھ تجزیہ نگاراورمبصرین جاری معرکہٴ حق وباطل کے کچھ فوائدبیان کررہے ہیں،جو حالات پرنظررکھنے والوں کی نگاہ میں قابل استناداورقرین قیاس بھی ہے۔ایساکہاجارہاہے کہ سعودی عرب اسرائیل کی اس ناجائز قابض وغاصب حکومت کو تسلیمات کاجامہ پہنانے کے مرحلہ میں تھی۔چناں چہ اسی پیش آمدہ خطرے کوبھانپ کر حماس کے سرفروشوں نے اقدامی کارروائی کوضروری سمجھا،تاکہ یہ امریکہ وبرطانیہ کے اشاروں پرناچنے والی کٹھ پتلی سرکاریں اس کی جرأت نہ کرسکے اورساری دنیاکے سامنے اس کاموقف کھل کرواضح ہو جائے۔اس لیے کہ عرب کا اسرائیل کوتسلیم کرلینے کاسیدھامطلب ہے؛قبلہٴ اول؛مسجداقصیٰ کواپنی دلی رضامندی سے ان کی ناپاک جھولی میں ڈال دینااور اہل فلسطین کی زندگیوں کواس ظالم درندے کے آگے پھینک دینا ہے۔ تاکہ وہ انھیں سمندر اور صحرائے سینا میں پھینکی ہوئی ہڈیوں کی طرح جس طرح اورجب دل چاہے نوچتارہے اوران کی قیمتی زندگیوں کاخاتمہ آرام سے کرکے عربستان سے قبرستان بھیج دے۔الحمدللہ !اب اس حملہ سے سعودیہ اوراس کے ہم نوا بھی اپنی عافیت سمجھ کرخیالستان سے باہر نکل آئیں گے۔
سوباروہ سوچیں گے:
حال کی اس جنگ سے دوسرافائدہ یہ حاصل ہواکہ اُس نے اسرائیل اوراس کے آقا”امریکا“کے مدتوں سے دیکھے گئے خواب کوایک ہی پَل میں پُل پارکردیاہے ۔ایک ہی جھٹکے میں خوابوں میں سجائے گئے سارے محل کو چکنا چورکر دیا ہے،جس کے لیے انھوں نے ایک لمبے عرصے سے پاپڑ بیلے اور دنیا بھر میں پھیلے یہودیوں کواِس پاک سرزمین پر بسانے کاناپاک پروگرام بنایا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے دماغ میں یہ کیڑاسرابھاررہاتھاکہ ان کا بھی اپنا ایک ملک ہواوراپنی ایک الگ شناخت ہو۔لیکن فی الحال کاحال تو تجزیہ نگاروں کویہی نظرآتا ہے کہ یہود بے بہود دسیوں سال تک اس علاقے میں قدم رکھنے کی ہمت بھی نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ سرفروشان اسلام اور فلسطینی مجاہدین کے ابتدائی اقدامات نے ان کے دلوں میں خوف وموت کے نقشے اتنے گہرے بٹھادیے ہیں، جس کابیان مشکل ہے۔چناں چہ اِس وقت اُن کی بڑی تعداد ایسی ہے، جومختلف علاقوں میں بھاگ کرخیمہ زن اور پناہ گزین ہونے پر مجبور ہے۔
سب کوپتاچل گیا:
دنیاکی تمام بڑی طاقتوں اور(Super Power)کو حماس اوران کے مجاہدین کی عسکری قوت اور بے مثال جنگی صلاحیت کاحال معلوم ہوگیا،جو اَب تک ان کے لیے نامعلوم تھا۔یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ کل تک پتھر اور غلیل چلانے والوں کے پاس اتنی قوت اوراسلحہ کہاں سے کب اورکیسے آگیا؟سوکھی ٹہنی میں اچانک اتنی جان کیسے اورکہاں سے آگئی؟کیوں کہ دنیاجانتی ہے کہ حماس ایک ایسی تنظیم اورجماعت ہے،جس کے پاس نہ خلیجی ممالک کا پٹرول ہے اورنہ دنیاکی کوئی اوردولت۔نہ یہودی اورعیسائی حکمرانوں کی محبت کاسرمایہ اُن کے پاس ہے ،جس پر اِن دنوں نا م نہادمسلم ممالک فداہیں۔سچ یہ ہے کہ وہ باہرکی طرح اندرسے بھی ارشاد باری تعالیٰ:﴿ ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّةً ﴾کی روشنی میں مکمل طورپرمسلمان ہیں۔ انھوں نے اسلامی غیرت اور دینی حمیت کا دامن ہاتھ سے چھوڑانہیں ہے،بلکہ انھوں نے ہمیشہ
”دورنگی چھوڑ دے یک رنگ ہوجا“
کانغمہ گنگنایااورامت کوسنایاہے ۔انھوں نے ترکی اور قطر؛ جن کواِس وقت عالم اسلام کا سرمایہٴ آبرو کہا جاتا ہے، میں اپنے سیاسی دفترکے لیے پناہ توحاصل کی ہے ، لیکن فلسطین کی بودوباش کو خیرباد نہیں کہاہے ۔
