مسئلہ فلسطین کا حل کیا ہوسکتا ہے؟

حذیفہ وستانوی 

            سب سے پہلے تو مسلمانوں کو مسئلہٴ فلسطین اور قبلہٴ اول کی حساسیت کو جاننا چاہیے کہ آخر یہ مسئلہ کیا ہے اور ہم اسے کیسے حل کرسکتے ہیں؟!؟۔

            اس مسئلہ کو مختلف زاویوں سے دیکھنا اور سمجھنا ہوگا، ایک تو اس کی اسلامی حیثیت ،دوسری تاریخی حیثیت، تیسری انسانی اور بین الاقوامی حیثیت۔

            ان حیثیتوں کو جاننے کے بعد مسلمان اس کی بازیافت کیسے کرسکتے ہیں، اس پر روشنی ڈالی جائے گی۔ ان شاء اللہ!

            یہ حیثیتیں اس لیے بتائی جارہی ہیں؛ تاکہ اس کی اہمیت کا ادراک ہوسکے۔ گویا پہلے مسئلہ کی حقیقت اور سنگینی پر نظر ہوجائے، اس کے بعد بطور حل کہ اس کو حاصل کرنے کی تدابیر بیان کی جائے گی۔

             مسئلہ فلسطین کی تاریخی حیثیت۔ روئے زمین پر مسجد ِحرام (خانہٴ کعبہ) کے بعد یہ دوسری قدیم ترین مسجد ہے۔فلسطین کی پاک سر زمین انبیا ئے کرام کامسکن رہی ہے،اسی وجہ سے اسے سرزمین ِانبیا بھی کہا جاتاہے۔ اس کے چپے چپے پر انبیاء کرام علیہم السلام کے نشانات موجود ہیں۔ گزشتہ قوموں کے آثار یہاں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔ اس خطے کے کھنڈرات، یہاں کی اجڑی ہوئی بستیاں، وادیاں، پہاڑ اور دریا، غرض ہر شی اپنے دامن میں ایک مکمل تاریخ چھپائے ہوئے ہے۔ اس ارضِ مقدس کا مشہور اور قدیم شہر بیت المقدس ہے، اس کو ’القدس‘ بھی کہتے ہیں۔

مسجد اقصیٰ کی تاریخی حیثیت:

            ایک قول ہے کہ زمین پر پہلی مسجد، مسجد ِاقصیٰ ہے، لیکن یہ بات درست نہیں؛ کیوں کہ قرآن مجید کی روشنی میں اس زمین پر اللہ کی عبادت کے لیے، سب سے پہلا گھر و مسجد بنی ہے، وہ مسجد بیت الحرام ہے، جس کو فرشتوں نے تعمیر کیا ہے: جیساکہ بخاری شریف میں بھی سیدناابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جس میں یہ صراحت ہے کہ مسجد بیت الحرام کی تعمیر اور مسجد ِاقصیٰ کی تعمیر میں چالیس سال کا عرصہ ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مسجد بیت الحرام کو ابن آدم کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے فرشتوں نے تعمیر کیا۔

            امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں روایتوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سیدناابراہیم علیہ السلام بیت الحرام کے اور سیدناسلیمان علیہ السلام مسجدِ اقصیٰ کے مجدّد ہیں، نہ کہ مؤسس۔ اور مسجدِ اقصیٰ کا ذکر قرآن ِکریم کی اس آیت میں ہے، جس میں معراجِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہے۔

(الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل ص:۸-۱۰)

مسجد اقصیٰ کے تعمیر ی ادواراور مؤسّسِ اول‘ مختلف اقوال کے روشنی میں:

            پہلا قول یہ ہے کہ سب سے پہلے فرشتوں نے تعمیر کی۔

            دوسرا قول یہ ہے کہ سیدناآدم علیہ السلام نے سب سے پہلے تعمیرکی۔

            تیسرا قول یہ ہے کہ سیدناسام بن نوح علیہ السلام سب سے پہلے تعمیر کرنے والے ہیں۔

            اور چوتھا قول یہ ہے کہ سیدناداؤداورسلیمان علیہما السلام پہلے تعمیر کرنے والے ہیں۔

            علامہ احمد بن عبد الواحد المقدسی فرماتے ہیں کہ ان سب روایتوں میں اس طرح تطبیق ہوسکتی ہے کہ سب سے پہلے فرشتوں نے، پھر سیدناآدم علیہ السلام نے، پھر سیدناسام بن نوح علیہ السلام نے اور پھر سیدناداؤد وسلیمان علیہما السلام نے بالترتیب تعمیر کیا ہو۔(حوالہ سابقہ)

مسجد اقصیٰ پر بیتنے والے حوادثات:

            مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے بعد اس پر مختلف قسم کے حوادثات آئے، جس کی وجہ سے دوبارہ اس کی تجدید اور تأسیس کی ضرورت پڑتی رہی،لیکن تاریخ کی کتابوں میں چھ(۶) حوادثات کا ذکر ہے، جن میں سرِ فہرست حوادث یہ ہیں:

            باہر سے القدس پر حملہ ہونا، مسجد کو دو مرتبہ نقصان پہنچنا ۔ ان دو واقعوں کا ذکر قرآن پاک کی سورہٴ اسراء کے شروع میں ہے۔

            پہلا واقعہ جس میں مسجد کی تعمیر کو نقصان پہنچا، وہ سیدناسلیمان علیہ السلام کی وفات کے۴۱۵/ برس بعد ۵۸۸ ق-م میں پیش آیا، جب اہل ِفارس کے بادشاہ بخت نصر نے اس پر حملہ کیا اور پورے شہر کو آگ لگادیا، جس میں مسجد کی عمارت منہدم ہوگئی، پھر شاہ ِایران کے تعاون سے دوبارہ اس کی تعمیر ہوئی۔

            دوسرا واقعہ ۶۳ ق-م میں ہوا، جس میں دوبارہ رومی قابض ہوگئے۔ پھر سیدناعیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کے چالیس سال بعد۰ ۷ء میں طیطلس نامی بادشاہ نے اس شہر کو بالکل تباہ کردیا، اس میں بھی مسجد کو نقصان پہنچا۔ ۱۳۵ء میں رومی بادشاہ ہیرڈوس نے اس شہر کو دوبارہ بسایا اور اس کا نام ایلیا رکھا۔۶۱۴ ء میں دوبارہ اہل فارس نے قبضہ کرلیا، لیکن مسجد ِاقصیٰ۰ ۷ء سے سیدناعمررضی اللہ عنہ کے زمانے تک ویران رہی۔

(تفسیر حقانی، ج:۵،ص:۴۶/۷۱، خطط الشام،ج: ۵،ص:۲۵۲)

مسجد ِاقصیٰ کا اسلامی دور:

            سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے دور ِخلافت میں سیدناابو عبیدةبن الجراح رضی اللہ عنہ نے ۶۱ھ میں بیت المقدس کا محاصرہ کیا اور ان کے سامنے اپنا پیغام رکھا، نہ ماننے کی صورت میں قتل اور صلح کی صورت میں جزیہ اور خراج کا حکم سنایا، تو وہ ایک شرط پر صلح کے لئے تیار ہوگئے کہ خلیفہٴ وقت صلح کے لئے خود تشریف لائیں۔ سیدناابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے سیدناعمررضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر ساری صور ت ِ حال سے آگاہ کیا ،تو سیدناعمررضی اللہ عنہ، سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے بیت المقدس جانے پر راضی ہوگئے، یوں ۷۱ھ میں سیدناعمررضی اللہ عنہ کے دور ِخلافت میں مسجد اقصیٰ اسلام کے سائے میں آگئی۔ سیدناعمررضی اللہ عنہ نے مسجد کو صاف کروایا اور وہاں پر مسجد تعمیر کرالی، جس کو مسجد عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔

(البدایہ والنہایہ،ج: ۱۲،ص:۳۴۴تا۳۴۸-الروختین فی اخبار الدولتین،ج: ۳،ص:۲۰۶-۲۶۰)