یہی تواُنھوں نے کردکھایا:
اسی جذبہٴ شہادت اور حق کی خاطرسرفروشی کی امنڈتی تمناؤں نے انھیں اِس بات پرآمادہ کیاکہ خودہی آگے بڑھ کر حملہ کردیاجائے۔(اب تک دفاع میں تھے )اگرحالات کاصحیح ڈھنگ سے جائزہ لیاجائے تومعلوم ہو گاکہ یہ حملہ ان کے لیے ضروری بھی تھا، جس سے آنکھ موندلینانقصان کاسبب بن سکتاتھا۔ کیوں کہ مقاصد شریعت میں اپنی جان ومال اورعزت وآبروکے علاوہ شعائردین کی حفاظت بھی شامل ہیں،جس کی گواہی حدیث میں دی گئی ہے ۔اور”تنگ آمد،بہ جنگ آمد“ کا اصول بھی تویہی سبق دیتاہے کہ جب کسی پربھی اس کی جان کے خطرات کے بادل منڈلائیں تواس کوجان بچانے کی فکرہونی چاہیے ۔ دنیا کا ہرمذہب اوراس کا قانون اس کی اجازت دیتاہے اوراہل فلسطین تومتواتر۷۵/ سال سے اپنی جانیں اوراپنے اموال اس راہ میں قربان کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس لیے بجاطورپران کوحق تھا کہ وہ اپنی حفاظت کی خاطرممکن اقدامات اور کارروائیاں کریں، جو اُنھوں نے کردکھایا۔
لہٰذاعقل کے اندھوں کواپنی آنکھیں کھولنے ،بغض وحسداورتعصب وعنادکاچشمہ اتارکردیکھنے اورحالات کے پس منظرکوخوب سمجھ کرپیش منظرکرنے کی ضرورت ہے ۔جواُن مظلوم مجاہدین کودہشت گرداوران کے اقدام کو دہشت گردی کہنے سے تھکتے نہیں۔
ہمیں پیارہے کرسی سے:
اب یہاں ایک سوال یہ بھی ابھرتاہے کہ اِس وقت ؛امریکی پشت پناہی کی بہ دولت جبکہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت پورے شباب پر ہے۔ننھے منے اورمعصوم بچوں،بوڑھوں اورعورتوں پرگولیوں کی بوچھاڑ،ٹینکوں کی یلغار، میزائلوں کی مارسے غزہ وفلسطین کی زمین لالہ زارہے۔ دنیا کے تمام باشندے بلاتفریق ملل؛اسرائیلی سفاکیت کے خلاف بھرپور آوازیں اٹھا رہے ہیں،کونے کونے میں اپنے طور پر احتجاج (Protest)کر رہے ہیں، اسرائیلی وامریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے اُن کمرہمت توڑنے میں جٹے ہیں توایسے پُر آشوب وقت میں یہ عرب حکمران یا دیگر ۵۷/ مسلم ممالک کے سربراہان کیوں:﴿اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّا﴾پرسختی سے عمل پیرا ہیں؟کیاوجہ ہے کہ وہ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں بھی چپّی سادھے ہوئے ہیں؟ اِس کا سیدھاساجواب یہی ہے کہ سبھی کواپنی کرسی سے پیار ہے۔اقتدار کے لالچ نے اُن کواس قدراندھا، گونگا اور بہرا کر رکھاہے کہ اہل غزہ اور فلسطین کے مظلومین کی فریاد، دلدوزچیخیں اورآہ وفغاں اُن کے کانوں پر دستک نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔وہ توپچھلے پہر رات کی تاریکی میں سربہ سجودہوکر حکومتی کرسی کی عافیت وسلامتی کے لیے یہی دعائیں پورے صدق دل اورخلوص سے مانگ رہے ہوں گے کہ یاالٰہ العالمین و یا احکم الحاکمین ہمیں اپنے بے پایاں فضل وکرم سے
احساس عنایت کر کرسی کی محبت کا
اِمروز کی شورش میں بے فکریٴ فردا دے
جدھرکھیر،اُدھرپھیر:
آج کے یہ مسلم ممالک ایسے مرغِ بادنماہیں کہ اگرطاقت وسطوت حضرت حُسین بن علی کے ہاتھوں میں ہوتواُن کی قصیدہ خوانی کرنے لگتے ہیں۔اگرحسین کی جگہ یزیداقتدارکی گدی پربراجمان ہوجائے تواپنی عقیدت کی باگیں یزید کی طرف موڑنے اوراُن کی خدمت میں سلاموں کی ڈالی نچھاورکرنے میں کچھ بھی دیرنہیں لگائیں گے۔ وہ جلدہی یزید کی ثناخوانی میں لگ جائیں گے۔اُن کی حالت”جدھرکھیر، اُدھر پھیر“والی ہے۔یہ کوئی تاریخی شہادت نہیں ،بلکہ قرآن عظیم الشان کابیان ہے کہ خداوندِقدوس کی یہ زمین انبیائے کرام کے مقدس خون سے رنگین ہو چکی ہے۔ لیکن کیوں؟ خداکے اُن نیک،مخلص بندوں اورفلسطینی مجاہدین کاجرم کیا ہے؟تاریخ کی ورق گردانی سے یہی پتا چلتاہے کہ اُن نفوسِ قدسی صفات اورپاکبازبندگانِ الٰہی کا قصور صرف یہی ہے کہ وہ حق کی اشاعت کرتے ہیں اورہم جانتے ہیں کہ باطل؛ حق پرستوں کے اِس جرم کوکبھی بھول کربھی معافی کا پروانہ نہیں دے سکتا، اِس لیے کہ اُن کے دماغ کی کال کوٹھری میں ایسی دریادلی کاکوئی خانہ ہی نہیں ہوتا،اِس لیے بہانے بازی پر اتر آتاہے۔
جھانسے میں آگئے :
ترکی کی خلافت عثمانیہ کوٹھکانے لگانے کے لیے یورپی اقوام نے ان نادان عربوں کاہی استعمال کیا تھا کہ اسلام تمھارے پاس آیا،اس لیے خلافت کااصل ٹھیکیدارتمھیں ہوناچاہیے نہ کہ اوروں کو۔اس لیے یہ تُرک لوگ تمھارے حاکم وسردار کیسے ہوسکتے ہیں؟چناں چہ بعض عرب یورپی فیکٹری میں تیارشدہ اس ریشمی الفاظ کے جھانسے میں آکرقومیت کی بنیادپرسقوط خلافت عثمانیہ کے مجرم ہوگئے اوربغاوت کرکے ایک عظیم طاقت ور خلافت کو دنیا سے مٹادیا۔اس طور پر مسلمانوں کے رعب، جاہ وجلال اوراُن کی شان وشوکت کوٹھیس پہنچانے میں کوئی کسرباقی نہیں رہنے دی اورنہ کسی غلطی کے مرتکب ہوئے۔
رشوت کی ہڈیاں:
اس عَلَم بغاوت بلندکرنے ،انگریزوں اوریورپ سے وفاداری نبھانے کے نتیجے میں ہی سعودی عرب کی حکومت ان کی جھولی میں ڈالی گئی تھی،جس کی لگام تاہنوز امریکااوراس کے حلیفوں کے دست خون خوار میں ہے ۔ ایسااِس لیے ہو رہاہے کہ نِت نئی ایجادات وانکشافات کے بَل بوتے اور جدیدسائنس وٹیکنالوجی کی بہ دولت آج کی مادی دنیا میں ہرطرف
”مجرم نے پھینک رکھی ہیں رشوت کی ہڈیاں“
یہی وجہ ہے کہ اہل عرب سامنے آنے سے ڈرتے ہیں اورسوچتے ہیں کہ اگرہم حمایت کی راہ پرچلیں گے ،فلسطین اور اہل غزہ کی حمایت کریں گے اورکھل کر میدانِ کارزارمیں ساتھ دیں گے تو سال بھر کے اندرہی ان کی حکومت کے تو آرام سے بارہ بج ہی جائیں گے۔ اقتدارکی باگ ڈور چھین لی جائے گی اورنتیجے کے طورپریہ بھی ہو سکتا ہے کہ پھانسی کا پھندا بھی ان کا استقبال کرنے کے لیے تیارہوجائے ۔
خیالستان آبادنہ کریں:
لیکن یادرکھناچاہیے کہ یہ چنگاری جوفی الحال ارض فلسطین پربھڑک چکی ہے اگرمسلم حکمرانوں اوراعلیٰ حکام نے خیالستان آبادکرنے سے گریزنہیں کیا،اپنے جذبہٴ ایمانی کاپختہ ثبوت نہیں دیا،حسینی کردارکوقصہٴ ماضی کے اوراق کی زینت بنادیا اور ابھی بھی غفلت کی نیند سے بیدارنہیں ہوئے توایک دن اِس بھڑکتے شعلے کی لپیٹ میں وہ بھی آ جائیں گے اوراُن حکمرانوں کی کرسی بھی جل کرراکھ کاڈھیربن جائے گی ۔اورپھردنیادیکھے گی کہ ان کانشیمن بھی تہ وبالاہونے سے نہیں بچ پائے گا۔پھر
”ان کی داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں“
یاالٰہی!مسلمانان فلسطین کی مددفرما،ملت اسلامیہ کومسجداقصیٰ واپس دلا،مسلمان حکمرانوں کوایسی غیرت عطافرماکہ مسجداقصیٰ کازخم ان کی کروٹوں کوبے سکون کردے ۔ان کوہمت وحوصلہ سے نوازاورہم سب کواپنی اپنی طاقت وصلاحیت کے مطابق فلسطینی کازکومددپہنچانے کاجذبہ اوراس کی صلاحیت وقوت عطافرما۔آمین یارب العالمین بجاہ سیدالمرسلین!