اسلامی دور میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر وترقی:

            ۱۷ھ میں فتح کے کافی عرصہ بعد اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے ۵۶ھ میں اس کی تعمیر اور مرمت کا آغاز کیا اور ولید بن عبد الملک نے مصر کے سات سال کا خراج اس کی تعمیر کے لئے وقف کردیا تھا۔ ۱۳۰ھ اور۱۵۸ھ کے زلزلوں میں اس کی عمارت کو نقصان پہنچا تو ۱۶۹ھ میں مہدی کے دور ِحکومت میں دوبارہ اس کی تعمیر نو کی گئی۔ ۴۰۷ھ کے زلزلے میں قبّہ کی دیوار یں منہدم ہوگئیں تو ۴۱۳ھ میں ظاہر فاطمی نے اس کی دوبارہ تعمیر کی اور افرنگی بادشاہوں نے مسلمان بادشاہوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ۴۹۲ھ میں بیت المقدس پر حملہ کردیا اور سیدناعمررضی اللہ عنہ کے برخلاف اس بادشاہ نے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور مسجد کی بے حرمتی کی اور مسجد میں گھوڑوں کے لئے اصطبل بنایا، جس کو ”اصطبل سلیمان“ کہا جاتا تھا اور مال و متاع لوٹ لیا تھا۔

             ۹۱/ سال تک مسجد اقصیٰ ان کے قبضہ میں رہی۔ پھر سلطان نور الدین زنگی کے فتوحات کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کے جانشین سلطان الناصر صلاح الدین یوسف بن ایوب نے ۵۵۳ھ میں دوبارہ قبضہ کرلیا اور مسجد کی صفائی کروا کر اس کی مرمت کی۔(معجم البلدان،ج: ۵،ص:۱۶۸،خطط الشام، ج:۵،ص:۲۵۳،۲۵۲)

            اس کے بعد مسلمان بادشاہ اس کی مرمت اور تزیین میں حصہ لیتے رہے: ۶۵۵ھ میں ملک معظم نے۔ ۶۶۸ھ میں ظاہر بیبرس نے۔ ۶۸۷ھ میں منصور قلادوں نے۔ ۷۶۹ھ میں ملک اشرق نے۔۷۸۹ھ میں ظاہر برثوق اور ظاہرجقمق العلانی نے۔۸۷۷ھ میں الاشرف ابو النصر نے تجدید کی۔

            خلافتِ عثمانیہ کے خلفاء بھی حصہ لیتے رہے، خاص طور پر سلیمان القانونی نے ۹۴۹ھ میں تجدید کی۔ اس کے بعد عثمانی خلفاء نے اس کی طرف خاص توجہ نہ دی؛ بہرحال پھر بھی۱۲۳۲ھ، ۱۲۵۶ھ، ۱۲۹۱ھ اور اس کے بعد بھی تزیین وآرائش کا کام جاری رہا اور موجودہ تعمیر ترک سلاطین کے دور میں سلطان عبد الحمید(۳۵۸۱ء) اور سلطان عبد العزیز (۱۸۷۴ء) کے دور حکومت کی تعمیر کردہ ہے۔(خطط الشام،ج: ۵،ص:۲۵۲،۲۵۱- القدس دراسةً تاریخیةً) (منقول از مضمون ”مسجد ِاقصیٰ (تعارف اور مختصر تاریخ)“از الشیخ حماد امین چاولہ)

            اس تاریخی حیثیت کو جاننے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ روز ِاول سے مسلمانوں کا ہی سرمایہ رہی ہے اور قیامت تک رہے گی۔ ان شاء اللہ۔

مسجد اقصی اور القدس کی اسلامی حیثیت:

            مسجد اقصیٰ کی فضیلت:مسجد اِقصیٰ کے درج ذیل فضائل قرآن وسنت میں بیان ہوئے ہیں:

۱) مسجد اقصیٰ بابرکت زمین میں ہے:

            قرآن میں چارمقامات پر سرزمین ِشام کو بابرکت زمین کہا گیا ہے۔ نزول قرآن کے وقت ملک شام‘ موجودہ شام سے بہت وسیع تھا۔موجودہ فلسطین بھی اس کا ایک حصہ تھا۔ مسجد اقصیٰ شام کی اسی بابرکت سرزمین میں واقع ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

            ﴿وأورثناالقوم الذین کانوا یستضعفون مشارق الأرض و مغاربھا التی بارکنا فیھا ﴾

(الأعراف)

            ”اور ہم نے اس قوم کو کہ جس کوکمزور بنایا گیا تھا‘ اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنایا کہ جس سرزمین میں ہم نے برکت رکھ دی ہے۔“

            اس آیت ِمبارکہ میں حضرت سلیمان کے دور میں موجود بنی اسرائیل کی اس عظیم سلطنت کی طرف اشارہ ہے ،جو کہ اس زمانے کے شام اور اس کے گردو نواح پر مشتمل تھی۔

اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:

            ﴿وَ نَجَّیْنٰہُ وَ لُوْطًا اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْھَا لِلْعَالَمِیْنَ﴾ (الأنبیاء:۷۱)

            ”اور ہم اس کو (یعنی حضرت ابراہیم) اور حضرت لوط علیہما السلام کو نجات دی، ایک ایسی سرزمین کی طرف کہ جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لیے برکت رکھ دی ہے۔“

            اس آیت ِمبارکہ کے الفاظ ”العالمین“ سے واضح ہوتا ہے کہ سرزمین ِفلسطین و شام کی برکات کسی خاص جماعت، قوم یامذہب کے ماننے والوں کے لیے نہیں ہیں؛ جیسا کہ یہودیوں کا یہ خیال ہے کہ اس سرزمین کی برکات ان کے لیے مخصوص ہیں؛ بل کہ اس سرزمین کی برکت تمام اقوام مذاہب اور جماعتوں کے لیے ہیں۔

            اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:

            ﴿وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَةً تَجْرِیْ بِأَمْرِہ اِلَی الْأَرْضِ الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْھَا﴾ (الأنبیاء:۸۱)

            ”اور حضرت سلیمان کے لیے ہم نے تیز و تند ہوا کومسخر کر دیا تھا، جوان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی کہ جس میں ہم نے برکت رکھ دی ہے۔“

اسی طرح ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:

            ﴿وَجَعَلْنَا بَیْنَھُمْ وَ بَیْنَ الْقُرَی الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْھَا قُرًی ظَاہِرَةً ﴾(سبا:۱۸)

            ”اور ہم نے ان (یعنی قوم سبا)کے درمیان اور ان بستیوں کے درمیان کہ جن میں ہم نے برکت رکھ دی ہے، کچھ نمایاں بستیاں بنائی تھیں۔“

            اس آیت مبارکہ کے الفاظ ”القری“ سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ برکت صرف فلسطین کی بستی میں نہیں رکھی گئی ،بل کہ ان تمام بستیوں میں رکھی گئی ہے جو کہ سرزمین شام پر واقع ہیں۔

۲) مسجد أقصیٰ کے ارد گرد کی سرزمین بھی بابرکت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

            ﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِہ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہ ﴾(الاسراء:۱)

            ”پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو ایک رات میں مسجدِحرام سے مسجد اقصی تک کہ جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھ دی ہے۔“

            اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد اقصی کے ساتھ ساتھ ،اس کے ارد گرد کی سرزمین یعنی فلسطین و شام کا علاقہ بھی بابرکت ہے۔

۳) مسجد أقصیٰ ارض مقدسہ میں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

            ﴿یَا قَوْمِ ادْخُلُوْا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ﴾ (المائدہ:۲۱)

            ”اے میری قوم کے لوگو!داخل ہو جاؤاس مقدس سرزمین میں کہ جس کواللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔“

            قتادہ کے نزدیک ارض مقدسہ سے مراد’ ’شام“ ہے،جب کہ مجاہد اور ابن عباس کے ایک قول کے مطابق’ ’کوہِ طور اور اس کے ارد گرد کا علاقہ“مراد ہے۔

            اسی طرح سدی اور ابن عباس کے دوسرے قول کے مطابق اس سے مراد’ ’أریحا“ ہے۔زجاج نے کہا اس سے مراد”دمشق اور فلسطین“ ہے۔بعض مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ اس سے مراد’ ’اردن کا علاقہ“ ہے۔امام قرطبی اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں ان تمام اقوال کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ قتادہ کا قول سب کو شامل ہے۔ امام قرطبی کے اس قول سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شام میں فلسطین،دمشق اور اردن کا علاقہ بھی شامل تھااسی طرح کوہ طور اور اس کے ارد گرد کا علاقہ حتی کہ أریحا کا شہر بھی شام کی بابرکت سرزمین کی حدود میں تھا۔

(منقول از مقالہ مسجد أقصیٰ کی تولیت۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ایک تاریخی و تحقیقی جائزہ حافظ محمد زبیر)

یہودیوں کا قبلہ کہاں؟

             تمام انبیا،بشمول انبیائے بنی اسرائیل،کا قبلہ بیت اللہ تھا۔ اس لیے یہودیوں کا قبلہ بھی، ازروئے دین ِاسلام، شروع سے ہی،بیت اللہ ہے۔ تمام انبیا بیت اللہ کی طرف ہی رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے اور اسی کا حج کرتے تھے۔ یہودیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ”ہیکلِ سلیمانی“ان کا قبلہ ہے۔یہ ایک ایسا دعویٰ ہے کہ جس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ایک ہی وقت میں دو متوازی قبلوں کاوجود خود مقصد قبلہ کے خلاف ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب بیت اللہ کی تعمیر مکمل کر لی، تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حج کی آواز لگائی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

            ﴿وَأَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّأْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجِّ عَمِیْقٍ﴾

(الحج:۷۲)

            ”اور (اے ابراہیم) لوگوں میں حج کا اعلان عام کر۔ وہ تیرے پاس آئیں گے پیدل اوردبلے اونٹوں پراور ہر دور کے راستے سے آئیں گے۔“(ایضا)

            تاریخی اور تحقیقی واقعاتی ہر لحاظ سے مسجد ِاقصی مسلمانوں کا حق ہے۔آیے اب مسجد اقصیٰ کی بین الاقوامی حیثیت بھی جانتے چلیں۔

 مسجد اقصی کی بین الاقوامی حیثیت:

            یہودی اور عیسائی مفادات کے لیے قائم کیے گئے ادارے اقوام متحدہ نے بھی۲۰۱۴ ء /میں مسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کے حق کو تسلیم کیا ہے، جس کی ایک سرخی پڑھیں!

             یونیسکو کی اہم قرار داد منظور۔ دیوار گریہ اور مسجد اقصی پر مسلمانوں کا حق، یہودیوں کا دعویٰ باطل قرار۔

            اقوام متحدہ کے ادارہ برائے سائنس وثقافت یونیسکو نے ایک اہم قرارداد پر رائے شماری کے بعد مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصی اور دیوار گریہ پر یہودیوں کا مذہبی رسومات کی ادائی کے حق کا دعویٰ باطل قرار دیا ہے، جس پر صہیونی حکومت کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔یونیسکو کی ویب سائٹ پرموجود قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ مسجد اقصی اور دیوار براق صرف مسلمانوں کی ملکیت ہیں، جن پر یہودیوں کا کوئی حق نہیں۔

            بندے کا ارادہ تھا کہ مختصر ایک مضمون لکھ دوں،جو فلسطین کے بارے میں امت مسلمہ کو آگاہ کیاجائے اور اس کی آزادی کی راہ ہموار کی جائے، مگر جب لکھنے لگے تو اندازہ ہوا کہ کتنی بھی کوشش کریں مسئلہ کی سنگینی کے پیش نظر اس کا اختصال بھی طویل ہے۔

            اب تک ارض قدس کی تاریخی اسلامی اور بین الاقوامی حیثیتوں کی وضاحت کی گئی۔ اب القدس المبارک کی بازیافت کے بارے میں ہمیں کیا کرنا چاہیے اس پر گفتگو کی جائے گی ان شاء اللہ۔

 القدس و الاقصیٰ کی بازیافت کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟

            ہم مسلمان ہیں مسلمان کے لیے روحانیت ظاہریت سے زیادہ اہم ہے؛ لہذا پہلے اسی پر روشنی ڈالی جائے تو بہتر ہوگا۔

             القدس کی بازیافت کی روحانی تدبیر۔ مغربی فلسفے سے متاثر ہو کر مسلمان ظاہریت پرستی میں مبتلا ہے اور روحانیت کو بالکل فراموش کرچکا ہے؛ جب کہ مؤمن کی اصل شان ہی روحانیت پریقین اور روحانی اسباب کو اختیار کرنا ہے ۔تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں! دسیوں مثالیں ایسی ملیں گی کہ اہل حق اپنی قلت کے باوجود باطل پر اس کے طاقتور اور بھر پورا سباب سے لیس ہونے کے باوجود غالب آئے اور فاتح و بامرادرہے۔ یہ سنت اللہ ہے۔”و لن تجد لسنة اللہ تبدیلا“۔ آپ اللہ کے قانون میں کسی قسم کا ہیر پھیر نہیں پاؤ گے۔

            ہمارے لیے قضیہٴ فلسطین کا حل آسان ہے، اس لیے کہ ہم سے قبل قبلہٴ اول مسلمانوں کے ہاتھوں سے چلاگیا تھا، مگر اللہ کے فضل سے صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے اسے دوبارہ حاصل کیا تھا؛ لہذا یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ان کے دور میں کیسے، اس کی بازیافت ہوئی تھی۔ ہمیں بھی اسی طریقے کو اختیار کرنا ہے!

             ھکذا ظہر جیل صلاح الدین و ھکذا عادت القدس کے مصنف” الدکتور ماجد عرسان الکیلانی“ نے بہت عمدہ پیرائے میں، اس مسئلہ کو حل کرکے بتایا ہے ۔موصوف چوں کہ فلسفہٴ تربیت میں متخصص تھے اور آپ کو ”جائزة الفارابی“ سے سرفراز کیاگیا تھا۔ اور کمیٹی نے لکھا تھا کہ پچھلے ۸۰۰/ سال میں کسی نے امت کے فکری ،تعلیمی اور تربیتی مسائل پر ایسا نہیں لکھا؛ جیسا موصوف نے اپنی تالیف ”فلسفة التربیة الإسلامیة، دراسة مقارنة بین فلسفة التربیة الإسلامیة والفلسفات التربویة المعاصرة“ نامی کتاب میں لکھا ہے ۔بہرحال اس کا خلاصہ کیا ہے؟جمال الکیلانی فرماتے ہیں کہ

            ”فقہ سنن التغییروالتربیة“ إحدی أدوات الدکتور ماجد عرسان الکیلانی، علی البحث عن عوامل الانتقال السریع من الانحطاط إلی النہضة، وکیفیة خروج أمة فی لحظة معینة من أزمة شاملة، معتمداً علی التاریخ الإسلامی بالخصوص، یصل ماجد الکیلانی إلی نتیجة مفادہا ”ضرورة تزاوج عنصرین: الإخلاص فی الإرادة والصواب فی التفکیر العملی“ مبرزاً أن غیاب أحدہما عن الآخر ہو سبب تواصل التخبط فی الأزمة.

            فقہ سنن التغییر و التربیة، یہ موصوف کا سب سے عظیم کارنامہ ہے، جس میں موصوف نے یہ واضح کیا ہے کہ مسلمان معاشرے میں ،اگر تیز رفتار تبدیلی مطلوب ہو اور اسے پستی و تنزلی سے باہر آنا ہو تو، اس کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ مسلمان معاشرہ اخلاصِ نیت کے ساتھ علمی میدان میں کود پڑے؛ لہذا اگر ان دونوں میں سے کسی ایک کا فقدان امت ِمسلمہ کو کسی قسم کے بحران سے باہر نہیں لاسکتا ۔ یعنی

             ۱-اخلاص۔ ۲- سوچ سمجھ کر حکمت کے ساتھ عملی میدان میں جد وجھد۔

            آپ نے مکمل فلسفہ اور راستہ بھی بتایا کہ صلاح الدین ایوبی چمتکار سے ظاہر نہیں ہوئے کہ بس جادوئی چھڑی لی اور بیت المقدس فتح کرلیا ؛بل کہ سو سالہ اصلاحی مساعی ٴجمیلہ کے نتیجے کا نام صلاح الدین ایوبی  ہے۔

            نظام الملک الطوسی کا اس میں اہم رول رہا، جنہوں نے تعلیمی نظام کی اصلاح کی ،جس کے نتیجہ میں امام غزالی جیسے مجدد تیار ہوئے اور انہوں نے اصلاح کا تیر بہدف قرآنی نسخہ الہامی طور پر تجویز کیا، جس کو قرآن نے ﴿ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُوْلاً مِّنْ أَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ آیَاتِہ وَیُزَکِّیْہِمْ﴾میں بیان کیا ہے ۔

            یعنی تعلیم اور تزکیہٴ نفس یہ کسی بھی معاشرہ کی اصلاح کازود اثر نسخہ ہے۔ آج بھی اسی کی ضرورت ہے۔

            یہ تیسری قسط ہے جیسا کہ آپ نے جانا کہ فلسطین قدس الشریف اور قبلہ اول مسجد اقصی تاریخی موروثی قانونی ہر اعتبار سے مسلمانوں کا تھا، ہے اور رہے گا ان شائاللہ۔

             فلسطین قدس الشریف اور قبلہ اول مسجد اقصی کے حصول کاحل کیا اور کیسے؟ تو اس کے دو طریقے ہیں: ایک فوری ،قصیر المیعاد یعنی شورٹ ٹرم اور دوسرا طویل المیعاد لونگ ٹرم۔

             فوری طور پر جو کام کرنے ہیں، وہ یہ کہ مسلمان حکمران اور عوام اسرائیلی جارحیت کو رکوانے کی ہر ممکن کوشش کرے، جس سے جس طرح ہوسکے۔ عوام احتجاج کرکے پریشر بنائے،حکمران امریکہ ساہوکار اور یورپی یونین پر جو اسرائیل کی کھلی پشت پناہی کررہے ہیں، ان پر دباؤ ڈال کر، ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے، ان سے تعلقات منقطع کرکے، ڈپلومیٹک پریشر بناکر اور پھر بھی نہ مانے تو انسانی و اسلامی فریضہ یہ ہے کہ اپنی فوجیں اتاردے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دے۔

            طویل المیعاد حل کی بات چل رہی تھی، تو اس کے لیے امت ِمسلمہ ہر طبقے میں سب سے پہلے دینی بیداری پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہو۔ نظام الملک الطوسی رحمہ اللہ جیسا کوئی صالح اور با اثر سیاسی لیڈر تیار کرے اور علمائے دین ِمتین ،اخلاص کے ساتھ متحد ہو کر تعلیم و تزکیہ کے ذریعے پورے مسلم معاشرے کو اعتقادی، فکری، اخلاقی، عملی، روحانی اعتبار سے اسلام سے وابستہ کرنے کا پروگرام بنائیں۔جس کا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ نظامِ تعلیم کو مکمل طور پر اسلامی خطوط پر استوار کیا جائے، جو کتاب اللہ اور سنت ِرسول اللہ اور سلف صالحین کی تعلیمات سے مستفاد ہو۔

            نسل نو کی تربیت ِایمانی کے تقاضوں کو پورا کرنے والے الحاد، زندقہ، مادیت، دنیا پرستی اور آخرت بے زار مصلحت کے نام پر مداہنت اور غیروں کی مشابہت سے پاک اور صاف ہوں۔خالص عقیدہ ٴتوحید پر مبنی قیادت و سیادت کرنے والے علماء ہوں، جو خلوص و للہیت، ہمت و جرأت، فکر و درد امت، رسوخ فی العلم، جذبہٴ ایمانی، حکمت و دانائی، جیسے صفات سے متصف ہوں۔

 امت مسلمہ کے عروج کے لیے مندرجہ ذیل اوصاف کی حامل علماء کی جماعت ضروری ہے:

            1-اپنے ارادے میں مخلص۔

            2-صائب الفکر، صحیح العقیدہ، فقہی بصیرت سے مالا مال ۔

             3-جرأتِ مستانہ اور کردارِ قلندرانہ کے حامل۔

            4-تزکیہٴ نفس، روحانی اور باطنی اعتبار سے مضبوط ۔

            5-اسلامی تعلیمات سے مکمل وابستہ ، غیر اسلامی نظریات،افکار، خیالات، اعتقادات، عادات و اطوار سے غیر مرعوب۔

            6- طبیعت میں تساہل یا غلوسے پاک۔

            7- امت کا درد اور اس کے لیے ہر قسم کی قربانی کے لیے پیش پیش ۔

            8-اللہ پر مکمل اعتماد کی حامل، ناامیدی، بزدلی، کاہلی، غفلت،بے زاری سے کوسو ں دور ۔

            9- دعاء کا اہتمام کرنے والی اللہ کے سامنے رو رو کر مانگنے کی عادی۔

            10-قائدانہ و مدبرانہ صلاحیت کی حامل اور فطری ذہانت کی مالک ۔

            11- اعلاء کلمة اللہ کے لیے جذبہ جہاد سے سرشار ۔

            12- زندگی کا مقصد رضاالہی کا حصول ہو۔ نام ونمود،شہرت و منصب، ریاکاری، جیسے مہلک باطنی امراض سے پاک صاف ہو۔

            13- عشق إلہی اور اتباع سنت ہمیشہ ان کے پیش نظر رہے۔

            اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے عظیم صفات کا جمع ہونا اس دور فتن میں کس طرح ممکن ہوسکتا ہے؟

            تو یاد رہے! کہ اللہ نے قیامت تک دین ِاسلام کے باقی رہنے کا فیصلہ کیا ہے، ساتھ ہی شریعت ِمحمدیہ کی حفاظت اللہ خود کریں گے، اس کا وعدہ بھی صریح الفاظ میں کیا ہے۔”انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون“ ہم ہی نے ذکر حکیم کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ اور نگہبان ہیں۔

 صفات مذکورہ کو اپنے اندر کیسے پیدا کیا جائے؟

            ۱… اس کے لیے قرآنِ کریم کو تفکر و تدبر کے ساتھ پڑھنیکی عادت ڈالیں۔

            ۲… حضرات ِانبیائے کرام علیہم اجمعین،حضراتِ صحابہ، کامیاب مسلمان قائدین اور علماء کی سیرتیں زیر مطالعہ رکھیں۔

            ۳ … ہر کام میں انابت الی اللہ کو ملحوظ رکھیں۔

            ۴…صالحین کی صحبت میں وقت گزاریں۔

            ۵…صبح و شام کے اذکار کوکبھی نہ چھوڑیں۔

            ۶… سلف ِصالحین میں جو کامیاب شخصیتیں گزری ہیں، ان کے احوال کو گہرائی کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کریں،خاص طور پر صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کے دور میں بیت المقدس دوبارہ فتح ہوا، اس دور کی شخصیات مثلا امام الحرمین الجوینی، امام ابو حامد الغزالی، عبد القادر الکیلانی، عدی بن مسافر، رسلان الجعبری، عثمان بن مرزوق القرشی، نظام الدین الطوسی اور سلاجقہ کے دور عروج کی تاریخ وغیرہ۔

            ۷… فکر انگیز کتابوں کا مطالعہ کریں مثلا:

             ”ہکذا ظہر جیل صلاح الدین و ہکذا عادت القدس“

            ” ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین“

            ”الصراع بین الفکرة الإسلامیة و الفکرة الغربیة “

            ”الرسالة الحمیدیة “

            ”اصلاح انقلابِ امت“۔وغیرہ